مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

گرمجوشی سے خوشخبری سنائیں

گرمجوشی سے خوشخبری سنائیں

گرمجوشی سے خوشخبری سنائیں

‏”‏روحانی جوش میں بھرے رہو۔‏ [‏یہوواہ]‏ کی خدمت کرتے رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ خوشخبری کے مُنادوں کے طور پر مسیحی کونسا رُجحان برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟‏

ایک نوجوان شخص نئی نوکری ملنے پر بہت خوش ہے۔‏ کام کے پہلے دن،‏ وہ اپنے مالک کی ہدایات کا بڑی بےتابی سے انتظار کر رہا ہے۔‏ وہ اپنی پہلی تفویض کی توقع میں ہے جو اُسکے نزدیک نہایت اہم ہے۔‏ وہ اپنی صلاحیتیں بدرجۂ‌اُتم بروئےکار لانے کا مشتاق ہے۔‏

۲ اسی طرح،‏ مسیحیوں کے طور پر ہم بھی خود کو نئے کارکن خیال کر سکتے ہیں۔‏ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھنے کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے یہوواہ کیلئے کام کرنا ابھی شروع ہی کِیا ہے۔‏ یقیناً ہمارے خالق کے ذہن میں ہمارے لئے ایسے بیشمار کام ہیں جو ہمیں ابد تک مصروف رکھیں گے۔‏ لیکن اس نے ہمیں سب سے پہلے اپنی بادشاہت کی خوشخبری سنانے کا حکم دیا ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۴‏)‏ ہم اس خدائی تفویض کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ اُس نوجوان شخص کی طرح ہم اپنی تمام‌تر صلاحیت استعمال کرتے ہوئے اسے گرمجوشی اور شادمانی سے پورا کرنا چاہتے ہیں!‏

۳.‏ خوشخبری کے کامیاب خادم بننے کیلئے کیا کرنا ضروری ہے؟‏

۳ یہ بات سچ ہے کہ ایسا مثبت رُجحان برقرار رکھنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔‏ خدمتگزاری کے علاوہ،‏ ہماری اَور بھی بہت سی ذمہ‌داریاں ہیں جو ہم پر جسمانی اور جذباتی بوجھ ڈال سکتی ہیں۔‏ کافی حد تک،‏ ہم خدمتگزاری کو مناسب توجہ دینے کیساتھ ساتھ ان کاموں کو بھی پورا کرتے ہیں۔‏ پھربھی،‏ یہ ایک مسلسل کشمکش ہو سکتی ہے۔‏ (‏مرقس ۸:‏۳۴‏)‏ یسوع نے اس بات کو اُجاگر کِیا کہ کامیاب مسیحی بننے کیلئے ہمیں جانفشانی کرنی پڑیگی۔‏—‏لوقا ۱۳:‏۲۴‏۔‏

۴.‏ روزمرّہ کی پریشانیاں ہمارے روحانی نقطۂ‌نظر پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہیں؟‏

۴ کام کے بوجھ کی وجہ سے ہم بعض‌اوقات بڑی آسانی سے پریشانی یا افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ ”‏زندگی کی فکریں“‏ تھیوکریٹک کارگزاریوں کے لئے ہمارے جوش اور قدردانی کو ختم کر سکتی ہیں۔‏ (‏لوقا ۲۱:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ مرقس ۴:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ اپنی ناکامل انسانی فطرت کی وجہ سے شاید ہم ”‏اپنی پہلی سی محبت“‏ چھوڑ دیں۔‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۱-‏۴‏)‏ یہوواہ کی خدمت کے بعض پہلو کسی حد تک اُکتا دینے والا معمول بن سکتے ہیں۔‏ بائبل خدمتگزاری کے لئے ہمارے جوش کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری حوصلہ‌افزائی کیسے فراہم کرتی ہے؟‏

ہمارے دل میں ”‏جلتی آگ“‏ کی مانند

۵،‏ ۶.‏ پولس رسول نے اپنے منادی کے شرف کو کیسا خیال کِیا تھا؟‏

۵ یہوواہ نے جو خدمت ہمیں سونپی ہے وہ اسقدر قیمتی ہے کہ اسے کسی بھی صورت میں معمولی خیال نہیں کِیا جا سکتا۔‏ پولس رسول کے نزدیک خوشخبری کی منادی کرنا اتنا عظیم شرف تھا کہ وہ خود کو اس کے لائق ہی نہیں سمجھتا تھا۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏مجھ پر جو سب مُقدسوں میں چھوٹے سے چھوٹا ہوں یہ فضل ہؤا کہ مَیں غیرقوموں کو مسیح کی بےقیاس دولت کی خوشخبری دوں۔‏ اور سب پر یہ بات روشن کروں کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خدا میں پوشیدہ رہا اُسکا کیا انتظام ہے۔‏“‏—‏افسیوں ۳:‏۸،‏ ۹‏۔‏

۶ اپنی خدمتگزاری کی بابت پولس کا مثبت رُجحان ہمارے لئے ایک شاندار نمونہ ہے۔‏ رومیوں کے نام اپنے خط میں اس نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ خوشخبری سنانے کو حتیٰ‌المقدور تیار ہوں۔‏“‏ وہ خوشخبری سے شرماتا نہیں تھا۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ وہ دُرست رُجحان رکھتا تھا اور اپنی خدمتگزاری کو پورا کرنے کا مشتاق تھا۔‏

۷.‏ رومیوں کے نام اپنے خط میں،‏ پولس نے کس بات سے خبردار کِیا؟‏

۷ پولس رسول جوش اور جذبہ برقرار رکھنے کی ضرورت سے واقف تھا اسلئے اس نے روم کے مسیحیوں کو نصیحت کی:‏ ”‏کوشش میں سُستی نہ کرو۔‏ روحانی جوش میں بھرے رہو۔‏ [‏یہوواہ]‏ کی خدمت کرتے رہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۱‏)‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ یہاں ”‏سُستی“‏ کِیا گیا ہے وہ ”‏کاہلی،‏ آلکسی“‏ کا مفہوم رکھتا ہے۔‏ ممکن ہے کہ ہم اپنی خدمتگزاری میں سُستی تو نہ کریں لیکن ہم سب کو روحانی آلکسی کی ابتدائی علامات کی بابت خبردار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ جیسے ہی یہ ہمارے اندر رُونما ہوں ہم اپنے رویے میں مناسب ردوبدل کر سکیں۔‏—‏امثال ۲۲:‏۳‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ کونسی چیز یرمیاہ کے دل میں ”‏جلتی آگ“‏ کی مانند تھی اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ ہم یرمیاہ کے تجربے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ خدا کی رُوح حوصلہ‌شکنی کے وقت بھی ہماری مدد کر سکتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک موقع پر یرمیاہ نبی اتنا بےحوصلہ ہو گیا کہ وہ اپنا نبوّتی کام بند کر دینا چاہتا تھا۔‏ اس نے تو یہوواہ کی بابت بھی کہا:‏ ”‏مَیں اُس کا ذکر نہ کرونگا نہ پھر کبھی اُس کے نام سے کلام کروں گا۔‏“‏ کیا یہ یرمیاہ کی کسی سنگین روحانی کمزوری کا ثبوت تھا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ درحقیقت،‏ یرمیاہ کی پُختہ روحانیت،‏ یہوواہ کے لئے اس کی محبت اور سچائی کے لئے اس کے جوش نے اسے نبوّت جاری رکھنے کی طاقت بخشی۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا کلام میرے دل میں جلتی آگ کی مانند ہے جو میری ہڈیوں میں پوشیدہ ہے اور مَیں ضبط کرتے کرتے تھک گیا اور مجھ سے رہا نہیں جاتا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۲۰:‏۹‏)‏ یہ فطرتی بات ہے کہ خدا کے وفادار خادم وقتاًفوقتاً حوصلہ‌شکنی کا تجربہ کرتے ہیں۔‏ لیکن جب وہ دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگتے ہیں تو وہ اُن کے دل پڑھکر خوشی کے ساتھ اپنی رُوح‌اُلقدس اُنہیں دیگا بشرطیکہ یرمیاہ کی مانند اس کا کلام ان کے دلوں میں ہو۔‏—‏لوقا ۱۱:‏۹-‏۱۳؛‏ اعمال ۱۵:‏۸‏۔‏

‏”‏روح کو نہ بجھاؤ“‏

۹.‏ کس وجہ سے رُوح‌اُلقدس ہمارے حق میں کام کرنا چھوڑ سکتی ہے؟‏

۹ پولس رسول نے تھسلنیکیوں کو نصیحت کی:‏ ”‏روح کو نہ بجھاؤ۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدائی اصولوں کے خلاف افعال اور رُجحانات کی وجہ سے رُوح‌اُلقدس ہمارے حق میں کام کرنا چھوڑ سکتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۳۰‏)‏ آجکل مسیحیوں کی تفویض خوشخبری کی منادی کرنا ہے۔‏ ہم اس شرف کا گہرا احترام کرتے ہیں۔‏ ہمارے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ خدا سے ناواقف لوگ ہمارے منادی کے کام کی اہانت کرتے ہیں۔‏ لیکن جب کوئی مسیحی دانستہ طور پر اپنی خدمتگزاری کو نظرانداز کرتا ہے تو یہ خدا کی تحریک دینے والی رُوح کی آگ کو بجھانے پر منتج ہو سکتا ہے۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ ہمارے ساتھی انسانوں کا نقطۂ‌نظر کیسے ہمیں متاثر کر سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۷ میں ہماری خدمتگزاری کے سلسلے میں کونسا بلند نظریہ پیش کِیا گیا ہے؟‏

۱۰ مسیحی کلیسیا سے باہر کے بعض لوگ ہماری خدمتگزاری کو محض لٹریچر کی تقسیم خیال کر سکتے ہیں۔‏ دیگر شاید اس غلط‌فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ ہم محض عطیات اکٹھے کرنے کے لئے گھرگھر جاتے ہیں۔‏ اگر ہم ایسے منفی نظریات کو اپنے رویے پر اثرانداز ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو یہ خدمتگزاری میں ہماری اثرآفرینی کو کم کر سکتا ہے۔‏ ایسی سوچ کو خود پر اثرانداز ہونے کی اجازت دینے کی بجائے،‏ آئیے ہم اپنی خدمتگزاری کی بابت یہوواہ اور یسوع جیسا نظریہ برقرار رکھیں۔‏ پولس رسول نے اسی بلند نظریے کو واضح کرتے ہوئے بیان کِیا:‏ ”‏ہم اُن بہت لوگوں کی مانند نہیں جو خدا کے کلام میں آمیزش کرتے ہیں بلکہ دل کی صفائی سے اور خدا کی طرف سے خدا کو حاضر جان کر مسیح میں بولتے ہیں۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۷‏۔‏

۱۱.‏ کس چیز نے ابتدائی مسیحیوں کو اذیت کے باوجود سرگرم رہنے کے قابل بنایا اور انکا نمونہ ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟‏

۱۱ یسوع کی موت کے کچھ ہی دیر بعد،‏ اس کے شاگردوں کو یروشلیم میں سخت اذیت کے دَور سے گزرنا پڑا۔‏ انہیں ڈرا دھمکا کر منادی بند کرنے کا حکم دیا گیا۔‏ تاہم،‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ وہ ”‏رُوح‌اُلقدس سے بھر گئے اور خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہے۔‏“‏ (‏اعمال ۴:‏۱۷،‏ ۲۱،‏ ۳۱‏)‏ چند سال بعد تیمتھیس کیلئے پولس کے الفاظ اس مثبت رُجحان کو ظاہر کرتے ہیں جسے مسیحیوں کو قائم رکھنا چاہئے۔‏ پولس نے کہا:‏ ”‏خدا نے ہمیں دہشت کی رُوح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے۔‏ پس ہمارے خداوند کی گواہی دینے سے اور مجھ سے جو اُسکا قیدی ہوں شرم نہ کر بلکہ خدا کی قدرت کے موافق خوشخبری کی خاطر میرے ساتھ دُکھ اُٹھا۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۷،‏ ۸‏۔‏

ہم کس بات میں اپنے پڑوسی کے مقروض ہیں؟‏

۱۲.‏ کس خاص وجہ کی بِنا پر ہم خوشخبری کی منادی کرتے ہیں؟‏

۱۲ اپنی خدمتگزاری کے سلسلے میں،‏ مناسب رویہ رکھنے کے لئے ہمارے پاس دُرست محرک ہونا چاہئے۔‏ ہم منادی کیوں کرتے ہیں؟‏ اس کی اہم وجہ زبورنویس کے ان الفاظ میں نظر آتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تیرے مُقدس تجھے مبارک کہینگے۔‏ وہ تیری سلطنت کے جلال کا بیان اور تیری قدرت کا چرچا کریں گے۔‏ تاکہ بنی‌آدم پر اُس کی قدرت کے کاموں کو اور اُس کی سلطنت کے جلال کی شان کو ظاہر کریں۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہم یہوواہ کی علانیہ حمد اور تمام نسلِ‌انسانی کے سامنے اُس کے نام کی تقدیس کرنے کے لئے منادی کرتے ہیں۔‏ اگرچہ بہت کم لوگ ہی ہماری بات سنتے ہیں توبھی وفاداری سے نجات کے پیغام کا اعلان کرنا یہوواہ کی حمد کا باعث بنتا ہے۔‏

۱۳.‏ کونسی بات ہمیں دوسروں کو نجات کی اُمید میں شریک کرنے کی تحریک دیتی ہے؟‏

۱۳ ہم لوگوں کیلئے محبت اور خون کے جُرم سے بری رہنے کی بِنا پر بھی منادی کرتے ہیں۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۳:‏۸؛‏ مرقس ۶:‏۳۴‏)‏ اس بات سے پولس کے ان الفاظ کا گہرا تعلق ہے جو اُس نے مسیحی کلیسیا سے باہر کے لوگوں کی بابت کہے تھے:‏ ”‏مَیں یونانیوں اور غیریونانیوں۔‏ داناؤں اور نادانوں کا قرضدار ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱:‏۱۴‏)‏ پولس لوگوں کو خوشخبری سنانے کے سلسلے میں خود کو ان کا مقروض سمجھتا تھا کیونکہ یہ خدا کی مرضی ہے کہ ”‏سب آدمی نجات پائیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏)‏ آجکل،‏ ہم بھی اپنے پڑوسی کیلئے ایسی ہی محبت اور فرض کا احساس رکھتے ہیں۔‏ نسلِ‌انسانی کیلئے یہوواہ کی محبت نے اسے اپنے بیٹے کو اُنکی خاطر قربان ہونے کیلئے زمین پر بھیجنے کی تحریک دی۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ یہ ایک عظیم قربانی تھی۔‏ جب ہم دوسروں کو یسوع کی قربانی پر مبنی نجات کی خوشخبری سنانے کیلئے تندہی کیساتھ اپنا وقت صرف کرتے ہیں تو ہم دراصل یہوواہ کی محبت کی نقل کرتے ہیں۔‏

۱۴.‏ بائبل مسیحی کلیسیا سے باہر کی دُنیا کو کیسے بیان کرتی ہے؟‏

۱۴ یہوواہ کے گواہ ساتھی انسانوں کو مسیحی برادری کے امکانی افراد خیال کرتے ہیں۔‏ ہمیں دلیری سے منادی کرنی چاہئے مگر ہماری دلیری جھگڑے کا باعث نہیں بننی چاہئے۔‏ یہ درست ہے کہ بائبل عام دُنیا کا ذکر کرتے وقت سخت اصطلاحیں استعمال کرتی ہے۔‏ پولس نے ”‏دُنیا کی حکمت“‏ اور ”‏دُنیوی خواہشوں“‏ کا ذکر کرتے ہوئے لفظ ”‏دُنیا“‏ کو منفی مفہوم میں استعمال کِیا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۱۹؛‏ ططس ۲:‏۱۲‏)‏ پولس نے افسس کے مسیحیوں کو یہ بھی یاد دِلایا کہ جب وہ ”‏دُنیا کی روش پر چلتے تھے“‏ تو وہ روحانی طور پر ”‏مُردہ“‏ تھے۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۱-‏۳‏)‏ یہ اور اسی طرح کے دیگر بیانات یوحنا رسول کی اس بات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں:‏ ”‏ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا سے ہیں اور ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

۱۵.‏ مسیحی کلیسیا سے باہر کے اشخاص کے سلسلے میں،‏ ہم کیا نہیں کرتے اور کیوں نہیں کرتے؟‏

۱۵ تاہم،‏ یاد رکھیں کہ ایسے بیانات انفرادی اشخاص کے برعکس خدا سے بیگانہ عام دُنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ مسیحی پہلے ہی سے کسی شخص کی بابت رائے قائم نہیں کرتے کہ وہ منادی کے کام کے لئے کیسا ردِعمل دکھائے گا۔‏ ان کے پاس کسی شخص کو بکریوں میں شمار کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‏ ہم اس بات کا تعیّن کرنے کے مجاز نہیں کہ جب یسوع ”‏بھیڑوں“‏ کو ”‏بکریوں“‏ سے جُدا کرنے کے لئے آئیگا تو اسکا نتیجہ کیا ہوگا۔‏ (‏متی ۲۵:‏۳۱-‏۴۶‏)‏ مقررہ منصف یسوع ہے ہم نہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتہائی بدچلنی میں ملوث بعض لوگوں نے بھی بائبل کا پیغام قبول کرکے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی اور پاک‌صاف زندگی گزارنے والے مسیحی بن گئے۔‏ اگرچہ ہم بعض اشخاص کے ساتھ گہری رفاقت نہیں رکھنا چاہتے توبھی موقع ملنے پر اُن کے ساتھ بادشاہتی اُمید کی بابت بات کرنے میں پس‌وپیش نہیں کرتے۔‏ صحائف بعض ایسے اشخاص کا ذکر کرتے ہیں جو بےایمان ہونے کے باوجود،‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔‏“‏ وہ انجام‌کار ایماندار بن گئے۔‏ (‏اعمال ۱۳:‏۴۸‏)‏ اگر ہم بار بار گواہی نہیں دیتے تو ہم کبھی بھی یہ معلوم نہیں کر سکیں گے کہ کون ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کِیا گیا ہے۔‏ اس بات کے پیشِ‌نظر،‏ ہم نجات کا پیغام قبول نہ کرنے والوں کے ساتھ اس اُمید پر ”‏حلیمی“‏ اور ’‏گہرے احترام‘‏ سے پیش آتے ہیں کہ شاید ان میں سے بعض زندگی کے پیغام سے اثرپذیر ہونگے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۵؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

۱۶.‏ اپنے فنِ‌تعلیم کو فروغ دینے کی ایک وجہ کیا ہے؟‏

۱۶ اُستادوں کے طور پر مہارتیں پیدا کرنا خوشخبری سنانے کے سلسلے میں ہماری گرمجوشی کو بڑھائے گا۔‏ مثال کے طور پر:‏ ایک نہایت دلچسپ اور ہیجان‌خیز کھیل اس شخص کیلئے بالکل بیزارکُن ہوگا جو اسے کھیلنا نہیں جانتا۔‏ لیکن جو شخص اُسے اچھی طرح کھیلنا جانتا ہے اس کیلئے یہ بہت پُرلطف ہوگا۔‏ اسی طرح اپنے فنِ‌تعلیم کو فروغ دینے والے مسیحی اپنی خدمتگزاری سے زیادہ خوشی حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۲؛‏ ططس ۱:‏۹‏)‏ پولس نے تیمتھیس کو مشورہ دیا:‏ ”‏اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر جس کو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏)‏ ہم اپنی تعلیمی مہارتوں کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟‏

۱۷.‏ ہم بائبل علم کیلئے کیسے ”‏اشتیاق“‏ پیدا کر سکتے ہیں اور یہ علم ہماری خدمتگزاری میں کیسے مفید ثابت ہوگا؟‏

۱۷ ایک طریقہ اضافی صحیح علم حاصل کرنا ہے۔‏ پطرس رسول ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے:‏ ”‏نوزاد بچوں کی مانند خالص روحانی دُودھ کے مشتاق رہو تاکہ اُس کے ذریعہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے بڑھتے جاؤ۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲‏)‏ یہ ایک فطرتی امر ہے کہ ایک صحتمند بچہ دُودھ کا مشتاق رہتا ہے۔‏ تاہم،‏ ایک مسیحی کو بائبل علم کا ”‏مشتاق“‏ رہنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ اس کے لئے مطالعے اور پڑھائی کی اچھی عادات پیدا کرنا ضروری ہے۔‏ (‏امثال ۲:‏۱-‏۶‏)‏ اگر ہم خدا کے کلام کے ماہر اُستاد بننا چاہتے ہیں تو ہمیں کوشش اور ذاتی تربیت کرنی پڑیگی جو یقیناً بااجر ثابت ہوگی۔‏ خدا کے کلام کی تحقیق کرنے سے حاصل ہونے والی خوشی ہمیں خدا کی رُوح سے معمور کریگی جس سے ہمارے اندر سیکھی ہوئی باتیں دوسروں کو بھی سکھانے کا شوق پیدا ہوگا۔‏

۱۸.‏ مسیحی اجلاس حق کے کلام کو دُرستی سے کام میں لانے کے لئے کیسے ہمیں لیس کرتے ہیں؟‏

۱۸ مسیحی اجلاس بھی خدا کے کلام کے ماہرانہ استعمال میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‏ جب عوامی تقاریر اور دیگر صحیفائی مباحثوں کے دوران بائبل آیات پڑھی جاتی ہیں تو اپنی بائبل کھولکر ان آیات کو ساتھ ساتھ دیکھنا اچھا ہوتا ہے۔‏ اجلاس پر پیش کئے جانے والے حصوں اور بالخصوص ہماری منادی سے متعلق حصوں پر،‏ دھیان دینا دانشمندی کی بات ہوگی۔‏ ہمیں مظاہروں کو کبھی بھی کم اہم سمجھتے ہوئے،‏ انتشارِخیال کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔‏ اس ضمن میں بھی،‏ ذاتی تربیت کرنے اور پورا دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۶‏)‏ مسیحی اجلاس ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کے علاوہ خدا کے کلام کا اشتیاق پیدا کرنے میں ہماری مدد کرتے اور خوشخبری کے سرگرم مُناد بننے کیلئے ہماری تربیت کرتے ہیں۔‏

ہم یہوواہ کی حمایت پر بھروسا کر سکتے ہیں

۱۹.‏ منادی کے کام میں باقاعدہ شرکت کیوں ضروری ہے؟‏

۱۹ ‏”‏روحانی جوش سے بھرے“‏ اور خوشخبری سنانے کے مشتاق مسیحی اپنی خدمتگزاری میں باقاعدہ حصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ یہ بات سچ ہے کہ سب کے حالات فرق ہوتے ہیں اس لئے سب اس زندگی بچانے والے کام میں یکساں وقت صرف نہیں کر سکتے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ تاہم،‏ منادی کے کام میں صرف کئے جانے والے وقت کی کُل مقدار سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم کس حد تک باقاعدگی سے دوسروں کے ساتھ اپنی اُمید کی بابت گفتگو کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہم جتنی زیادہ منادی کریں گے،‏ اُتنی ہی زیادہ اس کام کی اہمیت کے لئے قدردانی ظاہر ہوگی۔‏ (‏رومیوں ۱۰:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جب ہم باقاعدگی کے ساتھ مخلص مگر رونے اور آہیں مارنے والے نااُمید لوگوں سے ملیں گے تو ہماری شفقت اور دردمندی میں اضافہ ہوگا۔‏—‏حزقی‌ایل ۹:‏۴؛‏ رومیوں ۸:‏۲۲‏۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ ہمیں ابھی کونسا کام کرنا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ ہماری کوششوں کی حمایت کیسے کرتا ہے؟‏

۲۰ یہوواہ نے ہمیں خوشخبری سونپی ہے۔‏ یہ پہلی تفویض ہے جو ہمیں اسکے ”‏ساتھ کام کرنے“‏ والوں کے طور پر حاصل ہوئی ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶-‏۹‏)‏ ہم اس خداداد ذمہ‌داری کو دل‌وجان یعنی اپنی پوری لیاقت سے سرانجام دینے کیلئے مستعد ہیں۔‏ (‏مرقس ۱۲:‏۳۰؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱‏)‏ دُنیا میں ابھی تک راست میلان رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں جو سچائی کے بھوکے ہیں۔‏ کام تو بہت زیادہ ہے لیکن ہم اپنی خدمت کو پورا کرنے کیلئے یہوواہ کی حمایت پر پورا بھروسا کر سکتے ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۵‏۔‏

۲۱ یہوواہ ہمیں نہ صرف اپنی رُوح بلکہ ”‏رُوح کی تلوار،‏“‏ اپنے کلام سے بھی لیس کرتا ہے۔‏ اسکی مدد کیساتھ ہم اپنے مُنہ سے ”‏خوشخبری کے بھید کو دلیری سے ظاہر“‏ کر سکتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ تھسلنیکے کے مسیحیوں کیلئے تحریرکردہ پولس رسول کی یہ بات ہمارے حق میں کہی جانی چاہئے:‏ ”‏ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طور پر پہنچی بلکہ قدرت اور رُوح‌اُلقدس اور پورے اعتقاد کیساتھ بھی۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ آئیے گرمجوشی سے خوشخبری سنائیں!‏

مختصر اعادہ

‏• زندگی کی پریشانیوں کی وجہ سے خدمتگزاری کیلئے ہمارے جوش کیساتھ کیا ہو سکتا ہے؟‏

‏• خوشخبری سنانے کی ہماری خواہش کو کس طرح ہمارے ”‏دل میں جلتی آگ کی مانند“‏ ہونا چاہئے؟‏

‏• ہمیں خدمتگزاری کی بابت کن منفی رُجحانات سے گریز کرنا چاہئے؟‏

‏• ہمیں عام طور پر ان لوگوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے جو ہمارے ہم‌ایمان نہیں ہیں؟‏

‏• یہوواہ منادی کے کام میں اپنا جوش برقرار رکھنے کیلئے کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویریں]‏

مسیحی یرمیاہ اور پولس کے جوش کی نقل کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

خدا اور پڑوسی کی محبت ہمیں گرمجوشی سے خدمت کرنے کی تحریک دیتی ہے