مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کامل زندگی محض خواب نہیں!‏

کامل زندگی محض خواب نہیں!‏

کامل زندگی محض خواب نہیں!‏

کامل دُنیا​—‏⁠آپ اس سے کیا سمجھتے ہیں؟‏ ایک ایسے انسانی معاشرے کا تصور کریں جس میں جُرم،‏ منشیات کے ناجائز استعمال،‏ قحط،‏ غربت یا ناانصافی کا نام‌ونشان نہ ہو۔‏ جہاں تمام لوگ جذباتی اور جسمانی صحت سے لطف اُٹھاتے ہوں۔‏ جہاں موت ختم کر دئے جانے کی وجہ سے کسی قسم کا آہ‌ونالہ بھی نہ ہو۔‏ کیا ایسی دُنیا کی آرزو کرنا حقیقت‌پسندی ہے؟‏

سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو سراہنے کے باوجود بیشتر لوگ درحقیقت یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسانی عقل یا علم سے ایک ایسی کامل دُنیا کو وجود میں لایا جا سکتا ہے جس میں سب لوگ امن‌وآشتی سے رہینگے۔‏ اس کے برعکس،‏ تمام معاملات میں بہتری اور اصلاح کا رُجحان انسانی فطرت کا ایک ناقابلِ‌تردید حصہ ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ محض غیرحقیقت‌پسندانہ خواب دیکھنے سے بےگھر اور غریب لوگوں کی مدد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے معذور اور بیمار لوگوں کو اپنے دُکھ‌تکلیف سے چھٹکارا ملیگا۔‏ ایک کامل دُنیا انسانی تگ‌ودَو سے وجود میں نہیں آئیگی۔‏ تاہم،‏ دورِحاضر کی تکلیف اور استبداد کے باوجود،‏ یہ یقین رکھنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں کہ عنقریب ایک ایسی دُنیا آنے والی ہے جسے آپ حقیقی مفہوم میں کامل کہہ سکیں گے۔‏

جب آپ کامل زندگی کی بابت سوچتے ہیں تو شاید آپ کے ذہن میں یسوع مسیح کی زندگی آئے۔‏ اس زمین پر صرف یسوع ہی واحد کامل انسان نہیں ہو گزرا۔‏ آدم اور حوا نے بھی خدا کی شبِیہ پر خلق ہونے کے علاوہ فردوس میں کامل زندگی سے لطف اُٹھایا تھا۔‏ لیکن اپنے آسمانی باپ کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے وہ اس شاندار حالت سے محروم ہو گئے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶‏)‏ تاہم،‏ خالق نے انسانوں کے اندر ابد تک زندہ رہنے کی خواہش جاگزین کی تھی۔‏ واعظ ۳:‏۱۱ اس بات کی تصدیق کرتی ہے:‏ ”‏اُس نے ہر ایک چیز کو اُسکے وقت میں خوب بنایا اور اُس نے ابدیت کو بھی اُنکے دل میں جاگزین کِیا ہے اسلئےکہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔‏“‏

اگرچہ ناکاملیت اور گُناہ کی وجہ سے انسان نے ”‏فنا کے قبضہ“‏ میں رہتے ہوئے ”‏بطالت“‏ کی زندگی بسر کی توبھی پولس رسول کے ان تسلی‌بخش الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏کیونکہ مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے۔‏ اسلئےکہ مخلوقات بطالت کے اختیار میں کر دی گئی تھی۔‏ نہ اپنی خوشی سے بلکہ اُسکے باعث سے جس نے اُس کو اس اُمید پر بطالت کے اختیار میں کر دیا کہ مخلوقات بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائیگی۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ بائبل واضح کرتی ہے کہ کامل انسانی زندگی کو بحال کرنے کا خدائی بندوبست یسوع مسیح کے وسیلے سے کِیا گیا ہے۔‏​—‏⁠یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱۷:‏۳‏۔‏

مستقبل کی اس شاندار اُمید کے علاوہ،‏ ہم سب کے اندر اس وقت بھی روحانی ترقی کرنے اور اپنی اس ترقی کو سب پر ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‏

معقول بننے کی کوشش کریں

یسوع مسیح کے نزدیک کاملیت کا معاملہ اسقدر اہم تھا کہ اُس نے سامعین کی ایک بڑی تعداد سے کہا:‏ ”‏پس چاہیے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۸‏)‏ کیا یسوع نے ہم سے موجودہ شریر نظام‌اُلعمل میں بےعیب ہونے کی توقع کی تھی؟‏ ہرگز نہیں۔‏ ہم فیاضی،‏ مہربانی اور ساتھی انسانوں کیلئے محبت جیسی خوبیاں پیدا کرنے کے باوجود صحیح کام کرنے میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔‏ یسوع کے ایک رسول نے بھی لکھا:‏ ”‏اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔‏ اگر کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کِیا تو اُسے جھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اُسکا کلام ہم میں نہیں ہے۔‏“‏​—‏⁠۱-‏یوحنا ۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

تاہم،‏ انتہاپسندی سے کنارہ کرتے ہوئے ہم اپنی ذات کی بابت اپنے نظریے اور دوسروں کیساتھ اپنے برتاؤ میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں۔‏ کیا کوئی متوازن اور معقول شخصیت اپنانے کے سلسلے میں خدا کے کلام،‏ بائبل کی مشورت سے زیادہ بہتر مشورت کہیں سے حاصل کر سکتا ہے؟‏ خوشی اور اعتدال‌پسندی جیسی خوبیاں پیدا کرنا ساتھی ملازمین،‏ اپنے بیاہتا ساتھی،‏ والدین اور بچوں کیساتھ خوشگوار رشتہ برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی:‏ ”‏خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔‏ پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔‏ تمہاری نرم‌مزاجی [‏”‏معقول‌پسندی،‏“‏ این‌ڈبلیو‏]‏ سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔‏“‏​—‏⁠فلپیوں ۴:‏۴،‏ ۵‏۔‏

معقول بننے کے فوائد

جب آپ اپنی توقعات کے سلسلے میں معقول بنتے ہیں اور اپنی ذات کو تکلیف اور شکست دینے والی کمال‌پرستی سے گریز کرتے ہیں تو آپ نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔‏ اپنی فطری صلاحیتوں کو جاننے میں اپنے نصب‌العین کی بابت حقیقت‌پسندانہ اور معقول نظریہ اپنانا شامل ہے۔‏ یاد رکھیں کہ خدا نے ہمیں زمین پر زندہ رہنے اور بامقصد کام سے اطمینان حاصل کرنے کیلئے خلق کِیا تھا جس سے نہ صرف ہم بلکہ دوسرے بھی مستفید ہوں۔‏​—‏⁠پیدایش ۲:‏۷-‏۹‏۔‏

اگر آپ نے اپنی ذات سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں تو کیوں نہ دُعا میں یہوواہ سے مدد کے طالب ہوں؟‏ خدا کی خوشنودی حاصل کرکے آپ کو بہت تسلی ملیگی۔‏ یہوواہ ہماری ساخت اور ناکاملیت سے واقف ہے اسلئے وہ نامعقول تقاضے نہیں کرتا اور نہ ہی اُسے خوش کرنا مشکل ہے۔‏ زبورنویس ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے:‏ ”‏جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی [‏یہوواہ]‏ اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔‏ کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔‏ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ خدا انسانوں کیساتھ ایسے مشفقانہ طریقے سے پیش آتا ہے!‏ وہ ہماری کمزوریوں سے واقف ہے لیکن پھربھی وہ ہمیں اپنے پیارے بچوں کی طرح بیش‌قیمت سمجھتا ہے۔‏

کمال‌پرستی کی طرف مائل ہونے کی بجائے روحانی فہم‌وفراست اور متوازن نقطۂ‌نظر پیدا کرنا کتنی دانشمندانہ روش ہے!‏ مزیدبرآں،‏ ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ کوئی بھی انسان یہوواہ کو اپنی بادشاہت کے تحت نسلِ‌انسانی کو کاملیت تک پہنچانے کا مقصد پورا کرنے سے روک نہیں سکتا۔‏ تاہم انسانی کاملیت سے کیا مُراد ہے؟‏

کامل زندگی کمال‌پرستی سے بہتر ہے

کاملیت کا مطلب کمال‌پرستی نہیں ہے۔‏ خدا کی بادشاہت کے تحت فردوسی زمین پر زندگی حاصل کرنے کے مستحق لوگ یقینی طور پر متقاضی،‏ ظاہری راستباز نہیں ہونگے۔‏ بڑی مصیبت سے بچنے کے تقاضوں میں سے ایک فدیے کی قربانی کیلئے دلی قدردانی ہے۔‏ یوحنا رسول کے مطابق بین‌الاقوامی بڑی بِھیڑ ایسی ہی قدردانی کا مظاہرہ کرتی ہے:‏ ”‏نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۴‏)‏ عنقریب واقع ہونے والی بڑی مصیبت سے بچنے والے لوگ اس بات کیلئے شکرگزار ہونگے کہ مسیح نے خوشی سے اُن کیلئے اور اُس پر ایمان رکھنے والے تمام لوگوں کیلئے خود کو قربان کر دیا۔‏ اُسکی پُرمحبت قربانی کی بِنا پر ہی اُنہیں اپنی ناکاملیتوں اور کمزوریوں سے ابدی نجات حاصل ہوتی ہے۔‏​—‏⁠یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ رومیوں ۸:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

کامل زندگی کیسی ہوگی؟‏ مقابلہ‌بازی اور خودغرضانہ خواہشات کی بجائے،‏ انسانوں کے مابین محبت اور ہمدردی کا جذبہ ہوگا جو عزتِ‌نفس کے فقدان اور پریشانی کو ختم کرکے زندگی کو خوشگوار بنا دیگا۔‏ تاہم،‏ کامل زندگی سے کسی قسم کی بیزاری یا اُکتاہٹ نہیں ہوگی۔‏ خدا کا کلام فردوس کی بابت تمام‌تر تفصیلات تو فراہم نہیں کرتا لیکن اتنا ضرور بتاتا ہے کہ فردوسی زندگی کیسی ہوگی جسکے ہم منتظر رہ سکتے ہیں:‏ ”‏وہ گھر بنائینگے اور اُن میں بسینگے۔‏ وہ تاکستان لگائینگے اور اُنکے میوے کھائینگے۔‏ نہ کہ وہ بنائیں اور دوسرا بسے۔‏ وہ لگائیں اور دوسرا کھائے کیونکہ میرے بندوں کے ایّام درخت کے ایّام کی مانند ہونگے اور میرے برگزیدے اپنے ہاتھوں کے کام سے مدتوں تک فائدہ اُٹھائینگے۔‏ اُنکی محنت بےسود نہ ہوگی اور اُنکی اولاد ناگہاں ہلاک نہ ہوگی۔‏“‏​—‏⁠یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

یہ سوچنے کی بجائے کہ بادشاہت تفریح،‏ خریدوفروخت،‏ ٹیکنالوجی،‏ ذرائع آمدورفت کے سلسلے میں کس قسم کی سہولیات فراہم کریگی،‏ آپ اِن الفاظ کی تکمیل سے محظوظ ہونے کا تصور کریں:‏ ”‏بھیڑیا اور برّہ اکٹھے چرینگے اور شیرببر بیل کی مانند بھوسا کھائیگا اور سانپ کی خوراک خاک ہوگی۔‏ وہ میرے تمام کوہِ‌مُقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کرینگے [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۲۵‏)‏ کامل زندگی موجودہ زندگی سے کتنی مختلف ہوگی!‏ اگر آپ اُس وقت زندگی حاصل کرنے کے لائق ثابت ہونے والے لوگوں میں شامل ہونگے تو آپ کے پاس یہ یقین رکھنے کی ہر معقول وجہ ہوگی کہ آپکا شفیق آسمانی باپ آپ اور آپکے خاندان میں ذاتی دلچسپی لیگا۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مُرادیں پوری کریگا۔‏“‏​—‏⁠زبور ۳۷:‏۴‏۔‏

کامل زندگی محض خواب نہیں ہے۔‏ نسلِ‌انسانی کے سلسلے میں یہوواہ کا پُرمحبت مقصد یقیناً پایۂ‌تکمیل کو پہنچے گا۔‏ آپ اور آپکا خاندان انسانی کاملیت تک پہنچ کر خدا کی نئی دُنیا میں حیاتِ‌ابدی حاصل کرنے والے لوگوں میں شامل ہو سکتا ہے۔‏ اس سلسلے میں بائبل پیشینگوئی کرتی ہے:‏ ”‏صادق زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہینگے۔‏“‏​—‏⁠زبور ۳۷:‏۲۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

ہم کمال‌پرستی اور معمولی باتوں پر مضطرب ہونے کے رُجحان سے گریز کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی بابت اپنے نظریے میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

کیوں نہ یہ تصور کریں کہ آپ ابھی سے پُرامن اور راست فردوسی حالتوں سے لطف اُٹھا رہے ہیں؟‏