مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کلبیوں کے زیرِاثر رہے ہیں؟‏

کیا آپ کلبیوں کے زیرِاثر رہے ہیں؟‏

کیا آپ کلبیوں کے زیرِاثر رہے ہیں؟‏

‏”‏کلبی ایک ایسا شخص ہوتا جو کسی آدمی کی اچھائی کی بجائے بُرائی کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے۔‏ یہ انسانی اُلو ہے جو تاریکی میں ہوشیار اور روشنی میں اندھا ہوتا ہے اور چھوٹےچھوٹے حشرات کی تو تلاش کرتا مگر بڑے جانور نہیں دیکھتا ہے۔‏“‏ یہ بیان ۱۹ویں صدی کے امریکی پادری ہنری وارڈ بیچر سے منسوب کِیا گیا ہے۔‏ بہتیرے شاید سوچیں کہ یہ بجا طور پر زمانۂ‌جدید کے کلبیوں کے رُجحان کی تصویرکشی کرتا ہے۔‏ تاہم لفظ ”‏کلبی“‏ کی ابتدا قدیم یونان سے ہوئی تھی جہاں یہ کسی بھی طرح مندرجہ‌بالا رُجحان رکھنے والے شخص کی طرف اشارہ نہیں کرتا تھا۔‏ صدیوں تک اس نے فیلسوفوں کے ایک گروہ کی نمائندگی کی تھی۔‏

کلبیوں کے فلسفے نے کس طرح فروغ پایا؟‏ ان کی تعلیم کیا تھی؟‏ کیا ایک مسیحی کو کسی کلبی کی خصوصیات اپنانی چاہئیں؟‏

قدیم کلبی—‏انکی ابتدا اور عقائد

قدیم یونان بحث‌وتکرار کا مرکز تھا۔‏ صدیوں سے لیکر ہمارے زمانے تک،‏ سقراط،‏ افلاطون اور ارسطو جیسے آدمیوں نے بہت سی فیلسوفیاں پیش کیں جنکی وجہ سے وہ بہت مشہور ہو گئے۔‏ انکی تعلیمات نے لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا اور ایسے نظریات ابھی تک مغربی تہذیب میں پائے جاتے ہیں۔‏

سقراط (‏۴۷۰-‏۳۹۹ ق.‏س.‏ع.‏)‏ اس نظریے کا حامی تھا کہ ابدی خوشی مادی چیزوں کی جستجو یا نفسانی عیش‌وعشرت سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔‏ اس نے دعویٰ کِیا کہ اخلاقی امتیاز کے حصول کیلئے وقف زندگی سے حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ سقراط کا خیال تھا کہ اخلاقی امتیاز ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔‏ اس نصب‌العین کو حاصل کرنے کیلئے،‏ اس نے مادی عیش‌ونشاط اور غیرضروری کوششوں کو رد کر دیا کیونکہ اُس کے خیال میں یہ چیزیں اسے انتشارِخیال میں ڈال سکتی تھیں۔‏ اس نے سادہ،‏ کفایت‌شعار زندگی بسر کرنے سے اعتدال اور نفس‌کُشی جیسی صفات پیدا کیں۔‏

سقراط نے ایک مخصوص طرزِتعلیم بھی وضع کِیا جو سقراطی طریقہ کہلاتا ہے۔‏ بیشتر مفکروں نے معاون نظریے اور آراء پیش کیں مگر اُس نے انکے برعکس عمل کِیا۔‏ وہ دیگر فیلسوفوں کے نظریات سنکر اُن میں نقص نکالنے کی کوشش کرتا تھا۔‏ ایسی سوچ نے دوسروں کیلئے تنقیدی اور حقارت‌آمیز میلان کو فروغ دیا۔‏

انٹس‌تھینز (‏تقریباً ۴۴۵-‏۳۶۵ ق.‏س.‏ع.‏)‏ نامی ایک فیلسوف سقراط کا شاگرد تھا۔‏ اس نے اور کئی دیگر فیلسوفوں نے سقراط کی تعلیم کو ایک قدم اَور آگے لیجاتے ہوئے اخلاقی امتیاز کو واحد نیکی قرار دے دیا۔‏ اُن کیلئے عیش‌وعشرت کا حصول نہ صرف انتشارِخیال بلکہ ایک قسم کی بُرائی تھا۔‏ سماجی میل‌جول کی سخت مخالفت کرتے ہوئے،‏ انہوں نے ساتھی انسانوں کے لئے بہت زیادہ حقارت کا مظاہرہ کِیا۔‏ یہ فیلسوف کلبیوں کے طور پر مشہور ہو گئے۔‏ شاید نام کلبی یونانی لفظ (‏کینی‌کوس‏)‏ سے مشتق ہے جو ان کے چڑچڑےپن اور بدمزاجی کو بیان کرتا ہے۔‏ اس کا مطلب ”‏کتا (‏کلب)‏ خصلت“‏ ہے۔‏ *

انکی طرزِزندگی پر اثر

مادہ‌پرستی اور عیش‌پرستی کی مخالفت جیسے کلبی فیلسوفی کے عناصر کو تو پسند کِیا گیا مگر کلبی اپنے نظریات کے سلسلے میں انتہا کو پہنچ گئے تھے۔‏ یہ بات مشہور کلبی—‏فیلسوف دیوجانس—‏کی زندگی سے عیاں ہے۔‏

دیوجانس ۴۱۲ ق.‏س.‏ع.‏ میں بحیرۂاسود کے کنارے آباد شہر سائنوپی میں پیدا ہوا۔‏ اپنے باپ کیساتھ وہ ایتھنز میں منتقل ہو گیا جہاں وہ کلبیوں کی تعلیم سے رُوشناس ہوا۔‏ دیوجانس نے انٹس‌تھینز سے تعلیم حاصل کی اور کلبی فیلسوفی میں مگن ہو گیا۔‏ سقراط نے سادہ اور انٹس‌تھینز نے حد سے زیادہ سادہ زندگی بسر کی۔‏ تاہم،‏ دیوجانس نے زاہدانہ زندگی گزاری۔‏ مادی آسائشوں کی تردید پر زور دینے کیلئے،‏ دیوجانس کچھ عرصہ تک ایک ٹب میں بھی رہا!‏

کہا جاتا ہے کہ حتمی نیکی کی تلاش میں دیوجانس دن کی روشنی میں جلتی ہوئی لالٹین لیکر ایتھنز میں پھرا کرتا تھا کہ شاید اُسے کوئی پاکباز شخص مل جائے!‏ ایسا طرزِعمل توجہ کا مرکز بنا اور دیوجانس اور دیگر کلبیوں کیلئے تعلیم دینے کا ایک ذریعہ ثابت ہوا۔‏ ایک مرتبہ سکندرِاعظم نے دیوجانس سے پوچھا کہ مَیں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں۔‏ دیوجانس نے کہا کہ سکندر چند قدم پیچھے ہٹ کر فقط اُس کیلئے دھوپ چھوڑ دے!‏

دیوجانس اور دیگر کلبیوں نے بھکاریوں جیسی زندگی بسر کی۔‏ انکے پاس عام سماجی میل‌جول کیلئے وقت نہیں تھا اور انہوں نے شہری فرائض کو رد کر دیا۔‏ شاید بحث کرنے کے سقراطی طریقۂ‌کار سے متاثر ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کیلئے بہت بےادبی دکھاتے تھے۔‏ دیوجانس اپنے شدید طنز کیلئے بھی مشہور تھا۔‏ کلبیوں نے ”‏کتا (‏کلب)‏ خصلت“‏ ہونے کی شہرت حاصل کی لیکن بذاتِ‌خود دیوجانس کا نام کلب یا کتا پڑ گیا۔‏ اس کی موت ۳۲۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں ہوئی جب وہ تقریباً ۹۰ برس کا تھا۔‏ اس کی قبر پر سنگِ‌مرمر کا ایک کتا بنا کر یادگار کے طور پر رکھ دیا گیا۔‏

کلبی فیلسوفی کے بعض پہلو دیگر مکاتب‌فکر نے اپنا لئے۔‏ تاہم،‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیوجانس اور بعد کے پیروکاروں سے منسوب انوکھے طرزِعمل نے کلبی گروہ کو بدنام کر دیا۔‏ انجام‌کار،‏ یہ پوری طرح مفقود ہو گئے۔‏

دورِحاضر کے کلبی—‏کیا آپکو انکے خصائل ظاہر کرنے چاہئیں؟‏

دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری زمانۂ‌جدید کے کلبی کو ”‏ایک ایسے شخص“‏ کے طور پر بیان کرتی ہے ”‏جو نقص نکالنے یا نکتہ‌چینی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ ایک ایسا شخص جو انسانی محرکات اور افعال کے اخلاص یا نیکی پر عدم‌یقینی کا میلان ظاہر کرتا ہے اور حقارت اور طنز سے اس کا اظہار کرنے کا عادی ہوتا ہے؛‏ تحقیر کرنے والا نکتہ‌چیں۔‏“‏ ہمارے چوگرد دُنیا میں ایسے خصائل نظر آتے ہیں لیکن یہ کسی بھی لحاظ سے مسیحی شخصیت سے ہم‌آہنگ نہیں ہیں۔‏ ذیل میں درج بائبل تعلیمات اور اصولوں پر غور کریں۔‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ رحیم‌وکریم ہے۔‏ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔‏ وہ سدا جھڑکتا [‏”‏نقص نکالتا،‏“‏ این‌ڈبلیو]‏ نہ رہیگا۔‏ وہ ہمیشہ غضبناک نہ رہیگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۱۰۳:‏۸،‏ ۹‏)‏ مسیحیوں کو ”‏خدا کی مانند“‏ بننے کا حکم دیا گیا ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱‏)‏ اگر قادرِمطلق خدا ”‏نقص نکالنے یا نکتہ‌چینی کرنے کی طرف مائل“‏ ہونے کی بجائے رحم اور شفقت میں غنی ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے تو یقیناً مسیحیوں کو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

یہوواہ خدا کا پرتَو یسوع مسیح ’‏ہمارے لئے ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ ہم اُسکے نقشِ‌قدم پر چلیں۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱؛‏ عبرانیوں ۱:‏۳‏)‏ یسوع نے اکثر مذہبی جھوٹ کو بےنقاب کِیا اور دُنیا کے بُرے کاموں پر گواہی دی۔‏ (‏یوحنا ۷:‏۷‏)‏ تاہم،‏ اس نے مخلص لوگوں کی تعریف بھی کی۔‏ مثال کے طور پر،‏ اس نے نتن‌ایل کے متعلق کہا:‏ ”‏دیکھو!‏ یہ فی‌الحقیقت اسرائیلی ہے۔‏ اس میں مکر نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۴۷‏)‏ جب یسوع کوئی معجزہ کرتا تھا تو وہ شفا پانے والے کے ایمان پر توجہ مرکوز کرتا تھا۔‏ (‏متی ۹:‏۲۲‏)‏ نیز جب بعض نے سوچا کہ ایک عورت کا تحفہ فضول‌خرچی ہے تو یسوع نے اس کے محرکات پر نکتہ‌چینی کرنے کی بجائے کہا:‏ ”‏جہاں کہیں اِس خوشخبری کی منادی کی جائیگی یہ بھی جو اِس نے کِیا اِسکی یادگاری میں کہا جائیگا۔‏“‏ (‏متی ۲۶:‏۶-‏۱۳‏)‏ یسوع اپنے پیروکاروں پر اعتماد کرنے اور شفقت دکھانے والا دوست اور رفیق تھا جو ”‏آخر تک محبت رکھتا رہا۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱‏۔‏

چونکہ یسوع کامل تھا اس لئے وہ آسانی سے ناکامل لوگوں میں نقص تلاش کر سکتا تھا۔‏ تاہم،‏ عدم‌یقینی اور نکتہ‌چیں روح کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اس نے لوگوں کو تازگی پہنچانے کی کوشش کی۔‏—‏متی ۱۱:‏۲۹،‏ ۳۰‏۔‏

‏”‏[‏محبت]‏ سب کچھ یقین کرتی ہے۔‏“‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۷‏)‏ یہ بیان دوسروں کے محرکات اور افعال پر شک کرنے والے کلبیوں کی خصلت کے بالکل برعکس ہے۔‏ بیشک،‏ دُنیا پوشیدہ محرکات رکھنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہے اسلئے ہمیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏امثال ۱۴:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ محبت سب باتوں کا یقین کرتی ہے کیونکہ یہ شک کی بجائے اعتماد کی تحریک دیتی ہے۔‏

خدا اپنے خادموں سے محبت اور ان پر اعتماد کرتا ہے۔‏ وہ اُنکی حدود کو ان سے بھی زیادہ جانتا ہے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ اپنے لوگوں پر کبھی بھی شک نہیں کرتا اور اپنی استطاعت کے مطابق معقول طور پر جتنا وہ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرتا۔‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ مزیدبرآں،‏ خدا انسانوں میں بھلائی دیکھتا ہے اور اعتماد کیساتھ اپنے ناکامل مگر وفادار خادموں کو استحقاق اور اختیار عطا کرتا ہے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۱۴:‏۱۳؛‏ زبور ۸۲:‏۶‏۔‏

‏”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ دل‌ودماغ کو جانچتا اور آزماتا ہوں تاکہ ہر ایک آدمی کو اُسکی چال کے موافق اور اُسکے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ دُوں۔‏“‏ ‏(‏یرمیاہ ۱۷:‏۱۰‏)‏ یہوواہ کسی شخص کے دل کو دُرست طور پر پڑھ سکتا ہے۔‏ ہم نہیں پڑھ سکتے۔‏ لہٰذا،‏ ہمیں مخصوص محرکات کو دوسروں سے منسوب کرنے کی بابت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔‏

کلبی روح کو اپنے اندر جڑ پکڑنے اور انجام‌کار اپنی سوچ پر مسلّط ہونے کی اجازت دینا ہمارے اور ساتھی ایمانداروں کے درمیان تفرقے پیدا کر سکتا ہے۔‏ یہ کلیسیا کے امن میں خلل ڈال سکتا ہے۔‏ پس آئیں یسوع کے نقشِ‌قدم پر چلیں جو اپنے شاگردوں کیساتھ تعلقات میں حقیقت‌پسند مگر مثبت تھا۔‏ وہ انکا قابلِ‌اعتماد دوست بن گیا تھا۔‏—‏یوحنا ۱۵:‏۱۱-‏۱۵‏۔‏

‏”‏جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی اُنکے ساتھ ویسا ہی کرو۔‏“‏ ‏(‏لوقا ۶:‏۳۱‏)‏ یسوع مسیح کی اس مشورت کا اطلاق کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم سب مہربانی اور احترام کیساتھ بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‏ توپھر یقیناً ہمیں دوسروں کے سامنے اپنا اظہار مہربانہ اور بااحترام طریقے سے کرنا چاہئے۔‏ یسوع مذہبی لیڈروں کی جھوٹی تعلیمات کی سخت مذمت کرتا تھا مگر اس نے کبھی بھی کلبی انداز اختیار نہیں کِیا تھا۔‏—‏متی ۲۳:‏۱۳-‏۳۶‏۔‏

کلبیت سے نپٹنے کے طریقے

جب ہمیں مایوسیوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہم بڑی آسانی سے کلبیت سے متاثر ہو سکتے ہیں۔‏ ہم اس بات کی قدر کرنے سے اس رُجحان سے نپٹ سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے ناکامل لوگوں پر اعتماد کرتا ہے۔‏ یہ بات ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم خدا کے دیگر پرستاروں کی اصلیت کو قبول کریں کہ وہ ناکامل انسان ہیں اور درست کام کرنے کیلئے ہر لمحہ کوشاں رہتے ہیں۔‏

دردناک تجربات بعض اشخاص کے لئے دیگر لوگوں پر اعتماد کھو بیٹھنے کا سبب بن سکتے ہیں۔‏ یہ بات سچ ہے کہ ناکامل انسانوں پر کُلی طور پر اعتماد کرنا غیردانشمندانہ بات ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۶:‏۳،‏ ۴‏)‏ تاہم،‏ مسیحی کلیسیا میں بہت سے لوگ خلوصدلی سے حوصلہ‌افزائی کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں۔‏ ذرا ایسے ہزاروں لوگوں کی بابت سوچیں جو اپنے خاندانوں کو کھو دینے والے اشخاص کی مائیں،‏ والد،‏ بہنیں،‏ بھائی اور بچے ثابت ہو سکتے ہیں۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۳۰‏)‏ ذرا سوچیں کہ مصیبت کے وقت یہ سب حقیقی دوست ثابت ہوتے ہیں۔‏ *‏—‏امثال ۱۸:‏۲۴‏۔‏

کلبیت کے برعکس برادرانہ محبت یسوع کے پیروکاروں کی شناخت کراتی ہے کیونکہ اس نے کہا:‏ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۵‏)‏ پس آئیں محبت ظاہر کریں اور ساتھی مسیحیوں کی عمدہ صفات پر توجہ دیں۔‏ ایسا کرنا کلبیوں کے خصائل سے بچنے میں ہماری مدد کریگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 یہ بھی ممکن ہے کہ نام کلبی کینوساریس سے مشتق ہو جو اتھینے کا ایک جم‌خانہ تھا جہاں انٹس‌تھینز تعلیم دیتا تھا۔‏

^ پیراگراف 27 مینارِنگہبانی مئی ۱۵،‏ ۱۹۹۹ میں مضمون بعنوان ”‏مسیحی کلیسیا—‏تقویت‌بخش مدد کا ذریعہ“‏ دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

مشہور کلبی،‏ دیوجانس

‏[‎eniL tiderC‎]‏

Great Men and Famous Women From the book