مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کو خوش کرنے والی حمد کی قربانیاں

یہوواہ کو خوش کرنے والی حمد کی قربانیاں

یہوواہ کو خوش کرنے والی حمد کی قربانیاں

‏”‏اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱‏۔‏

۱.‏ بائبل موسوی شریعت کے تحت قربانیوں کی نسبتی قدروقیمت کی بابت کیا بیان کرتی ہے؟‏

‏”‏شریعت جس میں آیندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اور ان چیزوں کی اصلی صورت نہیں ان ایک ہی طرح کی قربانیوں سے جو ہر سال بِلاناغہ گذرانی جاتی ہیں پاس آنے والوں کو ہرگز کامل نہیں کر سکتی۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۱‏)‏ یہاں ایک ہی واضح بیان میں،‏ پولس رسول تصدیق کر دیتا ہے کہ جہاں تک انسان کی نجات کا تعلق ہے تو موسوی شریعت کے تحت گذرانی جانے والی قربانیاں دائمی قدروقیمت کی حامل نہیں تھیں۔‏—‏کلسیوں ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

۲.‏ شریعت کی نذروں اور قربانیوں کی بابت بائبل میں مفصل معلومات کو سمجھنے کی کوشش کرنا کیوں بیکار نہیں ہے؟‏

۲ کیا اس کا مطلب ہے کہ نذروں اور قربانیوں کے متعلق توریت میں پائی جانے والی معلومات آجکل مسیحیوں کیلئے بےوقعت ہیں؟‏ دراصل،‏ ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے،‏ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں تھیوکریٹک منسٹری سکول میں اندراج کرانے والوں نے حال ہی میں بائبل کی پہلی پانچ کتابوں کو پڑھا ہے۔‏ بعض نے انہیں پڑھنے اور تمام تفصیلات کو سمجھنے کیلئے مستعد کوشش کی ہے۔‏ کیا ان کی تمام کوشش رائیگاں گئی ہے؟‏ یقیناً ایسا نہیں ہے کیونکہ ”‏جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتابِ‌مقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۴‏)‏ پس،‏ سوال یہ ہے کہ نذروں اور قربانیوں کے متعلق شریعت میں پائی جانے والی معلومات سے ہم کونسی ”‏تعلیم“‏ اور ”‏تسلی“‏ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

ہماری تعلیم اور تسلی کیلئے

۳.‏ ہم کونسی بنیادی ضرورت رکھتے ہیں؟‏

۳ اگرچہ ہم سے شریعت میں بیان‌کردہ طریقے کے مطابق حقیقی قربانیاں گذراننے کا تقاضا تو نہیں کِیا جاتا پھربھی ہمیں اپنے گناہوں کی معافی اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے قربانیوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ اسرائیلیوں کو تھی۔‏ چونکہ ہم حقیقی قربانیاں نہیں گذرانتے توپھر ہم ایسے فوائد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ جانوروں کی قربانیوں کی حدود کی طرف اشارہ کرنے کے بعد،‏ پولس بیان کرتا ہے:‏ ”‏[‏یسوع]‏ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کِیا۔‏ بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کِیا۔‏ پوری سوختنی قربانیوں اور گناہ کی قربانیوں سے تُو خوش نہ ہؤا۔‏ اُس وقت مَیں نے کہا دیکھ!‏ مَیں آیا ہوں۔‏ (‏کتاب کے ورقوں میں میری نسبت لکھا ہؤا ہے)‏ تاکہ اَے خدا!‏ تیری مرضی پوری کروں۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۵-‏۷‏۔‏

۴.‏ پولس زبور ۴۰:‏۶-‏۸ کا اطلاق یسوع مسیح پر کیسے کرتا ہے؟‏

۴ زبور ۴۰:‏۶-‏۸ سے حوالہ دیتے ہوئے پولس واضح کرتا ہے کہ یسوع ”‏قربانی اور نذر“‏ یعنی ”‏سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی“‏ کو دائمی قرار دینے نہیں آیا تھا کیونکہ پولس کی تحریر کے وقت تک یہ خدا کی مقبولیت کھو چکی تھیں۔‏ اس کے برعکس،‏ یسوع اس جسم کیساتھ آیا جسے اسکے آسمانی باپ نے تیار کِیا تھا اور جو ہر لحاظ سے اس جسم کے مساوی تھا جسے خدا نے آدم کو خلق کرتے وقت تیار کِیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۷؛‏ لوقا ۱:‏۳۵؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۲،‏ ۴۵‏)‏ خدا کے کامل بیٹے کے طور پر،‏ یسوع نے پیدایش ۳:‏۱۵ کی پیشینگوئی کے مطابق عورت کی ”‏نسل“‏ کا کردار ادا کِیا۔‏ اگرچہ یسوع کی ’‏ایڑی پر کاٹا جائیگا‘‏ توبھی وہ ’‏شیطان کے سر کو کچلے گا۔‏‘‏ اس طرح یسوع نسلِ‌انسانی کی نجات کیلئے یہوواہ کا فراہم‌کردہ ذریعہ ثابت ہوا جس کا ہابل کے زمانے سے ایماندار لوگوں کو انتظار تھا۔‏

۵،‏ ۶.‏ مسیحیوں کیلئے خدا تک رسائی کرنے کا کونسا افضل ذریعہ دستیاب ہے؟‏

۵ یسوع کے اس خاص کردار کی بابت بات کرتے ہوئے پولس کہتا ہے:‏ ”‏جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو [‏خدا]‏ نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۲۱‏)‏ اصطلاح ”‏گناہ ٹھہرایا“‏ کا ترجمہ ’‏خطا کی قربانی ٹھہرانا‘‏ بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ یوحنا رسول کہتا ہے:‏ ”‏وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۲‏)‏ اسرائیلیوں کی قربانیاں تو خدا تک رسائی کرنے کا عارضی ذریعہ تھیں لیکن مسیحی ان سے کہیں زیادہ افضل یسوع کی قربانی کی بنیاد پر خدا کی قربت میں آتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۶؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۸‏)‏ اگر ہم خدا کی طرف سے فراہم‌کردہ فدیے کی قربانی پر ایمان لائیں اور اس کی فرمانبرداری کریں تو ہمارے گناہ بھی بخشے جائینگے اور ہم خدا کی خوشنودی اور برکت حاصل کر سکیں گے۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ کیا یہ تسلی‌بخش بات نہیں ہے؟‏ تاہم،‏ ہم فدیے کی قربانی پر اپنے ایمان کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۶ عبرانیوں ۱۰:‏۲۲-‏۲۵ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیوں کیلئے خدا تک رسائی کرنے کی افضل بنیاد کو واضح کرنے کے بعد،‏ پولس رسول تین طریقوں کی خاکہ‌کشی کرتا ہے جن سے ہم خدا کی پُرمحبت فراہمی کے لئے اپنے ایمان اور قدردانی کا اظہار کر سکتے ہیں۔‏ اگرچہ پولس کی یہ نصیحت بنیادی طور پر ممسوح مسیحیوں کیلئے تھی جنہیں ”‏پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری“‏ یعنی آسمانی بلاہٹ حاصل ہے توبھی اگر تمام انسان یسوع کے کفارے سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو انہیں پولس کے الہامی الفاظ پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۱۹‏۔‏

پاک اور بےعیب قربانیاں گذرانیں

۷.‏ (‏ا)‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۲ کیسے ظاہر کرتی ہے کہ قربانی میں کیا کِیا جاتا تھا؟‏ (‏ب)‏ قربانی کو خدا کے حضور قابلِ‌قبول بنانے کیلئے کیا کِیا جاتا تھا؟‏

۷ سب سے پہلے،‏ پولس مسیحیوں کو تاکید کرتا ہے:‏ ”‏آؤ ہم سچے دل اور پورے ایمان کے ساتھ اور دل کے الزام کو دُور کرنے کے لئے دِلوں پر چھینٹے لے کر اور بدن کو صاف پانی سے دُھلوا کر خدا کے پاس چلیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۲‏)‏ اس بیان میں استعمال ہونے والی اصطلاحیں شریعت کے تحت پیش کی جانے والی قربانی کی عکاسی کرتی ہیں۔‏ یہ موزوں ہے کیونکہ صرف پاک اور بےعیب اور درست محرک کیساتھ پیش کی گئی قربانی ہی قبول ہوتی تھی۔‏ قربانی کے جانور کو پاک جانوروں کے ریوڑ یا گلّے سے لیا جاتا تھا جسکا ”‏بےعیب“‏ ہونا بھی ضروری تھا۔‏ اگر قربانی پرندوں کی ہوتی تو اُسے قمریوں یا چھوٹے کبوتروں سے لیا جاتا تھا۔‏ ان شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں ”‏وہ اُس کی طرف سے مقبول [‏ہوتی تھی]‏ تاکہ اُس کیلئے کفارہ ہو۔‏“‏ (‏احبار ۱:‏۲-‏۴،‏ ۱۰،‏ ۱۴؛‏ ۲۲:‏۱۹-‏۲۵‏)‏ نذر کی قربانی میں کوئی خمیر نہیں ہوتا تھا جو خرابی کی علامت ہے؛‏ نہ ہی اس میں شہد ہوتا تھا جو غالباً پھلوں کے رس کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے خمیر پیدا ہوتا ہے۔‏ جب قربانیوں—‏جانور یا اناج—‏کو قربانگاہ پر چڑھایا جاتا تھا تو انہیں نمک بھی لگایا جاتا تھا جو محفوظ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔‏—‏احبار ۲:‏۱۱-‏۱۳‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ نذر گذراننے والے شخص سے کیا تقاضا کِیا جاتا تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہماری پرستش یہوواہ کے حضور قابلِ‌قبول ہے؟‏

۸ نذر گذراننے والے شخص کی بابت کیا ہے؟‏ شریعت نے بیان کِیا کہ یہوواہ کے حضور آنے والے ہر شخص کو پاک اور بےعیب ہونا چاہئے۔‏ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے آلودہ ہو گیا ہوتا تو اُسے سب سے پہلے یہوواہ کے حضور اپنی راست حیثیت بحال کرنے کیلئے خطا اور جُرم کی قربانی دینی پڑتی تھی تاکہ اس کی سوختنی قربانی یا سلامتی کا ذبیحہ اس کے حضور مقبول ٹھہرے۔‏ (‏احبار ۵:‏۱-‏۶،‏ ۱۵،‏ ۱۷‏)‏ لہٰذا،‏ کیا ہم یہوواہ کے حضور ہمیشہ راست حیثیت برقرار رکھنے کی اہمیت کی قدر کرتے ہیں؟‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پرستش خدا کے حضور قابلِ‌قبول ہو تو ہمیں خدا کے قوانین کی خلاف‌ورزی کی فوراً اصلاح کرنی چاہئے۔‏ ہمیں مدد کیلئے خداداد ذرائع—‏”‏کلیسیا کے بزرگ“‏ اور ”‏ہمارے گناہوں کا کفارہ،‏“‏ یسوع مسیح—‏سے فوراً فائدہ اُٹھانا چاہئے۔‏—‏یعقوب ۵:‏۱۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۹.‏ یہوواہ خدا کے لئے گذرانی جانے والی اور جھوٹے معبودوں کے لئے گذرانی جانے والی قربانیوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟‏

۹ درحقیقت کسی قسم کی آلودگی سے پاک ہونے کا تقاضا یہوواہ خدا کے لئے گذرانی جانے والی قربانیوں اور اسرائیل کے گرد بسنے والی قوموں کے جھوٹے معبودوں کے لئے گذرانی جانے والی قربانیوں کے درمیان کلیدی فرق تھا۔‏ موسوی شریعت میں قربانیوں کے اس امتیازی پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک حوالہ‌جاتی کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم غور کرتے ہیں کہ موسوی شریعت کی قربانیوں کا غیب‌دانی یا فالگیری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں؛‏ مذہبی جنون،‏ اعضابریدگی یا مُقدس فاحشہ‌گری،‏ شہوت‌پرستی اور باروری کی رنگ‌رلیوں والی رسومات کی سختی سے ممانعت تھی؛‏ کسی انسان کو قربان نہیں کِیا جاتا تھا؛‏ مُردوں کیلئے قربانیاں نہیں گذرانی جاتی تھیں۔‏“‏ یہ سب باتیں ایک ہی حقیقت پر توجہ دِلاتی ہیں:‏ یہوواہ خدا پاک ہے اور وہ کسی قسم کے گناہ یا خرابی سے چشم‌پوشی نہیں کرتا یا اسے پسند نہیں کرتا۔‏ (‏حبقوق ۱:‏۱۳‏)‏ اُسکی پرستش اور اس کے حضور پیش کی جانے والی قربانیوں کو جسمانی،‏ اخلاقی اور روحانی طور پر پاک اور بےعیب ہونا چاہئے۔‏—‏احبار ۱۹:‏۲؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

۱۰.‏ رومیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲ میں درج پولس کی فہمائش کے مطابق ہمیں کونسی ذاتی جانچ کرنی چاہئے؟‏

۱۰ اس کے پیشِ‌نظر،‏ ہمیں زندگی کے تمام حلقوں میں اپنا جائزہ لینا چاہئے تاکہ یہوواہ کے حضور ہماری خدمت قابلِ‌قبول ہو۔‏ ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر ہم مسیحی اجلاسوں اور خدمتگزاری میں حصہ لے رہے ہیں توپھر ہم اپنی نجی زندگی میں خواہ کچھ بھی کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‏ ہمیں یہ بھی محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ مسیحی کارگزاریوں میں شرکت ہمیں اپنی زندگی کے دیگر حلقوں میں خدا کے قوانین کے پابند رہنے کی ضرورت سے معذور رکھتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ اگر ہم اُسکی نظر میں کسی ناپاک چیز کو اپنی سوچ یا افعال کو آلودہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو ہم خدا کی برکت اور خوشنودی کی توقع نہیں رکھ سکتے۔‏ پولس کے الفاظ یاد رکھیں:‏ ”‏اَے بھائیو!‏ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تُم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔‏ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔‏ اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

پورے دل سے حمد کی قربانیاں پیش کریں

۱۱.‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۳ میں متذکرہ اصطلاح ”‏اقرار“‏ میں کیا شامل ہے؟‏

۱۱ عبرانیوں کو لکھتے ہوئے پولس سچی پرستش کے ایک اہم پہلو پر توجہ دِلاتا ہے:‏ ”‏اپنی اُمید کے اقرار کو مضبوطی سے تھامے رہیں کیونکہ جس نے وعدہ کِیا ہے وہ سچا ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۳‏)‏ ”‏اقرار“‏ کا لفظی مطلب اعتراف ہے اور پولس ”‏حمد کی قربانی“‏ کا بھی ذکر کرتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۵‏)‏ یہ بات ہمیں اُس قربانی کی یاد دِلاتی ہے جو ہابل،‏ نوح اور ابرہام جیسے آدمیوں نے گذرانی تھی۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ایک اسرائیلی سوختنی قربانی پیش کرتے وقت کس بات کا اقرار کرتا تھا اور ایسا ہی جذبہ ظاہر کرنے کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ جب ایک اسرائیلی سوختنی قربانی پیش کرتا تو وہ ”‏اپنی آزاد مرضی سے یہوواہ کے حضور“‏ ایسا کرتا تھا۔‏ (‏احبار ۱:‏۳‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ اس قربانی سے،‏ وہ اپنے لوگوں پر یہوواہ کی کثیر برکات اور شفقت کا بخوشی اعلانیہ اقرار یا اعتراف کرتا تھا۔‏ سوختنی قربانی کی نمایاں خصوصیت یاد کریں کہ یہ پوری کی پوری قربانگاہ پر گذرانی جاتی تھی جو کُلی عقیدت اور مخصوصیت کی ایک موزوں علامت ہے۔‏ اس کی مماثلت میں،‏ جب ہم رضامندی اور پورے دل سے یہوواہ کے حضور ”‏حمد کی قربانی یعنی .‏ .‏ .‏ ہونٹوں کا پھل“‏ پیش کرتے ہیں تو ہم فدیے کی قربانی پر اپنے ایمان اور شکرگزاری کا اظہار کرتے ہیں۔‏

۱۳ جبکہ مسیحی حقیقی قربانیاں—‏جانور یا سبزی—‏تو نہیں گذرانتے توبھی وہ بادشاہت کی خوشخبری کی گواہی دینے اور یسوع مسیح کے شاگرد بنانے کی ذمہ‌داری رکھتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ کیا آپ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کا اعلانیہ پرچار کرنے میں شرکت کرنے کے مواقع سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُن شاندار باتوں سے واقف ہو سکیں جو خدا فرمانبردار نوعِ‌انسان کو بتانا چاہتا ہے؟‏ کیا آپ دلچسپی رکھنے والوں کو تعلیم دینے اور یسوع مسیح کا شاگرد بننے میں اُنکی مدد کرنے کے لئے خوشی سے اپنا وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں؟‏ خدمتگزاری میں ہماری پُرجوش شرکت،‏ سوختنی قربانی کی راحت‌انگیز خوشبو کی مانند،‏ خدا کو بہت خوش کرتی ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏۔‏

خدا اور انسان کی رفاقت سے خوش ہوں

۱۴.‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵ میں پولس کے الفاظ کس طرح سلامتی کے ذبیحہ کے خیال سے مماثلت رکھتے ہیں؟‏

۱۴ آخر میں،‏ پولس خدا کی پرستش میں ساتھی مسیحیوں کیساتھ ہمارے تعلقات پر توجہ دِلاتا ہے۔‏ ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔‏ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے،‏“‏ ”‏ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے“‏ اور ”‏ایک دوسرے کو نصیحت کریں“‏ کے اظہارات ہمیں یہ یاد دِلاتے ہیں کہ اسرائیل میں سلامتی کے ذبیحوں نے خدا کے لوگوں کیلئے کیا کچھ انجام دیا تھا۔‏

۱۵.‏ سلامتی کے ذبیحہ اور مسیحی اجلاسوں کے درمیان ہم کونسی مماثلت دیکھتے ہیں؟‏

۱۵ ‏”‏سلامتی کے ذبیحے“‏ کی اصطلاح کا ترجمہ بعض‌اوقات ”‏صلح کی قربانیاں“‏ کِیا گیا ہے۔‏ یہاں صلح کے لئے عبرانی لفظ صیغۂ‌جمع میں ہے جو شاید یہ دلالت کرتا ہے کہ ایسی قربانیاں خدا اور ساتھی پرستاروں کیساتھ صلح پر منتج ہوتی ہیں۔‏ سلامتی کے ذبیحہ کے متعلق ایک عالم بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ یقیناً عہد کے خدا کیساتھ خوش‌کُن رفاقت کا ایک وقت ہوتا تھا جس میں وہ ہمیشہ انکا میزبان ہونے کے باوجود،‏ قربانی کے کھانے میں اسرائیل کا مہمان بھی ہوتا تھا۔‏“‏ یہ بات ہمیں یسوع کے وعدہ کی یاد دِلاتی ہے:‏ ”‏جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہیں وہاں مَیں اُنکے بیچ میں ہوں۔‏“‏ (‏متی ۱۸:‏۲۰‏)‏ ہر مرتبہ جب ہم مسیحی اجلاس پر حاضر ہوتے ہیں تو ہم تعمیری رفاقت،‏ حوصلہ‌افزا ہدایت اور اس خیال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں کہ ہمارا خداوند یسوع مسیح ہمارے ساتھ موجود ہے۔‏ اس سے مسیحی اجلاس واقعی خوش‌کُن اور ایمان کو تقویت دینے والا موقع ثابت ہوتا ہے۔‏

۱۶.‏ سلامتی کے ذبیحہ کے پیشِ‌نظر،‏ کونسی چیز مسیحی اجلاسوں کو بالخصوص مسرت‌بخش بناتی ہے؟‏

۱۶ سلامتی کے ذبیحے میں انتڑیوں،‏ گردوں،‏ جگر پر کی جھلی اور کمر کے گِرد لپٹی ہوئی اور بھیڑ کی موٹی دم میں موجود تمام چربی کو مذبح پر یہوواہ کے حضور راحت‌انگیز خوشبو کیلئے گذرانا جاتا تھا۔‏ (‏احبار ۳:‏۳-‏۱۶‏)‏ چربی کسی جانور کا غذائیت‌بخش اور عمدہ حصہ خیال کی جاتی تھی۔‏ مذبح پر اسکا پیش کِیا جانا یہوواہ کو بہترین چیز دینے کی علامت تھا۔‏ مسیحی اجلاسوں کو بالخصوص خوش‌کُن بنانے والی بات یہ ہے کہ یہاں ہم نہ صرف ہدایت حاصل کرتے ہیں بلکہ یہوواہ کی حمد بھی کرتے ہیں۔‏ ہم دل سے گانے،‏ توجہ سے سننے اور جب ممکن ہو تبصرہ کرنے سے اپنی انکسارانہ مگر بہترین کوشش کرنے سے ایسا کرتے ہیں۔‏ زبورنویس نے بڑے جوش سے کہا:‏ ”‏[‏یاہ]‏ کی حمد کرو۔‏ [‏یہوواہ]‏ کے حضور نیا گیت گاؤ اور مُقدسوں کے مجمع میں اُسکی مدح‌سرائی کرو۔‏“‏—‏زبور ۱۴۹:‏۱‏۔‏

یہوواہ کی طرف سے کثیر برکات ہماری منتظر ہیں

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ یروشلیم میں ہیکل کی تقدیس کے موقع پر سلیمان نے کونسی بڑی قربانی گذرانی؟‏ (‏ب)‏ ہیکل کی تقدیس کی تقریب سے لوگوں کو کونسی برکات حاصل ہوئیں؟‏

۱۷ یروشلیم میں ۱۰۲۶ ق.‏س.‏ع.‏ کے سال کے ساتویں مہینے میں ہیکل کی تقدیس کے موقع پر،‏ بادشاہ سلیمان نے ”‏[‏یہوواہ]‏ کے حضور قربانی گذرانی،‏“‏ جو ”‏سوختنی قربانی اور نذر کی قربانی اور سلامتی کے ذبیحوں کی چربی“‏ پر مشتمل تھی۔‏ نذر کی قربانی میں پیش کی جانے والی چیزوں کے علاوہ،‏ اس موقع پر ۰۰۰،‏۲۲ بیل اور ۰۰۰،‏۲۰،‏۱ بھیڑیں قربان کی گئیں۔‏—‏۱-‏سلاطین ۸:‏۶۲-‏۶۵‏۔‏

۱۸ کیا آپ اس بڑی تقریب میں ہونے والے اخراجات اور بہت زیادہ کام کا تصور کر سکتے ہیں؟‏ تاہم،‏ اسرائیل کو حاصل ہونے والی برکات یقیناً اخراجات سے زیادہ اہمیت رکھتی تھیں۔‏ تقریبات کے اختتام پر سلیمان نے ”‏لوگوں کو رخصت کر دیا۔‏ سو انہوں نے بادشاہ کو مبارکباد دی اور اس ساری نیکی کے باعث جو [‏یہوواہ]‏ نے اپنے بندہ داؔؤد اور اپنی قوم اؔسرائیل سے کی تھی اپنے ڈیروں کو دل میں خوش اور مسرور ہو کر لوٹ گئے۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۸:‏۶۶‏)‏ واقعی جیساکہ سلیمان بیان کرتا ہے،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُسکے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔‏“‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲‏۔‏

۱۹.‏ اب اور ہمیشہ تک یہوواہ کی طرف سے شاندار برکات حاصل کرنے کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جب ”‏آیندہ کی اچھی چیزوں [‏کے]‏ عکس“‏ کی جگہ ”‏ان چیزوں کی اصلی صورت“‏ نے لے لی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۱‏)‏ عظیم سردار کاہن کی حیثیت سے یسوع مسیح پہلے ہی آسمان میں داخل ہوکر اُن لوگوں کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر اپنے خون کی قیمت پیش کر چکا ہے جو اس کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۱۰،‏ ۱۱،‏ ۲۴-‏۲۶‏)‏ اس عظیم قربانی کی بنیاد پر اور خدا کے حضور پورے دل سے اپنی حمد کی پاک اور بےعیب قربانیاں پیش کرنے سے،‏ ہم بھی یہوواہ کی طرف سے کثیر برکات کی اُمید رکھتے ہوئے ”‏دل میں خوش اور مسرور“‏ ہو سکتے ہیں۔‏—‏ملاکی ۳:‏۱۰‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر کی عبارت]‏

یہوواہ نے نسلِ‌انسانی کی نجات کیلئے یسوع کے فدیے کی قربانی مہیا کی

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر کی عبارت]‏

ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہونا چاہئے تاکہ یہوواہ کے حضور ہماری خدمت قبول ہو

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر کی عبارت]‏

خدمتگزاری میں حصہ لینے سے ہم یہوواہ کی نیکی کا اعلانیہ اقرار کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر کی عبارت]‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• شریعت میں قربانیوں اور نذروں سے ہم کونسی تعلیم اور تسلی حاصل کر سکتے ہیں؟‏

‏• قربانی کے قابلِ‌قبول ہونے کیلئے پہلا تقاضا کیا ہے اور اس کا ہمارے لئے کیا مطلب ہے؟‏

‏• ہم رضا کی سوختنی قربانی کے برابر کونسی چیز پیش کر سکتے ہیں؟‏

‏• مسیحی اجلاسوں کو کن طریقوں سے سلامتی کے ذبیحہ سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے؟‏