کیا آپ اَندیکھی چیزوں کا یقین کرتے ہیں؟
کیا آپ اَندیکھی چیزوں کا یقین کرتے ہیں؟
اگر کوئی یہ کہے کہ ’مَیں صرف اُنہی چیزوں کا یقین کرتا ہوں جنہیں مَیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں‘ تو یہ سچ نہیں ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی نظروں سے اوجھل چیزوں کا یقین کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، سکول میں آپ نے مقناطیسی میدان کے وجود کو ثابت کرنے والا تجربہ ضرور کِیا ہوگا۔ تجربہ یوں ہے: ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اثر بالکل واضح تھا جس سے آپکو مقناطیسی قوت کی موجودگی کا یقینی ثبوت مل گیا۔
لوہے کے کچھ ذرّات بکھیر دیں۔ پھر اس کاغذ کو مقناطیس پر رکھیں۔ کاغذ کے مرتعش ہونے پر لوہے کے یہ ذرّات گویا کسی جادو سے مقناطیسی قُطبین کے پاس جمع ہوکر مقناطیسی میدان کی شکل اختیار کر لینگے۔ اس تجربے کے دوران کیا آپ مقناطیسی میدان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پائے تھے؟ بالکل نہیں، تاہم لوہے کے ذرّات پر اسکاایسی اَور بھی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے مگر اُنکے وجود کو ضرور تسلیم کرتے ہیں۔ کسی خوبصورت تصویر یا شاندار مجسّمے کو دیکھ کر ہمارے مُنہ سے نکلنے والے تعریفی کلمات ایک مُصوّر یا مجسّمہساز کی موجودگی کو تسلیم کرنے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم کسی آبشار یا غروبِآفتاب کا نظارہ کرتے ہیں تو کیا ہمیں اس امکان پر سوچنے کی تحریک نہیں ملنی چاہئے کہ یہ بھی کسی عظیم مُصوّر یا مجسّمہساز کے فنپارے ہیں؟
بعض کیوں یقین نہیں کرتے
ستمظریفی تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے چرچ کی تعلیمات کی وجہ سے خدا پر ایمان رکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ناروے کے ایک شخص کیساتھ ایسا ہی ہوا جسے بتایا گیا تھا کہ خدا شریروں کو آتشی دوزخ کے عذاب میں رکھتا ہے۔ وہ شخص اس بات کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے دہریہ بن گیا کہ یہ کیسا خدا ہے جو لوگوں کو اس طرح اذیت پہنچاتا ہے۔
تاہم، اسکے بعد، وہ شخص ایک یہوواہ کے گواہ کی مدد سے بائبل کی تحقیق کرنے پر راضی ہو گیا۔ وہ یہ جان کر حیران رہ گیا کہ بائبل شریروں کو آتشی دوزخ کے عذاب میں ڈالنے کی تعلیم نہیں دیتی۔ بائبل موت کو نیند سے تشبِیہ دیتی ہے۔ قبر میں ہمیں کوئی ہوش نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں وہاں کسی قسم کا دُکھتکلیف محسوس نہیں ہوتا۔ (واعظ ۹:۵، ۱۰) اس شخص نے یہ بھی سیکھ لیا کہ وہ انسان جنہیں خدا ناقابلِاصلاح خیال کرتا ہے ہمیشہ کیلئے قبر ہی میں رہینگے۔ (متی ۱۲:۳۱، ۳۲) باقی مُردے خدا کے مُعیّنہ وقت پر فردوسی زمین میں ہمیشہ کی زندگی کے امکان کیساتھ زندہ کئے جائینگے۔ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ ۱۷:۳) یہ وضاحت اُسے معقول معلوم ہوئی۔ یہ بائبل کے اس بیان کے مطابق تھی کہ ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) کچھ وقت تک خدا کے کلام، بائبل کا مطالعہجاری رکھنے سے اس خلوصدل شخص کے دل میں خدا کیلئے محبت پیدا ہو گئی۔
کئی لوگ دُکھ اور ناانصافی کی وجہ سے ایک شفیق خالق کے وجود سے منکر ہیں۔ وہ تمام سویڈن کے رہنے والے اُس شخص کی مانند ہیں جس نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”آسمان پر ایک قادرِمطلق اور فیاضدل خدا کا موجود ہونا کیسے ممکن ہے جبکہ زمین پر اتنی زیادہ بدعنوانی اور بدکاری ہے؟“ کوئی بھی اُسکے سوال کا جواب نہ دے سکا جسکی وجہ سے وہ دہریہ بن گیا۔ بعدازاں اُس نے یہوواہ کے گواہوں کیساتھ *
بائبل کا مطالعہ شروع کِیا۔ اُسے معلوم ہوا کہ خدا کا کلام اس صدیوں پُرانے سوال کا تسلیبخش جواب فراہم کرتا ہے کہ خدا بدکاری کی اجازت کیوں دیتا ہے؟اس خلوصدل شخص نے سیکھا کہ بدکاری کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص گوشت کاٹنے کیلئے چھری بناتا ہے۔ گاہک اس چھری کو خرید کر اُسے گوشت کاٹنے کی بجائے کسی کا قتل کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ چھری کا غلط استعمال ہرگز یہ ثابت نہیں کرتا کہ اُسکا کوئی بنانے والا ہی نہیں ہے۔ اسی طرح، زمین کو اسکے متوقع مقصد کے مطابق استعمال نہ کرنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اُسکا کوئی خالق نہیں ہے۔
بائبل تعلیم دیتی ہے کہ خدا کی صنعت کامل ہے۔ وہ ”بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“ (استثنا ۳۲:۴) خدا انسان کو اچھی بخشش دیتا ہے مگر اِن بخششوں کا غلط استعمال ناقابلِبیان دُکھتکلیف کا باعث بنتا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷) تاہم، خدا اس دُکھتکلیف کا خاتمہ کریگا۔ بعدازاں، ”حلیم ملک کے وارث ہونگے . . . اور اُس میں ہمیشہ بسے رہینگے۔“—زبور ۳۷:۱۱، ۲۹۔
مذکورہبالا سویڈن کا شخص ساتھی انسانوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر نہایت غمگین ہو جاتا تھا۔ واقعی، دوسروں کیلئے اُسکی مشفقانہ فکر خدا کے وجود کا ثبوت ہے۔ وہ کیسے؟
خدا پر ایمان نہ رکھنے والے بہتیرے لوگوں کے پاس صرف یہی ایک متبادل ہوتا ہے کہ وہ ارتقا کے نظریے کا یقین کر لیں۔ ارتقاپسند ”بقائے اصلح“—حیواناتونباتات کا اپنیاپنی جنس کے موافق بقا کیلئے جدوجہد کرنا—کی تعلیم دیتے ہیں۔ طاقتور زندہ رہتے ہیں اور کمزور مر جاتے ہیں۔ ارتقاپسندوں کے مطابق یہ ایک فطرتی امر ہے۔ لیکن اگر طاقتور کی بقا کیلئے کمزوروں کا مرنا ”فطرتی“ بات ہے تو پھر اس بات کا ہمارے پاس کیا جواز ہے کہ سویڈن کے اُس شخص کی طرح بعض طاقتور انسان بھی ساتھی انسانوں کو تکلیف میں دیکھ کر غمگین کیوں ہو جاتے ہیں؟
خدا کو جاننا
ہم خدا کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ انسانی جسم نہیں رکھتا۔ تاہم، خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسے جانیں۔ اُس سے واقف ہونے کا ایک طریقہ اُسکے حیرتانگیز کاموں—تخلیقی ”تصاویر“ اور ”مجسّموں“—پر غور کرنا ہے۔ بائبل رومیوں ۱:۲۰ میں بیان کرتی ہے: ”[خدا] کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُسکی ازلی قدرت اور الُوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔“ جیہاں، جسطرح ایک تصویر یا مجسّمے کا جائزہ لینے سے آپکو کسی فنکار کی شخصیت کو جاننے میں مدد ملتی ہے، اُسی طرح خدا کے اعجازآفرین کاموں پر غوروخوض کرنا اُسکی شخصیت سے بہتر طور پر رُوشناس ہونے میں آپکی مدد کر سکتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہم محض خدا کے تخلیقی کاموں کو دیکھنے سے زندگی کے تمام پریشانکُن سوالات کا جواب حاصل نہیں کر سکتے۔ تاہم، خدا کے کلام بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم ایسے سوالات کے جواب ضرور تلاش کر سکتے ہیں۔ بائبل کو بِلاتعصّب پڑھنے سے ہی متذکرہبالا دونوں اشخاص اس نتیجے پر پہنچے کہ خدا موجود ہے اور ہماری پرواہ کرتا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 8 اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کہ خدا بدکاری کی اجازت کیوں دیتا ہے، براہِمہربانی واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکاپوریٹڈ کی شائعکردہ کتاب از دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟ کے باب ۱۰ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۲۸ پر تصویر کا حوالہ]
J. Hester and P. Scowen )AZ State Univ.(, NASA