مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اذیت کے باعث انطاکیہ میں ترقی

اذیت کے باعث انطاکیہ میں ترقی

اذیت کے باعث انطاکیہ میں ترقی

ستفنس کی شہادت کے بعد اذیت کے شدت اختیار کر جانے کی وجہ سے یسوع کے بہتیرے شاگرد یروشلیم سے بھاگ گئے۔‏ جن علاقوں میں اُنہوں نے پناہ لی اُن میں سے ایک سوریہ انطاکیہ کا شہر تھا جو شمال میں تقریباً ۵۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔‏ (‏اعمال ۱۱:‏۱۹‏)‏ بعدازاں وہاں رونما ہونے والے واقعات نے مسیحی تاریخ کا رُخ بدل دیا۔‏ تاہم،‏ انطاکیہ کی بابت کچھ معلومات حاصل کرنے سے ہم بہتر طور پر سمجھ سکیں گے کہ وہاں کیا واقع ہوا تھا۔‏

رومی سلطنت میں وسعت،‏ خوشحالی اور اہمیت کے لحاظ سے صرف رومہ اور سکندریہ کو انطاکیہ پر فضیلت حاصل تھی۔‏ سوریہ کا یہ بڑا شہر بحیرۂروم کے شمال‌مشرقی خطے پر محیط تھا۔‏ انطاکیہ (‏اب جدید ترکی کا شہر)‏ جہازرانی کے لئے استعمال ہونے والے دریائےاورنٹے پر واقع تھا اور اسی کے ذریعے یہ ۳۲ کلومیٹر دُور اپنی بندرگاہ،‏ سلوکیہ پائریا سے جڑا ہوا تھا۔‏ یہ روم اور دجلہ‌وفرات کی وادی کے درمیان سب سے اہم تجارتی راستے پر قابض تھا۔‏ تجارتی مرکز ہونے کے باعث یہ پوری سلطنت سے کاروباری تعلقات رکھتا تھا اور یہاں ہر قسم کے لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا جو اپنے ساتھ تمام رومی دُنیا کی مختلف مذہبی تحریکوں کی خبریں لاتے تھے۔‏

انطاکیہ میں قدیم یونانی مذہب اور فلسفہ عروج پر تھا۔‏ تاہم،‏ مؤرخ گلان‌وِل ڈاؤنی کے مطابق ”‏مسیح کے زمانے میں لوگ اپنے مسائل اور خواہشات کے سلسلے میں مذہبی تسکین کی تلاش میں تھے جسکی وجہ سے قدیم مذہبی مَسلک اور فلسفے انفرادی اعتقاد کا معاملہ بن گئے۔‏“‏ ‏(‏اے ہسٹری آف اینٹیوک اِن سریا)‏ بہتیروں نے وحدانیت،‏ روایات اور یہودیت کے اُصولِ‌اخلاق سے تسکین حاصل کی۔‏

یہودیوں کی ایک بہت بڑی آبادی ۳۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں اس شہر کی نیو رکھی جانے کے وقت ہی سے یہاں رہ رہی تھی۔‏ تخمیناً انکی تعداد ۰۰۰،‏۲۰ سے ۰۰۰،‏۶۰ تھی جو کُل آبادی کے ۱۰ فیصد سے بھی زیادہ تھی۔‏ مؤرخ یوسیفس کہتا ہے کہ سلوکی خاندانِ‌سلاطین نے یہودیوں کو مکمل حقوقِ‌شہریت دیکر شہر میں بسنے کیلئے اُنکی حوصلہ‌افزائی کی تھی۔‏ اس وقت تک عبرانی صحائف یونانی زبان میں دستیاب تھے۔‏ اس چیز نے مسیحا سے متعلق یہودیوں کی توقعات کے لئے موافق نظریہ رکھنے والوں کی دلچسپی کو اُبھارا۔‏ لہٰذا،‏ یونانیوں میں سے بہتیرے نومرید بن گئے۔‏ ان تمام عناصر نے انطاکیہ کو مسیحی شاگرد بنانے کے لئے ایک زرخیز میدان بنا دیا۔‏

غیرقوموں میں منادی

اذیت کی وجہ سے یروشلیم سے پراگندہ ہونے والے بہتیرے مسیحی شاگردوں نے صرف یہودیوں میں اپنے ایمان کا پرچار کِیا۔‏ تاہم،‏ بعض کُپرسی اور کرینی شاگردوں نے انطاکیہ میں آکر ”‏یونانیوں“‏ سے بھی بات‌چیت کی۔‏ (‏اعمال ۱۱:‏۲۰‏)‏ اگرچہ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ سے یونانی زبان بولنے والے یہودیوں اور نومریدوں میں منادی ہو رہی تھی پھربھی انطاکیہ میں منادی کا کام کچھ نیا معلوم ہوتا تھا۔‏ یہ صرف یہودیوں تک محدود نہیں تھی۔‏ یہ سچ ہے کہ غیرقوم کرنیلیس اور اُسکا خاندان پہلے ہی شاگرد بن چکے تھے۔‏ تاہم،‏ پطرس رسول کو غیرقوموں میں منادی کی موزونیت کا یقین دلانے کیلئے یہوواہ کو اُسے ایک رویا دکھانی پڑی۔‏—‏اعمال ۱۰:‏۱-‏۴۸‏۔‏

یہودیوں کی ایک قدیم اور بڑی آبادی والے شہر میں جہاں یہودیوں اور غیرقوموں میں کوئی خاص دشمنی نہیں تھی غیریہودی خوشخبری سن کر اُس کیلئے موافق جوابی‌عمل دکھا رہے تھے۔‏ انطاکیہ میں بدیہی طور پر ایسی ترقی کیلئے سازگار ماحول تھا جسکی وجہ سے ’‏بہت سے لوگ ایمان لائے۔‏‘‏ (‏اعمال ۱۱:‏۲۱‏)‏ پس جب نومرید جھوٹے معبودوں کی پرستش چھوڑ کر مسیحی بنے تو وہ جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے والے دیگر غیرقوم لوگوں کو عمدہ طریقے سے گواہی دے سکتے تھے۔‏

انطاکیہ میں ترقی کی خبر سنکر یروشلیم کی کلیسیا نے برنباس کو تفتیش کیلئے وہاں بھیجا۔‏ برنباس کو وہاں بھیجنا ایک دانشمندانہ اور مشفقانہ اَمر تھا۔‏ غیریہودیوں میں منادی شروع کرنے والے بعض کُپرسی اشخاص کی طرح اُسکا تعلق بھی کُپرس سے تھا۔‏ وہ انطاکیہ کے غیرقوم لوگوں کیساتھ بآسانی گھل‌مِل سکتا تھا۔‏ اور وہ بھی اُسے اپنے جانےپہچانے علاقے کے ایک فرد کے طور پر قبول کر سکتے تھے۔‏ * وہ تمام کام کی ہمدردانہ حمایت کر سکتا تھا۔‏ لہٰذا،‏ ”‏وہ [‏وہاں]‏ پہنچ کر اور خدا کا فضل دیکھ کر خوش ہوا اور اُن سب کو نصیحت کی کہ دلی ارادہ سے خداوند سے لپٹے رہو“‏ اور ”‏بہت سے لوگ خداوند کی کلیسیا میں آ ملے۔‏“‏—‏اعمال ۱۱:‏۲۲-‏۲۴‏۔‏

مؤرخ ڈاؤنی بیان کرتا ہے:‏ ”‏انطاکیہ میں ابتدائی کامیابی کی عملی وجوہات یہ تھیں کہ یروشلیم کے برعکس یہاں مشنریوں کو متعصّب یہودیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا؛‏ اسکے علاوہ یہ شہر سوریہ کا دارالحکومت تھا جسکا انتظام‌وانصرام فوجی کمانڈر کے ہاتھ میں تھا اسلئے یہاں لوگ زیادہ منظم تھے اور کُھلے عام تشدد کے واقعات بھی کم تھے جبکہ یروشلیم میں ایسا نہیں تھا کیونکہ یہاں یہودیہ کے اہلکار (‏کم‌ازکم اُس وقت کے دوران)‏ متعصّب یہودیوں پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے تھے۔‏“‏

ان سازگار حالات میں جبکہ ابھی بہت کام باقی تھا برنباس نے سوچا کہ اُسے مدد کی ضرورت پڑیگی اور اسلئے اُسے اپنے دوست ساؤل کا خیال آیا۔‏ مگر ساؤل یا پولس ہی کیوں؟‏ بظاہر اسلئے کہ ۱۲ رسولوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود پولس کو سب قوموں کیلئے رسالت ملی تھی۔‏ (‏اعمال ۹:‏۱۵،‏ ۲۷؛‏ رومیوں ۱:‏۵؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۱۴‏)‏ لہٰذا،‏ پولس برنباس کیساتھ غیرقوموں کے شہر انطاکیہ میں خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے موزوں انتخاب تھا۔‏ (‏گلتیوں ۱:‏۱۶‏)‏ لہٰذا،‏ برنباس ترسس چلا گیا اور ساؤل کو تلاش کر کے انطاکیہ لے آیا۔‏—‏اعمال ۱۱:‏۲۵،‏ ۲۶‏؛‏ صفحہ ۲۶-‏۲۷ پر بکس دیکھیں۔‏

الہٰی فضل سے مسیحی کہلائے

پورے ایک سال تک برنباس اور پولس ”‏بہت سے لوگوں کو تعلیم دیتے رہے اور شاگرد پہلے اؔنطاکیہ ہی میں مسیحی کہلائے۔‏“‏ یہ بات غیرمتوقع ہے کہ یسوع کے شاگردوں کو پہلے مسیحی (‏یونانی)‏ یا مسیحائی (‏عبرانی)‏ کہنے والے یہودی تھے کیونکہ وہ تو یسوع کو مسیحا یا مسیح کے طور پر ردّ کر چکے تھے،‏ لہٰذا وہ اسکے شاگردوں کو مسیحی کہنے سے یہ حقیقت کیسے تسلیم کر سکتے تھے۔‏ بعض کا خیال ہے کہ بُت‌پرست لوگوں نے اُنہیں تحقیر کا نشانہ بنانے یا اُنکا تمسخر اُڑانے کیلئے مسیحیوں کا لقب دیا ہوگا۔‏ تاہم،‏ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ نام مسیحی خدا کی طرف سے دیا گیا تھا۔‏—‏اعمال ۱۱:‏۲۶‏۔‏

مسیحی یونانی صحائف میں اس نئے نام کیلئے جو فعل استعمال کِیا گیا،‏ عموماً جسکا ترجمہ ”‏کہلائے“‏ کِیا جاتا ہے،‏ ہمیشہ کسی مافوق‌الفطرت،‏ الہامی یا الہٰی چیز سے منسلک ہوتا ہے۔‏ محقق اسے ‏”‏الہامی راہنمائی،‏“‏ ”‏الہٰی ماخذ“‏ یا ”‏خدائی حکم یا نصیحت یا آسمان سے تعلیم دینا“‏ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔‏ چونکہ یسوع کے شاگرد ’‏الہٰی فضل‘‏ سے مسیحی کہلائے اسلئے ممکن ہے کہ یہوواہ نے اس نام کا انتخاب کرنے میں ساؤل اور برنباس کی راہنمائی کی ہو۔‏

یہ نیا نام قائم رہا۔‏ یسوع کے شاگردوں کو غلطی سے بھی کسی یہودی فرقے سے جوڑا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ وہ اُن سے بالکل مختلف تھے۔‏ تقریباً ۵۸ س.‏ع.‏ تک رومی اہلکار مسیحیوں سے اچھی طرح واقف ہو گئے تھے۔‏ (‏اعمال۲۶:‏۲۸)‏ مؤرخ تستُس کے مطابق ۶۴ س.‏ع.‏ تک رومی عوام میں بھی یہ نام عام ہو گیا تھا۔‏

یہوواہ اپنے وفادار بندوں کو استعمال کرتا ہے

انطاکیہ میں خوشخبری کو بہت زیادہ فروغ ملا۔‏ یہوواہ کی برکت اور یسوع کے پیروکاروں کے منادی کے عزم نے انطاکیہ کو پہلی صدی میں مسیحیت کا مرکز بنا دیا۔‏ خدا نے یہاں کی کلیسیا کو دُوراُفتادہ علاقوں میں خوشخبری پھیلانے کے لئے محور کے طور پر استعمال کِیا۔‏ مثال کے طور پر،‏ پولس رسول اپنے ہر اہم مشنری دورے کے لئے انطاکیہ سے روانہ ہوا تھا۔‏

اسی طرح زمانۂ‌جدید میں بھی مخالفت کے باوجود پُختہ عزم اور جوش نے سچی مسیحیت کو فروغ دیا اور بہتیروں کے لئے خوشخبری سننا اور اُس کے لئے قدر ظاہر کرنا ممکن بنایا ہے۔‏ * لہٰذا،‏ اگر آپ سچی پرستش کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ یہوواہ نے خاص وجوہات کی بِنا پر اس کی اجازت دے رکھی ہے۔‏ پہلی صدی کی طرح آجکل بھی لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی بابت سننے اور اس کی خاطر مثبت مؤقف اختیار کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔‏ وفاداری سے یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کے لئے آپ کا عزم ہی سچائی کا صحیح علم حاصل کرنے میں کسی کی مدد کرنے کے لئے ضروری ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 ایک شفاف دن پر انطاکیہ کے جنوب‌مغرب میں واقع کوہِ‌کاسیس سے کُپرس کا جزیرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔‏

^ پیراگراف 18 دیکھیں دی واچ‌ٹاور،‏ اگست ۱،‏ ۱۹۹۹،‏ صفحہ ۹؛‏ اویک!‏،‏ اپریل ۲۲،‏ ۱۹۹۹،‏ صفحہ ۲۱،‏ ۲۲؛‏ ۱۹۹۹ ائیربُک آف جیہوواز وِٹنسز،‏ صفحہ ۲۵۰-‏۲۵۲۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶،‏ ۲۷ پر بکس/‏تصویریں]‏

ساؤل کی زندگی کا ”‏نامعلوم عرصہ“‏

اعمال کی کتاب میں ساؤل کا آخری بار ذکر تقریباً ۴۵ س.‏ع.‏ میں اُسکے انطاکیہ جانے سے پہلے آتا ہے جب یروشلیم میں اُسے قتل کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا اور ساتھی ایمانداروں نے اُسے ترسس بھیج دیا تھا۔‏ (‏اعمال ۹:‏۲۸-‏۳۰؛‏ ۱۱:‏۲۵‏)‏ تاہم،‏ یہ واقعہ نو سال پہلے،‏ تقریباً ۳۶ س.‏ع.‏ میں پیش آیا۔‏ اس وقت کے دوران اُس نے کیا کِیا جسے ساؤل کی زندگی کا نامعلوم عرصہ قرار دیا گیا ہے؟‏

یروشلیم سے ساؤل سوریہ اور کِلکیہ کے علاقوں میں گیا اور یہودیہ کی کلیسیایوں نے اُسکی بابت یہ سنا:‏ ”‏جو ہم کو پہلے ستاتا تھا وہ اب اُسی دین کی خوشخبری دیتا ہے جسے پہلے تباہ کرتا تھا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۱:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ ہو سکتا ہے کہ یہ خبر انطاکیہ میں برنباس کیساتھ اُسکی کارگزاری کی وجہ سے مشہور ہوئی ہو مگر بلاشُبہ اس سے پہلے بھی ساؤل نے اپنا کام جاری رکھا تھا۔‏ سوریہ اور کِلکیہ میں ۴۹ س.‏ع.‏ تک کئی کلیسیائیں قائم ہو چکی تھیں۔‏ ان میں سے ایک کلیسیا انطاکیہ میں تھی مگر بعض کا یہ خیال ہے کہ دوسری کلیسیائیں اُسی وقت کے دوران قائم ہوئیں جسے ساؤل کی زندگی کا نامعلوم عرصہ سمجھا جاتا ہے۔‏—‏اعمال ۱۱:‏۲۶؛‏ ۱۵:‏۲۳،‏ ۱۴‏۔‏

بعض محقق یہ یقین رکھتے ہیں کہ ساؤل کی زندگی کے ڈرامائی واقعات اسی وقت کے دوران پیش آئے تھے۔‏ اگر ایسا نہ ہو تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ’‏مسیح کے خادم‘‏ کے طور پر جن مشکلات کا اُس نے تجربہ کِیا وہ اس کی مشنری زندگی میں کب پیش آئی تھیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۳-‏۲۷‏)‏ ساؤل نے یہودیوں سے پانچ بار ۳۹ کوڑے کب کھائے؟‏ جب اسے تین بار بینت لگائے گئے تو وہ کہاں تھا؟‏ وہ ’‏زیادہ‘‏ قید میں کہاں رہا؟‏ روم میں تو اُسے بعد میں قید کِیا گیا تھا۔‏ ہم صرف اس سرگزشت کی بابت جانتے ہیں جب ایک بار اُسے فلپی میں بینت لگا کر قیدخانہ میں ڈالا گیا۔‏ تاہم،‏ دیگر کی بابت کیا ہے؟‏ (‏اعمال ۱۶:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ ایک مصنف بیان کرتا ہے کہ اس وقت کے دوران ساؤل ”‏یہودی آبادیوں کے عبادتخانوں میں مسیح کی بابت اس طرح گواہی دے رہا تھا کہ وہ مذہبی راہنماؤں اور حکمرانوں دونوں کی طرف سے اذیت کا نشانہ بنا۔‏“‏

ساؤل نے چار مرتبہ جہاز کی تباہی کا تجربہ کِیا مگر صحائف صرف ایسے ایک واقعہ کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں جو اُس کے کرنتھیوں کو اپنی مشکلات کی بابت لکھنے کے بعد پیش آیا تھا۔‏ (‏اعمال ۲۷:‏۲۷-‏۴۴‏)‏ لہٰذا،‏ ممکن ہے کہ دوسرے تین تجربات اُن بحری سفروں کے دوران پیش آئے ہوں جنکی بابت ہم کچھ نہیں جانتے۔‏ ان واقعات میں سے کوئی ایک یا یہ سبھی ”‏نامعلوم عرصہ“‏ کے دوران وقوع میں آئے ہونگے!‏

ایک اَور واقعہ جسکا بیان ۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۲-‏۵ میں ملتا ہے اسی وقت کے دوران پیش آیا ہوگا۔‏ ساؤل نے کہا:‏ ’‏مَیں مسیح میں ایک شخص کو جانتا ہوں چودہ برس ہوئے کہ وہ یکایک تیسرے آسمان تک اُٹھا لیا گیا،‏ اور فردوس میں پہنچ کر ایسی باتیں سنیں جو کہنے کی نہیں اور جنکا کہنا آدمی کو روا نہیں۔‏‘‏ بدیہی طور پر ساؤل اپنے بارے میں بات کر رہا تھا۔‏ اُس نے یہ تقریباً ۵۵ س.‏ع.‏ میں لکھا،‏ لہٰذا اس سے پہلے کے ۱۴ سال ہمیں ۴۱ س.‏ع.‏ یعنی اُسکی زندگی کے ”‏نامعلوم عرصہ“‏ کے وسط میں لے جاتے ہیں۔‏

بلاشُبہ اس رویا نے ساؤل کو خاص بصیرت بخشی۔‏ کیا اسکا مقصد اُسے ”‏غیرقوموں کا رسول“‏ بننے کیلئے تیار کرنا تھا؟‏ (‏رومیوں ۱۱:‏۱۳‏)‏ کیا بعدازاں اس سے اُسکی سوچ،‏ تحریر اور گفتگو اثرانداز ہوئی تھی؟‏ کیا ساؤل کے ایمان لانے اور انطاکیہ بھیجے جانے کے درمیان کے سالوں نے اُسے مستقبل کی ذمہ‌داریوں کیلئے پُختہ بنانے اور تربیت دینے کا کام انجام دیا تھا؟‏ ان سوالوں کے جواب خواہ کچھ بھی ہوں،‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب برنباس نے اُسے انطاکیہ میں منادی کے کام کی پیشوائی میں مدد کی دعوت دی تو پُرجوش پولس مکمل طور پر اس تفویض کو پورا کرنے کے قابل تھا۔‏—‏اعمال ۱۱:‏۱۹-‏۲۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

سوریہ

اورنٹے

انطاکیہ

سلوکیہ

کُپرس

بحیرۂروم

یروشلیم

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۴۲ پر تصویریں]‏

اُوپر:‏ جدید انطاکیہ

درمیان میں:‏ سلوکیہ کا جنوبی منظر

نیچے:‏ سلوکیہ کی بندرگاہ کی دیوار