مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہتھیار بنانے سے زندگی بچانے تک

ہتھیار بنانے سے زندگی بچانے تک

میری کہانی میری زبانی

ہتھیار بنانے سے زندگی بچانے تک

از ایسیڈورس اسمائلڈس

مَیں اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‏ مَیں نے دُعا کی،‏ ”‏اَے خدا،‏ میرا ضمیر اب مجھے ہتھیار بنانے کا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‏ مَیں نے دوسری نوکری تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔‏ کل مَیں اپنا استعفیٰ دے رہا ہوں۔‏ یہوواہ آپ سے یہ التجا ہے کہ ہمارے چار بچوں کو روٹی کیلئے محتاج نہ ہونے دینا۔‏“‏ مَیں اس مقام تک کیسے پہنچا؟‏

ڈریمہ،‏ شمالی یونان میں،‏ جہاں مَیں ۱۹۳۲ میں پیدا ہوا،‏ زندگی بڑی سادہ اور اطمینان‌بخش تھی۔‏ میرے والد اکثر مجھ سے میرے مستقبل کی بابت بات‌چیت کِیا کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے ریاستہائےمتحدہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے میری حوصلہ‌افزائی کی۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم کے دوران یونان میں لوٹ‌مار کے بعد یونانیوں میں یہ مقولہ عام تھا:‏ ”‏تم ہمارا مال تو لوٹ سکتے ہو لیکن ہمارا علم نہیں لوٹ سکتے۔‏“‏ مَیں نے اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ایسی چیز حاصل کرنے کا عزم کر رکھا تھا جسے کوئی چھین نہ سکے۔‏

کم‌عمری ہی سے مَیں نوجوانوں کے مختلف گروہوں میں شامل رہا جنکی معاونت یونان کا آرتھوڈکس چرچ کرتا تھا۔‏ وہاں ہمیں خطرناک فرقوں سے دُور رہنے کی ہدایت کی گئی۔‏ مجھے خصوصاً ایک گروہ—‏یہوواہ کے گواہ—‏یاد ہے جسکی بابت کہا جاتا تھا کہ وہ مخالفِ‌مسیح ہیں۔‏

اتھینے میں ۱۹۵۳ میں ایک ٹیکنیکل سکول سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد،‏ مَیں نوکری کیساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھنے کے موقع کی تلاش میں جرمنی چلا گیا۔‏ مگر مجھے کامیابی حاصل نہ ہوئی اس لئے مَیں دوسرے ممالک میں بھی گیا۔‏ کچھ عرصہ بعد جب مَیں بیلجیئم کی ایک بندرگاہ پر پہنچا تو میری جیب خالی ہو چکی تھی۔‏ مجھے یاد ہے کہ مَیں ایک چرچ گیا اور اسقدر رویا کہ میرے آنسو میرے سامنے فرش پر گرنے لگے۔‏ مَیں نے دُعا کی کہ اگر خدا ریاستہائےمتحدہ جانے میں میری مدد کریگا تو مَیں مادی چیزوں کی تلاش کی بجائے تعلیم حاصل کرکے ایک اچھا مسیحی اور ایک اچھا شہری بننے کی کوشش کرونگا۔‏ آخرکار مَیں ۱۹۵۷ میں وہاں پہنچ گیا۔‏

ریاستہائےمتحدہ میں ایک نئی زندگی

ریاستہائےمتحدہ میں مقامی زبان سے ناآشنا اور کنگال پردیسی کیلئے زندگی بہت مشکل تھی۔‏ مَیں رات میں دو نوکریاں کرکے دن کے وقت سکول جانے کی کوشش کرتا تھا۔‏ مَیں نے کئی کالجوں میں زیرِتعلیم رہنے کے بعد انٹر کی سند حاصل کر لی۔‏ پھر مَیں لاس‌اینجلز میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا گیا اور اطلاقی طبیعیات میں بی.‏ایس.‏سی کی ڈگری حاصل کی۔‏ تعلیم کی بابت میرے والد کی باتوں نے ان کٹھن سالوں کے دوران مجھے تقویت بخشی۔‏

تقریباً اسی وقت کے دوران ایک خوبصورت یونانی لڑکی ایکٹرینی سے میری ملاقات ہوئی اور ہم نے ۱۹۶۴ میں شادی کر لی۔‏ ہمارا پہلا بیٹا تین سال بعد پیدا ہوا اور اگلے چار سالوں کے دوران ہمارے خاندان میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا اضافہ ہو گیا۔‏ خاندان کی کفالت کرنے کیساتھ ساتھ یونیورسٹی میں پڑھنا واقعی ایک چیلنج تھا۔‏

مَیں سنی‌ویل،‏ کیلیفورنیا میں ایک میزائل اور سپیس کمپنی میں یو.‏ایس.‏ فضائیہ کیلئے کام کرتا تھا۔‏ مَیں مختلف ہوائی اور خلائی منصوبوں پر کام کر رہا تھا جن میں اجینا اور اپولو پروگرام شامل تھے۔‏ مجھے اپولو ۸ اور اپولو ۱۱ کے مشن میں میری خدمت کے عوض میڈل بھی ملے۔‏ اسکے بعد مَیں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور مختلف فوجی خلائی پراجیکٹس میں بہت زیادہ مشغول ہو گیا۔‏ مَیں نے سوچا کہ اب میرے پاس سب کچھ ہے—‏ایک خوبصورت بیوی،‏ چار پیارے بچے،‏ ایک اعلیٰ درجے کی نوکری اور ایک عالیشان گھر۔‏

ایک مستقل‌مزاج شخص

سن ۱۹۶۷ کے اوائل میں اپنی ملازمت پر ہی میری ملاقات ایک نہایت فروتن اور مہربان شخص جم سے ہوئی۔‏ جم کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی اور وہ وقفے میں میرے ساتھ کافی پینے کی دعوت کو ہمیشہ قبول کرتا تھا۔‏ ان مواقع پر وہ میرے ساتھ اکثر بائبل موضوعات پر بات‌چیت کِیا کرتا تھا۔‏ جم نے مجھے بتایا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کیساتھ مطالعہ کرتا تھا۔‏

مَیں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ جم اس مذہبی گروہ کیساتھ تعلق رکھتا تھا۔‏ ایسا نیک شخص مخالفِ‌مسیح گروہ کے جال میں کیسے پھنس گیا؟‏ تاہم،‏ میری ذات میں جم کی دلچسپی اور مہربانی کو مَیں نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔‏ وہ ہر روز مجھے کچھ نہ کچھ پڑھنے کیلئے دیتا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک دن وہ میرے دفتر میں آیا اور کہنے لگا:‏ ”‏ایسیڈورس،‏ دی واچ‌ٹاور کے اس مضمون میں خاندانی زندگی کو مستحکم بنانے کی بابت عمدہ معلومات پیش کی گئی ہیں۔‏ اسے گھر لے جاؤ اور اپنی بیوی کیساتھ ملکر اسے پڑھو۔‏“‏ مَیں نے اسے کہا کہ مَیں اس مضمون کو پڑھونگا مگر بعدازاں بیت‌الخلا میں جاکر اس رسالے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے کوڑےدان میں پھینک دئے۔‏

تین سال تک مَیں نے جم کے دئے ہوئے ہر رسالے اور کتاب کو پھاڑ ڈالا۔‏ مَیں یہوواہ کے گواہوں سے بدظن تھا،‏ تاہم جم سے دوستی برقرار رکھنے کیلئے مَیں نے سوچا کہ اُسکی بات اس کان سے سن کر اُس کان سے نکال دینا ہی بہتر ہوگا۔‏

تاہم،‏ اس کیساتھ بات‌چیت سے مجھے اتنا ضرور معلوم ہو گیا کہ میرے بہتیرے اعتقادات بائبل پر مبنی نہیں تھے۔‏ مجھے معلوم ہوا کہ تثلیث،‏ آتشی دوزخ اور جان کی غیرفانیت صحیفائی تعلیمات نہیں تھیں۔‏ (‏واعظ ۹:‏۱۰؛‏ حزقی‌ایل ۱۸:‏۴؛‏ یوحنا ۲۰:‏۱۷‏)‏ ایک متکبر یونانی آرتھوڈکس ہونے کی وجہ سے مَیں سرِعام یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جم صحیح ہے۔‏ تاہم،‏ وہ اپنا ذاتی خیال نہیں بلکہ ہمیشہ بائبل کا استعمال کرتا تھا اسلئے مَیں نے آخرکار یہ سمجھ لیا کہ یہ شخص مجھے بائبل کا اہم پیغام دے سکتا ہے۔‏

میری بیوی یہ سمجھ گئی کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہے اسی لئے اس نے مجھ سے پوچھا کہ کہیں میری اپنے اس دوست سے کوئی بات تو نہیں ہوئی جسکا تعلق گواہوں سے ہے۔‏ میرے ہاں کہنے پر اُس نے کہا:‏ ”‏ہم دوسرے کسی بھی چرچ میں جا سکتے ہیں مگر یہوواہ کے گواہوں میں شامل ہونا،‏ ناممکن۔‏“‏ تاہم،‏ بہت جلد میری بیوی اور میں اپنے بچوں سمیت گواہوں کے اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونے لگے۔‏

ایک مشکل فیصلہ

بائبل کا مطالعہ کرنے کے دوران مَیں نے یسعیاہ نبی کے اِن الفاظ کو دیکھا:‏ ”‏وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوئے بنا ڈالینگے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائیگی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھینگے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴‏)‏ مَیں نے اپنے آپ سے ایک سوال کِیا:‏ ’‏ایک امن‌پسند خدا کا خادم تباہ‌کُن ہتھیار بنانے کے کام میں کیسے شریک ہو سکتا ہے؟‏ (‏زبور ۴۶:‏۹‏)‏ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ مجھے اپنی ملازمت تبدیل کر دینی چاہئے۔‏

بلاشُبہ،‏ یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔‏ میرے پاس ایک باوقار ملازمت تھی۔‏ مَیں کئی سالوں کی سخت محنت،‏ تعلیم اور قربانیوں کے بعد اس مقام پر پہنچا تھا۔‏ ترقی کا یہ زینہ چڑھنے کے بعد اب مجھے اپنی ملازمت چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا تھا۔‏ تاہم،‏ آخرکار یہوواہ کیلئے میری گہری محبت اور اُسکی مرضی پوری کرنے کی دلی خواہش نے غلبہ پایا۔‏—‏متی ۷:‏۲۱‏۔‏

مَیں نے سیٹل،‏ واشنگٹن میں ایک کمپنی میں نوکری کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ تاہم،‏ افسوس کی بات ہے کہ مجھے جلد ہی یہ معلوم ہوا کہ میرا یہ کام بھی یسعیاہ ۲:‏۴ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔‏ دیگر پراجیکٹس پر کام کرنے کی میری کوششیں ناکام ہوئیں اور ایک بار پھر میرا ضمیر مجھے بےچین کرنے لگا۔‏ مَیں واضح طور پر یہ دیکھ سکتا تھا کہ مَیں اپنی نوکری کیساتھ ساتھ ایک صاف ضمیر نہیں رکھ سکتا۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۲۱‏۔‏

یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیں اپنی زندگی میں اہم تبدیلیاں لانے کی ضرورت پڑیگی۔‏ چھ ماہ کے دوران ہم نے اپنی طرزِزندگی میں ردوبدل کِیا اور گھر کے اخراجات کو بھی پہلے کی نسبت آدھا کر دیا۔‏ پھر ہم نے اپنے پُرآسائش گھر کو فروخت کر کے کولوراڈو،‏ ڈینور میں ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا۔‏ اب مَیں آخری قدم یعنی اپنی ملازمت چھوڑنے کیلئے تیار تھا۔‏ مَیں نے اپنے ایماندارانہ مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ ٹائپ کِیا۔‏ اس رات جب بچے سو گئے تو جیساکہ اس مضمون کے شروع میں بتایا گیا،‏ مَیں نے اور میری بیوی نے گھٹنے ٹیک کر یہوواہ سے دُعا کی۔‏

ایک ماہ میں ہی ہم ڈینور چلے گئے اور دو ہفتوں بعد جولائی ۱۹۷۵ میں،‏ مَیں نے اور میری بیوی نے بپتسمہ لے لیا۔‏ چھ ماہ تک مَیں نوکری تلاش کرنے میں ناکام رہا اور ہم جمع کی گئی رقم سے اپنی کفالت کرتے رہے۔‏ ساتویں مہینے تک ہمارے بچت کھاتے میں مکان کی ماہانہ قسط دینے کیلئے بھی کافی رقم نہیں تھی۔‏ مَیں کسی بھی معمولی نوکری کی تلاش میں پڑ گیا مگر اسکے فوراً بعد مجھے ایک انجینئر کی نوکری مل گئی۔‏ یہاں میری تنخواہ پہلے کی نسبت آدھی تھی لیکن پھربھی یہوواہ نے مجھے میری توقعات سے زیادہ عطا کِیا تھا۔‏ مَیں روحانی مفادات کو پہلا درجہ دیکر کتنا خوش تھا!‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

بچوں کو یہوواہ سے محبت کرنے کی تربیت دینا

اسی دوران ایکٹرینی اور مَیں خدائی اُصولوں کی مطابقت میں اپنے چار بچوں کی پرورش کرنے کے چیلنج کا مقابلہ بھی کرتے رہے۔‏ خوشی کی بات ہے کہ ہم نے ان سب کو یہوواہ کی مدد سے پُختہ مسیحی بنتے اور اپنی زندگیاں بادشاہتی منادی کے اہم کام کیلئے مخصوص کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‏ ہمارے تین بیٹے کرسٹوس،‏ لاکیس اور گریگری منسٹرئیل ٹریننگ سکول سے فارع‌التحصیل ہوکر اب مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرتے اور انہیں مضبوط کرتے ہوئے بہت سی تفویضات کو پورا کر رہے ہیں۔‏ ہماری بیٹی ٹولا نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹرز میں بطور رضاکار خدمت کر رہی ہے۔‏ ان سب کو یہوواہ کی خدمت کیلئے کامیاب پیشے اور زیادہ تنخواہ کی نوکریاں قربان کرتے ہوئے دیکھ کر ہمارے دل خوشی سے معمور ہو گئے۔‏

بہتیروں نے ہم سے پوچھا ہے کہ بچوں کی ایسی کامیاب پرورش کا راز کیا ہے۔‏ واقعی بچوں کی پرورش کرنے کا کوئی پکا فارمولا تو نہیں ہے مگر ہم نے مستعدی سے اُنکے دلوں میں یہوواہ اور پڑوسی کیلئے محبت پیدا کرنے کی کوشش کی۔‏ (‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷؛‏ متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ بچوں نے یہ بات سیکھ لی کہ ہم اپنے اعمال ہی سے یہوواہ پر یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم اُس سے محبت کرتے ہیں۔‏

پورے ہفتے میں ایک بار،‏ عموماً ہفتہ کے روز ہم بطور خاندان خدمتگزاری میں حصہ لیتے تھے۔‏ ہم باقاعدگی سے پیر کی شام کھانے کے بعد خاندانی بائبل مطالعہ کرتے تھے اور ہر بچے کیساتھ انفرادی بائبل مطالعہ بھی کرتے تھے۔‏ جب بچے چھوٹے تھے تو ہم ہر بچے کیساتھ ہفتے میں کئی بار کچھ وقت کیلئے مطالعہ کرتے تھے اور جب وہ بڑے ہوئے تو پھر ہم ہفتے میں ایک بار زیادہ وقت کیلئے مطالعہ کرتے تھے۔‏ اِن مطالعوں کے دوران ہمارے بچے بڑے اعتماد کیساتھ ہم سے کھل کر اپنے مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔‏

ہم بطور خاندان صحتمندانہ تفریح سے بھی لطف‌اندوز ہوتے تھے۔‏ ہمیں ملکر مختلف ساز بجانا بھی پسند تھا اور ہر بچے کو اپنے پسندیدہ گیتوں کی دھنیں بجانا اچھا لگتا تھا۔‏ ہفتہ کے آخر پر ہم بعض‌اوقات صحتمندانہ رفاقت کیلئے دوسرے خاندانوں کو گھر پر دعوت دیتے تھے۔‏ ہم خاندان کے طور پر سیروتفریح بھی کرتے تھے۔‏ ایسے ہی ایک موقع پر ہم نے کولوراڈو کے پہاڑوں میں دو ہفتے گزارے اور مقامی کلیسیاؤں کیساتھ میدانی خدمت میں حصہ لیا۔‏ ہمارے بچے اس وقت کو خوشی سے یاد کرتے ہیں جب اُنہوں نے ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر مختلف کاموں میں حصہ لیا اور دیگر جگہوں پر کنگڈم ہال کی تعمیر میں مدد کی۔‏ جب ہم اپنے بچوں کو رشتہ‌داروں سے ملنے کیلئے یونان لے گئے تو وہ بہتیرے ایماندار گواہوں سے ملنے کے قابل بھی ہوئے جو اپنے ایمان کی وجہ سے قید کئے گئے تھے۔‏ اس سے ان پر گہرا اثر پڑا اور سچائی کیلئے ثابت‌قدم اور جرأتمند رہنے کے اپنے عزم کو اَور زیادہ مضبوط کرنے میں اُنکی مدد ہوئی۔‏

بلاشُبہ،‏ کچھ بچوں نے بعض‌اوقات نافرمانی کی یا رفاقت کے سلسلے میں غیردانشمندانہ انتخابات کئے۔‏ کبھی‌کبھار ایسا بھی ہوا کہ بعض حلقوں میں ضرورت سے زیادہ سختی برتنے سے ہم نے اُن کیلئے مسائل پیدا کر دئے۔‏ تاہم،‏ بائبل میں پائی جانے والی ”‏[‏یہوواہ]‏ کی .‏ .‏ .‏ نصیحت“‏ پر عمل کرنے سے ہم سب کو معاملات سلجھانے میں مدد ملی۔‏—‏افسیوں ۶:‏۴؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

میری زندگی کا نہایت پُرمسرت وقت

ہمارے بچوں کے کُل‌وقتی خدمت میں جانے کے بعد،‏ ایکٹرینی اور مَیں اس بات پر سنجیدگی سے سوچنے لگے کہ ہم اس زندگی بچانے کے کام میں اپنے حصے کو کیسے بڑھا سکتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ مَیں نے ۱۹۹۴ میں اپنی ملازمت سے جلدی ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ہم دونوں نے باقاعدہ پائنیر خدمت شروع کر دی۔‏ ہماری خدمتگزاری میں تمام مقامی کالج اور یونیورسٹیز کا دورہ کرنا شامل ہے جہاں ہم طالبعلموں کو گواہی دیتے اور ان میں سے بعض کو بائبل مطالعے کراتے ہیں۔‏ مَیں اُنکی مشکلات سمجھ سکتا ہوں—‏کچھ سال پہلے مَیں بھی اسی دَور سے گزرا تھا—‏اسلئے یہوواہ کی بابت سیکھنے میں انکی مدد کرنے میں مجھے کافی کامیابی ہوئی ہے۔‏ ایتھیوپیا،‏ برازیل،‏ بولیویا،‏ ترکی،‏ تھائی‌لینڈ،‏ چلی،‏ چین،‏ مصر اور میکسیکو کے طالبعلموں کیساتھ مطالعے کرنے سے واقعی بہت خوشی حاصل ہوئی!‏ مَیں ٹیلیفون پر گواہی دینے سے بھی خوشی حاصل کرتا ہوں،‏ خاص طور پر اُن لوگوں کیساتھ جو میری آبائی زبان بولتے ہیں۔‏

مشکل یونانی تلفظ اور بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے مجھے کافی مشکلات کا سامنا ہے مگر پھربھی مَیں نے ہمیشہ یسعیاہ جیسا جذبہ دکھاتے ہوئے خود کو دستیاب رکھا ہے جس نے کہا:‏ ”‏مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶:‏۸‏)‏ ہمیں یہوواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کرنے میں چھ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے کی خوشی بھی حاصل ہوئی ہے۔‏ یہ یقیناً ہم دونوں کیلئے نہایت ہی پُرمسرت وقت رہا ہے۔‏

ایک وقت ایسا تھا جب میری زندگی ساتھی انسانوں کو ہلاک کرنے کیلئے خطرناک ہتھیار بنانے کیلئے وقف تھی۔‏ تاہم،‏ اپنے غیرمستحق فضل سے یہوواہ نے اپنے مخصوص‌شُدہ خادم بننے اور فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی خوشخبری لوگوں تک پہنچانے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کرنے میں میری اور میرے خاندان کی مدد کی۔‏ جب مَیں اپنے ان فیصلوں پر غور کرتا ہوں جو میرے لئے ایک چیلنج تھے تو ملاکی ۳:‏۱۰ کے یہ الفاظ مجھے یاد آتے ہیں:‏ ”‏میرا اِمتحان کرو ربّ‌الافواج فرماتا ہے کہ مَیں تم پر آسمان کے دریچوں کو کھولکر برکت برساتا ہوں کہ نہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس اُسکے لئے جگہ نہ رہے۔‏“‏ اس نے واقعی ایسا کر کے ہمارے دل کو تسکین بخشی ہے!‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر بکس/‏تصویر]‏

کرسٹوس:‏ مَیں اس بات کی بہت قدر کرتا ہوں کہ میرے والدین نے یہوواہ کی پورے دل‌وجان سے وفاداری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ‌داریوں کو بھی خوب نبھایا ہے۔‏ ہم خدمتگزاری اور سیروتفریح سب کچھ خاندان کے طور پر ملکر ہی کرتے تھے۔‏ میرے والدین اپنی زندگی میں دیگر بہت سے کام بھی کر سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی زندگی سادہ اور خدمتگزاری پر مُرتکز رکھی۔‏ آج مَیں دل‌وجان سے یہوواہ کی خدمت کرنے سے واقعی خوش ہوں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر بکس/‏تصویر]‏

لاکیس:‏ میرے والد کو ریاکاری سے نفرت تھی۔‏ وہ خاص طور پر خاندان کیلئے صحیح نمونہ قائم کرنے کے سلسلے میں ریاکاری سے گریز کرنے کی بہت زیادہ کوشش کرتے تھے۔‏ وہ اکثر ہم سے کہتے تھے:‏ ”‏یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کرنا نہایت اہم معاملہ ہے۔‏ آپکو یہوواہ کیلئے قربانیاں دینے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‏ مسیحی ہونے کا یہی مطلب ہے۔‏“‏ یہ الفاظ ہمیشہ میرے ذہن میں رہے اور اِنہوں نے مجھے یہوواہ کیلئے قربانیاں دینے سے ان کے نمونے کی پیروی کرنے کے قابل بنایا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر بکس/‏تصویر]‏

گریگری:‏ اپنی خدمتگزاری کو فروغ دینے میں میرے والدین کے حوصلہ‌افزا الفاظ سے زیادہ ان کے نمونے اور یہوواہ کی خدمت میں ان کی شادمانی نے مجھے اپنے حالات کا دوبارہ جائزہ لینے،‏ کُلوقتی خدمت شروع کرنے کی بابت پریشانی اور فکروں کو دور کرنے اور یہوواہ کے کام کے لئے اَور زیادہ محنت کرنے کی تحریک دی۔‏ مَیں اپنے والدین کا شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے میری مدد کی تاکہ مَیں جانفشانی کیساتھ خدمت کرنے سے حاصل ہونے والی خوشی کا تجربہ کر سکوں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر بکس/‏تصویر]‏

ٹولا:‏ ہمارے والدین نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ یہوواہ کے ساتھ ہمارا رشتہ ہماری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور یہوواہ کو بہترین چیزیں دینا حقیقی خوشی حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کو میرے لئے حقیقی بنا دیا۔‏ میرے والد اکثر ہم سے کہا کرتے تھے کہ یہوواہ کو خوش کرنے کی حتی‌الوسع کوشش کرنے سے ہی ہم رات کو صاف ضمیر اور ناقابلِ‌بیان اطمینان کے ساتھ سو سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵۲ پر تصویر]‏

جب مَیں یونان میں ایک فوجی تھا،‏ ۱۹۵۱

‏[‏صفحہ ۵۲ پر تصویر]‏

ایکٹرینی کیساتھ ۱۹۶۶ میں

‏[‏صفحہ ۶۲ پر تصویر]‏

۱۹۹۶ میں میرا خاندان:‏ (‏پیچھے،‏ بائیں سے دائیں)‏گریگری،‏ کرسٹوس،‏ ٹولا؛‏ (‏آگے)‏ لاکیس،‏ ایکٹرینی اور مَیں