کیا آپ باطنی اطمینان حاصل کر سکتے ہیں؟
کیا آپ باطنی اطمینان حاصل کر سکتے ہیں؟
ایک امریکی مصنف ہنری تھورو نے ۱۸۵۴ میں تحریر کِیا: ”بیشتر انسان عالمِنومیدی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔“
اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے زمانے میں زیادہتر لوگوں کو باطنی اطمینان حاصل نہیں تھا۔ تاہم، یہ تقریباً ۱۵۰ سال پہلے کی بات ہے۔ کیا موجودہ زمانہ اس سے فرق ہے؟ یا کیا تھورو کی اس بات کا آج بھی اطلاق ہوتا ہے؟ آپ کی بابت کیا ہے؟ کیا آپ آسودہ اور مطمئن ہیں؟ یا کیا آپ غیرمحفوظ، مستقبل کی بابت متذبذب اور تھورو کے بقول ’عالمِنومیدی‘ میں ہیں؟
افسوس کی بات ہے کہ دُنیا کی بیشتر حالتیں لوگوں سے انکا آراموسکون چھین لیتی ہیں۔ اس ضمن میں آئیے چند ایک پر غور کرتے ہیں۔ بہتیرے ممالک میں بیروزگاری اور کم آمدنی کی وجہ سے غربت اور معاشی انتشار جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جن میں بہت سے لوگ زیادہ سے زیادہ مالودولت اکٹھا کرنے کی دوڑدھوپ میں رہتے ہیں۔ تاہم، اکثراوقات اس کیلئے مقابلہبازی والا طرزِزندگی اختیار کرنا پڑتا ہے جو اطمینان کی بجائے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ بیماری، جنگ، جُرم، ناانصافی اور ظلم بھی لوگوں سے انکا سکون چھین لیتے ہیں۔
باطنی اطمینان کے متلاشی
زیادہتر لوگ دُنیا کیساتھ نباہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اینٹونیو * برازیل کے شہر ساؤپولو کی ایک بہت بڑی فیکٹری کی مزدور یونین کا لیڈر تھا۔ وہ معیارِزندگی کو بہتر بنانے کی اُمید میں، احتجاجی مظاہروں میں بڑھچڑھ کر حصہ لیتا تھا لیکن اس سے اُسے کوئی ذہنی سکون حاصل نہ ہوا۔
بعض اُمید کرتے ہیں کہ شادی سے اُنہیں اپنی زندگی میں سکون حاصل ہوگا مگر اُنہیں مایوسی ہوتی ہے۔ مارکوس ایک کامیاب کاروبار کا مالک تھا۔ سیاست میں شمولیت کی وجہ سے وہ جلد ہی ایک صنعتی شہر کا میئر بن گیا۔ تاہم، اس کی گھریلو زندگی بالکل تباہ ہو گئی۔ جب اُس کے بچے گھر چھوڑ کر چلے گئے تو دونوں میاں بیوی میں بھی ناقابلِمصالحت اختلافات کی وجہ سے علیٰحدگی ہو گئی۔
سلواڈور، برازیل کی سڑکوں پر پلنے والا گرزن زندگی کا بھرپور مزہ لینے کے چکر میں ٹرک ڈرائیوروں کیساتھ مختلف شہروں میں پہنچ کر وہاں آوارہ پھرتا رہتا تھا۔ جلد ہی اُسے نشے کی عادت پڑ گئی اور اپنی اس بُری عادت کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اُس نے لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ کئی مرتبہ پولیس نے اسے گرفتار بھی کِیا۔ متشدّد اور جارحانہ شخصیت کے باوجود، گرزن باطنی اطمینان کا متلاشی تھا۔ کیا اسے کبھی ایسا اطمینان حاصل ہوا؟
وانیہ کی جوانی میں ہی اس کی ماں وفات پا گئی اور اُس کی بیمار چھوٹی بہن سمیت گھر کی دیکھبھال کی ساری ذمہداری اُس پر آن پڑی۔ وانیہ چرچ جانے کے باوجود یہ محسوس کرتی تھی کہ جیسے خدا نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔ یقیناً اُسے کوئی ذہنی سکون حاصل نہیں تھا۔
مارسیلو کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ مارسیلو ہر وقت تفریح کرنا چاہتا تھا۔ دوسرے نوجوانوں کیساتھ پارٹیوں میں رقص، شرابنوشی اور منشیات کا استعمال اُسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایک مرتبہ تو اس نے جھگڑے کے دوران کسی دوسرے نوجوان کو زخمی بھی کر دیا۔ بعدازاں، وہ اپنے کئے پر بہت پچھتایا اور خدا سے مدد کیلئے دُعا کی۔ وہ بھی ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتا تھا۔
یہ تجربات ذہنی سکون کو برباد کر دینے والی چند حالتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کیا مزدور یونین کے لیڈر، سیاستدان، آوارہ بچے، کام کے بوجھ سے دبی ہوئی بیٹی اور پارٹیوں میں جانے والے نوجوان کو کسی طرح وہ باطنی اطمینان حاصل ہوا جسکی اُنہیں تلاش تھی؟ کیا ان کیساتھ پیش آنے والے واقعات سے ہم کوئی سبق سیکھتے ہیں؟ ان دونوں سوالوں کا جواب ہاں میں ہے، جیساکہ ہم اگلے مضمون میں دیکھینگے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 6 بعض نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
کیا آپ باطنی اطمینان کے آرزومند ہیں؟