مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اُمیدِقیامت یقینی ہے!‏

اُمیدِقیامت یقینی ہے!‏

اُمیدِقیامت یقینی ہے!‏

‏”‏خدا سے اُسی بات کی اُمید رکھتا ہوں .‏ .‏ .‏ کہ .‏ .‏ .‏ قیامت ہوگی۔‏“‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

۱.‏ ہم قیامت پر کیوں اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

یہوواہ نے ہمیں قیامت پر اُمید رکھنے کی ٹھوس وجوہات فراہم کی ہیں۔‏ ہمارے ساتھ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ مُردے پھر سے اُٹھ کھڑے ہونگے یا زندہ ہو جائینگے۔‏ لہٰذا،‏ موت کی نیند سوئے ہوئے اشخاص کے سلسلے میں اس کا مقصد یقیناً پورا ہوگا۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۱؛‏ لوقا ۱۸:‏۲۷‏)‏ درحقیقت،‏ خدا پہلے ہی سے مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت کا مظاہرہ کر چکا ہے۔‏

۲.‏ اُمیدِقیامت ہمیں کیسے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟‏

۲ اپنے بیٹے یسوع مسیح کے ذریعے مُردوں کو زندہ کرنے کے خدا کے بندوبست پر ایمان،‏ ہمیں مشکل وقت میں سنبھال سکتا ہے۔‏ اُمیدِقیامت اسقدر یقینی ہے کہ یہ موت تک اپنے آسمانی باپ کیلئے راستی برقرار رکھنے میں بھی ہماری مدد کر سکتی ہے۔‏ واقعی،‏ بائبل میں ایسے مختلف اشخاص کی بابت پڑھنے سے جنکی زندگی بحال کر دی گئی تھی قیامت پر ہماری اُمید پُختہ ہو جاتی ہے۔‏ یہ تمام معجزات حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ کی قدرت سے کئے گئے تھے۔‏

اُنہوں نے اپنے مُردوں کو پھر زندہ پایا

۳.‏ جب صارپت کی بیوہ کا بیٹا مر گیا تو ایلیاہ کو کیا کرنے کی قوت عطا کی گئی؟‏

۳ پولس رسول نے مسیحیت سے قبل یہوواہ کے گواہوں کے ظاہرکردہ ایمان کا ہیجان‌خیز جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏عورتوں نے اپنے مُردوں کو پھر زندہ پایا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۵؛‏ ۱۲:‏۱‏)‏ ان میں سے ایک عورت صارپت کے فینیکی قصبے کی غریب بیوہ تھی۔‏ خدا کے نبی ایلیاہ کے لئے مہمان‌نوازی دکھانے کی وجہ سے قحط کے دوران معجزانہ طور پر اس کے آٹے اور تیل میں کمی واقع نہ ہوئی ورنہ اس قحط سے اس کی اور اس کے بیٹے کی جان جا سکتی تھی۔‏ جب اس کا بیٹا بعدازاں مر گیا تو ایلیاہ نے اُسے پلنگ پر لٹایا،‏ دُعا کی اور اس لڑکے پر خود کو تین بار پسار کر التجا کی:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ میرے خدا مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ اس لڑکے کی جان اس میں پھر آ جائے۔‏“‏ خدا نے واقعی اس لڑکے کی جان یا زندگی اس میں پھر ڈال دی۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۸-‏۲۴‏)‏ اُس بیوہ کی خوشی کا ذرا تصور کریں جسے اپنے ایمان کا اجر اپنے بیٹے کی قیامت کی صورت میں ملا جو تحریر میں آنے والی پہلی قیامت ہے!‏

۴.‏ الیشع نے شونیم میں کونسا معجزہ کِیا؟‏

۴ ایک اَور عورت جس نے اپنے مُردے کو پھر زندہ پایا شونیم کے قصبے میں رہتی تھی۔‏ وہ ایک عمررسیدہ آدمی کی بیوی تھی،‏ اُس نے الیشع نبی اور اس کے خادم کے لئے مہربانی دکھائی تھی۔‏ اسے ایک بیٹا بخشا گیا تھا۔‏ تاہم،‏ کئی سال بعد،‏ اس نے نبی کو بلایا جس نے وہاں آکر دیکھا کہ لڑکا مر چکا ہے۔‏ جب الیشع نے دُعا کی اور مخصوص اقدام کئے تو ”‏اُس بچے کا جسم گرم ہونے لگا۔‏“‏ وہ ”‏سات بار چھینکا اور بچے نے آنکھیں کھول دیں۔‏“‏ اس قیامت نے یقیناً ماں اور بیٹے دونوں کو بہت زیادہ خوشی بخشی ہوگی۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۴:‏۸-‏۳۷؛‏ ۸:‏۱-‏۶‏)‏ لیکن وہ اس وقت کتنے خوش ہونگے جب وہ ”‏بہتر قیامت“‏—‏ایسی قیامت جس کے باعث اُنہیں پھر کبھی نہ مرنے کا امکان حاصل ہوگا—‏میں زمین پر دوبارہ زندہ کئے جائینگے!‏ قیامت بخشنے والے پُرمحبت خدا،‏ یہوواہ کیلئے شکرگزاری کی کیا ہی شاندار وجہ!‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۵‏۔‏

۵.‏ الیشع اپنی موت کے بعد بھی کیسے ایک معجزے کا سبب بنا تھا؟‏

۵ الیشع کی موت اور تدفین کے بعد،‏ خدا نے اس کی ہڈیوں کو رُوح‌اُلقدس کے ذریعے طاقتور بنا دیا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏ایسا ہوا کہ جب [‏کچھ اسرائیلی]‏ ایک آدمی کو دفن کر رہے تھے تو اُنکو ایک [‏موآبی]‏ جتھا نظر آیا۔‏ سو اُنہوں نے اُس شخص کو الیشعؔ کی قبر میں ڈال دیا اور وہ [‏مُردہ]‏ شخص الیشعؔ کی ہڈیوں سے ٹکراتے ہی جی اُٹھا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۳:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یہ آدمی کتنا حیران اور خوش ہوا ہوگا!‏ ذرا تصور کریں کہ جب ہمارے عزیز یہوواہ خدا کے لازوال مقصد کے مطابق پھر جی اُٹھینگے تو کتنی خوشی کا سماں ہوگا!‏

خدا کے بیٹے نے مُردوں کو زندہ کِیا

۶.‏ یسوع نے نائین شہر کے قریب کونسا معجزہ کِیا اور یہ واقعہ ہم پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟‏

۶ خدا کے بیٹے،‏ یسوع مسیح نے ہمیں یہ اعتقاد رکھنے کی ٹھوس وجوہات دی ہیں کہ مُردہ اشخاص کو ہمیشہ کی زندگی کے امکان کیساتھ زندہ کِیا جا سکتا ہے۔‏ نائین شہر کے قریب رُونما ہونے والا واقعہ اس بات پر غور کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے کہ ایسا معجزہ خداداد قدرت کے ذریعے ممکن ہے۔‏ اس موقع پر،‏ یسوع ماتم کرنے والوں سے ملتا ہے جو ایک جوان آدمی کی لاش کو دفن کرنے کیلئے شہر سے باہر لے جا رہے تھے۔‏ وہ ایک بیوہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔‏ یسوع نے اس بیوہ سے کہا:‏ ”‏مت رو۔‏“‏ پھر اُس نے جنازہ کو چُھوا اور کہا:‏ ”‏اَے جوان مَیں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔‏“‏ اس پر وہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا۔‏ (‏لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۵‏)‏ یہ معجزہ بِلاشُبہ ہمارے اس اعتقاد کو تقویت بخشتا ہے کہ اُمیدِقیامت یقینی ہے۔‏

۷.‏ یائیر کی بیٹی کے سلسلے میں کیا واقع ہوا تھا؟‏

۷ ذرا کفرنحوم کے عبادتخانہ کے سردار،‏ یائیر کے واقعہ پر بھی غور کریں۔‏ اُس نے یسوع سے درخواست کی کہ وہ اس کی ۱۲ سالہ پیاری بیٹی کی مدد کرنے کو آئے جو قریب‌المرگ تھی۔‏ جلد ہی یہ اطلاع ملی کہ لڑکی مر گئی ہے۔‏ غمزدہ یائیر کو ایمان رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے یسوع اس کے ساتھ اُس کے گھر گیا جہاں سب لوگ روپیٹ رہے تھے۔‏ جب یسوع نے انہیں کہا کہ ”‏لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے“‏ تو وہ ہنسنے لگے۔‏ وہ واقعی مر گئی تھی لیکن یسوع ان پر یہ ظاہر کرنے والا تھا کہ جسطرح لوگوں کو گہری نیند سے جگانا ممکن ہے ویسے ہی اُنہیں دوبارہ زندہ بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اُس نے کہا:‏ ”‏اَے لڑکی مَیں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔‏“‏ وہ فوراً اُٹھ بیٹھی اور ”‏اُسکے ماں باپ حیران“‏ اور بہت خوش ہوئے۔‏ (‏مرقس ۵:‏۳۵-‏۴۳؛‏ لوقا ۸:‏۴۹-‏۵۶‏)‏ بِلاشُبہ،‏ جب مُتوَفّی عزیز فردوسی زمین پر زندہ کئے جائینگے تو اُن کے خاندان کے افراد ضرور ”‏حیران“‏ ہونگے۔‏

۸.‏ لعزر کی قبر پر یسوع نے کیا کِیا؟‏

۸ جب یسوع نے لعزر کی قبر پر آکر اُس کے سامنے سے پتھر ہٹوایا تو اُس وقت تک اُسے مرے ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔‏ یسوع نے سب لوگوں کے سامنے دُعا کی تاکہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ وہ یہ تمام کام خدا کی قدرت سے کرتا ہے اور پھر بلند آواز سے کہا:‏ ”‏اَے لعزؔر نکل آ۔‏“‏ اور وہ باہر نکل آیا!‏ اس کے ہاتھ اور پاؤں ابھی تک کفن سے بندھے ہوئے تھے اور اسکا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏اسے کھول کر جانے دو۔‏“‏ لعزر کی بہن مریم اور مارتھا کو تسلی دینے کیلئے آئے ہوئے لوگوں میں سے بیشتر اس معجزے کو دیکھکر یسوع پر ایمان لے آئے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۱-‏۴۵‏)‏ کیا یہ سرگزشت آپ کو اس اُمید سے معمور نہیں کر دیتی کہ آپ کے عزیزوں کو بھی خدا کی نئی دُنیا میں زندہ کر دیا جائیگا؟‏

۹.‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوع اس وقت مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے؟‏

۹ جب یوحنا بپتسمہ دینے والا قیدخانہ میں تھا تو یسوع نے اُسے یہ حوصلہ‌افزا پیغام بھیجا:‏ ”‏اندھے دیکھتے .‏ .‏ .‏ ہیں اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۱۱:‏۴-‏۶‏)‏ چونکہ یسوع نے زمین پر رہتے ہوئے مُردوں کو زندہ کِیا تھا اس لئے وہ قوی روحانی مخلوق کے طور پر بھی خدا کی طرف سے حاصل‌کردہ طاقت سے ایسا ضرور کر سکتا ہے۔‏ یسوع ”‏قیامت اور زندگی“‏ ہے اور یہ جاننا کتنی تسلی‌بخش بات ہے کہ مستقبل قریب میں ”‏جتنے قبروں میں ہیں اُسکی آواز سنکر نکلینگے۔‏“‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ ۱۱:‏۲۵‏۔‏

ہماری اُمید کو مضبوط کرنے والی دیگر قیامتیں

۱۰.‏ ایک رسول کے ذریعے انجام دی جانے والی پہلی قیامت کو آپ کیسے بیان کریں گے؟‏

۱۰ جب یسوع نے اپنے رسولوں کو بادشاہتی منادوں کے طور پر بھیجا تو اس نے کہا:‏ ”‏مُردوں کو جلانا۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۵-‏۸‏)‏ ایسا کرنے کیلئے،‏ انہیں خدا کی قدرت پر مکمل اعتماد رکھنا تھا۔‏ ۳۶ س.‏ع.‏ میں یافا میں ایک خداپرست عورت ہرنی (‏تبیتا)‏ وفات پا گئی۔‏ وہ ایک نیک عورت تھی اور ضرورتمند بیواؤں کو کپڑے بنا کر دیا کرتی تھی جو اب اس کی موت پر بہت ماتم کر رہی تھیں۔‏ شاگردوں نے اس کو دفن کرنے کی تیاری کی اور پطرس کو بلوا بھیجا تاکہ آکر سب کو تسلی دے۔‏ (‏اعمال ۹:‏۳۲-‏۳۸‏)‏ اس نے سب کو بالاخانہ سے باہر کر دیا،‏ دُعا کی اور کہا:‏ ”‏اَے تبیتاؔ اُٹھ!‏“‏ وہ اپنی آنکھیں کھول کر اُٹھ بیٹھی اور پطرس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھایا۔‏ ایک رسول کے ذریعے انجام دی جانے والی یہ پہلی قیامت بہتیروں کیلئے ایمان لانے کا باعث بنی۔‏ (‏اعمال ۹:‏۳۹-‏۴۲‏)‏ یہ ہمیں بھی قیامت پر اُمید رکھنے کی اضافی وجہ فراہم کرتی ہے۔‏

۱۱.‏ بائبل ریکارڈ کی آخری قیامت کونسی تھی؟‏

۱۱ بائبل ریکارڈ کی آخری قیامت تروآس میں رُونما ہوئی۔‏ جب پولس اپنے تیسرے مشنری دورے پر وہاں رُکا تو آدھی رات تک کلام کرتا رہا۔‏ تھکاوٹ اور شاید بہت سارے چراغوں کی حرارت اور اس اجلاس کی جگہ پر بہت زیادہ ہجوم کی وجہ سے یوتخس نامی ایک نوجوان شخص سو گیا اور تیسری منزل کی کھڑکی سے گِر پڑا۔‏ جب نیچے آکر اسے ”‏اُٹھایا گیا“‏ تو وہ بیہوش نہیں بلکہ ”‏مُردہ تھا۔‏“‏ پولس نے یوتخس سے لپٹ کر اُسے گلے لگا لیا اور آس‌پاس کھڑے لوگوں سے کہا:‏ ”‏گھبراؤ نہیں۔‏ اس میں جان ہے۔‏“‏ پولس کا مطلب تھا کہ اس جوان آدمی کی زندگی بحال کر دی گئی ہے۔‏ اس سے وہاں موجود اشخاص کی ”‏بڑی خاطر جمع ہوئی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۷-‏۱۲‏)‏ آجکل خدا کے خادم اس علم سے بہت زیادہ تسلی حاصل کرتے ہیں کہ خدا کی خدمت میں انکے سابقہ ساتھی اُمیدِقیامت کی تکمیل کا تجربہ کریں گے۔‏

قیامت—‏ایک دیرینہ اُمید

۱۲.‏ رومی حاکم فیلکس کے سامنے پولس نے کس یقین کا اظہار کِیا تھا؟‏

۱۲ رومی حاکم فیلکس کے سامنے اپنے مقدمے کے وقت پولس نے تصدیق کی:‏ ”‏جو کچھ توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے اُس سب پر میرا ایمان ہے۔‏ اور خدا سے اُسی بات کی اُمید رکھتا ہوں .‏ .‏ .‏ کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ ”‏توریت“‏ جیسے خدا کے کلام کے حصے کیسے مُردوں کے جی اُٹھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟‏

۱۳.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے پہلی پیشینگوئی کرتے وقت قیامت کا اشارہ دیا تھا؟‏

۱۳ خدا نے عدن میں پہلی پیشینگوئی کرتے ہوئے خود قیامت کا اشارہ دیا تھا۔‏ ”‏پرانے سانپ،‏“‏ ابلیس اور شیطان کو سزا دیتے وقت خدا نے کہا:‏ ”‏مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔‏ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹؛‏ پیدایش ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ عورت کی نسل کی ایڑی پر کاٹنے کا مطلب یسوع مسیح کو قتل کرنا تھا۔‏ اب اگر اس کے بعد اس نسل نے سانپ کے سر کو کچلنا تھا توپھر مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا ضروری تھا۔‏

۱۴.‏ یہوواہ کیسے ”‏مُردوں کا خدا نہیں بلکہ زندوں کا ہے“‏؟‏

۱۴ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏مُردے جی اُٹھتے ہیں موسیٰؔ نے بھی جھاڑی کے ذکر میں ظاہر کِیا ہے۔‏ چنانچہ وہ [‏یہوواہ]‏ کو اؔبرہام کا خدا اور اضحاؔق کا خدا اور یعقوؔب کا خدا کہتا ہے۔‏ لیکن خدا مُردوں کا خدا نہیں بلکہ زندوں کا ہے کیونکہ اُسکے نزدیک سب زندہ ہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۲۰:‏۲۷،‏ ۳۷،‏ ۳۸؛‏ خروج ۳:‏۶‏)‏ ابرہام،‏ اضحاق اور یعقوب مر چکے تھے مگر ان کو زندہ کرنے کے خدائی مقصد کی تکمیل اس قدر یقینی ہے کہ وہ اُس کے نزدیک زندہ تھے۔‏

۱۵.‏ ابرہام کے پاس قیامت پر اُمید رکھنے کی وجہ کیوں تھی؟‏

۱۵ ابرہام کے پاس بھی قیامت پر اُمید رکھنے کی ٹھوس وجہ تھی کیونکہ جب وہ اور اسکی بیوی،‏ سارہ بہت بوڑھے اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کے سلسلے میں مُردہ تھے تو خدا نے معجزانہ طور پر انکی افزائشِ‌نسل کی قوتوں کو بحال کر دیا۔‏ یہ قیامت کی مانند تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۹-‏۱۱؛‏ ۲۱:‏۱-‏۳؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ جب انکا بیٹا،‏ اضحاق،‏ تقریباً ۲۵ برس کا تھا تو خدا نے ابرہام کو اُسے قربان کرنے کا حکم دیا۔‏ تاہم،‏ جب ابرہام اضحاق کو قربان کرنے لگا تو یہوواہ کے فرشتے نے اُسکا ہاتھ روک دیا۔‏ ابرہام ”‏سمجھا کہ خدا [‏اضحاق کو]‏ مُردوں میں سے جلانے پر بھی قادر ہے چُنانچہ ان ہی میں سے تمثیل کے طور پر وہ اُسے پھر ملا۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۷-‏۱۹؛‏ پیدایش ۲۲:‏۱-‏۱۸‏۔‏

۱۶.‏ ابرہام اس وقت موت کی نیند میں کس بات کا منتظر ہے؟‏

۱۶ ابرہام موعودہ نسل،‏ مسیحا کی زیرِحکومت قیامت پر اُمید رکھتا تھا۔‏ انسان بننے سے قبل اپنے بلندوبالا مقام سے خدا کے بیٹے نے ابرہام کے ایمان کو دیکھا تھا۔‏ لہٰذا،‏ بحیثیتِ‌انسان یسوع مسیح نے یہودیوں کو بتایا:‏ ”‏تمہارا باپ اؔبرہام میرا دن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۵۶-‏۵۸؛‏ امثال ۸:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ ابرہام اس وقت موت کی نیند سو رہا ہے اور خدا کی مسیحائی بادشاہت کے تحت زمین پر زندگی کی قیامت کا منتظر ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۸-‏۱۰،‏ ۱۳‏۔‏

توریت اور زبور سے شہادت

۱۷.‏ ”‏جو کچھ توریت .‏ .‏ .‏ میں لکھا ہے“‏ اُس نے یسوع کی قیامت کی طرف کیسے اشارہ کِیا تھا؟‏

۱۷ قیامت پر پولس کی اُمید ”‏جو کچھ توریت .‏ .‏ .‏ میں لکھا ہے“‏ اسکے مطابق تھی۔‏ خدا نے اسرائیلیوں کو بتایا:‏ ”‏تم اپنی فصل کے پہلے پھلوں کا ایک پولا کاہن کے پاس لانا۔‏ اور [‏۱۶ نیسان پر]‏ وہ اُسے [‏یہوواہ]‏ کے حضور ہلائے تاکہ وہ تمہاری طرف سے قبول ہو۔‏“‏ (‏احبار ۲۳:‏۹-‏۱۴‏)‏ شاید شریعت کے اسی اصول کے پیشِ‌نظر پولس نے لکھا:‏ ”‏مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں اُن میں پہلا پھل ہؤا۔‏“‏ ”‏پہلے پھل“‏ کے طور پر یسوع ۱۶ نیسان،‏ ۳۳ س.‏ع.‏ کو جی اُٹھا۔‏ بعدازاں،‏ اس کی موجودگی کے دوران،‏ ’‏باقی پھلوں‘‏—‏رُوح سے مسح‌شُدہ اسکے پیروکاروں—‏کی قیامت ہونی تھی۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۰-‏۲۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۲۰،‏ ۲۷‏۔‏

۱۸.‏ پطرس نے کیسے ظاہر کِیا کہ یسوع کی قیامت کی پیشینگوئی زبور میں کی گئی تھی؟‏

۱۸ زبور بھی قیامت کی حمایت کرتے ہیں۔‏ ۳۳ س.‏ع.‏ پنتِکُست پر پطرس رسول نے زبور ۱۶:‏۸-‏۱۱ کا یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا:‏ ”‏داؔؤد [‏مسیح]‏ کے حق میں کہتا ہے کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا رہا۔‏ کیونکہ وہ میری دہنی طرف ہے تاکہ مجھے جنبش نہ ہو۔‏ اِسی سبب سے میرا دل خوش ہوا اور میری زبان شاد بلکہ میرا جسم بھی اُمید میں بسا رہیگا۔‏ اسلئےکہ تُو میری جان کو عالمِ‌ارواح میں نہ چھوڑیگا اور نہ اپنے مُقدس کے سڑنے کی نوبت پہنچنے دیگا۔‏“‏ پطرس نے مزید کہا:‏ ”‏[‏داؤد]‏ نے پیشینگوئی کے طور پر مسیح کے جی اُٹھنے کا ذکر کِیا کہ نہ وہ عالمِ‌ارواح میں چھوڑا گیا نہ اُس کے جسم کے سڑنے کی نوبت پہنچی۔‏ اِسی یسوؔع کو خدا نے جلایا۔‏“‏—‏اعمال ۲:‏۲۵-‏۳۲‏۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ پطرس نے زبور ۱۱۸:‏۲۲ سے اقتباس کب استعمال کِیا اور اسے یسوع کی موت اور قیامت کیساتھ کیسے منسلک کِیا گیا؟‏

۱۹ کچھ دن بعد،‏ پطرس نے صدر عدالت کے سامنے دوبارہ زبور میں سے حوالہ پیش کِیا۔‏ جب پطرس سے یہ پوچھا گیا کہ اُس نے لنگڑے بھکاری کو شفا کیسے دی تو اُس نے کہا:‏ ”‏تم سب اور اؔسرائیل کی ساری اُمت کو معلوم ہو کہ یسوؔع مسیح ناصری جسکو تم نے مصلوب کِیا اور خدا نے مُردوں میں سے جِلایا اُسی کے نام سے یہ شخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے۔‏ یہ [‏یسوع]‏ وہی پتھر ہے جِسے تم معماروں نے حقیر جانا اور وہ کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔‏ اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جسکے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔‏“‏—‏اعمال ۴:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۲۰ پطرس نے یہاں زبور ۱۱۸:‏۲۲ کا حوالہ دیا اور یسوع کی موت اور قیامت پر اسکا اطلاق کِیا۔‏ اپنے مذہبی لیڈروں کی اُکساہٹ پر یہودیوں نے یسوع کو ردّ کر دیا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۱۴-‏۱۸؛‏ اعمال ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ ’‏معماروں‘‏ کا ’‏پتھر کو ردّ کرنا‘‏ مسیح کی موت پر منتج ہوا لیکن ’‏کونے کے سرے کا پتھر بننا‘‏ آسمان میں روحانی جلال کیلئے اسے زندہ کئے جانے کی دلالت کرتا ہے۔‏ جیسے کہ زبورنویس نے پیشینگوئی کی ’‏یہ یہوواہ کی طرف سے ہوا۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱۸:‏۲۳‏)‏ کونے کے سرے کا ”‏پتھر“‏ بنانے میں اسے نامزد بادشاہ کا اعزاز عطا کرنا بھی شامل ہے۔‏—‏افسیوں ۱:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

اُمیدِقیامت کی بدولت قائم رہے

۲۱،‏ ۲۲.‏ ایوب ۱۴:‏۱۳-‏۱۵ کے مطابق ایوب نے کس اُمید کا اظہار کِیا اور یہ آجکل سوگواروں کو کیسے تسلی دے سکتی ہے؟‏

۲۱ اگرچہ ہم نے بذاتِ‌خود کسی کو مُردوں میں سے زندہ ہوتے تو نہیں دیکھا مگر ہم نے بعض ایسی صحیفائی سرگزشتوں پر غور ضرور کِیا ہے جو ہمیں اُمیدِقیامت کا یقین دلاتی ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ہم بھی وہی اُمید رکھ سکتے ہیں جسکا ذکر راستباز آدمی ایوب نے کِیا تھا۔‏ جب وہ تکلیف اُٹھا رہا تھا تو اس نے التجا کی:‏ ”‏کاشکہ تُو [‏یہوواہ]‏ مجھے پاتال میں چھپا دے .‏ .‏ .‏ اور کوئی معین وقت میرے لئے ٹھہرائے اور مجھے یاد کرے!‏ اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟‏ .‏ .‏ .‏ تُو مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔‏ تجھے اپنے ہاتھوں کی صنعت کی طرف رغبت ہوتی۔‏“‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ ایوب کو زندہ کرنے کی شدید خواہش کیساتھ،‏ خدا کو ’‏اپنے ہاتھوں کی صنعت کی طرف رغبت ہوگی۔‏‘‏ یہ بات ہمیں کتنی بڑی اُمید دیتی ہے!‏

۲۲ ایوب کی طرح ایک خداترس خاندانی فرد شدید بیمار پڑ سکتا اور شاید دشمن موت کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔‏ سوگوار اشخاص غم کے باعث آنسو بہا سکتے ہیں جیسے لعزر کی موت پر یسوع کے آنسو نکل آئے تھے۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳۵‏)‏ لیکن یہ جاننا کتنا تسلی‌بخش ہے کہ جو خدا کی یاد میں ہیں ان تمام کو وہ پکارے گا اور وہ جواب دینگے!‏ یہ ایسے ہوگا جیسے وہ کسی سفر سے واپس آئے ہیں—‏بیماری یا معذوری کیساتھ نہیں بلکہ اچھی صحت کیساتھ۔‏

۲۳.‏ بعض نے قیامت کی اُمید پر اپنے اعتماد کا اظہار کیسے کِیا ہے؟‏

۲۳ ایک وفادار عمررسیدہ مسیحی کی موت نے ساتھی مسیحیوں کو یہ لکھنے کی تحریک دی:‏ ”‏آپکی ماں کی وفات پر ہمیں دلی افسوس ہے۔‏ ہماری تمام‌تر ہمدردی آپکے ساتھ ہے۔‏ تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ ایک حسین اور جوان خاتون کے طور پر ہمیں دوبارہ ملیں گی اور ہم اُنکا استقبال کرینگے!‏“‏ اپنے بیٹے کی وفات کے بعد والدین نے کہا:‏ ”‏ہم اس دن کے کتنے منتظر ہیں جب جاسن جاگ اُٹھے گا!‏ وہ اپنے گرد نظر دوڑا کر اس فردوس کو دیکھیگا جس کی اُسے آرزو تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ یہ بات ہمیں بھی جو اُس سے محبت رکھتے ہیں فردوس میں داخل ہونے کیلئے جانفشانی کرنے کی تحریک دیتی ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ اُمیدِقیامت یقینی ہے!‏

آپ کا جواب کیا ہے؟‏

‏• مُردوں کو زندہ کرنے کے خدائی بندوبست پر ایمان ہمیں کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے؟‏

‏• صحائف میں قلمبند کونسے واقعات ہمیں قیامت پر اُمید رکھنے کی وجہ فراہم کرتے ہیں؟‏

‏• یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ قیامت ایک دیرینہ اُمید ہے؟‏

‏• مُردوں کے سلسلے میں ہم کونسی تسلی‌بخش اُمید رکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یہوواہ کی قدرت سے،‏ ایلیاہ نے ایک بیوہ کے کمسن بیٹے کی زندگی بحال کر دی

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

جب یسوع نے یائیر کی بیٹی کو زندہ کِیا تو اس کے والدین حیران اور نہایت خوش ہوئے

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے دن پر،‏ پطرس رسول نے دلیری سے اس بات کی تصدیق کی کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے