مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

رابنسن کروسو جزیرے پر تحفظِ‌زندگی

رابنسن کروسو جزیرے پر تحفظِ‌زندگی

رابنسن کروسو جزیرے پر تحفظِ‌زندگی

رابنسن کروسو بحرالکاہل کے اُن تین جزائر میں سے ایک ہے جو چلی کے ساحل سے ۶۴۰ کلومیٹر دُور ہوان فرنانڈیز کہلانے والے مجمع‌الجزائر کو تشکیل دیتے ہیں۔‏ * اس ۹۳ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے جزیرے نے یہ نام ۱۸ویں صدی کے مشہور ناول بعنوان رابنسن کروسو سے حاصل کِیا جسے انگریز مصنف ڈینئل ڈیفو نے تحریر کِیا تھا۔‏ یہ ناول بدیہی طور پر سکاٹ لینڈ کے ایک آدمی الیگزینڈر سیلکرک کی مہمات پر مبنی تھا جس نے اس جزیرے پر تقریباً چار سال تنہا گزارے۔‏

جزیرے پر ایک چوبی نشان کچھ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ وہ جگہ ہے جہاں تقریباً چار سال تک ہر روز،‏ سکاٹ لینڈ کا ملاح الیگزینڈر سیلکرک پریشانی کے عالم میں اُفق کو تکتا رہا کہ شاید کہیں سے بچاؤ کشتی نمودار ہو اور اُسے اس تنہائی سے چھٹکارا ملے۔‏“‏ بالآخر،‏ سیلکرک کو صحیح‌سلامت اُسکے وطن،‏ ایک ایسی دُنیا میں پہنچا دیا گیا جہاں اسے پھر وہ آسودگی حاصل نہ ہو سکی جس کا اُس نے اپنے چھوٹے سے فردوس میں تجربہ کِیا تھا۔‏ اس نے بعدازاں بیان کِیا:‏ ”‏اَے میرے محبوب جزیرے!‏ کاش مَیں نے تجھے نہ چھوڑا ہوتا!“‏

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ،‏ یہ جزیرہ ایک تعزیری کالونی کے طور پر استعمال ہونے لگا جہاں کیتھولک چرچ کے ”‏مسلمہ عقائد سے منکر“‏ اشخاص کو سزا کاٹنے کیلئے بھیج دیا جاتا تھا۔‏ یہ اُس جزیرے میں کتنی بڑی تبدیلی تھی جسے سیلکرک نے کبھی ایک فردوس کہا تھا!‏ تاہم،‏ آجکل اس جزیرے کے باشندے ایسے امن‌وسکون سے لطف‌اندوز ہوتے ہیں جسکا دُنیا کے بیشتر خطوں میں تصور بھی نہیں کِیا جا سکتا۔‏ پُرسکون طرزِزندگی بیشتر جزائری ثقافتوں کا خاصہ ہے جسکی بدولت کسی بھی شخص کیساتھ آسانی سے بات‌چیت شروع کی جا سکتی ہے۔‏

سرکاری ذرائع کے مطابق،‏ رابنسن کروسو کی آبادی تقریباً ۵۰۰ ہے لیکن سال کے بیشتر حصے کے دوران صرف ۴۰۰ لوگ ہی اس جزیرے پر رہتے ہیں۔‏ کسی حد تک اسکی وجہ یہ ہے کہ بعض مائیں اور انکے بچے تعلیمی سال کے دوران چلی کے خطے میں رہتے ہیں اور صرف چھٹیوں کے دوران اپنے باقی خاندان کیساتھ وقت گزارنے کیلئے اس جزیرے پر آتے ہیں۔‏

اگرچہ رابنسن کروسو ایک خوبصورت باغ کی طرح سرسبزوشاداب جزیرہ ہے توبھی اس کے بعض لوگ اسے روحانی طور پر بنجر خیال کرتے ہیں اور اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔‏ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے روحانی تحفظ کی ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کِیا ہے۔‏

روحانی تحفظ

یہاں روحانی تحفظ کا کام ۱۹۷۹ میں شروع ہوا۔‏ سانٹیاگو،‏ چلی میں یہوواہ کے گواہوں کیساتھ مطالعہ کرنے والی ایک عورت نقل‌مکانی کرکے اس جزیرے میں آ گئی اور جو باتیں اُس نے خود سیکھی تھیں وہ دوسروں کو بھی سکھانے لگی۔‏ کچھ عرصہ بعد ایک کلیسیائی بزرگ اپنے کسی کام سے اس جزیرے میں آیا اور یہاں بائبل طالبعلموں کا ایک چھوٹا گروپ دیکھ کر حیران رہ گیا جو اس عورت کی مدد سے روحانی ترقی کر رہا تھا۔‏ تین ماہ بعد جب یہ بزرگ دوبارہ اس جزیرے میں آیا تو وہ تنہا بائبل سکھانے والی عورت اور اُسکے دو طالبعلم بپتسمہ پانے کے لئے تیار تھے،‏ پس اس بزرگ نے ان کے بپتسمے کا سارا بندوبست کِیا۔‏ بعدازاں،‏ ان نئے بپتسمہ‌یافتہ مسیحیوں میں سے ایک کی شادی ہو گئی اور اس نے اپنے شوہر کیساتھ ملکر روحانی تحفظ کے ضرورتمند اشخاص کی تلاش جاری رکھی۔‏ اس کے شوہر کی پیشوائی میں ایک سادہ سا کنگڈم‌ہال تعمیر کِیا گیا جو اس جزیرے پر چھوٹے سے گروپ کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔‏ پھر ایک ایسا بھی وقت آیا کہ وہ معاشی مشکلات کی بنا پر،‏ رابنسن کروسو چھوڑ کر وسطی چلی کی کلیسیا میں منتقل ہوگئے جہاں وہ سرگرمی سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔‏

اس جزیرے پر دوسرے اشخاص کو بھی جھوٹے مذہب کے چنگل سے چھڑانے کے عمل سے رفتہ‌رفتہ یہ چھوٹا سا گروپ بڑھتا گیا۔‏ تاہم،‏ طالبعلموں کو اپنی اعلیٰ تعلیم کیلئے چلی کے علاقے میں جانا پڑتا ہے اس لئے گروپ میں صرف دو بپتسمہ‌یافتہ بہنیں اور ایک نوجوان لڑکی ہی رہ گئیں۔‏ یہ گروپ چھٹیوں کے دوران جزیرے پر بعض ماؤں کی واپسی کے دوران بڑھ جاتا ہے۔‏ یہ سارا سال یہاں رہنے والی تین مسیحی بہنوں کو نئے جوش‌وجذبے سے معمور کر دیتا ہے۔‏ ان بہنوں کی سخت محنت کے نتیجے میں رابنسن کروسو پر یہوواہ کے گواہ کافی مشہور ہیں۔‏ یہ بات سچ ہے کہ جزیرے کے بعض باشندے انکے کام کی مخالفت اور بادشاہتی پیغام کو رد کرنے کیلئے دوسروں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ مخلص دلوں میں بائبل سچائی کے بوئے گئے بیج باروَر ہوتے رہتے ہیں۔‏

بچائے جانے والوں کو تقویت دینا

سال میں ایک بار سفری نگہبان جزیرے کا دورہ کرتا ہے۔‏ اس دُوراُفتادہ جزیرے پر مٹھی‌بھر گواہوں سے ملکر کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏ ایک سرکٹ اوورسیئر رابنسن کروسو پر اپنے پہلے دورے کو یوں بیان کرتا ہے:‏

‏”‏یہ دورہ خوابوں کی تعبیر تھا۔‏ اس کا آغاز صبح سات بجے ہوا جب ہم والپریسو سے سانٹیاگو کے سیریوس ہوائی اڈے پر جانے کیلئے روانہ ہوئے۔‏ ہم سات مسافروں والے ہوائی جہاز پر سوار ہوئے۔‏ ۲ گھنٹے اور ۴۵ منٹ کی پرواز کے بعد،‏ ہم نے بہت دُور بادلوں سے بھی بلند ایک پہاڑ کی چوٹی دیکھی۔‏ جونہی ہم نزدیک پہنچے تو جزیرہ​—‏⁠سمندر کے بیچ مسحورکُن پتھریلی زمین​—‏⁠نظر آنے لگا۔‏ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ سمندر میں گم‌شُدہ کسی جہاز کی طرح وسیع پانی میں تیر رہا ہو۔‏

‏”‏جہاز سے اُتر کر ہم ایک کشتی کے ذریعے گاؤں میں پہنچے۔‏ ہر طرف سمندر میں چھوٹےچھوٹے قطعات کی صورت میں پتھریلی زمین اُبھری ہوئی ہے جو ہوان فرنانڈیز فر سیلز کی آرام‌گاہیں ہیں۔‏ فر سیلز کی تعداد بڑی حد تک کم ہو جانے کی وجہ سے انہیں تحفظِ‌انواع کے پروگرام میں شامل کِیا گیا ہے۔‏ اچانک،‏ کشتی کے قریب سے کوئی چیز اُڑی اور پھر سمندر میں غائب ہو گئی۔‏ یہ اُڑنے والی مچھلی تھی جسکے تہ‌دار پَر پرندوں کے پَروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔‏ ایسا لگتا ہے جیسے اسے پانی سے کود کر کیڑےمکوڑوں کو پکڑنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ بعض‌اوقات شکاری خود ہی شکار ہو جاتا ہے؛‏ اپنی اُچھل‌کود سے یہ دوسرے شکاری جانوروں کی توجہ میں آ جاتی ہے اور جونہی یہ واپس پانی میں گِرتی ہے تو وہ اِسے نگل لیتے ہیں۔‏

‏”‏بالآخر،‏ ہم سان ہوان بوآٹسٹا (‏مُقدس یوحنا اصطباغی)‏ کے گاؤں پہنچے۔‏ بندرگاہ پر جزیرے کے کچھ باشندے موجود تھے،‏ شاید وہ اپنے مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے یا پھر محض یہ دیکھنے کیلئے کھڑے تھے کہ اس وقت کون آ رہا ہے۔‏ ہم عالیشان پہاڑ ایل یونکا (‏سندان)‏ کے خوبصورت منظر سے بہت متاثر ہوئے جو دیکھنے میں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس پر سبز مخملی قالین بچھا ہوا ہے اور پس‌منظر میں شفاف،‏ نیلے آسمان پر سفید بادل چھائے ہوئے تھے۔‏

‏”‏ہم نے جلد ہی اپنی مسیحی بہنوں اور انکے بچوں کو دیکھ لیا جو بندرگاہ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔‏ یہ چھٹیوں کا وقت تھا،‏ لہٰذا گروپ عام دنوں سے بڑا تھا۔‏ گرمجوشی سے خیروعافیت پوچھنے کے بعد،‏ ہمیں ایک دلکش کیبن میں لیجایا گیا جو ایک ہفتے کیلئے ہمارا گھر ہوگا۔‏

‏”‏یہ ایک بہت ہی خاص ہفتہ تھا اور ہمیں معلوم تھا کہ یہ بہت جلد گزر جائیگا۔‏ ہمیں اپنے وقت کا اچھا استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔‏ اُسی روز،‏ دوپہر کے کھانے کے بعد،‏ ہم ایک بائبل مطالعہ پر گئے جو جلد ہی ہماری مسیحی بہن اور خدا کے روحانی فردوس کا حصہ بننے والی تھی۔‏ وہ خوشی سے دمک رہی تھی لیکن کچھ گھبرا بھی رہی تھی۔‏ اُسکی بپتسمہ پانے کی دیرینہ خواہش پوری ہونے والی تھی۔‏ ہم نے اس کے ساتھ کچھ ضروری معلومات پر غور کِیا تاکہ وہ خوشخبری کی مبشر بننے کے لائق ٹھہر سکے۔‏ اگلے روز اس نے پہلی مرتبہ منادی کے کام میں حصہ لیا۔‏ تیسرے روز ہم نے اس کے ساتھ بپتسمے کے تقاضوں پر غور کرنا شروع کِیا۔‏ ہفتہ ختم ہونے سے پہلے اُس نے بپتسمہ پا لیا۔‏

‏”‏ہفتے کے دوران منعقد ہونے والے اجلاس کی خوب حمایت کی گئی جن پر انتہائی حاضری ۱۴ تھی۔‏ ہر روز میدانی خدمت،‏ واپسی ملاقاتوں،‏ بائبل مطالعوں اور گلہ‌بانی کی ملاقاتوں کا بندوبست تھا۔‏ سارا سال تنہا اپنی کارگزاری انجام دینے والی بہنوں کیلئے یہ کتنی بڑی حوصلہ‌افزائی تھی!‏“‏

اس جزیرے کے مردوں کیلئے اپنے محنت‌طلب ذریعۂ‌معاش کی وجہ سے سچائی قبول کرنا بہت مشکل ہے۔‏ جھینگا پکڑنا یہاں کا بنیادی پیشہ ہے جس کیلئے بہت زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔‏ بیشتر لوگوں کے منفی ردِعمل میں تعصب بھی خاصا کردار ادا کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ اُمید ہے کہ جزیرے کے اَور بہت سے مردوزن مستقبل میں جوابی‌عمل دکھائیں گے۔‏

اب تک،‏ سچائی اور یہوواہ خدا کے مقاصد کے علم سے اس جزیرے پر دس افراد کو بچا لیا گیا ہے۔‏ ان میں سے بعض مختلف وجوہات کی بِنا پر یہ جزیرہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‏ لیکن وہ یہاں رہیں یا نہ رہیں ان کا روحانی تحفظ الیگزینڈر سیلکرک کے تحفظ سے کہیں زیادہ اہم ثابت ہوا ہے۔‏ وہ جہاں کہیں بھی رہیں وہ روحانی فردوس کا حصہ ہیں۔‏ اس جزیرے پر ابھی تک رہنے والی بہنیں اور انکے بچے سرسبزوشاداب گردوپیش سے محظوظ ہونے کے علاوہ اُس وقت بھی زندہ رہنے کا امکان رکھتے ہیں جب ساری زمین حقیقی معنوں میں فردوس بن جائیگی۔‏

تحفظ جاری ہے

جغرافیائی لحاظ سے،‏ رابنسن کروسو پر یہوواہ کے گواہوں کا یہ چھوٹا سا گروپ اپنے روحانی بہن بھائیوں سے بہت دُور ہے۔‏ تاہم،‏ انہیں سکاٹ لینڈ کے سیلکرک کی طرح تنہائی کا کوئی احساس نہیں ہے۔‏ واچ ٹاور سوسائٹی کی چلی برانچ کے ذریعے تھیوکریٹک لٹریچر کی مسلسل بہم‌رسانی،‏ سال میں تین مرتبہ اسمبلیوں اور کنونشنوں کی ویڈیو کیسٹوں کی دستیابی اور سرکٹ اوورسیئر کے سالانہ دورے سے وہ یہوواہ کی تنظیم کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔‏ یوں وہ سرگرمی سے ’‏عالمگیر برادری‘‏ کے شانہ‌بشانہ خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‏​—‏⁠۱-‏پطرس ۵:‏۹‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 اس جزیرے کا سرکاری نام ماس‌آٹائرا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر نقشہ/‏تصویر]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

چلی

سانٹیاگو

رابنسن کروسو جزیرہ

سان ہوان بوآٹسٹا

ایل یونکا

بحرالکاہل

سانتا کلارا جزیرہ

‏[‏تصویر]‏

جیسے ہی جزیرہ قریب آتا ہے تو بیچ سمندر پتھریلی زمین کا مسحورکُن منظر واقعی قابلِ‌دید ہوتا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

1997 © Map of Chile: Mountain High Maps® Copyright

‏.Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر تصویر]‏

عالیشان پہاڑ ایل یونکا (‏سندان)‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

سان ہوان بوآٹسٹا (‏مُقدس یوحنا اصطباغی)‏ کا گاؤں

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

چھوٹے چھوٹے خشکی کے قطعات فر سیلز اور سمندری شیروں کی آرام‌گاہیں ہیں

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

ہم سانٹیاگو،‏ چلی سے ایک چھوٹے جہاز میں روانہ ہوئے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

رابنسن کروسو جزیرے کا سنگلاخ ساحل

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

جزیرے پر سادہ سا کنگڈم ہال