اُن کے بچے کیوں نہیں ہیں؟
اُن کے بچے کیوں نہیں ہیں؟
ایک بیاہتا جوڑا، ڈیلی اور فولہ، * نائیجیریا میں واچ ٹاور سوسائٹی کے برانچ آفس میں رہتا اور کام کرتا تھا۔ انکے وہاں کام کرنے کے تھوڑی دیر بعد، فولہ کی ماں اُسے ملنے آئی۔ اس نے یہ سفر ایک ایسے تشویشناک معاملے پر باتچیت کرنے کی خاطر کِیا جسکی وجہ سے اُسکی راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی۔
اس نے ان سے کہا کہ ”تُم میرے لئے بہت سے اچھے کام کرتے ہو۔ مجھے تحفے بھیجتے اور مجھے ملنے آتے ہو۔ محبت کے یہ اظہارات میرے لئے انمول ہیں۔ لیکن یہ مجھے پریشان بھی کرتے ہیں کیونکہ مَیں ہمیشہ یہ سوچتی ہوں کہ جب تُم میری عمر کو پہنچو گے تو تمہارے لئے یہ کام کون کریگا؟ تمہاری شادی کو اب دو سال ہو گئے ہیں لیکن تمہاری کوئی اولاد نہیں ہے۔ تمہارے خیال میں کیا اب بیتایل چھوڑ کر خاندان بڑھانے کا وقت نہیں ہے؟“
ماں کی دلیل یہ تھی: ڈیلی اور فولہ نے بیتایل میں کافی وقت گزار لیا ہے۔ اب وقت ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ یقیناً دیگر لوگ انکا کام سنبھال سکتے ہیں۔ ڈیلی اور فولہ کو کُلوقتی خدمت چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ خدمت کے کسی اَور حلقے کو اختیار کر سکتے ہیں جس سے انہیں بچے پیدا کرنے اور والدین بننے کی خوشیوں کا تجربہ کرنے کا موقع مل سکے۔
ماں کی فکر
ماں کی فکرمندی قابلِسمجھ تھی۔ تمام انسانی تاریخ اور ثقافتوں میں اولاد پیدا کرنے کی فطری خواہش کا ثبوت ملتا ہے۔ اولاد پیدا کرنے سے خوشی اور اُمید حاصل ہوتی ہے۔ ”پیٹ کا پھل اُسی کی طرف سے اجر ہے،“ بائبل کہتی ہے۔ جیہاں، اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہمارے شفیق خالق کی طرف سے ایک انمول بخشش ہے۔—زبور ۱۲۷:۳۔
بہتیرے معاشروں میں بیاہتا جوڑے، بچے پیدا کرنے کے سلسلے میں دوسروں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نائیجیریا میں، جہاں اوسطاً ایک عورت چھ بچوں کو جنم دیتی ہے، شادیوں پر نئےنویلے جوڑے کو خیرخواہ اکثر یہ کہتے ہیں: ”اب سے نو مہینے کے بعد، آپ کے گھر سے ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دینی چاہئے۔“ دُلہا اور دُلہن کو بچوں کا جھولا بھی شادی کے تحفہ کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ساس کیلنڈر پر ایکایک دن کا حساب رکھتی ہے۔ اگر دُلہن ایک سال کے اندر حاملہ نہیں ہوتی تو چھانبین کی جاتی ہے تاکہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کچھ کِیا جا سکے۔
بہتیری ماؤں کی نظر میں ایک جوڑے کیلئے شادی کرنے کا مقصد محض اولاد پیدا کرکے خاندانی سلسلے کو بڑھانا ہے۔ فولہ کی ماں نے اس سے کہا: ”اگر تم نے بچے پیدا نہیں کرنے تھے تو شادی کیوں کی تھی؟ کسی نے تمہیں پیدا کِیا تھا تم بھی اپنے بچوں کو جنم دو۔“
اس کے علاوہ، کچھ عملی معاملات پر بھی غور کرنا لازمی ہے۔ بہتیرے افریقی ممالک میں، عمررسیدہ اشخاص کی دیکھبھال کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی خاص سہولیات کا بندوبست نہیں ہے۔ رسمورواج کے مطابق، بچے اپنے عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرتے ہیں جیسےکہ انہوں نے بچوں کی دیکھبھال کی تھی۔ پس، فولہ کی ماں نے استدلال کِیا کہ اگر اُنکے بچے نہیں ہوتے تو بڑھاپے میں وہ بالکل تنہا ہونگے، کسی کو اُنکی پرواہ نہیں ہوگی، وہ دانےدانے کے محتاج ہو جائینگے اور جب وہ مرینگے تو انہیں دفن کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
پورے افریقہ میں، بچے نہ ہونا ایک لعنت سمجھا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں، عورتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے بچے پیدا کرنے کی اپنی صلاحیت ثابت کریں۔ اولاد پیدا کرنے کے نااہل بہتیری عورتیں مختلف ادویات اور علاجمعالجے سے اپنے بانجھپن کو ختم کرنے کی دیوانہوار کوشش کرتی ہیں۔
ان رُجحانات کے پیشِنظر، جانبوجھ کر بچے پیدا نہ کرنے والے شادیشُدہ جوڑوں کی بابت خیال کِیا جاتا ہے کہ وہ خود کو کسی مفید چیز سے محروم کر رہے ہیں۔ انہیں اکثراوقات عجیب، کوتاہاندیش اور قابلِرحم سمجھا جاتا ہے۔
خوشی اور ذمہداری
یہوواہ کے لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بچے پیدا کرنے میں خوشی تو ہے لیکن اس کیساتھ ہی ساتھ یہ ایک بڑی ذمہداری بھی ہے۔ بائبل ۱-تیمتھیس ۵:۸ میں کہتی ہے: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“
والدین کو اپنے خاندان کی مادی اور روحانی ضروریات پوری کرنی چاہئیں جس کیلئے کافی وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کا رُجحان نہیں رکھتے کہ اولاد خدا کی طرف سے ملتی ہے اسلئے انکی دیکھبھال خدا ہی کی ذمہداری ہے۔ وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بائبل اُصولوں کے مطابق بچوں کی پرورش کرنا والدین کیلئے کُلوقتی خداداد ذمہداری ہے؛ یہ کسی اَور کو نہیں دی جانی چاہئے۔—استثنا ۶:۶، ۷۔
اس ”اخیر زمانہ“ کے ”بُرے دنوں“ میں بچوں کی پرورش کرنے کا کام خاص طور پر مشکل ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) بگڑتی ہوئی معاشی حالتوں کے علاوہ، معاشرے کی بیدینی آجکل بچوں کی پرورش کو اَور زیادہ کٹھن بنا دیتی ہے۔ تاہم، ساری دُنیا میں بیشمار مسیحی جوڑوں نے اس چیلنج کو قبول کِیا ہے اور ”[یہوواہ] کی طرف سے تربیت اور نصیحت“ دے دے کر کامیابی سے خداپرست بچوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ (افسیوں ۶:۴) یہوواہ ان والدین کی سخت محنت کیلئے ان سے محبت کرتا اور انہیں برکت دیتا ہے۔
بعض بےاولاد کیوں رہتے ہیں
اس کے برعکس، بہتیرے مسیحی جوڑے بچے پیدا نہیں کرتے۔ بعض میں اسکی صلاحیت ہی نہیں ہوتی لیکن پھربھی وہ بچے گود نہیں لیتے۔ دیگر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان جوڑوں کے بےاولاد رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ذمہداری سے پہلوتہی کرتے ہیں یا پھر وہ والدین بننے کے چیلنج پر پورا اُترنے سے گھبراتے ہیں۔ اس کے برعکس، اُنہوں نے کُلوقتی خدمت کے مختلف حلقوں پر پوری توجہ دینے کا عزم کر رکھا ہے جو بچوں کی پرورش کرنے کی صورت میں ممکن نہیں ہوگا۔ بعض مشنریوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ دیگر سفری کام یا بیتایل میں یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں۔
تمام مسیحیوں کی مانند، انہیں احساس ہے کہ ابھی ایک نہایت ضروری کام کِیا جانا ہے۔ یسوع نے کہا: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہو گی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ یہ کام آجکل کِیا جا رہا ہے۔ یہ نہایت اہم کام ہے اسلئے کہ ”خاتمہ“ سے مُراد ان اشخاص کی ہلاکت ہے جو خوشخبری پر دھیان نہیں دیتے۔—متی ۲۴:۱۴؛ ۲-تھسلنیکیوں ۱:۷، ۸۔
ہمارا زمانہ نوح کے زمانے جیسا ہی ہے جس میں اُس نے اور اس کے خاندان نے طوفان سے بچنے کیلئے ایک بہت بڑی کشتی بنائی۔ (پیدایش ۶:۱۳-۱۶؛ متی ۲۴:۳۷) اگرچہ نوح کے تینوں بیٹے شادیشُدہ تھے توبھی انہوں نے طوفان کے بعد ہی بچے پیدا کئے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوگی کہ یہ جوڑے اپنی پوری توجہ اور توانائی سرِدست کام کیلئے وقف کرنا چاہتے تھے۔ ایک اَور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ایسی بداخلاق اور پُرتشدد دُنیا میں بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں ”انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُسکے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے“ تھے۔—پیدایش ۶:۵۔
اگرچہ اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ آجکل بچے پیدا کرنا غلط ہے توبھی بہتیرے مسیحی جوڑے اُس نہایت اہم کام میں مشغول رہنے کیلئے بچے پیدا نہیں کرتے جو یہوواہ نے اپنے لوگوں کو سونپا ہے۔ بعض جوڑوں نے بچے پیدا کرنے سے پہلے کچھ انتظار کِیا ہے؛ دیگر نے بےاولاد رہنے کا فیصلہ کِیا اور یہوواہ کی راست نئی دُنیا میں بچے پیدا کرنے کے امکان کی بابت غور کِیا ہے۔ کیا یہ کوتاہاندیشی ہے؟ کیا وہ زندگی میں شاندار موقع کھو رہے ہیں؟ کیا وہ قابلِرحم ہیں؟
محفوظ اور خوشحال زندگی
شروع میں متذکرہ ڈیلی اور فولہ کی شادی کو اب دس سال ہو گئے ہیں مگر وہ ابھی تک بےاولاد رہنے کے فیصلے پر اٹل ہیں۔ ”ہمارے رشتےدار ابھی تک بچے
پیدا کرنے کیلئے ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں،“ ڈیلی کہتا ہے۔ ”انکی اوّلین فکر مستقبل میں ہمارا تحفظ ہے۔ ہم ہمیشہ انکے پاسولحاظ کیلئے قدردانی کا اظہار کرتے ہوئے موقعشناسی سے واضح کرتے ہیں کہ ہم اپنی خدمت سے بہت خوش ہیں۔ جہاں تک تحفظ کا تعلق ہے تو ہم یہوواہ پر اپنے بھروسے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو اپنے تمام وفاداروں اور ایمانداروں کی فلاح کا خیال رکھتا ہے۔ ہم یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ بچے اپنے بوڑھے والدین کی نگہداشت ضرور کرینگے۔ بعض لوگ اپنے والدین کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، دیگر انکی مدد کرنے کے قابل نہیں ہیں اور بعض اپنے والدین سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، یہوواہ کیساتھ ہمارا مستقبل محفوظ ہے۔“ڈیلی اور اس کی طرح کے دیگر اشخاص اپنے وفادار خادموں کیساتھ یہوواہ کے اس وعدے پر بھروسا رکھتے ہیں: ”مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“ (عبرانیوں ۱۳:۵) وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ”[یہوواہ] کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہوگیا کہ بچا نہ سکے اور اُسکا کان بھاری نہیں کہ سن نہ سکے۔“—یسعیاہ ۵۹:۱۔
اعتماد کی ایک اَور وجہ یہ سمجھنے سے حاصل ہوتی ہے کہ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کو کیسے سنبھالتا ہے۔ بادشاہ داؤد نے لکھا: ”مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی مَیں نے صادق کو بیکس . . . نہیں دیکھا۔“ ذرا اس کی بابت سوچیں۔ کیا آپ یہوواہ کے کسی ایسے وفادار خادم کو جانتے ہیں جو ”بیکس“ ہو؟—زبور ۳۷:۲۵۔
اپنی ساری عمر یہوواہ اور ساتھی مسیحیوں کی خدمت کرنے والے لوگ اپنے ماضی پر پچھتانے کی بجائے اس سے بڑا اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ بھائی آئیرو اومہا ۴۵ سال سے کُلوقتی خدمت میں ہے اور اس وقت نائیجیریا میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت انجام دے رہا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”میری بیوی اور مَیں بےاولاد ہونے کے باوجود، یاد رکھتے ہیں کہ یہوواہ نے روحانی اور مادی طور پر ہمیشہ ہماری دیکھبھال کی ہے۔ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں۔ وہ بڑھاپے میں بھی ہمیں کبھی ترک نہیں کریگا۔ کُلوقتی خدمت میں یہ سال ہماری زندگی کا نہایت مسرورکُن عرصہ ثابت ہوئے ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کی خدمت کرنے کے قابل ہیں اور ہمارے بھائی ہماری خدمت کی قدر کرتے اور ہماری مدد کرتے ہیں۔“
جبکہ بہتیرے جوڑے کوئی جسمانی بچے پیدا نہیں کرتے توبھی انہوں نے فرق قسم کے بچے—یہوواہ کی پرستش کرنے والے مسیحی شاگرد—پیدا کئے ہیں۔ یوحنا رسول اُس وقت ۱۰۰ سال کا تھا جب اس نے لکھا: ”میرے لئے اس سے بڑھ کر اَور کوئی خوشی نہیں کہ مَیں اپنے فرزندوں کو حق پر چلتے ہوئے سنوں۔“ (۳-یوحنا ۴) یوحنا کے اُن ”بچوں“ کی وفاداری جنہیں اس نے ”سچائی“ سے متعارف کرایا تھا اس کیلئے بڑی خوشی کا باعث تھی۔
ایسی ہی خوشی آجکل بھی حاصل ہوتی ہے۔ نائیجیریا کی برنیس کی شادی کو ۱۹ سال ہو گئے ہیں مگر وہ اپنی مرضی سے ابھی تک بےاولاد ہے۔ پچھلے ۱۴ سال سے اس نے پائنیر خدمت انجام دی ہے۔ اب جبکہ وہ زندگی کے ایسے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جب اس کے لئے اولاد پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا تو وہ شاگرد بنانے کیلئے اپنی زندگی وقف کر دینے کی بابت کوئی پچھتاوا محسوس نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ میرے روحانی بچے خوب ترقی کر رہے ہیں۔ اگر میرے اپنے بچے بھی ہوتے تو میرے خیال میں وہ بھی میرے اتنے نزدیک نہ ہوتے جتنے کہ مجھ سے سچائی سیکھنے والے میرے نزدیک ہیں۔ وہ میرے ساتھ ایسے پیش آتے ہیں جیسے مَیں انکی حقیقی ماں ہوں، وہ میرے ساتھ اپنی خوشیاں اور مسائل بانٹتے اور مجھ سے مشورہ مانگتے ہیں۔ وہ مجھے خط لکھتے اور ہم ایک دوسرے کو ملتے رہتے ہیں۔
”بعض حقیقی بچے نہ ہونے کو لعنت خیال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے بڑھاپے میں بھی تکلیف اُٹھائینگے۔ لیکن میرے خیال میں یہ سچ نہیں ہے۔ مَیں جانتی ہوں کہ جبتک مَیں پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کرتی رہونگی وہ مجھے اجر دے گا اور میری دیکھبھال کرے گا۔ وہ مجھے بڑھاپے میں ترک نہیں کرے گا۔“
خدا محبت اور قدر کرتا ہے
”حق پر چلنے“ والے بچے پیدا کرنے اور انکی پرورش کرنے والے اشخاص کے پاس شکرگزار ہونے کی ہر وجہ موجود ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ بائبل بیان کرتی ہے: ”صادق کا باپ نہایت خوش ہوگا اور دانشمند کا باپ اُس سے شادمانی کریگا۔ اپنے ماں باپ کو خوش کر۔ اپنی والدہ کو شادمان رکھ“!—امثال ۲۳:۲۴، ۲۵۔
اولاد نہ پیدا کرنے والے مسیحیوں نے دیگر طریقے سے برکت حاصل کی ہے۔ ان میں سے کئی جوڑوں نے بادشاہتی مفادات کو وسیع پیمانے پر بڑھانے میں اہم کردار ادا کِیا ہے۔ کئی سالوں سے، انہوں نے تجربہ، حکمت اور مہارتیں حاصل کی ہیں جن سے وہ بادشاہتی کام میں قابلِقدر معاونت کرنے کے لائق بنتے ہیں۔ بیشتر اس کام میں پیشپیش ہیں۔
یہوواہ نے انہیں بادشاہتی مفادات کی خاطر بےاولاد رہنے کے باوجود ایک پُرمحبت روحانی خاندان کی برکت دی ہے جو ان کی قربانیوں کی گہری قدر کرتا ہے۔ یہ یسوع کے ان الفاظ کے مطابق ہے: ”ایسا کوئی نہیں جس نے گھر یا بھائیوں یا بہنوں یا ماں یا باپ یا بچوں یا کھیتوں کو میری خاطر اور انجیل کی خاطر چھوڑ [حقیقی طور پر، ”ترک کر“] دیا ہو۔ اور اب اس زمانہ میں سو گنا نہ پائے۔ گھر اور بھائی اور بہنیں اور مائیں اور بچے اور کھیت . . . اور آنے والے عالم میں ہمیشہ کی زندگی۔“—مرقس ۱۰:۲۹، ۳۰۔
ایسے وفادار اشخاص یہوواہ کے نزدیک کتنے بیشقیمت ہیں! اولاد والے اور بےاولاد تمام وفاداروں کو پولس رسول نے یقیندہانی کرائی: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تم نے اُس کے نام کے واسطے اس طرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔“—عبرانیوں ۶:۱۰۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 2 نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
بےاولاد جوڑوں کو ایک پُرمحبت روحانی خاندان کی برکت بخشی گئی ہے