مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

انتظار کرنے پر آمادہ رہیں!‏

انتظار کرنے پر آمادہ رہیں!‏

انتظار کرنے پر آمادہ رہیں!‏

‏”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اپنے نجات دینے والے خدا کا انتظار کرونگا میرا خدا میری سنیگا۔‏“‏—‏میکاہ ۷:‏۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ بیابان میں غلط رُجحان نے اسرائیلیوں کو کیسے نقصان پہنچایا؟‏ (‏ب)‏ مناسب رُجحان پیدا نہ کرنے والے مسیحی کیساتھ کیا واقع ہو سکتا ہے؟‏

ہم زندگی میں اپنے رُجحان کی بِنا پر بہتیری باتوں کو مثبت یا منفی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔‏ جب اسرائیلی بیابان میں تھے تو اُنہیں معجزانہ طور پر من فراہم کِیا گیا تھا۔‏ اُنہیں اپنے چوگرد بنجر زمین دیکھ کر یہوواہ کا انتہائی شکرگزار ہونا چاہئے تھا کہ وہ اُن کے لئے خوراک فراہم کر رہا ہے۔‏ یہ مثبت رُجحان کا اظہار ہوتا۔‏ اِس کی بجائے،‏ وہ مصر کے مختلف قسم کے کھانوں کو یاد کرکے من کے بارے میں شکایت کرنے لگے کہ اِسے دیکھ کر تو اُن کی بھوک ہی مر جاتی ہے۔‏ کتنا منفی رُجحان!‏—‏گنتی ۱۱:‏۴-‏۶‏۔‏

۲ آجکل بھی ایک مسیحی کا رُجحان اُس کے لئے خوشی یا غم کا باعث بن سکتا ہے۔‏ مناسب رُجحان کے بغیر،‏ ایک مسیحی بآسانی اپنی خوشی کھو سکتا ہے اور یہ بات نہایت سنگین ہے کیونکہ نحمیاہ نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی شادمانی [‏ہماری]‏ پناہ‌گاہ ہے۔‏“‏ (‏نحمیاہ ۸:‏۱۰‏)‏ ایک مثبت،‏ پُرمسرت رُجحان ہمیں مضبوط رکھنے میں مدد کرنے کے علاوہ کلیسیا میں امن اور اتحاد کو بھی فروغ دیتا ہے۔‏—‏رومیوں ۱۵:‏۱۳؛‏ فلپیوں ۱:‏۲۵‏۔‏

۳.‏ نازک وقت میں بھی مناسب رُجحان نے یرمیاہ کی مدد کیسے کی تھی؟‏

۳ نازک وقت میں رہنے کے باوجود،‏ یرمیاہ نے مثبت رُجحان کا مظاہرہ کِیا۔‏ اگرچہ اُس نے ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں یروشلیم کی ہولناک تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا توبھی وہ اِسکے مثبت پہلوؤں کو سمجھ سکتا تھا۔‏ یہوواہ اسرائیل کو فراموش نہیں کرے گا اور قوم بچ جائے گی۔‏ یرمیاہ نے نوحہ کی کتاب میں لکھا:‏ ”‏یہ [‏یہوواہ]‏ کی شفقت ہے کہ ہم فنا نہیں ہوئے کیونکہ اُسکی رحمت لازوال ہے۔‏ وہ ہر صبح تازہ ہے۔‏ تیری وفاداری عظیم ہے۔‏“‏ (‏نوحہ ۳:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ پوری تاریخ کے دوران،‏ کٹھن حالات میں بھی خدا کے خادموں نے مثبت حتیٰ‌کہ پُرمسرت رُجحان برقرار رکھا ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۴؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۶؛‏ یعقوب ۱:‏۲‏۔‏

۴.‏ یسوع نے کونسا رُجحان برقرار رکھا اور اِس سے اُسکی مدد کیسے ہوئی؟‏

۴ یرمیاہ سے چھ سو سال بعد،‏ یسوع کے مثبت رُجحان نے برداشت کرنے کے لئے اُس کی مدد کی۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏[‏یسوع نے]‏ شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏)‏ یسوع نے اتنی زیادہ مخالفت اور اذیت—‏حتیٰ‌کہ سولی کا دُکھ—‏اُٹھانے کے باوجود اپنی توجہ ”‏اُس خوشی“‏ پر مُرتکز رکھی ”‏جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی۔‏“‏ یہ خوشی یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند اور اُس کے نام کی تقدیس کرنے کے علاوہ مستقبل میں فرمانبردار نسلِ‌انسانی کو کثیر برکات عطا کرنے کی تھی۔‏

انتظار کریں

۵.‏ انتظار کرنا کس صورتحال میں معاملات کی بابت مناسب نقطۂ‌نظر رکھنے میں ہماری مدد کریگا؟‏

۵ اگر ہم یسوع جیسا ذہنی رُجحان پیدا کرتے ہیں تو جب کوئی کام ہماری مرضی اور ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت کے مطابق نہیں بھی ہوتا تو ہم یہوواہ کی خوشی ہرگز نہیں کھوئینگے۔‏ میکاہ نبی نے کہا:‏ ”‏لیکن مَیں [‏یہوواہ]‏ کی راہ دیکھونگا اور اپنے نجات دینے والے خدا کا انتظار کرونگا میرا خدا میری سنیگا۔‏“‏ (‏میکاہ ۷:‏۷؛‏ نوحہ ۳:‏۲۱‏)‏ ہم بھی انتظار کر سکتے ہیں۔‏ کیسے؟‏ کئی طریقوں سے۔‏ ایک بات تو یہ ہے کہ شاید ہم محسوس کریں کہ کسی بااختیار بھائی نے کوئی غلطی کی ہے جسکی فوری طور پر اصلاح کی جانی چاہئے۔‏ اگر ہم انتظار کرنے پر آمادہ ہیں تو ہم پہلے اِس بات پر غور کرینگے کہ ’‏آیا اُس نے واقعی غلطی کی ہے یا مجھے غلط‌فہمی ہوئی ہے؟‏ اگر اُس سے غلطی سرزد ہوئی ہے تو کیا ممکن ہے کہ یہوواہ یہ سمجھتے ہوئے اِسکی اجازت دے رہا ہے کہ یہ شخص بہتری پیدا کر لیگا اسلئے سخت اصلاحی اقدام اُٹھانا ضروری نہیں ہے؟‏‘‏

۶.‏ ذاتی مسئلے سے نبردآزما کسی شخص کیلئے انتظار کرنا کیسے مددگار ثابت ہوگا؟‏

۶ اگر ہم کسی ذاتی مسئلے کی وجہ سے پریشان ہیں یا کسی کمزوری سے نبردآزما ہیں تو انتظار کرنا اشد ضروری ہے۔‏ فرض کریں کہ ہم یہوواہ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں لیکن مسئلہ پھر بھی قائم رہتا ہے۔‏ ایسی صورت میں کیا کِیا جانا چاہئے؟‏ اِس مسئلے کو حل کرنے کی حتی‌الوسع کوشش کرنے کیساتھ ساتھ ہمیں یسوع کے اِن الفاظ پر ایمان بھی رکھنا چاہئے:‏ ”‏مانگو تو تمہیں دیا جائیگا۔‏ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔‏ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائیگا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۱:‏۹‏)‏ بِلاناغہ دُعا کریں اور یہوواہ کے منتظر رہیں۔‏ یہوواہ اپنے طریقے سے مناسب وقت پر،‏ آپ کی دُعاؤں کا جواب ضرور دیگا۔‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۷‏۔‏

۷.‏ انتظار کرنے پر آمادہ ہونا بائبل سمجھ کی بتدریج تصحیح کی بابت ہمارے نقطۂ‌نظر پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟‏

۷ بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل سے،‏ صحائف کی بابت ہماری سمجھ اَور واضح ہو گئی ہے۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات ہم سوچ سکتے ہیں کہ فلاں پیشینگوئی کی وضاحت میں بہت دیر ہو گئی ہے۔‏ ہمارے خیال میں جو وقت صحیح ہے اگر اُس پر یہ وضاحت پیش نہیں کی جاتی تو کیا ہم انتظار کرنے کے لئے تیار ہیں؟‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ نے ایک وقت میں تھوڑا تھوڑا کرکے تقریباً ۰۰۰،‏۴ سال کی مدت میں ”‏مسیح کا .‏ .‏ .‏ بھید“‏ آشکارا کرنا مناسب سمجھا۔‏ (‏افسیوں ۳:‏۳-‏۶‏)‏ پس،‏ کیا ہمارے پاس بےصبر ہونے کی کوئی وجہ ہے؟‏ کیا ہم یہوواہ کے لوگوں کو ‏”‏وقت پر ‏.‏ .‏ .‏ کھانا“‏ دینے کے لئے ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی تقرری پر شک کرتے ہیں؟‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵‏)‏ ہر بات کو مکمل طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے خود کو خدائی خوشی سے محروم کیوں رکھیں؟‏ یاد رکھیں،‏ یہ فیصلہ یہوواہ کرتا ہے کہ وہ اپنا ”‏بھید“‏ کب اور کیسے آشکارا کرے گا۔‏—‏عاموس ۳:‏۷‏۔‏

۸.‏ یہوواہ کا تحمل بہتیرے اشخاص کیلئے کیسے فائدہ‌مند ثابت ہوا ہے؟‏

۸ بعض اِس وجہ سے بےحوصلہ ہو سکتے ہیں کہ اُنکے خیال میں اِتنے سالوں کی وفادارانہ خدمت کے بعد،‏ وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے خوفناک روزِعظیم“‏ کو دیکھنے کیلئے زندہ نہیں رہیں گے۔‏ (‏یوایل ۲:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ پھربھی،‏ مثبت پہلو کو دیکھنے سے اُنکی حوصلہ‌افزائی ہو سکتی ہے۔‏ پطرس نے نصیحت کی:‏ ”‏ہمارے خداوند کے تحمل کو نجات سمجھو۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۵‏)‏ یہوواہ کے تحمل نے مزید لاکھوں راستدل اشخاص کو سچائی سیکھنے کا موقع دیا ہے۔‏ کیا یہ بات حیران‌کُن نہیں ہے؟‏ مزیدبرآں،‏ یہوواہ جتنا زیادہ تحمل کرتا ہے،‏ ہمیں اتنا ہی زیادہ ”‏ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کے کام“‏ کرنے کا وقت ملتا ہے۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۲؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۹.‏ اگر ہم کسی وجہ سے مکمل طور پر یہوواہ کی خدمت نہیں کر سکتے تو انتظار کرنا اِس صورتحال کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کیسے کریگا؟‏

۹ جب مخالفت،‏ بیماری،‏ بڑھاپا یا دیگر مسائل بادشاہتی خدمت میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تو انتظار کرنا بےحوصلہ نہ ہونے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ یہوواہ ہم سے پورے دل‌وجان سے خدمت کرنے کی توقع کرتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ خدا اور ”‏غریب اور محتاج پر ترس“‏ کھانے والا اُسکا بیٹا ہماری استطاعت سے زیادہ ہم سے تقاضا نہیں کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۲:‏۱۳‏)‏ لہٰذا،‏ ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ جب تک اِس نظام میں یا آنے والے نظام میں حالات تبدیل نہیں ہو جاتے ہم صبر کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے اپنی حتی‌المقدور کوشش جاری رکھیں۔‏ یہ کبھی نہ بھولیں کہ ”‏خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تم نے اُسکے نام کے واسطے اِس طرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔‏“‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

۱۰.‏ انتظار کرنے پر آمادہ شخص کو کس بُری خصلت سے بچنا چاہئے؟‏ وضاحت کریں۔‏

۱۰ انتظار کرنے پر آمادہ ہونا تکبّر سے بچنے میں بھی ہماری مدد کرتا ہے۔‏ برگشتہ ہو جانے والے بعض اشخاص انتظار کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔‏ اُنہوں نے محسوس کِیا کہ بائبل کی سمجھ یا تنظیمی معاملات میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔‏ تاہم،‏ وہ یہ تسلیم کرنے میں ناکام ہو گئے کہ یہوواہ کی روح ہماری مرضی اور وقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اُسکے وقت پر دیانتدار اور عقلمند نوکر کو تبدیلیاں کرنے کی تحریک دیتی ہے۔‏ نیز ہر تبدیلی کو ہمارے ذاتی نظریات کی بجائے خدا کی مرضی کیساتھ ہم‌آہنگ ہونا چاہئے۔‏ برگشتہ اشخاص متکبرانہ رُجحان اپنانے سے ٹھوکر کھاتے ہیں۔‏ لیکن اگر اُنہوں نے مسیح جیسا ذہنی رُجحان اپنایا ہوتا تو وہ اپنی خوشی کو برقرار رکھ سکتے اور یہوواہ کے لوگوں کے درمیان رہ سکتے تھے۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۵-‏۸‏۔‏

۱۱.‏ ہم کن کے نمونوں کی پیروی میں انتظار کے وقت کو سودمندی سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ بیشک،‏ انتظار کرنے کا مطلب سُست یا انفعال بننا نہیں ہے۔‏ ہمارے پاس بہت کام ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہمیں ذاتی بائبل مطالعہ میں مشغول رہنے اور یوں روحانی باتوں میں ویسی ہی گہری دلچسپی ظاہر کرنے کی ضرورت ہے جو وفادار نبیوں اور فرشتوں نے ظاہر کی تھی۔‏ ایسی دلچسپی کی بابت بات کرتے ہوئے پطرس کہتا ہے:‏ ”‏اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی .‏ .‏ .‏ فرشتے بھی اِن باتوں پر غور سے نظر کرنے کے مشتاق ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ ذاتی مطالعے کے علاوہ اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری اور دُعا میں خدا کے قریب جانا بھی ضروری ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ باقاعدگی سے روحانی خوراک حاصل کرنے اور ساتھی مسیحیوں کیساتھ رفاقت رکھنے سے اپنی روحانی ضروریات پوری کرنے والے لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ اُنہوں نے مسیح جیسا ذہنی رُجحان اپنا لیا ہے۔‏—‏متی ۵:‏۳‏۔‏

حقیقت‌پسندانہ نظریہ رکھیں

۱۲.‏ (‏ا)‏ آدم اور حوا کونسی آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے؟‏ (‏ب)‏ آدم اور حوا کی روش کی پیروی کرنے کا نسلِ‌انسانی کیلئے کیا نتیجہ رہا ہے؟‏

۱۲ جب خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو خلق کِیا تو اُس نے غلط اور صحیح کا معیار طے کرنے کا حق اپنے ہی پاس رکھا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ آدم اور حوا خدا کی راہنمائی سے آزاد ہونا چاہتے تھے جسکی وجہ سے ایسی دُنیا وجود میں آئی جسے ہم آجکل اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئےکہ سب نے گُناہ کیا۔‏“‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ آدم کے وقت سے لیکر انسانی تاریخ کے چھ ہزار سالوں نے یرمیاہ کے اِن الفاظ کی صداقت ظاہر کی ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مَیں جانتا ہوں کے انسان کی راہ اُسکے اختیار میں نہیں۔‏ انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏)‏ یرمیاہ کے الفاظ سے اتفاق کرنا شکست تسلیم کرنا نہیں ہے۔‏ یہ حقیقت‌پسندی ہے۔‏ یہ الفاظ دراصل اُن تمام صدیوں کی عکاسی کرتے ہیں جن میں انسان خدا سے آزاد ہوکر ”‏ایک .‏ .‏ .‏ دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا“‏ لایا ہے۔‏—‏واعظ ۸:‏۹‏۔‏

۱۳.‏ یہوواہ کے گواہ انسان کی استطاعت کی بابت کونسا حقیقت‌پسندانہ نظریہ رکھتے ہیں؟‏

۱۳ نسلِ‌انسانی کی صورتحال کے پیشِ‌نظر،‏ یہوواہ کے گواہ تسلیم کرتے ہیں کہ اِس نظام‌اُلعمل میں سب کچھ حاصل نہیں کِیا جا سکتا۔‏ مثبت رُجحان خوشی برقرار رکھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے لیکن یہ ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔‏ ایک امریکی پادری نے ۱۹۵۰ کے دہے کے اوائل میں،‏ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا دی پاور آف پازیٹو تھنکنگ ‏(‏مثبت سوچ کی طاقت)‏۔‏ کتاب نے تجویز کِیا کہ اگر مثبت رُجحان سے کام لیا جائے تو بہتیری کٹھن مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‏ مثبت سوچ یقیناً قابلِ‌تعریف ہے۔‏ لیکن تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ علم،‏ مہارت،‏ مادی وسائل اور دیگر بہت سے عناصر کے باوجود ہماری کارکردگی محدود ہو سکتی ہے۔‏ نیز،‏ انسان کی سوچ خواہ کتنی ہی مثبت کیوں نہ ہو عالمی پیمانے پر مسائل اسقدر زیادہ ہیں کہ اُنہیں کامیابی کے ساتھ حل کرنا اُس کے بس کی بات نہیں!‏

۱۴.‏ کیا یہوواہ کے گواہ منفی رُجحان رکھتے ہیں؟‏ وضاحت کریں۔‏

۱۴ ایسے معاملات کی بابت حقیقت‌پسندانہ نظریے کی وجہ سے،‏ یہوواہ کے گواہوں پر بعض‌اوقات منفی رُجحان رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔‏ اِس کے برعکس،‏ وہ لوگوں کو ایسی واحد ہستی کی بابت بتانے کے مشتاق ہیں جو مستقل طور پر انسان کی حالت کو بہتر بنا سکتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں بھی وہ یسوع کے ذہنی رُجحان کی نقل کرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۲‏)‏ نیز وہ خدا کے ساتھ اچھا رشتہ رکھنے کے لئے لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔‏ وہ جانتے ہیں کہ یہ بات بالآخر فائدہ‌مند ثابت ہوگی۔‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۶‏۔‏

۱۵.‏ یہوواہ کے گواہوں کا کام لوگوں کو کیسے بہتر بناتا ہے؟‏

۱۵ یہوواہ کے گواہ اپنے گرد پائے جانے والے معاشرتی مسائل—‏خاصکر غیرصحیفائی گھناؤنے کام—‏کو نظرانداز نہیں کرتے ہیں۔‏ اِس سے پہلے کہ کوئی دلچسپی رکھنے والا شخص یہوواہ کا گواہ بنے،‏ اُسے خدا کو ناخوش کرنے والی نشے کی عادات کو ترک کرنے کے علاوہ بہت سی تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱‏)‏ لہٰذا،‏ یہوواہ کے گواہوں نے سچائی قبول کرنے والے اشخاص کی شراب‌نوشی،‏ منشیات،‏ بداخلاقی اور جوئےبازی پر غالب آنے میں مدد کی ہے۔‏ خود کو بدلنے والے ایسے اشخاص نے اپنے خاندانوں کی دیانتداری اور ذمہ‌داری سے کفالت کرنا سیکھ لیا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۸‏)‏ جب افراد اور خاندانوں کی اِس طرح سے مدد کی جاتی ہے تو علاقے میں مسائل بھی کم ہو جاتے ہیں—‏منشیات کے عادی کم ہو جاتے ہیں،‏ خاندانی تشدد کے واقعات کم ہو جاتے ہیں،‏ وغیرہ وغیرہ۔‏ یہوواہ کے گواہوں نے قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہونے کے ناطے دوسروں کی زندگیاں بدلنے اور بہتر بنانے میں مدد کرنے سے اُن اِداروں کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے جن کا کام معاشرتی مسائل حل کرنا ہے۔‏

۱۶.‏ یہوواہ کے گواہ دُنیاوی اصلاحی تحاریک میں شامل کیوں نہیں ہوتے؟‏

۱۶ پس،‏ کیا یہوواہ کے گواہوں نے اخلاقی ماحول کو بھی تبدیل کِیا ہے؟‏ پچھلے دس سالوں میں،‏ سرگرم پبلشروں کی تعداد ۰۰۰،‏۰۰،‏۳۸ سے کچھ ہی کم سے بڑھکر تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۶۰ ہو گئی ہے۔‏ یہ تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۲۲ کا اضافہ ہے جن میں سے بیشتر نے مسیحی بنتے وقت غلط عادات ترک کر دیں۔‏ کتنی زیادہ زندگیاں بہتر ہو گئیں!‏ پھربھی،‏ یہ تعداد اتنی ہی مدت میں بڑھنے والی دُنیا کی آبادی—‏۰۰۰،‏۰۰،‏۵۰،‏۸۷—‏کے مقابلے میں بہت کم ہے!‏ یہوواہ کے گواہوں نے سچائی قبول کرنے والوں کی مدد کرنے سے خوشی حاصل کی ہے اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ نوعِ‌انسان میں سے صرف کچھ ہی لوگ زندگی کی راہ اختیار کرینگے۔‏ (‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ گواہ ایسی عالمگیر تبدیلیوں کے منتظر ہیں جو صرف خدا ہی لائے گا اسلئے،‏ وہ دُنیاوی اصلاحی تحاریک میں شامل نہیں ہوتے ہیں جو اکثراوقات نیک ارادوں کیساتھ شروع ہوتی ہیں لیکن مایوسی اور تشدد پر ختم ہو جاتی ہیں۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۷.‏ یسوع نے اپنے اردگرد کے لوگوں کی مدد کرنے کیلئے کیا کِیا لیکن اُس نے کیا نہیں کِیا تھا؟‏

۱۷ ایسی روش اختیار کرنے سے،‏ یہوواہ کے گواہ یہوواہ پر ویسا ہی اعتماد ظاہر کرتے ہیں جیسا زمین پر رہتے وقت یسوع نے کِیا تھا۔‏ پہلی صدی میں،‏ یسوع نے شفائیہ معجزات کئے۔‏ (‏لوقا ۶:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ اُس نے تو مُردوں کو بھی زندہ کِیا۔‏ (‏لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۵؛‏ ۸:‏۴۹-‏۵۶‏)‏ مگر اُس نے بیماری یا دُشمن موت کو ختم نہیں کِیا تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ اِس کیلئے ابھی خدا کا وقت نہیں آیا ہے۔‏ کامل انسان کے طور پر فائق لیاقتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے،‏ یسوع سیاسی اور معاشرتی مسائل حل کر سکتا تھا۔‏ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُسکے بعض ہم‌عصر یہ چاہتے تھے کہ وہ اِس طریقے سے اپنی طاقت استعمال کرے لیکن یسوع ایسا نہیں چاہتا تھا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏پس جو معجزہ اُس نے دکھایا وہ لوگ اُسے دیکھ کر کہنے لگے کہ جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا فی‌الحقیقت یہی ہے۔‏ پس یسوؔع یہ معلوم کرکے کہ وہ آکر مجھے بادشاہ بنانے کے لئے پکڑا چاہتے ہیں پھر پہاڑ پر اکیلا چلا گیا۔‏“‏—‏یوحنا ۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ یسوع ہمیشہ انتظار کرنے پر کیسے آمادہ رہا؟‏ (‏ب)‏ ۱۹۱۴ سے یسوع کی کارگزاری کیسے بدل گئی ہے؟‏

۱۸ یسوع نے سیاست یا سماجی کاموں میں ملوث ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بادشاہتی اختیار حاصل کرنے اور ہر کسی کو شفا دینے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔‏ غیرفانی روحانی زندگی کیلئے آسمان پر جانے کے بعد بھی وہ کارروائی کرنے سے پہلے یہوواہ کے مقررہ وقت کا انتظار کرنے کیلئے تیار تھا۔‏ (‏زبور ۱۱۰:‏۱؛‏ اعمال ۲:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ تاہم،‏ ۱۹۱۴ میں خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر تخت‌نشین ہوکر ”‏وہ فتح کرتا ہؤا نکلا [‏ہے]‏ تاکہ اَور بھی فتح کرے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۲؛‏ ۱۲:‏۱۰‏)‏ ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ ہم اِس بادشاہت کے مطیع ہیں لیکن دیگر دعویدار مسیحی بادشاہت کے متعلق بائبل کی تعلیمات سے ناواقف ہی رہنا چاہتے ہیں!‏

انتظار—‏مایوسی یا خوشی کا باعث؟‏

۱۹.‏ انتظار کب ’‏دل کو بیمار کرتا ہے‘‏ اور یہ خوشی کا باعث کب بنتا ہے؟‏

۱۹ سلیمان جانتا تھا کہ انتظار مایوس‌کُن ہو سکتا ہے۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏اُمید کے بَر آنے میں تاخیر دل کو بیمار کرتی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۳:‏۱۲‏)‏ یقیناً،‏ اگر ایک شخص بےبنیاد توقعات رکھتا ہے تو مایوسی سے دل بیمار ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ خوش‌کُن واقعات—‏غالباً شادی،‏ بچے کی پیدائش یا اپنے عزیزوں کیساتھ دوبارہ ملاپ—‏کا انتظار اُنکی تکمیل سے پہلے ہمیں خوشی سے معمور کر سکتا ہے۔‏ اگر ہم انتظار کے وقت کو رُونما ہونے والے واقعے کی تیاریوں کیلئے دانشمندی سے استعمال کرتے ہیں تو یہ خوشی دوبالا ہو جائیگی۔‏

۲۰.‏ (‏ا)‏ ہم اعتماد کے ساتھ کونسے شاندار واقعات دیکھنے کی توقع کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے مقاصد کی تکمیل کے انتظار میں ہم خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۲۰ جب ہمیں اپنی اُمیدوں کے بَر آنے کا پورا یقین ہوتا ہے—‏اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ ایسا کب ہوگا—‏توپھر انتظار کا عرصہ ’‏دل کو بیمار‘‏ نہیں کرتا۔‏ خدا کے وفادار پرستار جانتے ہیں کہ مسیح کا ہزارسالہ دورِحکومت نزدیک ہے۔‏ اُنہیں یقین ہے کہ وہ موت اور بیماری کا خاتمہ ضرور دیکھینگے۔‏ بڑے اشتیاق کیساتھ وہ اُس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب وہ اربوں مُردوں کا خیرمقدم کرینگے جن میں اُنکے مُتوَفّی عزیز بھی شامل ہونگے۔‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۳،‏ ۶؛‏ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ ماحولیاتی بحران کے اِس زمانے میں،‏ وہ زمین پر قائم ہونے والے فردوس کو دیکھنے کے یقینی امکان سے مسرور ہوتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۱،‏ ۲،‏ ۷‏)‏ پس،‏ انتظار کے وقت کو عقلمندی سے استعمال کرنا اور ”‏خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے“‏ رہنا کتنی دانشمندانہ بات ہوگی!‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏)‏ روحانی خوراک حاصل کرتے رہیں۔‏ یہوواہ کے ساتھ اَور زیادہ قریبی رشتہ پیدا کریں۔‏ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جن کے دل اُنہیں یہوواہ کی خدمت کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔‏ ساتھی پرستاروں کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ یہوواہ نے ابھی جو وقت دے رکھا ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔‏ اِس صورت میں یہوواہ کا انتظار کرنا آپ کے ’‏دل کو بیمار‘‏ کرنے کی بجائے آپ کو خوشی سے معمور کریگا!‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع نے انتظار کرنے پر آمادگی کا اظہار کیسے کِیا تھا؟‏

‏• کن حالات میں مسیحیوں کو منتظر رہنے کی ضرورت ہے؟‏

‏• یہوواہ کے گواہ یہوواہ کا انتظار کرنے سے مطمئن کیوں ہیں؟‏

‏• یہوواہ کا انتظار کرنا خوشی کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویریں]‏

یسوع‌نے اُس خوشی کیلئے برداشت کی جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

کئی سالوں کی خدمت کے بعد بھی ہم اپنی خوشی برقرار رکھ سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

لاکھوں لوگوں نے یہوواہ کے گواہ بننے سے اپنی زندگیاں بہتر بنائی ہیں