کمالپرستی پر قابو پانا کیوں ضروری ہے؟
کمالپرستی پر قابو پانا کیوں ضروری ہے؟
کیا آپ ہمیشہ بطریقِاحسن کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ اس سے نہ صرف آپ بلکہ دوسرے بھی مختلف طریقوں سے فائدہ اُٹھائینگے۔ اس کے برعکس، بعض لوگ اس معاملے میں انتہا کو پہنچ جانے کی وجہ سے کمالپرست بن گئے ہیں۔ اس سے کیا مُراد ہے؟
لفظ ”کمالپرستی“ کا ایک مطلب ”کمال کو نہ پہنچنے والی کسی بھی چیز کو ناقابلِقبول خیال کرنے کا میلان“ ہے۔ آپ غالباً ایسا میلان رکھنے والے لوگوں سے ملے ہونگے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے لوگ جب دوسروں سے بیجا تقاضے کرتے ہیں تو اس سے حوصلہشکنی اور ناگواری کی فضا کے علاوہ دیگر بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ بیشتر ذیفہم حضرات یہ جانتے ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات میں انتہاپسندی اور نامعقول تقاضوں کی صورت میں کمالپرستی کو دراصل کوئی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا، اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ تاہم، اپنے معاملے میں کمالپرستی کے رُجحان کو تسلیم کرنا مشکل ہو سکتا ہے اسلئے اس پر قابو پانا واقعی ایک چیلنج ہے۔
نیلسن کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہداری ہے اور اُسے بہت سے مسائل نپٹانے پڑتے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اعدادوشمار کا تجزیہ کرتا ہے اور کام کی تکمیل اُس کے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس مقابلہباز کاروباری دُنیا میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کمالپرستی بہت ضروری خیال کی جاتی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ نیلسن کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں توبھی اُسکی کمالپرستی اُس کے لئے دردِسر اور ذہنی تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ کہیں آپکو بھی نیلسن جیسا مسئلہ درپیش تو نہیں ہے؟
نوجوان لوگ بھی کمالپرستی سے متاثر ہوتے ہیں۔ رایو ڈی جنیرو کی رہنے والی ریٹا شروع ہی سے سکول جانے کی بہت شوقین تھی۔ اگرچہ اُس نے دوسروں پر سبقت لے جانے کی کبھی بھی خواہش نہیں کی تھی توبھی سب سے زیادہ نمبر حاصل نہ کرنے پر وہ پریشان ہو جاتی تھی۔ ریٹا بیان کرتی ہے: ”بچپن ہی سے مَیں اپنا موازنہ اُن لوگوں کیساتھ کرتی تھی جنکے پاس بہت زیادہ وقت ہوتا تھا جبکہ مَیں ہمیشہ دباؤ کا شکار رہتی اور ہر کام جلدی جلدی کرتی تھی۔ مجھے کبھی بھی آرام کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا کیونکہ میرے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی کام ضرور ہوتا تھا۔“
ایک نوعمر بچی ماریہ دوسروں جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پانے سے مایوس ہوکر رونے لگتی تھی۔ علاوہازیں، موسیقی میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو کمال تک پہنچانے کی جستجو میں وہ اپنے گانے بجانے سے محظوظ ہونے کی بجائے اکثر دباؤ کا شکار اور پریشان رہتی تھی۔ برازیل کی رہنے والی ایک دوسری لڑکی، تانیہ نے دانشمندی کیساتھ مقابلہبازی سے گریز کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود تسلیم کِیا کہ اُس نے سکول اور گھر میں اپنے لئے نہایت بلند معیار قائم کر رکھے تھے۔ اُس کا خیال تھا کہ اگر اُسکے کام میں ذرا سا بھی نقص ہوگا تو لوگ اُسے پسند نہیں کرینگے۔ مزیدبرآں، بعضاوقات تانیہ کو دوسروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کے باعث مایوسی اور افسردگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔
اگرچہ مہارت، مستعدی اور ذاتی تسکین کا احساس ضروری ہے توبھی ناقابلِرسائی نصباُلعین قائم کرنا، ناکامی کے خوف جیسے منفی احساسات پر منتج ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ والدین یا دوسرے لوگ بچوں کیلئے سکول کے کام یا کھیلوں کے سلسلے میں ایسے اعلیٰ معیار قائم کر دیں جن پر اُن کیلئے پورا اُترنا مشکل ہو۔ مثال کے طور پر، ریکارڈو کی ماں نے اُس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، وہ چاہتی تھی کہ اُسکا بیٹا ڈاکٹر بنے، پیانو بجائے اور مختلف زبانیں بولنے کے قابل ہو۔ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب اسطرح کی انتہاپسندانہ توقعات قائم کی جاتی ہیں تو یہ مسائل یا مایوسی پر منتج ہوتی ہیں؟
کمالپرستی سے کیوں بچنا چاہئے؟
آجکل، اعلیٰ درجے کے کام، دُرستی اور نفاست کے اُونچے معیاروں پر پورا اُترنے کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔ لہٰذا حصولِملازمت کیلئے لوگوں کو مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ذریعۂمعاش کھو بیٹھنے کا خدشہ بھی لوگوں کو سخت جدوجہد کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ بعض کارکُن ایک ایتھلیٹ کی مانند بن جاتے ہیں جو نیا ریکارڈ قائم کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ جب اُسکا کوئی سخت مقابلہ ہونے والا ہو تو جیتنے کی اُمید کیساتھ وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگتا ہے اور اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کیلئے ادویات کا استعمال بھی کرتا ہے۔ کمالپرستی اعلیٰ کارکردگی دکھانے کے مثبت رُجحان کی بجائے لوگوں میں ”ناکامی کا خوف“ یا ”سب سے اوّل بننے کی خواہش“ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔—دی فیلنگ گُڈ ہینڈبُک۔
سچ ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں فنون اور کھیلوں کے سلسلے میں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے۔ بہرصورت، ڈاکٹر رابرٹ ایس. ایلیٹ کے مطابق، ”کمالپرستی ایک ایسی خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوتی۔“ وہ مزید کہتا ہے: ”اس میں احساسِخطا، دفاعی رُجحان اور تمسخر کا خوف پایا جاتا ہے۔“ لہٰذا، دانشمند بادشاہ سلیمان کی یہ بات واقعی سچ ہے: ”پھر مَیں نے ساری محنت کے کام اور ہر ایک اچھی دستکاری کو دیکھا کہ اِسکے سبب سے آدمی اپنے ہمسایہ سے حسد کرتا ہے۔ یہ بھی بطلان اور ہوا کی چران ہے۔“—واعظ ۴:۴۔
اگر آپ میں بھی کمالپرستی کا رُجحان پایا جاتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ آپ جتنی زیادہ کوشش کرتے ہیں آپکو اُتنی ہی زیادہ مایوسی ہوتی ہے؟ کیا آپ کم متقاضی اور زیادہ مطمئن بننا چاہتے ہیں؟ کامل ہونے سے کیا مُراد ہے؟ کیا آپ کمالپرستی سے گریز کرتے ہوئے اپنی تمام لیاقتوں کو بدرجۂاُتم بروئےکار لانے کے متمنی نہیں ہیں؟ اگر ناکامل انسان اپنی خداداد لیاقتوں کو استعمال کرنے سے دوسروں کے فائدے کیلئے بہت ساری چیزیں دریافت اور ایجاد کر سکتے ہیں تو ذرا تصور کریں کہ کامل حالتوں اور الہٰی راہنمائی کے تحت نوعِانسان کیا نہیں کر سکیں گے!
[صفحہ ۴ پر تصویر]
والدین یا دیگر لوگ بچوں سے کاملیت کا تقاصا کرتے ہیں جس پر پورا اُترنا دراصل اُنکے بس میں نہیں ہوتا