ہماری توقعات معقول کیوں ہونی چاہئیں؟
ہماری توقعات معقول کیوں ہونی چاہئیں؟
اُمیدیں اور خواہشات پوری ہو جانے سے ہمیں بہت اطمینان ملتا ہے۔ تاہم، ہمارے بہتیرے خواب اور توقعات کی تکمیل ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتی۔ زندگی میں مایوسی کا بارہا سامنا کرنے کے باعث ہم نہ صرف اپنی ذات بلکہ دوسروں پر بھی غصہ نکالتے ہیں۔ ایک دانشمند شخص کا یہ قول واقعی نہایت موزوں ہے: ”اُمید کے بَر آنے میں تاخیر دل کو بیمار کرتی ہے۔“—امثال ۱۳:۱۲۔
مایوسی پیدا کرنے والے بعض عناصر کون سے ہیں؟ ہماری توقعات معقول کیسے ہو سکتی ہیں؟ مزیدبرآں، یہ ہمارے لئے فائدہمند کیوں ہے؟
توقعات اور مایوسی
ہم آجکل کی تیزرفتار زندگی کیساتھ چلنے کی جتنی زیادہ کوشش کرتے ہیں، ہمیں اُتنی ہی ناکامی ہوتی ہے۔ ہمیں مختلف کاموں میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرنی پڑتی ہے اور جب ہم کوئی کام نہیں کر پاتے تو ہمیں خود پر بہت غصہ آتا ہے۔ ہم یہ بھی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہم دوسروں کو مایوس کر رہے ہیں۔ سنتھیا، ایک ماں اور بیوی کی حیثیت سے اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے دباؤ سے واقف ہے اسلئے وہ کہتی ہے: ”اپنے بچوں کی موزوں اور بااُصول اصلاحوتربیت نہ کر پانے کا احساس نہایت پریشانکُن ہوتا ہے۔“ نوجوان سٹیفنی اپنی تعلیم کی بابت کہتی ہے: ”مَیں جو کام کرنا چاہتی ہوں اس کیلئے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا جسکی وجہ سے میرے اندر بےصبری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔“
نامعقول توقعات بآسانی کمالپرستی میں بدل جاتی ہے جو نہایت مایوسکُن ثابت ہوتی ہے۔ ایک نوجوان شادیشُدہ شخص بین اعتراف کرتا ہے: ”مَیں اپنے کاموں، خیالوں اور احساسات کا جائزہ لیتے وقت ہمیشہ ان میں بہتری پیدا کرنے کے طریقے کی بابت سوچتا ہوں۔ مَیں ہمیشہ کاملیت کی تلاش میں رہتا ہوں جو بےصبری، مایوسی اور ناکامی کا سبب بنتا ہے۔“ ایک مسیحی بیوی گیل بیان کرتی ہے: ”کمالپرستی ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ ہم سُپر مائیں اور سُپر بیویاں بننا چاہتی ہیں۔ احساسِتکمیل ہمیں خوشی بخشتا ہے جبکہ بےثمر کوششوں سے ہمیں کوفت ہوتی ہے۔“
تاہم، بگڑتی ہوئی صحت اور بڑھاپا بھی مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔ کارکردگی اور توانائی میں کمی ہماری حدود کو واضح کرنے کے علاوہ مایوسی میں اضافہ کرتی ہے۔ الزبتھ تسلیم کرتی ہے، ”جب مَیں وہ کام نہیں کر پاتی جو اپنی بیماری سے پہلے عموماً آسانی سے کر لیتی تھی تو مَیں خود سے بیزار ہو جاتی ہوں۔“
مذکورہبالا مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مایوسی کے احساسات کا آغاز کیسے ہوتا ہے۔ اگر ان احساسات پر قابو نہ پایا جائے تو ہم اس سوچ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ دوسرے ہماری قدر نہیں کرتے۔ لہٰذا، مایوسی کا مقابلہ کرنے اور معقول توقعات کو فروغ دینے کیلئے ہم کونسے مثبت اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟
معقول توقعات کو فروغ دینے کے طریقے
اوّل، یہ یاد رکھیں کہ یہوواہ معقول اور فہیم ہے۔ زبور ۱۰۳:۱۴ ہمیں یاددہانی کراتی ہے: ”وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ ہماری لیاقتوں اور کمزوریوں کو جانتے ہوئے یہوواہ ہم سے اُنہی چیزوں کی توقع رکھتا ہے جو ہم اُسے دے سکتے ہیں۔ تاہم، وہ ہم سے یہ تقاضا ضرور کرتا ہے کہ ہم ”اپنے خدا کے حضور فروتنی“ سے چلیں۔—میکاہ ۶:۸۔
رومیوں ۱۲:۱۲؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷) اس سے ہماری مدد کیسے ہوتی ہے؟ دُعا ہماری سوچ کو پُختہ اور متوازن بناتی ہے۔ خلوصدل دُعا ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے—یہ انکساری اور فروتنی کی علامت ہے۔ یہوواہ ہماری دُعاؤں کے جواب میں ہمیں اپنی رُوحاُلقدس عطا کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتا ہے جسکے پھلوں میں محبت، مہربانی، نیکی اور پرہیزگاری شامل ہیں۔ (لوقا ۱۱:۱۳؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) دُعا پریشانی اور مایوسی کو بھی کم کرتی ہے۔ الزبتھ کہتی ہے کہ دُعا سے ”آپ جو تسلی حاصل کرتے ہیں وہ کسی دوسرے ذریعے سے نہیں مل سکتی۔“ کیون بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہے: ”مَیں مطمئن دل اور روشن دماغ کے لئے دُعا کرتا ہوں تاکہ کسی مسئلے سے نپٹ سکوں۔ یہوواہ مجھے کبھی بھی مایوس نہیں کرتا۔“ پولس رسول دُعا کی قدروقیمت سے واقف تھا۔ اسلئے اُس نے یہ مشورہ دیا: ”تمہاری درخواستیں . . . خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔“ (فلپیوں ۴:۶، ۷) جیہاں، یہوواہ سے رابطہ نہ صرف اپنی ذات بلکہ دوسروں سے بھی معقول توقعات وابستہ رکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
یہوواہ ہمیں دُعا میں اُس سے رُجوع کرنے کی تاکید بھی کرتا ہے۔ (تاہم، وقتاًفوقتاً ہمیں فوری یقیندہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ باموقع بات بہت اچھی لگتی ہے۔ ایک قابلِبھروسا اور پُختہ دوست کیساتھ گفتگو ایک نئے زاویے سے اپنی مایوسی یا پریشانی کی وجہ کو دیکھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ (امثال ۱۵:۲۳؛ ۱۷:۱۷؛ ۲۷:۹) مایوسی کا سامنا کرنے والے نوجوان یہ سیکھتے ہیں کہ والدین کی مشورت کے طالب ہونا توازن قائم رکھنے میں اُنکی مدد کرتا ہے۔ کینڈی قدردانی ظاہر کرتے ہوئے تسلیم کرتی ہے: ”میرے والدین کی مشفقانہ راہنمائی نے مجھے زیادہ معقول اور متوازن بنایا جس سے دوسروں کیساتھ میرے تعلقات خوشگوار ہو گئے۔“ جیہاں، امثال ۱:۸، ۹ کی یاددہانی بالکل باموقع ہے: ”اَے میرے بیٹے! اپنے باپ کی تربیت پر کان لگا اور اپنی ماں کی تعلیم کو ترک نہ کر۔ کیونکہ وہ تیرے سر کے لئے زینت کا سہرا اور تیرے گلے کے لئے طوق ہونگی۔“
کمالپرستی کے نتائج اس کہاوت میں بخوبی بیان کئے گئے ہیں: ”زندگی کو اپنی توقعات کے مطابق ڈھالنا مایوسی کا باعث بنتا ہے۔“ اس سے گریز کرنے کیلئے اپنی سوچ کو بدلنا پڑتا ہے۔ فروتنی اور انکساری—اپنی حدود کی بابت ایک حقیقتپسندانہ نظریہ—یقینی طور پر ہم میں متوازن اور معقول توقعات پیدا کرینگی۔ رومیوں ۱۲:۳ ہمیں مناسب طور پر مشورہ دیتی ہے کہ ”جیسا سمجھنا چاہیے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے۔“ مزیدبرآں، فلپیوں ۲:۳ فروتنی اور دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھنے کیلئے ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے۔
الزبتھ، جسکا ذکر پہلے کِیا گیا ہے، اپنی بیماری کے باعث خود سے بیزار تھی۔ اسے مختلف معاملات میں یہوواہ کے نقطۂنظر کو سمجھنے اور اس بات سے تسلی پانے کے لئے وقت کی ضرورت تھی کہ یہوواہ ہماری خدمت کو بھولتا نہیں ہے۔ کولن عضلات کو کمزور کر دینے والی بیماری کی وجہ سے چلنےپھرنے کے قابل نہیں ہے۔ شروع شروع میں وہ یہ محسوس کرنے لگا کہ پہلے کی نسبت جب اُسکی صحت اچھی ہوا کرتی تھی اب اسکی خدمتگزاری کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ ۲-کرنتھیوں ۸:۱۲ جیسے صحائف پر غوروفکر کرنے سے وہ ان احساسات پر قابو پانے کے قابل ہوا۔ یہ آیت کہتی ہے: ”اگر نیت ہو تو خیرات اُسکے موافق مقبول ہوگی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُسکے موافق جو اُسکے پاس نہیں۔“ کولن کہتا ہے، ”حالانکہ میرے پاس تو دینے کیلئے اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن مَیں پھربھی دے سکتا ہوں اور یہوواہ اسے قبول کرتا ہے۔“ عبرانیوں ۶:۱۰ میں ہمیں یاددہانی کرائی گئی ہے: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تم نے اُسکے نام کے واسطے . . . ظاہر کی۔“
تاہم، ہم اس بات کا تعیّن کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری توقعات معقول ہیں؟ اپنے آپ سے پوچھیں، ’کیا میری توقعات یہوواہ کی توقعات سے مطابقت رکھتی ہیں؟‘ گلتیوں ۶:۴ بیان کرتی ہے: ”ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے۔ اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔“ یاد رکھیں، یسوع نے کہا تھا: ”میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“ جیہاں، مسیحیوں کے طور پر، ہمیں اپنا جؤا اُٹھانا پڑتا ہے مگر یہ ”ملائم“ اور ”ہلکا“ ہے اور یسوع نے وعدہ کِیا تھا کہ اگر ہم اسے صحیح طرح اُٹھانا سیکھیں گے تو اس سے آرام پائیں گے۔—متی ۱۱:۲۸-۳۰۔
معقول توقعات بااجر ثابت ہوتی ہیں
خدا کے کلام کی مشورت سننے اور اس کا اطلاق کرنے سے جب ہم معقول توقعات قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسکے فوائد فوری اور دیرپا ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ہماری صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ یہوواہ کی یاددہانیوں سے مستفید ہونے والی جینیفر تسلیم کرتی ہے: ”مَیں زندگی کیلئے زیادہ گرمجوشی اور لگن ظاہر کر سکتی ہوں۔“ امثال ۴:۲۱، ۲۲ مناسب طور پر ہمیں یہوواہ کے کلام پر اپنی آنکھوں اور اپنے دل سے توجہ دینے کی نصیحت کرتی ہے ”کیونکہ جو اِسکو پا لیتے ہیں یہ اُنکی حیات اور اُنکے سارے جسم کی صحت ہے۔“
ایک اَور بخشش ذہنی اور جذباتی فلاح ہے۔ ٹریزا کہتی ہے، ”مَیں ہمیشہ خدا کے کلام کو اپنے دلودماغ میں نقش کرنے سے خوشی حاصل کرتی ہوں۔“ یہ سچ ہے کہ ہم پھربھی زندگی میں مایوسی کا تجربہ کرینگے۔ تاہم، ہم اسے بہتر طور پر برداشت کرنے کے قابل بھی ہونگے۔ یعقوب ۴:۸ مشورہ دیتی ہے، ”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔“ یہوواہ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں مضبوط بنانے اور سلامتی عطا کرنے کا وعدہ بھی کرتا ہے۔—زبور ۲۹:۱۱۔
معقول توقعات ہمیں روحانی استحکام برقرار رکھنے کے قابل بناتی ہیں۔ یہ بھی ایک برکت ہے۔ ہم زندگی کی زیادہ اہم چیزوں پر توجہ مُرتکز رکھ سکتے ہیں۔ (فلپیوں ۱:۱۰) پھر ہمارے نشانے حقیقتپسندانہ اور قابلِرسائی ہوتے ہیں اور زیادہ خوشی اور اطمینان بخشتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہوئے خود کو یہوواہ کے سُپرد کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں کہ وہ ہماری بہتری کا خواہاں ہے۔ پطرس کہتا ہے، ”خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سربلند کرے۔“ (۱-پطرس ۵:۶) کیا یہوواہ سے عزت حاصل کرنے سے بڑھ کر بھی کوئی اجر ہو سکتا ہے؟
[صفحہ ۳۱ پر تصویریں]
معقول توقعات کو فروغ دینے سے ہمیں مایوسی اور ناکامی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے