”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے“
”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے“
”[یہوواہ] تجھ سے اسکے سوا کیا چاہتا ہے کہ تُو . . . اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟“ —میکاہ ۶:۸۔
۱، ۲. انکساری کیا ہے اور یہ تکبّر سے کیسے فرق ہے؟
ایک ممتاز رسول توجہ کا مرکز بننے سے انکار کر دیتا ہے۔ ایک دلیر اسرائیلی قاضی خود کو اپنے باپ کے گھر میں سب سے چھوٹا کہتا ہے۔ عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا تسلیم کرتا ہے کہ وہ لامحدود اختیار نہیں رکھتا ہے۔ ان میں سے ہر انسان نے انکساری کا مظاہرہ کِیا۔
۲ انکساری تکبّر کی ضد ہے۔ منکسرالمزاج شخص اپنی صلاحیتوں اور قدروقیمت کی بابت اعتدالپسند رویہ رکھتا ہے اور خودپسندی اور جھوٹی شان سے پاک ہوتا ہے۔ مغرور، شیخیباز یا جاہپسند ہونے کی بجائے، منکسرالمزاج شخص اپنی حدود سے ہمیشہ واقف ہوتا ہے۔ لہٰذا، وہ دوسرے کے جذبات اور نظریات کیلئے واجب احترام اور پاسولحاظ دکھاتا ہے۔
۳. کن طریقوں سے ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے“؟
۳ لہٰذا بائبل معقول وجہ کی بِنا پر ہی بیان کرتی ہے: ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“ (امثال ۱۱:۲) منکسرالمزاج شخص دانشمند ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا کی پسندیدہ روش پر چلتا ہے اور رسوائی کا باعث بننے والی تکبّر کی روح سے اجتناب کرتا ہے۔ (امثال ۸:۱۳؛ ۱-پطرس ۵:۵) خدا کے کئی خادموں کی زندگی سے انکساری کو عمل میں لانے کی حکمت کی تصدیق ہوتی ہے۔ آئیے پہلے پیراگراف میں بیانکردہ تین مثالوں پر غور کریں۔
پولس—ایک ”خادم“ اور ”مختار“
۴. پولس نے کن منفرد استحقاقات سے استفادہ کِیا؟
۴ پولس ابتدائی مسیحیوں میں ایک ممتاز شخصیت تھا اور یہ بات درست بھی ہے۔ اپنی خدمتگزاری میں، اس نے بحروبَر پر ہزاروں کلومیٹر کا سفر کِیا اور بہت سی کلیسیائیں قائم کیں۔ علاوہازیں، یہوواہ نے پولس کو رویتوں اور غیرزبانوں میں کلام کرنے کی بخشش عطا کی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۱۸؛ ۲-کرنتھیوں ۱۲:۱-۵) اس نے پولس کو ۱۴ خطوط لکھنے کا الہام بھی بخشا جو اس وقت مسیحی یونانی صحائف کا حصہ ہیں۔ واضح طور پر، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پولس نے دیگر تمام رسولوں سے زیادہ محنت کی تھی۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۰۔
۵. پولس نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اپنی بابت انکسارانہ نظریہ رکھتا تھا؟
۵ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پولس مسیحی کارگزاری میں پیشپیش ہونے کی وجہ سے اپنی شہرت پر نازاں اور اپنے اختیار کی بڑی دھونس جماتا ہوگا۔ تاہم، ایسا نہیں تھا کیونکہ پولس رسول منکسرالمزاج شخص تھا۔ وہ کہتا ہے ۱-کرنتھیوں ۱۵:۹) پولس پہلے مسیحیوں کو ستایا کرتا تھا اسلئے وہ یہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا تھا کہ صرف غیرمستحق فضل کی بدولت ہی وہ خدا کے ساتھ رشتہ رکھنے اور خاص خدمتی استحقاقات حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے۔ (یوحنا ۶:۴۴؛ افسیوں ۲:۸) لہٰذا، پولس نے یہ محسوس نہیں کِیا تھا کہ خدمتگزاری میں کامرانیوں کی وجہ سے وہ دوسروں سے بڑا بن گیا ہے۔—۱-کرنتھیوں ۹:۱۶۔
کہ ”مَیں رسولوں میں سب سے چھوٹا ہوں بلکہ رسول کہلانے کے لائق نہیں اسلئےکہ مَیں نے خدا کی کلیسیا کو ستایا تھا۔“ (۶. پولس کرنتھیوں کیساتھ کیسے انکساری سے پیش آیا تھا؟
۶ کرنتھس کے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں پولس کی انکساری خاص طور پر نمایاں تھی۔ ان میں سے بعض لوگ کچھ نگہبانوں سے بہت متاثر تھے اور اُنہیں نہایت ممتاز خیال کرتے تھے جن میں اپلوس، کیفا اور خود پولس بھی شامل تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۱-۱۵) تاہم، پولس رسول نے نہ تو کرنتھیوں سے تعریف حاصل کرنے کے لئے ترغیبوتحریص سے کام لیا اور نہ ہی اُن کی طرف سے حاصل ہونے والی تحسین کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ وہ ”اعلےٰ درجہ کی تقریر یا حکمت کے ساتھ“ اُن سے ملنے کے لئے نہیں آیا تھا۔ اس کی بجائے، اُس نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی بابت کہا: ”آدمی ہم کو مسیح کا خادم اور خدا کے بھیدوں کا مختار سمجھے۔“ *—۱-کرنتھیوں ۲:۱-۵؛ ۴:۱۔
۷. پولس نے مشورت دیتے وقت بھی کیسے انکساری ظاہر کی؟
۷ پولس نے سخت مشورت اور ہدایت دیتے وقت بھی انکساری کا مظاہرہ کِیا۔ اس نے ساتھی مسیحیوں سے رسولی اختیار کے دباؤ کے برعکس ”خدا کی رحمتیں یاد دِلا کر“ اور ”محبت کی راہ“ سے التجا کی۔ (رومیوں ۱۲:۱، ۲؛ فلیمون ۸، ۹) پولس نے ایسا کیوں کِیا؟ کیونکہ وہ خود کو اپنے بھائیوں کے ’ایمان پر حکومت جتانے‘ والا نہیں بلکہ اُن کا ’ہمخدمت‘ سمجھتا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۴) اس میں کوئی شک نہیں کہ انکساری پولس کو پہلی صدی کی مسیحی کلیسیاؤں میں خاص طور پر ہردلعزیز بنانے میں معاون ثابت ہوئی تھی۔—اعمال ۲۰:۳۶-۳۸۔
اپنے استحقاقات کی بابت انکسارانہ نظریہ
۸، ۹. (ا) ہمیں اپنی بابت انکسارانہ نظریہ کیوں رکھنا چاہئے؟ (ب) ذمہدار اشخاص انکساری کیسے دکھا سکتے ہیں؟
۸ پولس نے آجکل کے مسیحیوں کیلئے عمدہ نمونہ قائم کِیا۔ خواہ ہمیں کتنی ہی بھاری ذمہداریاں سونپی جائیں ہم میں سے کسی کو بھی خود کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہئے۔ پولس نے لکھا: ”کیونکہ اگر کوئی شخص اپنےآپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔“ (گلتیوں ۶:۳) کیوں؟ کیونکہ ”سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔“ (رومیوں ۳:۲۳؛ ۵:۱۲) جیہاں، ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم سب نے آدم سے گناہ اور موت کا ورثہ پایا ہے۔ خاص استحقاقات حاصل ہونے سے ہماری ادنیٰ گنہگارانہ حالت میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوتی۔ (واعظ ۹:۲) پولس کی طرح دیگر انسان بھی صرف غیرمستحق فضل کی بدولت ہی خدا کے ساتھ رشتہ رکھنے اور خاص خدمتی استحقاق حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔—رومیوں ۳:۱۲، ۲۴۔
۹ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے، منکسرالمزاج شخص اپنے استحقاقات پر نہ تو اِتراتا ہے اور نہ ہی اپنی کامرانیوں پر شیخی بگھارتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۴:۷) وہ ایک آقا کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہمخدمت کے طور پر مشورت اور ہدایت دیتا ہے۔ یقیناً، بعض کاموں میں مہارت رکھنے والے کسی بھی شخص کو ساتھی ایمانداروں سے اپنی تعریف کرانے کیلئے ترغیبوتحریص سے کام نہیں لینا چاہئے نہ ہی اُنکی طرف سے حاصل ہونے والی تحسین کا ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ (امثال ۲۵:۲۷؛ متی ۶:۲-۴) حقیقی قدروقیمت کی حامل تعریف وہی ہوتی ہے جو لوگ خود کریں نہ کہ اُن سے اسکی مانگ کی جائے۔ تاہم، اگر دوسرے ہماری تعریف کرتے بھی ہیں تو اس سے ہمیں خود کو ضرورت سے زیادہ نہیں سمجھنا چاہئے۔—امثال ۲۷:۲؛ رومیوں ۱۲:۳۔
۱۰. وضاحت کریں کہ ادنیٰ نظر آنے والے بعض اشخاص کیسے واقعی ”ایمان میں دولتمند“ ہو سکتے ہیں۔
۱۰ جب ہمیں کوئی ذمہداری سونپی جاتی ہے تو انکساری اپنی ذات کو توجہ کا مرکز بنانے اور یہ تاثر دینے سے گریز کرنے میں ہماری مدد کریگی کہ کلیسیا صرف ہماری کوششوں اور صلاحیتوں کی بدولت ترقی کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم تعلیم دینے میں ماہر ہو سکتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۱۱، ۱۲) تاہم، اگر ہم منکسرالمزاج ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ کلیسیائی اجلاس پر سیکھے جانے والے بعض اثرآفرین اسباق پلیٹفارم سے پیش نہیں کئے جاتے۔ مثال کے طور پر، جب آپ کسی تنہا ماں یا باپ کو اپنے بچوں کیساتھ باقاعدگی سے کنگڈم ہال آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کیا اس سے آپکی حوصلہافزائی نہیں ہوتی؟ یا ایسے افسردہ اشخاص جو نااہلی کے مستقل احساسات سے نبردآزما ہونے کے باوجود وفاداری سے اجلاسوں پر آتے ہیں؟ یا سکول اور دیگر جگہوں پر بُرے اثرات کے باوجود مسلسل روحانی ترقی کرنے والے نوجوان؟ (زبور ۸۴:۱۰) ایسے اشخاص شاید نمایاں حیثیت نہ رکھتے ہوں۔ راستی کی جن آزمائشوں کا وہ سامنا کرتے ہیں اُن پر دوسرے لوگ کوئی بھی دھیان نہیں دیتے۔ تاہم وہ، ممتاز شخصیات کی مانند ”ایمان میں دولتمند“ ہو سکتے ہیں۔ (یعقوب ۲:۵) بہرحال، وفاداری ہی یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا باعث بنتی ہے۔—متی ۱۰:۲۲؛ ۱-کرنتھیوں ۴:۲۔
جدعون—اپنے باپ کے گھر میں ”سب سے چھوٹا“
۱۱. کس طریقے سے جدعون نے خدا کے فرشتے سے بات کرتے ہوئے انکساری ظاہر کی؟
۱۱ منسی کے قبیلے کا ایک بہادر نوجوان، جدعون اسرائیل کی تاریخ کے پُرآشوب وقت میں رہتا تھا۔ سات سال سے خدا کے لوگ مدیانی ظلموستم کا سامنا کر رہے تھے۔ تاہم، اپنے لوگوں کو چھڑانے کا یہوواہ کا وقت اب آ گیا تھا۔ لہٰذا، ایک فرشتہ جدعون پر ظاہر ہوا اور کہنے لگا: ”اَے زبردست سورما! [یہوواہ] تیرے ساتھ ہے۔“ جدعون منکسرالمزاج تھا اس لئے وہ اس غیرمتوقع تعریف قضاۃ ۶:۱۱-۱۵۔
سے بہت زیادہ خوش نہیں ہوا تھا۔ اس کی بجائے، اس نے فرشتے سے مؤدبانہ انداز میں کہا: ”اگر [یہوواہ] ہی ہمارے ساتھ ہے تو ہم پر یہ سب حادثے کیوں گذرے؟“ فرشتے نے تمام معاملات کی وضاحت کرنے کے بعد جدعون سے کہا: ”تُو . . . بنیاسرائیل کو مدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑا۔“ جدعون نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟ اس تفویض کو قومی ہیرو بننے کا موقع خیال کرتے ہوئے فوراً قبول کر لینے کی بجائے، جدعون نے جواب دیا: ”اَے مالک! مَیں کس طرح بنیاسرائیل کو بچاؤں؟ میرا گھرانا منسیؔ میں سب سے غریب ہے اور مَیں اپنے باپ کے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔“ کیا ہی انکساری!—۱۲. جدعون نے اپنی تفویض کو پورا کرنے میں دانشمندی کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
۱۲ جدعون کو جنگ میں بھیجنے سے پہلے یہوواہ نے اس کی آزمائش کی۔ کیسے؟ جدعون کو کہا گیا کہ اپنے باپ کے بعل کے مذبح کو مسمار کر دے اور اس کے ساتھ کھڑی یسیرت کو کاٹ ڈالے۔ اس کام کو کرنے کیلئے دلیری کی ضرورت تھی لیکن جدعون نے اسے بڑی انکساری اور دانشمندی سے بھی انجام دیا۔ سرِعام تماشا لگانے کی بجائے، جدعون نے یہ کام رات کی تاریکی میں کِیا تاکہ کوئی اُسے دیکھ نہ سکے۔ مزیدبرآں، جدعون نے اس تفویض کو پورا کرنے میں احتیاط سے کام لیا۔ اس نے اپنے ساتھ دس خادم لئے تاکہ کچھ نگرانی کیلئے کھڑے رہیں جبکہ باقی مذبح اور یسیرت کو ڈھانے میں اس کی مدد کریں۔ * بہرحال، یہوواہ کی برکت کیساتھ، جدعون نے اپنی تفویض کو پورا کِیا اور وقت آنے پر خدا نے اسے اسرائیلیوں کو مدیانیوں سے رہائی دلانےکے لئے استعمال کِیا۔—قضاۃ ۶:۲۵-۲۷۔
انکساری اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا
۱۳، ۱۴. (ا) جب ہمیں کوئی خدمتی استحقاق دیا جاتا ہے تو ہم کیسے انکساری دکھا سکتے ہیں؟ (ب) بھائی اے. ایچ. میکملن نے انکساری کے سلسلے میں کیسے عمدہ نمونہ قائم کِیا؟
۱۳ جدعون کی انکساری سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہمیں کوئی خدمتی استحقاق سونپا جاتا ہے تو ہم کیسا جوابیعمل دکھاتے
ہیں؟ کیا ہم سب سے پہلے اس سے حاصل والے امتیازی مقام اور شہرت کی بابت سوچتے ہیں؟ یا کیا ہم انکساری اور دُعا کے ساتھ غور کرتے ہیں کہ آیا ہم اس تفویض کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں؟ بھائی اے. ایچ. میکملن نے اس سلسلے میں شاندار نمونہ قائم کِیا جنکی زمینی زندگی ۱۹۶۶ میں ختم ہوئی۔ واچ ٹاور سوسائٹی کے پہلے صدر سی. ٹی. رسل نے ایک مرتبہ اس سلسلے میں اُسکی رائے پوچھی کہ اُنکی غیرموجودگی میں کام کی نگرانی کون کریگا۔ جب اس معاملے میں مزید گفتگو ہوئی تو بھائی میکملن نے ایک مرتبہ بھی اپنی سفارش نہ کی اگرچہ اس کے لئے ایسا کرنا نہایت آسان تھا۔ آخر میں، بھائی رسل نے بھائی میکملن کو تفویض قبول کرنے پر غور کرنے کی دعوت دی۔ ”مَیں ہکابکا رہ گیا،“ بھائی میکملن نے سالوں بعد تحریر کِیا۔ ”مَیں نے اس پر بڑی سنجیدگی سے سوچا اور دُعا کے بعد بالآخر انہیں بتا دیا کہ مَیں کام میں آپکا ہاتھ بٹانے کیلئے بخوشی حتیالمقدور کوشش کرونگا۔“۱۴ تھوڑی دیر بعد بھائی رسل وفات پا گئے اور واچ ٹاور سوسائٹی کی صدارت کا عہدہ خالی چھوڑ گئے۔ چونکہ بھائی میکملن بھائی رسل کی منادی کے آخری دورے کے دوران نگران تھے تو ایک بھائی نے انہیں کہا: ”میک آپکے پاس صدارتی عہدہ حاصل کرنے کا زیادہ امکان ہے۔ آپ بھائی رسل کی غیرموجودگی میں انکے خاص نمائندے تھے اور انہوں نے ہمیں آپکی بات ماننے کی ہدایت کی تھی۔ اب وہ جا چکے ہیں اور کبھی واپس نہیں آئینگے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب آپ ہی کو کام سنبھالنا ہے۔“ بھائی میکملن نے جواب دیا: ”میرے بھائی، اس معاملے کو اس نقطۂنظر سے دیکھنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ یہ خداوند کا کام ہے اور خداوند کی تنظیم میں آپ کو وہی مقام حاصل ہوتا ہے جو خداوند کی نظر میں آپ کیلئے موزوں ہے اور مجھے یقین ہے کہ مَیں اس کام کیلئے موزوں نہیں ہوں۔“ بھائی میکملن نے پھر اُس مرتبے کیلئے کسی اَور کی سفارش کی۔ جدعون کی مانند، وہ اپنی بابت انکسارانہ نظریہ رکھتا تھا—ایسا نظریہ جسے ہم سب کو اپنانا چاہئے۔
۱۵. کن عملی طریقوں سے ہم دوسروں کو منادی کرتے وقت فہم سے کام لے سکتے ہیں؟
۱۵ ہمیں اپنی تفویض کو بھی منکسرالمزاجی سے پورا کرنا چاہئے۔ جدعون عقلمند تھا اور اس نے اپنے مخالفین کو غیرضروری طور پر اشتعال دلانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اسی طرح، اپنی منادی میں، ہمیں دوسروں کیساتھ باتچیت کرتے وقت منکسرالمزاجی اور دانشمندی سے کام لینا چاہئے۔ سچ ہے کہ ہم ”قلعوں“ اور ”تصورات“ کو ڈھا دینے کیلئے روحانی لڑائی میں شریک ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۴، ۵) لیکن ہمیں دوسروں کی تحقیر نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اُنہیں کوئی ایسی وجہ فراہم کرنی چاہئے جس سے وہ ہمارے پیغام کی مخالفت کرنے لگیں۔ اس کی بجائے، ہمیں دوسروں کے نظریات کا احترام کرنا چاہئے، مشترکہ باتوں کو اُجاگر کرنا چاہئے اور پھر اپنے پیغام کے مثبت پہلو پر توجہ مبذول کرانی چاہئے۔—اعمال ۲۲:۱-۳؛ ۱-کرنتھیوں ۹:۲۲؛ مکاشفہ ۲۱:۴۔
یسوع—انکساری کی فائق مثال
۱۶. یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اپنی بابت انکسارانہ نظریہ رکھتا ہے؟
۱۶ انکساری کی بہترین مثال یسوع مسیح ہے۔ * اپنے باپ کیساتھ قریبی رشتہ رکھنے کے باوجود، یسوع نے بِلاہچکچاہٹ یہ تسلیم کِیا کہ بعض معاملات اس کے اختیار میں نہیں ہیں۔ (یوحنا ۱:۱۴) مثال کے طور پر، جب یعقوب اور یوحنا کی ماں نے یہ درخواست کی کہ اس کے دو بیٹے یسوع کی بادشاہت میں اس کے ساتھ بیٹھیں تو یسوع نے کہا: ”اپنے دہنے بائیں کسی کو بٹھانا میرا کام نہیں۔“ (متی ۲۰:۲۰-۲۳) ایک اَور موقع پر، یسوع نے خوشی سے تسلیم کِیا: ”مَیں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ . . . کیونکہ مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔“—یوحنا ۵:۳۰؛ ۱۴:۲۸؛ فلپیوں ۲:۵، ۶۔
۱۷. یسوع دوسروں کیساتھ انکساری سے کیسے پیش آیا؟
۱۷ یسوع ہر لحاظ سے ناکامل انسانوں سے برتر تھا اور اپنے باپ یہوواہ کی طرف سے حاصل ہونے والے لاثانی اختیار کا مالک تھا۔ تاہم، یسوع اپنے پیروکاروں کیساتھ بڑی انکساری سے پیش آتا تھا۔ اس نے انہیں اپنے علم کا رُعب جمانے سے مغلوب نہیں کِیا تھا۔ اُسکے دل میں اُن کیلئے احساس اور دردمندی تھی اور وہ اُنکی انسانی ضروریات کا لحاظ رکھتا تھا۔ (متی ۱۵:۳۲؛ ۲۶:۴۰، ۴۱؛ مرقس ۶:۳۱) لہٰذا، یسوع کامل ہونے کے باوجود، کمالپرست نہیں تھا۔ یسوع اپنے شاگردوں سے کبھی بھی کسی ایسے کام کا تقاضا نہیں کرتا تھا جو اُنکی استطاعت سے باہر ہو اور کبھی بھی اُن پر حد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تھا۔ (یوحنا ۱۶:۱۲) کچھ عجب نہیں کہ بہتیروں نے اسے تازگیبخش پایا!—متی ۱۱:۲۹۔
یسوع کے انکسارانہ نمونے کی تقلید کریں
۱۸، ۱۹. (ا) ہم اپنی ذات کی بابت نقطۂنظر میں یسوع کی انکساری کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟ (ب) ہم دوسروں کیساتھ تعلقات میں یسوع کی انکساری کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۸ اگر اُس عظیمترین انسان نے انکساری ظاہر کی جو کبھی ہو گزرا تو ہمیں کتنی زیادہ ظاہر کرنی چاہئے۔ ناکامل انسان اکثراوقات یہ تسلیم کرنے میں پسوپیش کرتے ہیں کہ وہ کُلی اختیار کے مالک نہیں ہیں۔ تاہم، یسوع کی نقل میں، مسیحی منکسرالمزاج ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ متکبر نہیں ہیں بلکہ لائق اشخاص کو رضامندی سے ذمہداری سونپتے ہیں اور جب بااختیار اشخاص کوئی ہدایت دیتے ہیں تو اُسے عاجزی اور خوشی سے قبول کرتے ہیں۔ وہ تعاون کرتے ہیں تاکہ کلیسیا میں سب باتیں ”شایستگی اور قرینہ کے ساتھ“ عمل میں آئیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۴:۴۰۔
۱۹ انکساری ہمیں دوسروں سے معقول توقعات وابستہ رکھنے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھنے کی تحریک بھی دے گی۔ (فلپیوں ۴:۵) ہم بعض ایسی صلاحیتوں اور قوتوں کے مالک ہو سکتے ہیں جو شاید دوسروں میں نہ ہوں۔ تاہم، اگر ہم منکسرالمزاج ہیں تو ہم کبھی بھی دوسروں سے توقع نہیں کریں گے کہ وہ ہمیشہ ہماری مرضی کے مطابق کام کریں۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ ہر شخص کی حدود ہوتی ہیں، ہم انکساری کے ساتھ دوسروں کی ناکاملیتوں کیلئے ہمیشہ گنجائش پیدا کرینگے۔ پطرس نے لکھا: ”سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آپس میں بڑی محبت رکھو کیونکہ محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“—۱-پطرس ۴:۸۔
۲۰. ہم بےباکی کے رُجحان پر غالب آنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟
۲۰ ہم نے سیکھ لیا ہے کہ واقعی منکسرالمزاج اشخاص کے ساتھ حکمت ہے۔ تاہم، اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر بےباکی یا تکبّر کا رُجحان ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کبھی بےحوصلہ نہ ہوں بلکہ داؤد کے نمونے پر چلیں جس نے دُعا کی: ”اپنے بندے کو بےباکی کے گناہوں سے بھی باز رکھ۔ وہ مجھ پر غالب نہ آئیں۔“ (زبور ۱۹:۱۳) ایماندار آدمیوں پولس، جدعون اور—سب سے بڑھکر—یسوع مسیح کی تقلید کرنے سے، ہم ذاتی طور پر ان الفاظ کی صداقت کا تجربہ کرینگے: ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“—امثال ۱۱:۲۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 6 جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”خادم“ کِیا گیا ہے وہ قدیم بحری جہازوں کے پیندے میں بینچ پر بیٹھ کر چپو چلانے والے غلام کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔ اسکے برعکس، ”مختار“ کو شاید جائیداد کی دیکھبھال سمیت، زیادہ ذمہداریاں سونپی جا سکتی تھیں۔ تاہم، بیشتر آقاؤں کی نظر میں مختار اور چپو چلانے والا غلام دونوں برابر ہی ہوتے تھے۔
^ پیراگراف 12 جدعون کی دانشمندی اور احتیاط کو بزدلی نہیں سمجھا جانا چاہئے کیونکہ عبرانیوں ۱۱:۳۲-۳۸ میں اس کی جرأت کی تصدیق کی گئی ہے جہاں جدعون کو ایسے لوگوں میں شمار کِیا گیا ہے جو ”زورآور ہوئے“ اور ”لڑائی میں بہادر بنے۔“
^ پیراگراف 16 چونکہ انکساری میں اپنی حدود سے آگاہ ہونا شامل ہے اس لئے یہوواہ کو بجا طور پر منکسر نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم، وہ فروتن ضرور ہے۔—زبور ۱۸:۳۵۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• انکساری کیا ہے؟
• ہم پولس کی انکساری کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
• ہم جدعون کے نمونے سے انکساری کی بابت کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• یسوع نے انکساری کا فائق نمونہ کیسے قائم کِیا؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
پولس کی انکساری نے اُسے اپنے ساتھی مسیحیوں کا پیارا بنا دیا
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
جدعون نے خدا کی مرضی پوری کرنے میں دانشمندی سے کام لیا
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
خدا کا بیٹا، یسوع ہر کام انکساری سے کرتا ہے