یہوواہ اپنے وفادار بندوں کو ہمیشہ اجر بخشتا ہے
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ اپنے وفادار بندوں کو ہمیشہ اجر بخشتا ہے
از ورنن ڈنکم
مَیں نے رات کا کھانا ختم کرنے کے بعد حسبِمعمول سگریٹ جلائی۔ پھر مَیں نے اپنی بیوی آلین سے پوچھا: ”آج کا اجلاس کیسا رہا؟“
وہ لمحہبھر ٹھہر کر بولی: ”نئے اشخاص کی تقرری کے سلسلے میں ایک خط پڑھا
گیا جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔ آپ کو صوتی نظام کی دیکھبھال کرنے کی ذمہداری سونپی گئی ہے۔ خط کا آخری جملہ یہ تھا: ’اگر اِن نئے مقررشُدہ بھائیوں میں سے کوئی تمباکونوشی کرتے ہیں تو اُنہیں سوسائٹی کو مطلع کر دینا چاہئے کہ وہ اِس تفویض کو قبول نہیں کر سکتے۔‘ “ * مَیں نے ایک لمبی آہ بھرنے کے بعد بڑے پُرعزم انداز میں کہا، ”اچھا! تو خط میں یہ کہا گیا ہے۔“
مَیں نے دانت پیستے ہوئے اپنی سگریٹ قریب رکھی ہوئی ایشٹرے میں بجھا دی۔ ”مجھے نہیں معلوم کہ اِس تقرری کیلئے میرا انتخاب کیوں کِیا گیا ہے۔ مگر مَیں نے کبھی کسی تفویض سے انکار نہیں کِیا تھا اور مَیں اب بھی ایسا کرنا نہیں چاہتا۔“ مَیں نے تمباکونوشی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس فیصلے نے ایک مسیحی اور ایک موسیقار کے طور پر میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ مَیں آپکو اپنے فیصلے کا باعث بننے والے کچھ واقعات بتانا چاہونگا۔
ابتدائی خاندانی زندگی
مَیں کینیڈا، ٹرانٹو میں ستمبر ۲۱، ۱۹۱۴ میں پیدا ہوا۔ مَیں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں پر مشتمل خاندان کی کفالت کرنے والے محنتی اور شفیق والدین ورنن اور لائلہ کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ عمر کے لحاظ سے میرے بعد یارک، پھر اورلانڈو، ڈگلس، آلین اور کورل تھے۔ جب مَیں صرف نو سال کا تھا تو میری ماں نے میرے ہاتھوں میں وائلن تھما دیا اور مجھے موسیقی سیکھنے کیلئے ہیرس سکول آف میوزک بھیجنے کا بندوبست کِیا۔ مشکل حالات کے باوجود میرے والدین کسی نہ کسی
طریقے سے سکول کی فیس اور آنےجانے کا کرایہ ادا کرتے تھے۔ پھر مَیں نے ٹرانٹو میں رائل کنزرویٹری آف میوزک سے موسیقی کے اُصولوں اور سروں کا علم حاصل کِیا اور ۱۲ سال کی عمر میں ایک نہایت عالیشان آڈیٹوریم، میسی ہال میں موسیقی کے مقابلے میں حصہ لیا جس میں پورے شہر کے فنکاروں نے شرکت کی۔ مَیں نے یہ مقابلہ جیت لیا اور انعام کے طور پر مجھے مگرمچھ کی کھال کے بنے ہوئے بکس میں ایک عمدہ وائلن ملا۔وقت آنے پر مَیں نے پیانو اور ڈبل بیس وائلن بجانا بھی سیکھ لیا۔ اکثر ہم ایک گروپ کے طور پر جمعے اور ہفتے کے دن چھوٹی چھوٹی پارٹیوں اور رقص کی محفلوں پر موسیقی بجاتے تھے۔ رقص کی ایک ایسی محفل پر پہلی بار میری ملاقات آلین سے ہوئی۔ ہائی سکول کے آخری سال کے دوران مَیں نے شہر کے کئی طائفوں کیساتھ ملکر اپنے فن کا مظاہرہ کِیا۔ فارغالتحصیل ہونے کے بعد مجھے فرڈی موری آرکسٹرا کیساتھ کام کرنے کی دعوت ملی اور ۱۹۴۳ تک یہ ایک اچھی نوکری ثابت ہوئی۔
یہوواہ سے واقفیت
میرے والدین پہلی جنگِعظیم شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے بائبل سچائی سے رُوشناس ہوئے جب میرے والد ٹرانٹو شہر کے تجارتی مرکز میں ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور کی کھڑکیوں میں سامانِفروخت سجانے کا کام کرتے تھے۔ وہ کھانا کھانے کے کمرے میں دو کارکنوں کی گفتگو اکثر سنا کرتے تھے جو بائبل طالبعلم تھے (جیساکہ یہوواہ کے گواہ اُس وقت کہلاتے تھے) اور پھر شام کو گھر آکر ماں کے ساتھ اُن سنی ہوئی باتوں کی بابت گفتگو کرتے تھے۔ کچھ سال بعد ۱۹۲۷ میں بائبل طالبعلموں نے ٹرانٹو میں کینیڈین نیشنل ایگزیبشن کے وسیع میدان میں ایک بڑی کنونشن منعقد کی۔ ہمارا گھر جو اِس میدان سے تھوڑی دُور تھا، یو.ایس.اے. اوہائیو سے آنے والے ۲۵ لوگوں کی رہائش کے لئے استعمال کِیا گیا۔
بعدازاں، ایک بائبل طالبعلم ایڈا بلٹسو میری ماں سے اکثر ملاقات کرنے اور اُسے حالیہ مطبوعات دینے لگی۔ ایک روز اُس نے کہا: ”مسز ڈنکم، مَیں کچھ عرصے سے آپ کے پاس مطبوعات چھوڑ کر جاتی ہوں۔ کیا آپ نے اُن میں سے کسی کو پڑھا ہے؟“ چھ بچوں کی دیکھبھال کرنے کے باوجود، ماں نے اُس وقت سے اُن رسالوں کو پڑھنے کی ٹھان لی اور اِسکے بعد اِس عادت کو کبھی نہیں چھوڑا۔ تاہم، مَیں اِن مطبوعات پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتا تھا۔ میرا پورا دھیان سکول سے فارغالتحصیل ہونے اور موسیقی میں لگا ہوا تھا۔
جون ۱۹۳۵ میں آلین اور مَیں نے ایک اینگلیکن چرچ میں شادی کر لی۔ مَیں نے ۱۳ سال کی عمر میں یونائیٹڈ چرچ چھوڑ دیا تھا، لہٰذا کسی مذہبی تنظیم سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے مَیں نے شادی کے رجسٹر پر یہوواہ کے گواہ کے طور پر دستخط کر دئے، حالانکہ مَیں اُس وقت گواہ نہیں تھا۔
ہم مستقبل میں اپنا خاندان بڑھانا اور اچھے والدین ثابت ہونا چاہتے تھے۔ لہٰذا، ہم دونوں نے ملکر نیا عہدنامہ پڑھنا شروع کِیا۔ ہمارے نیک ارادوں کے باوجود دوسری چیزیں ہمارے راستے میں حائل ہو گئیں۔ ہم نے دوبارہ کوشش بھی کی مگر نتیجہ وہی رہا۔ پھر ۱۹۳۵ میں کرسمس پر ہمیں ایک کتاب دی ہارپ آف گاڈ تحفے میں ملی۔ میری بیوی نے کہا: ”ارے، آپ کی ماں نے تو ہمیں بڑا عجیب تحفہ بھیجا ہے۔“ پھربھی، میرے کام پر جانے کے بعد اُس نے اُسے پڑھنا شروع کِیا اور جو اُس نے پڑھا وہ اُسے بہت پسند آیا۔ اِس کتاب میں اُس کی دلچسپی کا مجھے کافی دیر تک پتہ نہ چلا۔ ہماری اپنے خاندان کو بڑھانے کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہوئی تھی۔ فروری ۱، ۱۹۳۷ کو پیدا ہونے والی ہماری بیٹی فوت ہو گئی تھی۔ ہمیں بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا!
اِس وقت کے دوران ہمارا خاندان منادی کے کام میں گرمجوشی سے حصہ لے رہا تھا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے خاندان میں سے صرف میرے والد ہی وہ واحد بادشاہتی مبشر ہیں جنہوں نے ابھی تک کونسولیشن (اب جاگو!) رسالے کے لئے کوئی سالانہ چندہ حاصل نہیں کِیا ہے۔ یہ اُس مہینے کی میدانی خدمتگزاری کا نشانہ تھا۔ اگرچہ ابھی تک مَیں نے سوسائٹی کی کوئی اشاعت نہیں پڑھی تھی توبھی مجھے اُن پر ترس آیا اور مَیں نے کہا: ”ٹھیک ہے، ابو، آپ مجھے چندہ پیش کریں اور پھر آپ بھی دوسروں کی طرح ہو جائیں گے۔“ بعدازاں، موسمِگرما کی آمد پر ہمارا آرکسٹرا شہر سے باہر ایک سیرگاہ پر موسیقی بجانے کے لئے چلا گیا۔ لیکن کونسولیشن بھی ڈاک کے ذریعے میرے پیچھے پہنچ گیا۔ موسمِخزاں میں آرکسٹرا واپس ٹرانٹو آ گیا۔ رسالے بھی ہمارے نئے پتے پر آتے رہے مگر مَیں نے ابھی تک اُن میں سے ایک کو بھی کھول کر نہیں دیکھا تھا۔
کرسمس کی چھٹیوں میں مَیں نے رسالوں کے ڈھیر کو دیکھا اور سوچا کہ اگر مَیں نے اُنہیں خریدا ہے تو مجھے کمازکم اِن میں سے کچھ کو پڑھ کر یہ ضرور معلوم کرنا متی ۲۴:۴۵۔
چاہئے کہ اِن میں ہے کیا۔ پہلے رسالے نے ہی مجھے حیران کر دیا۔ اِس میں اُس وقت کی رشوتستانی، سیاسی سازش اور فریب کو بےنقاب کِیا گیا تھا۔ مَیں جو کچھ پڑھتا تھا اُس کی بابت اپنے ساتھی موسیقاروں سے گفتگو کرتا تھا۔ تاہم، وہ میری باتوں کی صداقت کو چیلنج کرتے اور یوں مَیں اپنا دفاع کرنے کیلئے مزید پڑھتا رہتا۔ نادانستہ طور پر مَیں یہوواہ کی بابت گواہی دینے لگا۔ تاہم، اُس وقت سے لیکر مَیں نے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی اِن عمدہ بائبل مطبوعات کو پڑھنا نہیں چھوڑا ہے۔—کام کی وجہ سے مَیں پورا ہفتہ مصروف رہتا تھا مگر بہت جلد مَیں آلین کیساتھ اتوار کے اجلاس پر حاضر ہونے لگا۔ ۱۹۳۸ میں جب ہم ایک اتوار اجلاس پر پہنچے تو دو عمررسیدہ بہنوں نے ہمیں سلام کِیا اور اُن میں سے ایک نے کہا: ”بھائی، کیا آپ نے یہوواہ کیلئے خود کو مخصوص کر لیا ہے؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہرمجدون بس آنے ہی والی ہے!“ مَیں جانتا تھا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے اور مجھے یقین تھا کہ یہ اُسکی تنظیم ہے۔ مَیں اِسکا حصہ بننا چاہتا تھا، لہٰذا مَیں نے اکتوبر ۱۵، ۱۹۳۸ میں بپتسمہ لے لیا۔ آلین نے تقریباً چھ ماہ بعد بپتسمہ لیا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرے خاندان کے سب افراد یہوواہ کے مخصوصشُدہ خادم ہیں۔
خدا کے لوگوں کیساتھ رفاقت سے مَیں نے بڑی خوشی کا تجربہ کِیا! بہت جلد مَیں اُنکے ساتھ گھلمل گیا۔ جب مَیں اجلاس پر حاضر نہ ہو پاتا تو مَیں یہ جاننے کیلئے بےچین رہتا کہ اجلاسوں پر کیا پیش کِیا گیا تھا۔ وہ یادگار شام جسکا ذکر شروع میں کِیا گیا، یہوواہ کیلئے میری خدمت میں ایک خاص تبدیلی لائی۔
ہمارے لئے ایک بڑی تبدیلی کا وقت
یکم مئی، ۱۹۴۳ میں ہمیں ایک اَور خاص تبدیلی کرنی پڑی۔ ہم پہلی بار کلیولینڈ، اوہائیو میں ایک بڑی کنونشن، ستمبر ۱۹۴۲ کی نیو ورلڈ تھیوکریٹک اسمبلی پر حاضر ہوئے تھے۔ وہاں، ایک ہولناک عالمی جنگ کے دوران جسکا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا تھا، ہم نے واچ ٹاور سوسائٹی کے صدر بھائی نار کی بڑی دلیری سے پیشکردہ دلچسپ عوامی تقریر ”امن—کیا یہ قائم رہیگا؟“ سنی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب اُنہوں نے مکاشفہ ۱۷ باب میں سے دکھایا کہ کیسے جنگ کے بعد امن کا دَور ہوگا جس میں وسیع پیمانے پر منادی کا کام انجام پائیگا۔
بھائی نار کی پہلی تقریر ”افتاح اور اُس کا وعدہ“ نے ہم پر سب سے زیادہ اثر کِیا۔ پھر یہ دعوت دی گئی کہ زیادہ سے زیادہ اشخاص پائنیر خدمت اختیار کریں! آلین اور مَیں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور (اُس وقت وہاں پر موجود دوسرے بہت سے لوگوں کیساتھ) ہمآواز ہوکر کہا: ”یہ دعوت ہمارے لئے ہے!“ ہم نے فوری طور پر اِس اہم کام کیلئے تیاری شروع کر دی۔
کینیڈا میں جولائی ۴، ۱۹۴۰ سے یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی۔ یکم مئی، ۱۹۴۳ میں جب ہم نے پائنیر خدمت شروع کی تو اُس وقت بھی یہوواہ کی بابت گواہی دینے اور میدانی خدمت میں سوسائٹی کی مطبوعات پیش کرنے پر پابندی تھی۔ مسیحیوں کے طور پر خدمت کرتے وقت، ہمارے پاس صرف کنگ جیمز ورشن بائبل ہوتی تھی۔ اونٹاریو کے علاقے پیری ساؤنڈ میں اپنی پہلی پائنیر تفویض پر پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد برانچ آفس کی طرف سے ایک تجربہکار پائنیر سٹورٹ مین کو ہمارے ساتھ میدانی خدمت میں کام کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ یہ کتنی پُرشفقت فراہمی تھی! بھائی مین خوشگوار شخصیت کے مالک تھے۔ ہمیں اُن سے سیکھنے کا موقع ملا اور ہم نے اُن کیساتھ اچھا وقت گزارا۔ ہم کئی بائبل مطالعے کروا رہے تھے جب سوسائٹی نے ہمیں دوسری تفویض پر ہیملٹن کے شہر بھیج دیا۔ اُسکے کچھ ہی عرصہ بعد، میری عمر زیادہ ہونے کے باوجود مجھے فوجی خدمت کیلئے منتخب کر لیا گیا۔ فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے کے نتیجے میں مجھے دسمبر ۳۱، ۱۹۴۳ میں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد مجھے سزا کے طور پر عوامی خدمت کے ایک کیمپ میں کام کرنے کیلئے بھیجا گیا جہاں مَیں اگست ۱۹۴۵ تک رہا۔
میری رہائی پر، آلین اور مجھے فوراً اونٹاریو، کارنوال میں پائنیر خدمت کے لئے بھیج دیا گیا۔ اُسکے کچھ دیر بعد، ہمیں سوسائٹی کے قانونی شعبے کی طرف سے
کیوبک بھیج دیا گیا جہاں ہمارا کام بھائیوں کی عدالتی مقدمات کے سلسلے میں مدد کرنا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب کیوبک میں ڈیوپلاسی کے دَور میں یہوواہ کے گواہوں پر شدید ظلموستم کِیا جا رہا تھا۔ ہفتے کے کئی دنوں میں، مَیں چار مختلف عدالتوں میں بھائیوں کی مدد کرنے جایا کرتا تھا۔ اُس وقت کے دوران ہم نے بہت خوشی اور ایمان کی مضبوطی حاصل کی۔سن ۱۹۴۶ میں کلیولینڈ کنونشن کے بعد مجھے اور میری بیوی کو سرکٹ اور ڈسٹرکٹ کام کی تفویضات ملیں جن میں ہم نے ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک خدمت انجام دی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ۱۹۴۸ میں ہمیں واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۱۱ویں جماعت میں شامل ہونے کی دعوت ملی۔ ہمارے دو اُستاد، بھائی البرٹ شروڈر اور میکسول فرینڈ تھے اور ہماری جماعت کے ۱۰۸ طالبعلموں میں ۴۰ ممسوح اشخاص تھے۔ برسوں سے یہوواہ کی خدمت کرنے والے بہتیرے خادموں کی موجودگی کے باعث یہ ہمارے لئے واقعی ایک عمدہ اور بااجر تجربہ رہا!
ایک دن بھائی نار بروکلن سے ہمیں ملنے آئے۔ اُنہوں نے اپنی تقریر کے دوران جاپانی زبان سیکھنے کے لئے ۲۵ رضاکاروں کی درخواست کی۔ پورے ۱۰۸ طالبعلموں نے یہ دعوت قبول کی! اب یہ ذمہداری صدر کی تھی کہ وہ سیکھنے والوں کا انتخاب کریں۔ میرے خیال سے یہوواہ نے اِس انتخاب کی راہنمائی کی کیونکہ اِس کے نتائج بہت عمدہ رہے۔ منتخب ہونے والے ۲۵ افراد میں سے بہتیرے جن کو جاپان میں کام شروع کرنے کا شرف ملا اب تک اپنی تفویض پر قائم ہیں—عمررسیدہ ہونے کے باوجود وہیں خدمت کر رہے ہیں۔ جبکہ بعض، جیساکہ لائیڈ اور میلبا بیری، جاپان سے دوسری تفویضات پر چلے گئے تھے۔ بھائی لائیڈ پچھلے سال اپنی وفات کے وقت تک گورننگ باڈی کے رُکن تھے۔ یہوواہ کی طرف سے جو اجر ملا، ہم اُس کے لئے اُن سب کی خوشی میں شامل ہیں۔
گریجوایشن کے بعد ہمیں جمیکا میں تفویض ملی۔ تاہم، ہمیں واپس کینیڈا جانے کی ہدایت کی گئی کیونکہ کیوبک میں کئی عدالتی کارروائیاں ابھی ادھوری تھیں۔
زیادہ موسیقی!
اگرچہ مَیں نے پائنیر خدمت کیلئے موسیقی کو چھوڑ دیا تھا مگر ایسا لگتا تھا کہ موسیقی نے مجھے نہیں چھوڑا۔ اگلے سال سوسائٹی کے صدر، ناتھن نار اور اُسکے سیکرٹری ملٹن ہینشل ٹرانٹو میں مےپل لیف گارڈنز آئے۔ بھائی نار کی تقریر ”آپکی سوچ سے زیادہ دیر ہوچکی ہے!“ سنکر سب کے اندر ایک لہر سی دوڑ گئی۔ پہلی بار مجھے کنونشن آرکسٹرا کی ذمہداری سونپی گئی۔ ہم نے کنگڈم سروس سونگ بُک (۱۹۴۴) سے کچھ مقبول گیتوں کیلئے موسیقی تیار کی۔ بھائیوں نے اِسے پسند کِیا۔ جب ہفتے کی سہپہر پروگرام ختم ہوا تو ہم نے اتوار کیلئے تیار کئے گئے پروگرام کی مشق کی۔ مَیں نے بھائی ہینشل کو اپنی جانب آتے دیکھا اور آرکسٹرا کو روکا تاکہ مَیں اُنکے پاس جا کر مل سکوں۔ اُنہوں نے پوچھا، ”آپکے آرکسٹرا میں کتنے موسیقار ہیں؟“ ”جب سب موجود ہوتے ہیں تو تقریباً ۳۵،“ میں نے جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا، ”اگلے موسمِگرما میں نیو یارک میں آپکی تعداد اِس سے دُگنی ہو گی۔“
تاہم، گرمیوں کے موسم سے پہلے ہی مجھے بروکلن جانے کی دعوت ملی۔ حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے آلین میرے ساتھ نہ جا سکی۔ ۱۲۴ کولمبیا ہائٹس کی نئی عمارت ابھی تک زیرِتعمیر تھی، لہٰذا مجھے پُرانی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دو ممسوح بھائیوں کیساتھ ٹھہرایا گیا، اِن میں سے ایک بھائی پین تھے جو کافی ضعیف تھے اور دوسرے بھائی کارل کلین جن سے میری ملاقات پہلی بار ہوئی تھی۔ کیا جگہ کی کمی تھی؟ جیہاں۔ بہرحال، ہمارا ایک دوسرے کیساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ دونوں عمررسیدہ بھائی بڑے متحمل اور صابر تھے۔ مَیں اُن کیلئے کسی بھی طرح کی مشکل پیدا کرنے سے بچنے کی کوشش کرتا تھا! البتہ اِس سے مَیں نے سیکھا کہ خدا کی روح سے کیاکچھ انجام دیا جا سکتا ہے۔ بھائی کلین کیساتھ ملنے اور کام کرنے سے مجھے بہت سی برکات حاصل ہوئیں! وہ ہمیشہ مہربان اور مددگار ثابت ہوئے۔ ہم نے باہمی تعاون سے کام کِیا اور اب ہماری دوستی کو ۵۰ سے بھی زیادہ سال ہو گئے ہیں۔
مجھے یانکی سٹیڈیم میں ۱۹۵۰، ۱۹۵۳، ۱۹۵۵ اور ۱۹۵۸ کے کنونشنوں کی موسیقی تیار کرنے میں مدد دینے کے شرف کے علاوہ آل کیولن کیساتھ کیلیفورنیا، پاساڈینا میں روز بول میں منعقد ہونے والے ۱۹۶۳ کے کنونشن پر آرکسٹرا کی ذمہداری بھی سونپی گئی۔ یانکی سٹیڈیم میں ۱۹۵۳ کی کنونشن کے دوران، اتوار کی عوامی تقریر سے پہلے ایک موسیقی کا پروگرام پیش کِیا گیا۔ ایرک فروسٹ نے ایڈت شمیونک (بعد میں ویجنٹ)، سپرانو کا تعارف کرایا جس نے ہمارے آرکسٹرا کیساتھ ”آگے بڑھو، اَے گواہو!“ گیت گایا۔ پھر ہم پہلی بار اپنے افریقی بھائیبہنوں کی میٹھی اور خوبصورت آوازوں سے محظوظ ہوئے۔ مشنری ہیری آرنوٹ شمالی روڈیشیا
(اب زمبیا) سے ایک عمدہ ٹیپ کی ریکارڈنگ ہمیں سنانے کیلئے لایا تھا۔ اِسکی آواز پورے سٹیڈیم میں گونج اُٹھی۔۱۹۶۶ کی گیتوں کی کتاب کی ریکارڈنگ
کیا آپ کو گلابی پلاسٹک کی جِلد والی گیتوں کی کتاب ”سنگنگ اینڈ اکمپنینگ یورسیلوز وِد میوزک اِن یور ہارٹس“ یاد ہے؟ جب اِسکی تیاری آخری مراحل میں تھی تو بھائی نار نے کہا: ”ہم کچھ ریکارڈنگ کرنے والے ہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ کچھ وائلن اور بانسریوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا آرکسٹرا مرتب کریں۔ لیکن اِس میں کوئی بگل نہیں بجایا جانا چاہئے!“ ہم بیتایل کے کنگڈم ہال کو سٹوڈیو کے طور پر استعمال کرنے والے تھے مگر اِس سلسلے میں ہم کچھ پریشان تھے۔ بغیر پردوں کی دیواروں، ٹائل کے فرشوں اور دھات کی بنی ہوئی کرسیوں سے گونجنے والی آواز کو کیسے روکا جا سکتا تھا؟ ناخوشگوار آوازوں کے مسئلے کو حل کرنے میں کون ہماری مدد کر سکتا تھا؟ کسی نے تجویز پیش کی: ”ٹومی مچل! وہ اےبیسی نیٹورک سٹوڈیو میں کام کرتا ہے۔“ ہم نے بھائی مچل سے رابطہ کِیا جو خوشی سے ہماری مدد کیلئے تیار ہوگیا۔
جب ہفتے کی صبح، ریکارڈنگ کے پہلے دن پر موسیقاروں کو متعارف کرایا گیا تو اُن میں سے ایک بھائی کے پاس ترمبون کا بکس تھا۔ مجھے بھائی نار کی یہ آگاہی یاد آئی: ”لیکن اِس میں بگل نہیں بجایا جانا چاہئے!“ اب مَیں کیا کر سکتا تھا؟ مَیں نے اُس بھائی کو اپنے بکس سے ترمبون نکالتے اور اُسے بجانے کی تیاری کرتے دیکھا۔ وہ بھائی ٹام مچل تھا اور پہلے سُر جو اُس نے بجائے بہت ہی دلکش تھے۔ اُس نے تو ترمبون کو وائلن کی طرح بجایا تھا! مَیں نے سوچا، ’اِس بھائی کو تو ہمارے ساتھ رہنا ہی ہوگا!‘ بھائی نار نے بھی کوئی اعتراض نہ کِیا۔
یہ آرکسٹرا اعلیٰ موسیقاروں کا گروہ تھا جو ہمارے پُرمحبت بھائیبہن بھی تھے۔ اِن میں کوئی بھی خودپسند نہیں تھا! ریکارڈنگ ایک کٹھن کام تھا مگر کسی نے کوئی شکایت نہ کی۔ جب کام ختم ہوا تو بہنبھائیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور حصہ لینے والوں میں بعدازاں بھی مضبوط رفاقت قائم رہی۔ ہم سب نے اِس شرف سے خوشی حاصل کی اور یہوواہ کی بدولت یہ کام بالآخر پایۂتکمیل کو پہنچ گیا۔
اضافی بااجر استحقاقات
اتنے سالوں بعد بھی مَیں کُلوقتی خدمت سے لطفاندوز ہوتا ہوں۔ سرکٹ اور ڈسٹرکٹ کے کام میں ۲۸ سالوں کی تفویضات شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اِسکے بعد مَیں نے پانچ سال تک اونٹاریو میں نورول اسمبلی ہال کی دیکھبھال کی۔ ہر ہفتے کے آخر میں سرکٹ اسمبلی کیساتھ ساتھ غیرملکی زبانوں میں ڈسٹرکٹ کنونشنز مجھے اور آلین کو بہت مصروف رکھتے تھے۔ ماہرِتعمیرات اور انجینیئروں نے ۱۹۸۰/۱۹۷۹ میں ہالٹن ہال میں سوسائٹی کی برانچ کی تعمیر کی منصوبہسازی کیلئے اسمبلی ہال کی سہولیات کا استعمال کِیا۔ اسمبلی ہال میں کام کرنے کے بعد ہمیں ۱۹۸۲ سے ۱۹۸۴ تک ایک اَور تفویض ملی جو ہمیں موسیقی کے میدان میں حصہ لینے کیلئے بروکلن لے گئی۔
ہماری شادی کی ۵۹ ویں سالگرہ کے سات دن بعد، جون ۱۷، ۱۹۹۴ کو میری پیاری بیوی وفات پا گئی۔ ہم نے وفاداری سے اکٹھے مل کر پائنیر خدمت میں ۵۱ سال صرف کئے تھے۔
جب مَیں اپنی زندگی کے تجربات پر غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بائبل کیسے میرے لئے ایک بیشقیمت راہنما ثابت ہوئی ہے۔ بعضاوقات مَیں آلین کی ذاتی بائبل استعمال کرتا ہوں اور مجھے اُن باتوں پر غور کرکے نہایت خوشی ہوتی ہے جن سے اُسکا دل اثرپذیر ہوا تھا—پوری آیات، کچھ خاص جملے یا چند الفاظ جن پر اُس نے نشان لگائے تھے۔ کچھ ایسے صحائف ہیں جو آلین کی طرح میرے لئے بھی خاص معنی رکھتے ہیں۔ اِن میں سے ایک زبور ۱۳۷ ہے جو یہوواہ کے حضور ایک خوبصورت دُعا ہے: ”اَے یرؔوشلیم! اگر مَیں تجھے بھولوں تو میرا دہنا ہاتھ اپنا ہنر بھول جائے۔ اگر مَیں تجھے یاد نہ رکھوں اگر مَیں یرؔوشلیم کو اپنی بڑی سے بڑی خوشی پر ترجیح نہ دوں تو میری زبان میرے تالو سے چپک جائے۔“ (زبور ۱۳۷:۵، ۶) اگرچہ مَیں موسیقی سے محبت کرتا ہوں، توبھی میری سب سے بڑی خوشی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرنا ہے جس نے مجھے ایک تسکینبخش اور بامقصد زندگی عطا کی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 6 جون ۱، ۱۹۷۳ کے مینارِنگہبانی نے وضاحت پیش کی کہ اُس وقت سے بپتسمہ لیکر یہوواہ کا گواہ بننے کے خواہاں اشخاص کیلئے پہلے تمباکونوشی چھوڑنا کیوں ضروری ہے۔
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
۱۹۴۷ میں آلین کیساتھ
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
ایک ریکارڈنگ کے موقع پر