مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏تم سب بھائی ہو“‏

‏”‏تم سب بھائی ہو“‏

‏”‏تم سب بھائی ہو“‏

‏”‏مگر تم ربّی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا اُستاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۸‏۔‏

۱.‏ کونسا معاملہ ہماری توجہ کا مستحق ہے؟‏

‏”‏کون زیادہ عزت کا مستحق ہے،‏ ایک مشنری یا ایک بیت‌ایل میں کام کرنے والا؟‏“‏ یہ سوال کسی مشرقی مُلک کی ایک مسیحی خاتون نے بڑی معصومیت سے آسڑیلیا کی ایک مشنری بہن سے پوچھا تھا۔‏ وہ جاننا چاہتی تھی کہ کسی دوسرے مُلک سے آنے والے مشنری یا واچ ٹاور سوسائٹی کے برانچ دفتر میں خدمت انجام دینے والے مقامی خادم میں سے کس کی زیادہ عزت کی جانی چاہئے۔‏ طبقاتی شعور کی حامل ثقافت کی عکاسی کرنے والے اس سادہ سوال کو سن کر مشنری بہن بہت حیران ہوئی۔‏ تاہم،‏ برتری کا مسئلہ دیگر لوگوں کے اختیار اور اثرورُسوخ کو جاننے کی خواہش سے جنم لیتا ہے۔‏

۲.‏ ہمیں اپنے ساتھی پرستاروں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۲ ایسی سوچ کسی بھی لحاظ سے نئی نہیں ہے۔‏ یسوع کے شاگردوں میں بھی اس موضوع پر مسلسل تکرار ہوتی رہتی تھی کہ اُن میں بڑا کون ہے۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۰-‏۲۴؛‏ مرقس ۹:‏۳۳-‏۳۷؛‏ لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۷‏)‏ اُنکا تعلق بھی طبقاتی شعور رکھنے والے پہلی صدی کے یہودی معاشرے سے تھا۔‏ ایسے معاشرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کی:‏ ”‏تم ربّی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا اُستاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۸‏)‏ بائبل عالم البرٹ بارنز نے بیان کِیا کہ ”‏جن لوگوں کو ’‏ربّی‘‏ بمعنی ’‏اُستاد‘‏ کا لقب ملتا ہے اُن میں یہ تکبّر اور احساسِ‌برتری پیدا کرتا ہے جبکہ اس سے محروم اشخاص حسد اور احساسِ‌کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‏ اسکا مفہوم اور مقصد ’‏مسیحی سادگی‘‏ کے بالکل برعکس ہے۔‏“‏ واقعی،‏ مسیحی اپنے نگہبانوں کیلئے لفظ ”‏بزرگ“‏ کیساتھ مزید خوشامدی خطاب لگانے سے گریز کرتے ہیں۔‏ (‏ایوب ۳۲:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ مسیح کی نصیحت پر عمل کرنے والے بزرگ خود بھی کلیسیا کے ارکان کی بالکل اُسی طرح عزت کرتے ہیں جیسے یہوواہ وفادار پرستاروں کی اور یسوع مسیح وفادار پیروکاروں کی عزت کرتا ہے۔‏

یہوواہ اور یسوع کا نمونہ

۳.‏ یہوواہ نے اپنی روحانی مخلوقات کیلئے کیسے عزت دکھائی؟‏

۳ یہوواہ نے ”‏بلندوبالا“‏ ہونے کے باوجود روزِازل سے اپنی مخلوقات کو اپنے کاموں میں شامل کرنے سے اُن کیلئے عزت دکھائی ہے۔‏ (‏زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ جب اس نے پہلے انسان کو خلق کِیا تو یہوواہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر اس کام میں شامل کِیا۔‏ (‏امثال ۸:‏۲۷-‏۳۰؛‏ پیدایش ۱:‏۲۶‏)‏ جب یہوواہ نے بدکار بادشاہ اخی‌اب کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس نے اپنے آسمانی فرشتگان کو بھی اس سلسلے میں اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دیا کہ یہ کام کیسے کِیا جائے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۲۲:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ یہوواہ اپنی انسانی مخلوقات کیلئے کیسے عزت دکھاتا ہے؟‏

۴ یہوواہ کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کے طور پر حکمرانی کرتا ہے۔‏ (‏استثنا ۳:‏۲۴‏)‏ اسے انسانوں سے صلاح‌مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‏ پھربھی،‏ وہ اُن پر گویا جھک کر نظر کرتا ہے۔‏ ایک زبورنویس نے اپنے گیت میں یوں بیان کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ ہمارے خدا کی مانند کون ہے جو عالمِ‌بالا پر تخت‌نشین ہے جو فروتنی سے آسمان‌وزمین پر نظر کرتا ہے؟‏ وہ مسکین کو خاک سے .‏ .‏ .‏ اُٹھا لیتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۳:‏۵-‏۸‏۔‏

۵ سدوم اور عمورہ کو نیست کرنے سے پہلے،‏ یہوواہ نے ابرہام کا استفسار سنا اور اُسے انصاف کا یقین دلایا۔‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۲۳-‏۳۳‏)‏ اگرچہ یہوواہ ابرہام کی درخواست کے نتیجے کو پہلے ہی سے جانتا تھا توبھی اس نے صبر سے ابرہام کی بات سنی اور اسکے استدلال کو قبول کِیا۔‏

۶.‏ یہوواہ نے حبقوق کے استفسار کیلئے جو عزت دکھائی اُسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۶ یہوواہ نے حبقوق کی بات بھی سنی جس نے کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مَیں کب تک نالہ کرونگا اور تُو نہ سنیگا؟‏“‏ کیا یہوواہ نے اس سوال کو اپنے اختیار کیلئے چیلنج خیال کِیا تھا؟‏ ہرگز نہیں،‏ اس نے حبقوق کے استفسار کو جائز خیال کِیا اور اُس پر اپنا مقصد آشکارا کِیا کہ وہ عدالت کرنے کیلئے کسدیوں کو چڑھا لائیگا۔‏ اس نے نبی کو یقین دلایا کہ ’‏یہ بیان‌کردہ عدالت ٹل نہیں سکتی۔‏‘‏ (‏حبقوق ۱:‏۱،‏ ۲،‏ ۵،‏ ۶،‏ ۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۲:‏۲،‏ ۳‏)‏ یہوواہ نے حبقوق کے تفکرات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اُسے جواب دیکر اپنے نبی کے لئے عزت دکھائی۔‏ نتیجتاً،‏ پریشان‌حال نبی اپنے نجات‌بخش خدا پر پورے بھروسے کے ساتھ خوشی کے مارے کھل اُٹھا۔‏ یہ بات حبقوق کی مُلہَم کتاب میں عیاں ہے جو آجکل یہوواہ پر ہمارے بھروسے کو مضبوط کرتی ہے۔‏—‏حبقوق ۳:‏۱۸،‏ ۱۹‏۔‏

۷.‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ پر پطرس کا کردار کیوں اہمیت کا حامل ہے؟‏

۷ یسوع مسیح بھی دوسروں کی عزت کرنے کے سلسلے میں ایک عمدہ نمونہ قائم کرتا ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ ”‏جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کریگا مَیں بھی اپنے باپ کے سامنے .‏ .‏ .‏ اسکا انکار کرونگا۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۳۲،‏ ۳۳‏)‏ تاہم،‏ اپنے پکڑوائے جانے کی رات اس کے تمام شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے اور پطرس رسول نے تو تین مرتبہ اس کا انکار بھی کِیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۳۴،‏ ۳۵،‏ ۶۹-‏۷۵‏)‏ یسوع نے ظاہری صورتحال کی بجائے پطرس کے باطنی احساسات یعنی اسکی دلی توبہ پر نظر کی۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۶۱،‏ ۶۲‏)‏ صرف ۵۱ دن بعد،‏ مسیح نے اس تائب رسول کو پنتِکُست کے دن ۱۲۰ شاگردوں کی نمائندگی کرنے اور ”‏بادشاہی کی کُنجیوں“‏ میں سے پہلی استعمال کرنے کی اجازت دینے سے اُسکی عزت کی۔‏ (‏متی ۱۶:‏۱۹؛‏ اعمال ۲:‏۱۴-‏۴۰‏)‏ پطرس کو ’‏رجوع کرنے اور اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنے‘‏ کا موقع دیا گیا۔‏—‏لوقا ۲۲:‏۳۱-‏۳۳‏۔‏

خاندانی افراد کی عزت کرنا

۸،‏ ۹.‏ اپنی بیوی کی عزت کرنے کے سلسلے میں،‏ ایک شوہر یہوواہ اور یسوع کی نقل کیسے کر سکتا ہے؟‏

۸ شوہر اور والدین خداداد اختیار کو استعمال کرنے کے سلسلے میں یہوواہ اور یسوع مسیح کی نقل کرنے سے خاندانی خوشی کو فروغ دے سکتے ہیں۔‏ پطرس نے فہمائش کی:‏ ”‏اَے شوہرو!‏ تم بھی بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُس کی عزت کرو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۷‏)‏ چینی کے ایک برتن کو اُٹھانے کا ذرا تصور کریں جو لکڑی کے برتن سے کہیں زیادہ نازک ہوتا ہے۔‏ کیا آپ اسے اُٹھانے میں زیادہ احتیاط نہیں برتیں گے؟‏ ایک شوہر خاندانی معاملات کا فیصلہ کرتے وقت اپنی بیوی کی آراء سننے سے یہوواہ کی نقل کر سکتا ہے۔‏ یاد کریں کہ یہوواہ ابرہام کے ساتھ کافی دیر تک استدلال کرتا رہا۔‏ ناکاملیت کی وجہ سے ایک شوہر تمام معاملات کو پوری طرح سمجھنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔‏ پس کیا اپنی بیوی کی آراء پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اُسے عزت دینا ایک شوہر کے لئے دانشمندانہ بات نہ ہوگی؟‏

۹ جن ممالک میں مردوں کا راج ہے وہاں ایک شوہر کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کی بیوی کو اپنے باطنی احساسات کا اظہار کرنے کیلئے ناگزیر رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑ سکتا ہے۔‏ اس سلسلے میں،‏ اپنی زمینی زندگی کے دوران اپنے شاگردوں یعنی اپنی مستقبل کی دلہن جماعت کے حصے کیساتھ یسوع مسیح کے برتاؤ کی نقل کریں۔‏ وہ اُن سے اتنا پیار کرتا تھا کہ اُنکے کہنے سے پہلے ہی اُنکی جسمانی اور روحانی ضروریات کو سمجھ لیتا تھا۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۱؛‏ یوحنا ۱۶:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ افسیوں ۵:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپکی بیوی آپ اور آپ کے خاندان کیلئے کیا خدمات انجام دیتی ہے اور پھر قول‌وفعل سے اس کیلئے قدردانی کا اظہار کریں۔‏ یہوواہ اور یسوع دونوں نے مستحق اشخاص کیلئے قدردانی دکھائی،‏ اُنکی تعریف کی اور اُنہیں برکات سے نوازا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۳:‏۱۰-‏۱۴؛‏ ایوب ۴۲:‏۱۲-‏۱۵؛‏ مرقس ۱۲:‏۴۱-‏۴۴؛‏ یوحنا ۱۲:‏۳-‏۸‏)‏ مشرقی مُلک میں رہنے والی ایک مسیحی خاتون نے اپنے شوہر کے یہوواہ کا گواہ بن جانے کے بعد بیان کِیا:‏ ”‏میرا شوہر مجھے سارا سامان اُٹھانے کیلئے دیکر مجھ سے تین یا چار قدم آگے چلا کرتا تھا۔‏ اب وہ سامان خود اُٹھاتا ہے اور میرے گھریلو کام‌کاج کی بڑی قدر کرتا ہے!‏“‏ پُرخلوص قدردانی کا ایک لفظ بھی آپ کی بیوی کو یہ احساس دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کہ اُس کی بہت قدر کی جاتی ہے۔‏—‏امثال ۳۱:‏۲۸‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ والدین باغی اسرائیلی قوم کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں یہوواہ کے عمدہ نمونے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ بچوں کے معاملے میں،‏ بالخصوص اُنہیں تادیب کرتے وقت،‏ والدین کو خدا کے نمونے کی نقل کرنی چاہئے۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ اؔسرائیل اور یہوؔداہ“‏ کو اپنی بُری روش سے باز آنے کیلئے ”‏آگاہ کرتا رہا“‏ لیکن ”‏اُنہوں نے .‏ .‏ .‏ گردن‌کشی کی۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۷:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ اسرائیلیوں نے ”‏اپنے مُنہ سے اُسکی خوشامد کی اور اپنی زبان سے اُس سے جھوٹ بولا۔‏“‏ بیشتر والدین محسوس کرتے ہیں کہ انکے بچے بھی بعض‌اوقات ایسا کرتے ہیں۔‏ اسرائیلیوں نے ”‏خدا کو آزمایا“‏ اور اُسے آزردہ اور ناراض کِیا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ ”‏رحیم ہو کر بدکاری معاف کرتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۷۸:‏۳۶-‏۴۱‏۔‏

۱۱ یہوواہ نے اسرائیلیوں سے التماس کِیا:‏ ”‏آؤ ہم باہم حجت کریں۔‏ اگرچہ تمہارے گُناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائینگے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱:‏۱۸‏)‏ اگرچہ یہوواہ کی کوئی خطا نہیں تھی توبھی اُس نے باغی قوم کو باہم حجت کرنے کی دعوت دی۔‏ کیا ہی شاندار رویہ جسکی والدین کو اپنے بچوں کیساتھ پیش آتے وقت نقل کرنے کی ضرورت ہے!‏ جب حالات کا تقاضا ہو تو انکی بات سننے سے ان کیلئے عزت دکھائیں اور باہمی استدلال کیساتھ اُنہیں سمجھائیں کہ انہیں اپنے اندر کیوں تبدیلی لانی چاہئے۔‏

۱۲.‏ (‏ا)‏ہمیں یہوواہ سے زیادہ اپنے بچوں کی عزت کرنے سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ بچوں کو تنبیہ کرتے وقت اُن کے وقار کا پاس‌ولحاظ رکھنے کیلئے کیا تقاضا کِیا جاتا ہے؟‏

۱۲ بیشک،‏ بعض‌اوقات بچوں کو سخت تنبیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ والدین کو عیلی کی مانند نہیں بننا چاہئے جس نے ’‏یہوواہ سے زیادہ اپنے بیٹوں کی عزت کی۔‏‘‏ (‏۱-‏سموئیل ۲:‏۲۹‏)‏ تاہم،‏ نوجوانوں کو اصلاح کے پیچھے پُرمحبت محرک دیکھنے کی ضرورت ہے۔‏ انہیں یہ سمجھنے کے لائق ہونا چاہئے کہ انکے والدین ان سے پیار کرتے ہیں۔‏ پولس والدوں کو فہمائش کرتا ہے:‏ ”‏تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر انکی پرورش کرو۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ اگرچہ یہاں ایک باپ کے اختیار کو تسلیم کِیا گیا ہے توبھی اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اُسے حد سے زیادہ سختی کے باعث بچوں کو غصہ نہ دلاتے ہوئے ان کیلئے عزت دکھانے کی ضرورت ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ بچوں کے وقار کا پاس‌ولحاظ والدین سے وقت اور کوشش کا تقاضا کرتا ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والا فائدہ تمام قربانیوں سے بڑھکر ہے۔‏

۱۳.‏ خاندان کے عمررسیدہ افراد کی بابت بائبل کا نظریہ کیا ہے؟‏

۱۳ خاندانی افراد کیلئے عزت دکھانا محض اپنے بیوی اور بچوں کے وقار کا لحاظ رکھنے سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے۔‏ ایک جاپانی کہاوت ہے:‏ ”‏بڑھاپے میں اپنے بچوں کی بات مانیں۔‏“‏ اس کہاوت کا نکتہ یہ ہے کہ عمررسیدہ والدین کو اپنے اختیار سے تجاوز کرنے کی بجائے اپنے بالغ بچوں کی بات پر دھیان دینا چاہئے۔‏ اگرچہ اپنے بچوں کی بات سننے سے اُن کیلئے عزت دکھانا والدین کی صحیفائی ذمہ‌داری ہے توبھی بچوں کو اپنے خاندان کے عمررسیدہ افراد کے ساتھ کبھی بھی گستاخی سے پیش نہیں آنا چاہئے۔‏ ”‏اپنی ماں کو اُسکے بڑھاپے میں حقیر نہ جان،‏“‏ امثال ۲۳:‏۲۲ کہتی ہے۔‏ بادشاہ سلیمان نے اس مثل کی مطابقت میں زندگی بسر کی اسلئے جب اُس کی ماں اُس کے پاس التجا لیکر آئی تو اُس نے اُس کیلئے بڑی عزت دکھائی۔‏ سلیمان نے اپنی عمررسیدہ ماں بت‌سبع کیلئے اپنے دہنے ہاتھ تخت لگوایا اور دھیان سے اُسکی بات سنی۔‏—‏۱-‏سلاطین ۲:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۱۴.‏ ہم کلیسیا کے عمررسیدہ افراد کی عزت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ اپنے وسیع روحانی خاندان میں،‏ ہم کلیسیا کے عمررسیدہ افراد کی عزت کرنے میں پہل کر سکتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏)‏ وہ پہلے جتنا کام نہ کر پانے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱-‏۷‏)‏ شدید بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ایک عمررسیدہ ممسوح گواہ نے ایک مرتبہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں مر جانا چاہتی ہوں تاکہ آسمان میں دوبارہ کام شروع کر سکوں۔‏“‏ ایسے عمررسیدہ اشخاص کیلئے واجب قدرافزائی اور عزت دکھانا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا تھا:‏ ”‏جنکے سر کے بال سفید ہیں تُو اُنکے سامنے اُٹھ کھڑے ہونا اور بڑے بوڑھے کا ادب کرنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۳۲‏)‏ عمررسیدہ اشخاص کیلئے پاس‌ولحاظ دکھاتے ہوئے اُنہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ وہ آپکی زندگی کا ایک ضروری اور قابلِ‌قدر حصہ ہیں۔‏ ’‏اُٹھ کھڑے ہونا،‏‘‏ مؤدب انداز میں بیٹھ کر اُنکی کامرانیوں کی بابت گفتگو کو سننے کا خیال پیش کرتا ہے جو اُنہوں نے کئی سال پہلے حاصل کی تھیں۔‏ اس سے نہ صرف عمررسیدہ شخص کی عزت ہوگی بلکہ ہماری اپنی روحانی زندگی بھی تقویت پائیگی۔‏

عزت دکھانے میں پہل کریں

۱۵.‏ بزرگ کلیسیا کے افراد کی عزت کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ جب بزرگ کلیسیا کے لئے عمدہ نمونہ قائم کرتے ہیں تو کلیسیا روزافزوں ترقی کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۲،‏ ۳‏)‏ اپنی ازحد مصروفیت کے باوجود،‏ شفیق بزرگ نوجوانوں،‏ خاندانی سربراہوں،‏ تنہا ماؤں،‏ خانہ‌دار بیویوں اور عمررسیدہ اشخاص کے پاس خود چل کر جاتے ہیں تاکہ معلوم کر سکیں کہ اُنہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ تو درپیش نہیں ہے۔‏ بزرگ کلیسیا کے ارکان کی بات سنتے اور اُنکے کام کی تعریف کرتے ہیں۔‏ بہن‌بھائیوں کے کام کی تعریف کرنے والا ایک فہیم بزرگ اپنی زمینی مخلوقات کی قدر کرنے والے یہوواہ کی نقل کرتا ہے۔‏

۱۶.‏ ہمیں بزرگوں اور کلیسیا کے دیگر ارکان کو یکساں عزت کے مستحق کیوں خیال کرنا چاہئے؟‏

۱۶ یہوواہ کی نقل کرنے سے،‏ بزرگ پولس کی اس مشورت کا اطلاق کرنے میں عمدہ نمونہ قائم کرتے ہیں:‏ ”‏برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔‏ عزت کی رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏)‏ طبقاتی شعور کے حامل ممالک میں رہنے والے بزرگوں کیلئے ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مشرقی مُلک میں،‏ ”‏بھائی“‏ کیلئے دو لفظ ہیں،‏ ایک تکریمی لقب کے طور پر اور دوسرا عام مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔‏ حال ہی میں،‏ کلیسیائی افراد نے بزرگوں اور عمررسیدہ اشخاص کیلئے تکریمی لقب اور دیگر کیلئے عام لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔‏ تاہم،‏ انکی ہر وقت عام لفظ ہی استعمال کرنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کی گئی کیونکہ یسوع نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ ”‏تم سب بھائی ہو۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۸‏)‏ ممکن ہے کہ دیگر ممالک میں تو یہ فرق اتنا واضح نہ ہو مگر ہم سب کو طبقاتی امتیازات پیدا کرنے کے انسانی رُجحان سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔‏—‏یعقوب ۲:‏۴‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏بزرگوں کو قابلِ‌رسائی کیوں ہونا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ کلیسیائی افراد کیساتھ برتاؤ میں بزرگ کن طریقوں سے یہوواہ کی نقل کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ یہ بات سچ ہے کہ پولس نے بزرگوں کی ”‏دوچند عزت“‏ کرنے کے لئے ہماری حوصلہ‌افزائی کی لیکن پھربھی وہ بھائی ہی ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱۷‏)‏ اگر ہم حاکمِ‌اعلیٰ کے ”‏فضل کے تخت کے پاس دلیری“‏ سے جا سکتے ہیں توپھر کیا ہمیں یہوواہ کی نقل کرنے والے بزرگوں تک رسائی کرنے میں کوئی عار ہونی چاہئے؟‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۶؛‏ افسیوں ۵:‏۱‏)‏ نگہبانوں کو اپنے قابلِ‌رسائی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئے کہ دیگر اشخاص کتنی مرتبہ ان کے پاس مشورہ لینے یا کوئی تجاویز پیش کرنے آتے ہیں۔‏ یہوواہ اپنے کاموں میں دوسروں کو جس طرح شامل کرتا ہے اس سے سبق سیکھیں۔‏ وہ دوسروں کو ذمہ‌داریاں سونپنے سے اُن کی عزت کرتا ہے۔‏ اگر کسی گواہ کی پیش‌کردہ تجاویز غیرعملی بھی معلوم ہوں توبھی بزرگوں کو اُس کی طرف سے دکھائی گئی فکرمندی کی قدر کرنی چاہئے۔‏ یاد کریں کہ یہوواہ نے ابرہام کے تفتیشی سوالات اور حبقوق کی پریشان‌کُن فریاد کے لئے کیسا جوابی‌عمل دکھایا تھا۔‏

۱۸.‏ مدد کے حاجتمند لوگوں کی اصلاح کرنے میں بزرگ کس طرح یہوواہ کی نقل کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ بعض ساتھی مسیحیوں کو اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱‏)‏ پھربھی،‏ وہ یہوواہ کی نظروں میں قابلِ‌قدر ہیں اسلئے اُن کیساتھ عزت سے پیش آنا چاہئے۔‏ ایک گواہ نے کہا:‏ ”‏جب کوئی مشورہ دینے والا میرے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے تو مَیں بڑے اطمینان سے اُس کیساتھ گفتگو کرتا ہوں۔‏“‏ زیادہ‌تر لوگ عزت‌واحترام کیساتھ پیش کی گئی مشورت کیلئے مثبت جوابی‌عمل دکھاتے ہیں۔‏ اگرچہ اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے مگر غلط قدم اُٹھانے والے اشخاص کی بات سننا ان کیلئے درکار مشورت کو قبول کرنا آسان بنا دیتا ہے۔‏ یہ یاد رکھیں کہ یہوواہ نے اسرائیلیوں کیلئے ترس کی بِنا پر انہیں کیسے باربار سمجھانے کی کوشش کی۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۶:‏۱۵؛‏ ططس ۳:‏۲‏)‏ قدرشناسی اور ہمدردی کیساتھ دی جانے والی مشورت مدد کے حاجتمند اشخاص کے دلوں پر گہرا اثر کریگی۔‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷؛‏ فلپیوں ۲:‏۲،‏ ۳؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۸‏۔‏

۱۹.‏ ہمیں ان لوگوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے جو ہمارے ہم‌ایمان نہیں ہیں؟‏

۱۹ ہم اُن لوگوں کیلئے بھی عزت دکھا سکتے ہیں جو غالباً مستقبل میں ہمارے روحانی بہن بھائی بنیں گے۔‏ ممکن ہے کہ ایسے لوگ ہمارے پیغام کو جلدی سے قبول نہ کریں لیکن پھربھی ہمیں صبر کیساتھ اُنکے انسانی وقار کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ ”‏کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۹‏)‏ کیا ہمیں یہوواہ جیسا نظریہ نہیں رکھنا چاہئے؟‏ اگر ہم ہمیشہ حقِ‌ہمسائیگی کا خیال رکھیں تو ہم عام لوگوں کو گواہی دینے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔‏ بیشک،‏ ہم روحانی خطرات والی صحبت سے گریز کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏)‏ تاہم،‏ جو لوگ ہمارے ہم‌ایمان نہیں ہیں اُنکی تحقیر نہ کرنے سے بھی ہم ”‏مہربانی“‏ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‏—‏اعمال ۲۷:‏۳‏۔‏

۲۰.‏ ہمیں یہوواہ اور یسوع مسیح کے نمونے سے کیا کرنے کی تحریک ملنی چاہئے؟‏

۲۰ جی‌ہاں،‏ یہوواہ اور یسوع مسیح ہم سب کو احترام کے لائق سمجھتے ہیں۔‏ دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ اُنکے نمونے کو یاد رکھیں اور ایک دوسرے کی عزت کرنے میں پہل کریں۔‏ خدا کرے کہ ہم اپنے خداوند یسوع کے ان الفاظ کو کبھی نہ بھولیں:‏ ”‏تم سب بھائی ہو۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۸‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• آپ کو اپنے ساتھی پرستاروں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

‏• یہوواہ اور یسوع کا نمونہ آپ کو دوسروں کی عزت کرنے کیلئے کیسے تحریک دیتا ہے؟‏

‏• شوہر اور والدین کیسے دوسروں کی عزت کر سکتے ہیں؟‏

‏• ساتھی مسیحیوں کو اپنے بھائی خیال کرنا بزرگوں کو کن طریقوں سے عمل کرنے کی تحریک دیتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

تعریفی کلمات کہنے سے اپنی بیوی کیلئے عزت دکھائیں

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

اپنے بچوں کی بات سننے سے ان کی عزت کریں

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

کلیسیا کے افراد کیساتھ احترام سے پیش آئیں