مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ اختلافات کیسے نپٹاتے ہیں؟‏

آپ اختلافات کیسے نپٹاتے ہیں؟‏

آپ اختلافات کیسے نپٹاتے ہیں؟‏

ہر روز ہماری ملاقات مختلف لوگوں سے ہوتی ہے۔‏ اس سے ہمیں خوشی اور نئے نظریات حاصل ہوتے ہیں۔‏ لیکن بعض‌اوقات اس سے ہماری روزمرّہ زندگی میں اختلافات بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے کچھ تو سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ دیگر معمولی ہوتے ہیں۔‏ انکی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو،‏ اختلافات سے نپٹنے کا طریقہ ہمیں ذہنی،‏ جذباتی اور روحانی طور پر متاثر کرتا ہے۔‏

اختلافات کو خوشگوار طریقے سے حل کرنے کی حتی‌الوسع کوشش کرنا،‏ صحتمندانہ زندگی اور دوسروں کے ساتھ پُرامن تعلقات سے لطف‌اندوز ہونے کا سبب بنیگا۔‏ ایک قدیم مثل کہتی ہے:‏ ”‏مطمئن دل جسم کی جان ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۴:‏۳۰‏۔‏

یہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے:‏ ”‏جو اپنے نفس پر ضابط نہیں وہ بےفصیل اور مسمارشُدہ شہر کی مانند ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۵:‏۲۸‏)‏ ہم میں سے کون بُرے خیالات کے حملے کی زد میں آنا چاہیگا جو ہمارے لئے ایسا طرزِعمل اختیار کرنے کا باعث بن سکتے ہیں جس سے نہ صرف دوسروں کو بلکہ ہماری اپنی ذات کو بھی بھاری نقصان ہو سکتا ہے؟‏ اگر غصے کو قابو میں نہ رکھا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‏ یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں ہمیں اپنے رویے کو جانچنے کی تاکید کی جو دوسروں کیساتھ ہمارے اختلافات کو نپٹانے کے طریقے پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔‏ (‏متی ۷:‏۳-‏۵‏)‏ دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم مختلف نقطۂ‌نظر اور پس‌منظر رکھنے والے لوگوں کیساتھ کیسے دوستی پیدا کر سکتے اور اسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏

ہمارا رویہ

اگر ہمیں آئندہ کوئی اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہے یا پھر کوئی اختلاف پیدا ہو چکا ہے تو اُسے حل کرنے سے پہلے یہ تسلیم کر لینا اچھا ہوگا کہ ہم غلط سوچ اور رُجحانات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔‏ صحائف ہمیں یاددہانی کراتے ہیں کہ ہم سب اکثر گناہ کرتے ہیں اور ”‏خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ مزیدبرآں،‏ اگر فہم سے کام لیا جائے تو یہ واضح ہو جائیگا کہ کوئی دوسرا شخص ہمارے مسئلے کی وجہ نہیں ہوتا۔‏ اس سلسلے میں،‏ آئیے یوناہ کے تجربے پر غور کرتے ہیں۔‏

یہوواہ کی ہدایت کے مطابق،‏ یوناہ نینوہ کے باشندوں کے خلاف خدائی عدالت کی منادی کرنے کیلئے وہاں گیا۔‏ اسکا پُرمسرت نتیجہ یہ نکلا کہ نینوہ کے پورے شہر نے توبہ کی اور سچے خدا پر ایمان لایا۔‏ (‏یوناہ ۳:‏۵-‏۱۰‏)‏ یہوواہ نے محسوس کِیا کہ اُنکے تائب رُجحان کے باعث اُنہیں معافی ملنی چاہئے،‏ لہٰذا اُس نے انہیں بخش دیا۔‏ ”‏لیکن یوؔناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا۔‏“‏ (‏یوناہ ۴:‏۱‏)‏ یہوواہ کے رحم کیلئے یوناہ کا جوابی‌عمل نہایت حیران‌کُن تھا۔‏ تاہم،‏ یوناہ یہوواہ سے کیوں ناراض تھا؟‏ یوناہ اپنے احساسات کی بابت زیادہ فکرمند تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ سارے نینوہ کے سامنے اُسکی رُسوائی ہوئی ہے۔‏ وہ یہوواہ کے رحم کیلئے قدردانی دکھانے میں ناکام رہا۔‏ یہوواہ نے یوناہ کے رُجحان کو بدلنے اور خدا کے رحم کی افضل قدروقیمت کو سمجھنے میں اُسکی مدد کرنے کیلئے اُسے ایک سبق سکھایا۔‏ (‏یوناہ ۴:‏۷-‏۱۱‏)‏ یہ بات واضح ہے کہ یہوواہ کی بجائے یوناہ کے رُجحان کو بدلنے کی ضرورت تھی۔‏

کیا ہمیں بھی اسی طرح بعض‌اوقات کسی معاملے کی بابت اپنے رُجحان کو بدلنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏ پولس رسول ہمیں نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏عزت کی رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏)‏ اُسکا کیا مطلب تھا؟‏ ایک لحاظ سے،‏ وہ ہمیں معقول بننے اور دوسرے مسیحیوں کیساتھ عزت‌واحترام سے پیش آنے کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏ اس میں ہر شخص کے آزادانہ انتخاب کے شرف کو تسلیم کرنا شامل ہے۔‏ پولس نے ہمیں یہ یاددہانی بھی کرائی:‏ ”‏ہر شخص اپنا ہی بوجھ اُٹھائیگا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۵‏)‏ لہٰذا،‏ اس سے پہلے کہ اختلافات جدائی پیدا کر دیں اپنے رُجحان میں ردوبدل کی ضرورت پر غور کرنا دانشمندانہ روش ہوگی!‏ ہمیں یہوواہ کی سوچ کی عکاسی کرنے اور اُس سے حقیقی محبت رکھنے والوں کیساتھ صلح قائم رکھنے کی سخت کوشش کرنی چاہئے۔‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۸،‏ ۹‏۔‏

ہمارا نقطۂ‌نظر

تصور کریں کہ دو بچے ایک ہی کھلونے کو حاصل کرنے کے لئے اُسے بڑی طاقت سے اپنی اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔‏ ممکن ہے کہ اشتعال‌انگیز باتوں کیساتھ یہ جدوجہد اُس وقت تک جاری رہے جبتک اُن میں سے کوئی ایک اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کر دیتا یا کوئی اَور آکر مداخلت نہیں کرتا۔‏

پیدایش کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ جب ابرہام کو معلوم ہوا کہ اُس کے چرواہوں اور اُسکے بھتیجے لوط کے چرواہوں میں جھگڑا ہو گیا ہے تو اُس نے خود لوط کے پاس جاکر کہا:‏ ”‏میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہؤا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔‏“‏ ابرہام کسی بھی اختلاف کی وجہ سے اپنا رشتہ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ اس کیلئے اُسے کیا قیمت چکانی پڑی؟‏ بزرگ ہونے کے ناطے اُسے پہلے انتخاب کرنے کا حق حاصل تھا مگر وہ اپنے اس حق کو قربان کر دینے کیلئے تیار تھا۔‏ ابرہام نے لوط کو اپنے گھرانے اور گلّے کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کا موقع دیا۔‏ لہٰذا،‏ لوط نے اپنے لئے سدوم اور عمورہ کا سرسبز علاقہ منتخب کِیا۔‏ ابرہام اور لوط صلح‌صفائی سے ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہو گئے۔‏—‏پیدایش ۱۳:‏۵-‏۱۲‏۔‏

کیا ہم بھی دوسروں کیساتھ پُرامن تعلقات برقرار رکھنے کیلئے ابرہام کے جذبے کی نقل کرنے کیلئے تیار ہیں؟‏ بائبل کی یہ سرگزشت اختلاف کو سلجھانے کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔‏ ابرہام نے درخواست کی:‏ ”‏میرے اور تیرے درمیان .‏ .‏ .‏ جھگڑا نہ ہؤا کرے۔‏“‏ ابرہام خلوصدلی سے اس مسئلے کا صلح‌جویانہ حل تلاش کرنا چاہتا تھا۔‏ یقینی طور پر پُرامن تعلقات برقرار رکھنے کی دعوت کسی بھی غلط‌فہمی کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔‏ ابرہام نے آخر میں یہ بھی کہا تھا کہ ”‏ہم بھائی ہیں۔‏“‏ ہم ذاتی ترجیح یا تکبّر کی خاطر ایسے بیش‌قیمت رشتے کو خراب کیوں کریں؟‏ ابرہام نے اہم چیزوں پر توجہ مرکوز رکھی۔‏ اُس نے عزتِ‌نفس کیساتھ ایسا کِیا اور اپنے بھتیجے کے وقار کا بھی لحاظ رکھا۔‏

اگرچہ ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس میں اختلافات نپٹانے کیلئے دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے توبھی ذاتی طور پر معاملات کو سلجھانا کتنا بہتر ہوگا!‏ یسوع نے ہماری حوصلہ‌افزائی کی کہ اپنے بھائی کیساتھ صلح قائم رکھنے کیلئے پہل کریں اور اگر ضرورت پڑے تو معافی بھی مانگیں۔‏ * (‏متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ یہ فروتنی یا انکساری کا تقاضا کرتا ہے مگر پطرس نے تحریر کِیا:‏ ”‏ایک دوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمربستہ رہو اسلئےکہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۵‏)‏ اپنے ساتھی پرستاروں کیساتھ ہمارا رویہ خدا کیساتھ ہمارے رشتے پر براہِ‌راست اثرانداز ہوتا ہے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۴:‏۲۰‏۔‏

ممکن ہے کہ مسیحی کلیسیا میں امن برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کسی حق سے دستبردار ہونا پڑے۔‏ یہوواہ کے گواہوں سے اب رفاقت رکھنے والی ایک بڑی تعداد گزشتہ پانچ سالوں میں سچے پرستاروں پر مشتمل خدا کے خاندان کا حصہ بنی ہے۔‏ اس سے ہمارے دل کتنی خوشی سے معمور ہو جاتے ہیں!‏ ہمارا رویہ ان نئے اشخاص اور کلیسیا کے دیگر اشخاص پر اثرانداز ہوتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ دوسرے ہماری بابت کیا سوچیں گے،‏ اپنی تفریح،‏ مشاغل،‏ سماجی دلچسپیوں یا ملازمت کا بڑی احتیاط کیساتھ انتخاب کرنا معقول ہوگا۔‏ کیا ہمارے کسی بھی فعل یا بات کا غلط مطلب دوسروں کیلئے ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے؟‏

پولس رسول ہمیں یاددہانی کراتا ہے:‏ ”‏سب چیزیں روا تو ہیں مگر سب چیزیں مفید نہیں۔‏ سب چیزیں روا تو ہیں مگر سب چیزیں ترقی کا باعث نہیں۔‏ کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ مسیحیوں کے طور پر ہم مسیحی برادری میں محبت اور اتحاد کو فروغ دینے کیلئے حقیقی فکر رکھتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۳۳:‏۱؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

صلح‌جویانہ باتیں

ہماری باتوں سے عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔‏ ”‏دل‌پسند باتیں شہد کا چھتّا ہیں۔‏ وہ جی کو میٹھی لگتی ہیں اور ہڈیوں کے لئے شفا ہیں۔‏“‏ (‏امثال ۱۶:‏۲۴‏)‏ جدعون کی افرائیمیوں کیساتھ ممکنہ جھگڑے سے گریز کرنے کی سرگزشت اس مثل کی صداقت کو ظاہر کرتی ہے۔‏

جدعون نے مدیانیوں کے خلاف جنگ کے دوران افرائیم کے قبیلے سے مدد مانگی۔‏ تاہم،‏ جب جنگ ختم ہوئی تو افرائیمیوں نے بڑے غصے میں جدعون سے شکایت کی کہ اس نے انہیں لڑائی کے شروع میں کیوں نہیں بلایا تھا۔‏ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ ”‏اُنہوں نے اُس کے ساتھ بڑا جھگڑا کِیا۔‏“‏ جدعون نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں نے تمہاری طرح بھلا کِیا ہی کیا ہے؟‏ کیا اؔفرائیم کے چھوڑے ہوئے انگور بھی اؔبیعزر کی فصل سے بہتر نہیں ہیں؟‏ خدا نے مِدؔیان کے سردار عوؔریب اور زئیبؔ کو تمہارے ہاتھ میں کر دیا۔‏ پس تمہاری طرح مَیں کر ہی کیا سکا ہوں؟‏“‏ (‏قضاۃ ۸:‏۱-‏۳‏)‏ غصہ ٹھنڈا کرنے والے،‏ جچےتُلے الفاظ سے جدعون نے ایک تباہ‌کُن بین‌القبائلی جنگ کو روکا۔‏ افرائیم کے قبیلے کے لوگوں کو غالباً خودپسندی اور تکبّر کا مسئلہ درپیش تھا۔‏ تاہم،‏ جدعون نے اسکے باوجود پُرامن طریقے سے اس معاملے کو حل کِیا۔‏ کیا ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں؟‏

دوسرے بھی اشتعال میں آکر ہمارے دشمن بن سکتے ہیں۔‏ اُن کے احساسات اور اُن کے نقطۂ‌نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏ کہیں ہم اُن کے اِن احساسات کے ذمہ‌دار تو نہیں ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ معذرت اور افسوس کا اظہار کریں کہ ہماری وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔‏ سوچ‌سمجھ کر کہے گئے چند الفاظ ٹوٹے ہوئے رشتے کو بحال کر سکتے ہیں۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۴‏)‏ بعض ناراض لوگوں کو محض ہماری مہربانہ حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏لکڑی نہ ہونے سے آگ بجھ جاتی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۶:‏۲۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ مثبت انداز سے کہے گئے جچےتُلے الفاظ ’‏قہر کو دور‘‏ کرکے صلح کو قائم رکھتے ہیں۔‏—‏امثال ۱۵:‏۱‏۔‏

پولس رسول نے مشورہ دیا:‏ ”‏جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل‌ملاپ رکھو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۸‏)‏ یہ سچ ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات کو تو قابو میں نہیں رکھ سکتے مگر صلح قائم رکھنے کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کر سکتے ہیں۔‏ اپنے اور دوسروں کے ناکامل طرزِعمل کا نشانہ بننے سے پہلے،‏ ہم اب بائبل کے ٹھوس اصولوں کا اطلاق کر سکتے ہیں۔‏ اختلافات کو یہوواہ کی ہدایت کے مطابق نپٹانے سے ہمیں دائمی اطمینان اور خوشی حاصل ہوگی۔‏—‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 اکتوبر ۱۵،‏ ۱۹۹۹ کے مینارِنگہبانی میں مضامین ”‏اپنے دل سے معاف کریں“‏ اور ”‏تُو اپنے بھائی کو جیت سکتا ہے“‏ دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

کیا ہم ہر معاملہ اپنے طریقے سے نپٹانا چاہتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ابرہام نے صلح‌جوئی کیساتھ اختلافات نپٹانے کا عمدہ نمونہ قائم کِیا