مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنی نیکنامی کی حفاظت کریں

اپنی نیکنامی کی حفاظت کریں

اپنی نیکنامی کی حفاظت کریں

ایک شخص خوبصورت عمارتیں بنانے کی وجہ سے ماہرِتعمیرات کے طور پر مشہور ہو جاتا ہے۔‏ تعلیمی میدان میں عمدہ کارکردگی دکھانے والی ایک نوجوان خاتون ذہین طالبہ کے طور پر مشہور ہو جاتی ہے۔‏ کوئی کام نہ کرنے والا شخص بھی کاہل کے طور پر مشہور ہو جاتا ہے۔‏ نیکنامی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏نیک نام بےقیاس خزانہ سے اور احسان سونے چاندی سے بہتر ہے۔‏“‏—‏امثال ۲۲:‏۱‏۔‏

نیکنامی ایک عرصے کے دوران کئی ایک چھوٹےچھوٹے کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔‏ تاہم،‏ صرف ایک بیوقوفی سے اِسے بٹا لگ سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مرتبہ کی جنسی بداخلاقی تمام عزت‌وناموس کو تباہ کر سکتی ہے۔‏ بائبل میں امثال کی کتاب کے ۶ باب میں،‏ قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان ایسے رُجحانات اور اعمال کی بابت آگاہ کرتا ہے جو ہماری عزت کے علاوہ،‏ یہوواہ خدا کے ساتھ ہمارے رشتہ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‏ اِن میں بالخصوص بِلاسوچےسمجھے ضامن بننے،‏ کاہلی،‏ دھوکا اور جنسی بداخلاقی شامل ہے جن سے یہوواہ کو نفرت ہے۔‏ اس نصیحت پر عمل کرنے سے اپنی نیکنامی کی حفاظت کرنے میں ہماری مدد ہوگی۔‏

احمقانہ ضمانتوں سے بچیں

امثال ۶ باب اِن الفاظ کیساتھ شروع ہوتا ہے:‏ ‏”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو اپنے پڑوسی کا ضامن ہوا ہے۔‏ اگر تُو ہاتھ پر ہاتھ مار کر کسی بیگانہ کا ذمہ‌دار ہوا۔‏ تو تُو اپنے ہی مُنہ کی باتوں میں پھنسا۔‏ تُو اپنے ہی مُنہ کی باتوں سے پکڑا گیا۔‏ سو اَے میرے بیٹے!‏ چونکہ تُو اپنے پڑوسی کے ہاتھ میں پھنس گیا ہے۔‏ اب یہ کر اور اپنے آپ کو بچا لے۔‏ جا۔‏ خاکسار بن کر اپنے پڑوسی سے اصرار کر۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۱-‏۳‏۔‏

یہ مثل دوسروں،‏ خاص طور پر اجنبیوں کیساتھ کاروباری تعلقات اُستوار کرنے کے خلاف نصیحت کرتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ اسرائیلیوں کو تاکید کی گئی تھی کہ ’‏اگر اُنکا بھائی مفلس ہو جائے اور وہ انکے سامنے تنگ‌دست ہو تو اُسے سنبھالیں۔‏‘‏ (‏احبار ۲۵:‏۳۵-‏۳۸‏)‏ تاہم،‏ بعض ناعاقبت‌اندیش اسرائیلیوں نے خطرناک کاروبار میں اُلجھ کر مالی مدد کیلئے دوسروں کو اپنا ’‏ضامن‘‏ بنایا اور یوں اُنہیں قرضے کے لئے ذمہ‌دار ٹھہرایا۔‏ ایسی صورتحال آج بھی پیدا ہو سکتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مالیاتی اِدارے کسی بھی ایسے قرضے کو منظور کرنے سے پہلے ضامن کا تقاضا کرتے ہیں جس میں اُنہیں نقصان کا خدشہ ہو۔‏ جلدبازی میں دوسروں کیلئے ایسی ضمانت دے دینا کتنی غیردانشمندانہ بات ہو گی!‏ اِس سے ہم مالی مشکل میں پھنس سکتے ہیں اور قرض فراہم کرنے والے بنک اور دیگر اِداروں میں ہماری ساکھ پر بھی بُرا اثر پڑ سکتا ہے!‏

ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اگر ہم کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جو شروع میں تو نہایت دانشمندانہ دکھائی دیتا تھا مگر محتاط جانچ‌پڑتال کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہم بڑی حماقت کر بیٹھے ہیں؟‏ اِس سلسلے میں مشورہ یہ ہے کہ تکبّر کو بالائےطاق رکھ کر مسلسل التجاؤں کیساتھ ”‏اپنے پڑوسی سے اصرار“‏ کریں۔‏ ہمیں معاملات کو نپٹانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔‏ ایک کتاب یہ اہم تجویز پیش کرتی ہے:‏ ”‏اپنے مخالف سے سمجھوتا کرنے اور مسئلے کو سلجھانے کیلئے ہر ممکن طریقہ آزمانے کے کوشش کریں تاکہ آپ اور آپکے خاندان کو معاہدے سے کوئی نقصان نہ ہو۔‏“‏ تاہم،‏ یہ کام جلدازجلد ہونا چاہئے کیونکہ بادشاہ مزید وضاحت کرتا ہے:‏ ‏”‏تُو نہ اپنی آنکھوں میں نیند آنے دے اور نہ اپنی پلکوں میں جھپکی۔‏ اپنے آپ کو ہرنی کی مانند صیّاد کے ہاتھ سے اور چڑیا کی مانند چڑیمار کے ہاتھ سے چُھڑا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ ایک نامعقول معاہدے کا پابند رہنے کی بجائے موقع ملنے پر اِس سے چھٹکارا حاصل کر لینا چاہئے۔‏

چیونٹی کی مانند محنتی بنیں

سلیمان نصیحت کرتا ہے:‏ ‏”‏اَے کاہل!‏ چیونٹی کے پاس جا۔‏ اُسکی روشوں پر غور کر اور دانشمند بن۔‏“‏ ہم چھوٹی سی چیونٹی کی روشوں سے بھلا کیا دانشمندی سیکھ سکتے ہیں؟‏ بادشاہ جواب دیتا ہے:‏ ‏”‏باوجودیکہ اُس کا نہ کوئی سردار نہ ناظر نہ حاکم ہے۔‏ گرمی کے موسم میں اپنی خوراک مہیا کرتی ہے اور فصل کٹنے کے وقت اپنی خورش جمع کرتی ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۶:‏۶-‏۸‏۔‏

چیونٹیاں حیرت‌انگیز طور پر منظم ہوتی ہیں اور ایک دوسرے سے بڑا تعاون کرتی ہیں۔‏ وہ جبلّی طور پر اپنے مستقبل کیلئے خوراک جمع کرتی ہیں۔‏ اُنکا کوئی ’‏سردار،‏ ناظر یا حاکم‘‏ نہیں ہوتا۔‏ یہ سچ ہے کہ اُنکی ایک ملکہ ہوتی ہے مگر وہ صرف انڈے دیتی ہے اور اِس آبادی کی ماں ہوتی ہے۔‏ وہ کوئی حکم نہیں دیتی۔‏ اُنہیں کام کرنے پر مجبور یا اُنکی نگرانی کرنے والا کوئی سربراہ یا نگران نہیں ہوتا،‏ اِسکے باوجود وہ انتھک محنت کرتی ہیں۔‏

کیا ہمیں بھی چیونٹی کی طرح محنتی نہیں ہونا چاہئے؟‏ خواہ ہم کسی کے زیرِنگرانی ہوں یا نہ ہوں،‏ محنت اور اپنے کام میں بہتری لانے کی کوشش ہمارے لئے فائدہ‌مند ثابت ہوتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں سکول میں،‏ جائےملازمت پر اور روحانی کارگزاریوں میں شرکت کے دوران بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏ جس طرح چیونٹی اپنی محنت کا صلہ پاتی ہے ویسے ہی خدا چاہتا ہے کہ ہم بھی ’‏اپنی ساری محنت سے فائدہ اُٹھائیں۔‏‘‏ (‏واعظ ۳:‏۱۳،‏ ۲۲؛‏ ۵:‏۱۸‏)‏ ایک صاف ضمیر اور ذاتی تسکین سخت محنت کا اجر ہیں۔‏—‏واعظ ۵:‏۱۲‏۔‏

سلیمان دو سوالوں سے ایک کاہل شخص کو اُسکی نیند سے جگانے کی کوشش کرتا ہے:‏ ‏”‏اَے کاہل!‏ تُو کب تک پڑا رہیگا؟‏ تُو نیند سے کب اُٹھیگا؟‏“‏ بادشاہ حقارت کے ساتھ اُس سے کہتا ہے:‏ ‏”‏تھوڑی سی نیند۔‏ ایک اور جھپکی۔‏ ذرا پڑے رہنے کو ہاتھ پر ہاتھ۔‏ اِسی طرح تیری مُفلسی راہزن کی طرح اور تیری تنگ‌دستی مسلح آدمی کی طرح آ پڑیگی۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۹-‏۱۱‏)‏ ایک کاہل شخص کو مفلسی راہزن کی مانند آ لیتی ہے اور ضروریاتِ‌زندگی کی قلّت ایک مسلح آدمی کی طرح اُس پر حملہ کرتی ہے۔‏ ایک کاہل شخص کے کھیت بہت جلد جھاڑیوں اور اونٹ‌کٹاروں سے بھر جاتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۴:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ بہت جلد اُسکا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔‏ ایک آجر کب تک کاہل شخص کو برداشت کریگا؟‏ نیز،‏ کیا ایک سُست طالبعلم سکول میں بہتر کارکردگی کی توقع کر سکتا ہے؟‏

دیانتدار بنیں

معاشرے میں ایک شخص کی عزت اور خدا کے ساتھ اُسکے رشتے کو تباہ کرنے والے ایک اَور طرزِعمل کا احاطہ کرتے ہوئے سلیمان اپنا بیان جاری رکھتا ہے:‏ ‏”‏خبیث‌وبدکار آدمی ٹیڑھی ترچھی زبان لئے پھرتا ہے۔‏ وہ آنکھ مارتا ہے۔‏ وہ پاؤں سے باتیں اور اُنگلیوں سے اشارہ کرتا ہے۔‏ اُسکے دل میں کجی ہے۔‏ وہ بُرائی کے منصوبے باندھتا رہتا ہے۔‏ وہ فتنہ‌انگیز ہے۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۱۲،‏ ۱۴‏۔‏

یہ بیان ایک دھوکےباز کی عکاسی کرتا ہے۔‏ ایک جھوٹا شخص عموماً اپنے جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ کیسے؟‏ وہ اپنی ”‏ٹیڑھی‌ترچھی زبان“‏ کے علاوہ اشاروں کا بھی استعمال کرتا ہے۔‏ ایک عالم بیان کرتا ہے:‏ ”‏اشارے،‏ لہجہ اور چہرے کے تاثرات فریب دینے کے لئے سوچےسمجھے طریقے ہوتے ہیں؛‏ ایک معصوم چہرے کے پیچھے ایک شاطر اور نزاع‌انگیز دماغ ہوتا ہے۔‏“‏ ایسا خبیث آدمی ہمیشہ بُرائی کے منصوبے باندھتا اور فتنہ‌انگیز کام کرتا ہے۔‏ اُسکا انجام کیا ہوگا؟‏

اسرائیلی بادشاہ جواب دیتا ہے:‏ ‏”‏اسلئے آفت اُس پر ناگہاں آپڑیگی۔‏ وہ یک‌لخت توڑ دیا جائیگا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۱۵‏)‏ جب کسی جھوٹے کا پول کُھل جاتا ہے تو اُسکی نیکنامی فوراً مٹی میں مل جاتی ہے۔‏ اب کون اُس پر بھروسا کریگا؟‏ اُسکا انجام واقعی تباہ‌کُن ہے کیونکہ ”‏سب جھوٹوں“‏ کا شمار ابدی موت کی سزا کے لائق اشخاص میں ہوتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۸‏)‏ ہمیں ہر ممکن طریقے سے ”‏ہر بات میں نیکی [‏”‏دیانتداری،‏“‏ این‌ڈبلیو]‏ کے ساتھ زندگی“‏ گزارنی چاہئے۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏۔‏

اُن چیزوں سے نفرت کریں جن سے یہوواہ نفرت کرتا ہے

بُرائی سے نفرت—‏ہمیں بےعزت کرنے والے کاموں کی راہ میں کتنی بڑی رُکاوٹ!‏ پس کیا ہمیں بُرائی کے لئے نفرت پیدا نہیں کرنی چاہئے؟‏ تاہم،‏ ہمیں خصوصاً کس چیز سے نفرت کرنی چاہئے؟‏ سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏چھ چیزیں ہیں جن سے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے بلکہ سات ہیں جن سے اُسے کراہیت ہے۔‏ اُونچی آنکھیں۔‏ جھوٹی زبان۔‏ بےگُناہ کا خون بہانے والے ہاتھ۔‏ بُرے منصوبے باندھنے والا دل۔‏ شرارت کے لئے تیزرو پاؤں۔‏ جھوٹا گواہ جو دروغ‌گوئی کرتا ہے اور جو بھائیوں میں نفاق ڈالتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹‏۔‏

یہ مثل ہر قسم کی غلط‌کاری کا احاطہ کرنے والی سات بنیادی چیزوں کا ذکر کرتی ہے۔‏ ”‏اُونچی آنکھیں“‏ اور ”‏بُرے منصوبے باندھنے والا دل“‏ ایسے گُناہ ہیں جو ہم اپنے ذہن میں کرتے ہیں۔‏ ”‏جھوٹی زبان“‏ اور ”‏جھوٹا گواہ جو دروغ‌گوئی کرتا ہے“‏ گنہگارانہ باتوں کی طرف اشارہ ہے۔‏ ”‏بےگُناہ کا خون بہانے والے ہاتھ“‏ اور ”‏شرارت کے لئے تیزرو پاؤں“‏ سے مُراد بدکاری ہے۔‏ نیز،‏ یہوواہ کو ایسے شخص سے خاص طور پر نفرت ہے جو امن سے رہنے والے لوگوں میں فساد پیدا کرکے بڑی خوشی حاصل کرتا ہے۔‏ چھ چیزوں کے بعد ساتویں چیز کا اضافہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں کیونکہ انسان کے بُرے کاموں میں اضافہ ہوتا ہی رہتا ہے۔‏

واقعی،‏ ہمیں بھی اُن کاموں سے کراہیت کرنی چاہئے جن سے یہوواہ نفرت کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہمیں ’‏اُونچی آنکھوں‘‏ یا تکبّر سے بچنا چاہئے۔‏ نیز،‏ نقصان‌دہ فضول‌گوئی سے یقیناً گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہ بآسانی ”‏بھائیوں میں نفاق“‏ ڈال سکتی ہے۔‏ ہم شاید سنی‌سنائی ناموافق باتوں،‏ بےبنیاد تنقید یا جھوٹ کو پھیلانے سے ”‏بےگُناہ کا خون“‏ تو نہ بہائیں مگر اِس سے ہم کسی شخص کی نیکنامی کو تباہ ضرور کر سکتے ہیں۔‏

‏”‏اُسکے حسن پر عاشق نہ ہو“‏

سلیمان اپنی نصیحت کے اگلے حصے میں کہتا ہے:‏ ‏”‏اَے میرے بیٹے!‏ اپنے باپ کے فرمان کو بجالا اور اپنی ماں کی تعلیم کو نہ چھوڑ۔‏ اِنکو اپنے دل پر باندھے رکھ اور اپنے گلے کا طوق بنالے۔‏“‏ اِسکی وجہ؟‏ ‏”‏یہ چلتے وقت تیری رہبری اور سوتے وقت تیری نگہبانی اور جاگتے وقت تجھ سے باتیں کریگی۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۲۰-‏۲۲‏۔‏

کیا صحائف کے مطابق پرورش واقعی ہمیں جنسی بدکاری کے پھندے سے بچا سکتی ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ یہ ایسے کرتا ہے۔‏ ہمیں یقین‌دہانی کرائی گئی ہے:‏ ‏”‏کیونکہ فرمان چراغ ہے اور تعلیم نُور اور تربیت کی ملامت حیات کی راہ ہے۔‏ تاکہ تُجھ کو بُری عورت سے بچائے یعنی بیگانہ عورت کی زبان کی چاپلُوسی سے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ خدا کے کلام کی مشورت کو یاد رکھنے اور اِسے ’‏اپنے قدموں کے لئے چراغ اور اپنی راہ کے لئے روشنی‘‏ کے طور پر استعمال کرنے سے ایک بدکار عورت یا مرد کی چکنی‌چپڑی باتوں اور پیشکشوں کی مزاحمت کرنے میں ہمیں مدد ملیگی۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۵‏۔‏

‏”‏تُو اپنے دل میں اُسکے حسن پر عاشق نہ ہو اور وہ تُجھ کو اپنی پلکوں سے شکار نہ کرے۔‏“‏ کیوں؟‏ ‏”‏کیونکہ چھنال کے سبب سے آدمی ٹکڑے کا مُحتاج ہو جاتا ہے اور زانیہ قیمتی جان کا شکار کرتی ہے۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

کیا سلیمان زناکار بیوی کا کسبی کے طور پر حوالہ دیتا ہے؟‏ شاید۔‏ یا غالباً وہ یہاں ایک کسبی کے ساتھ جنسی تعلقات اور کسی دوسرے آدمی کی بیوی کے ساتھ زناکاری کے نتائج کے مابین فرق کو واضح کر رہا ہے۔‏ ایک کسبی کے ساتھ تعلقات سے ایک شخص ”‏ٹکڑے کا محتاج“‏—‏شدید غربت کا شکار—‏ہو جاتا ہے۔‏ اُسے تکلیف‌دہ اور ناکارہ کر دینے والی جنسی بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں جن میں ایڈز جیسی خطرناک بیماری بھی شامل ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ کسی دوسرے کے بیاہتا ساتھی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والا شخص قانونی خطرے میں ہوتا تھا۔‏ ایک زناکار بیوی اپنے آشنا کی ”‏قیمتی جان“‏ کو خطرے میں ڈالتی ہے۔‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏ایسی عیاشی سے محض عرصۂ‌حیات ہی کم نہیں ہوتا .‏ .‏ .‏ بلکہ خطاکار سزائےموت کے لائق بھی ٹھہرتا ہے۔‏“‏ (‏احبار ۲۰:‏۱۰؛‏ استثنا ۲۲:‏۲۲‏)‏ بہرحال،‏ اُس کی جسمانی خوبصورتی کے باوجود ایسی عورت کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔‏

‏’‏اپنے سینے میں آگ نہ رکھ‘‏

زناکاری کے خطرے کو مزید اُجاگر کرتے ہوئے سلیمان پوچھتا ہے:‏ ‏”‏کیا ممکن ہے کہ آدمی اپنے سینہ میں آگ رکھے اور اُسکے کپڑے نہ جلیں؟‏ یا کوئی انگاروں پر چلے اور اُسکے پاؤں نہ جُھلسیں؟‏“‏ اِس مثال کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:‏ ‏”‏وہ بھی ایسا ہے جو اپنے پڑوسی کی بیوی کے پاس جاتا ہے۔‏ جو کوئی اُسے چُھوئے بےسزا نہ رہیگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۲۷-‏۲۹‏)‏ ایسے خطاکار کو یقیناً سزا ملیگی۔‏

ہمیں یاددہانی کرائی جاتی ہے،‏ ‏”‏چور اگر بھوک کے مارے اپنا پیٹ بھرنے کو چوری کرے تو لوگ اُسے حقیر نہیں جانتے۔‏“‏ لیکن،‏ ‏”‏اگر وہ پکڑا جائے تو سات گُنا بھریگا۔‏ اُسے اپنے گھر کا سارا مال دینا پڑیگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ قدیم اسرائیل میں ایک چور کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا،‏ خواہ اُس کیلئے اُسے اپنا سب کچھ ہی کیوں نہ دینا پڑ جائے۔‏ * چنانچہ ایک زناکار کی سزا کتنی زیادہ ہونی چاہئے جس کے پاس اپنے بُرے کام کا کوئی جواز بھی نہیں ہے!‏

سلیمان بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏جو کسی عورت سے زنا کرتا ہے وہ بےعقل ہے۔‏“‏ ایک بےعقل شخص میں بصیرت کی کمی ہوتی ہے اسلئے وہ ‏”‏اپنی جان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۶:‏۳۲‏)‏ یوں تو وہ ایک معزز شخص نظر آتا ہے مگر باطن میں وہ خدائی اُصولوں کی کوئی قدر نہیں کرتا۔‏

ایک زناکار شخص کو اسکے علاوہ اَور بھی بُرے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ ‏”‏وہ زخم اور ذلت اُٹھائیگا اور اُسکی رُسوائی کبھی نہ مٹے گی۔‏ کیونکہ غیرت سے آدمی غضبناک ہوتا ہے اور وہ انتقام کے دن نہیں چھوڑے گا۔‏ وہ کوئی فدیہ منظور نہیں کرے گا اور گو تُو بہت سے انعام بھی دے توبھی وہ راضی نہ ہوگا۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۳۳-‏۳۵‏۔‏

ایک چور تو چرائی ہوئی چیز کا ہرجانہ ادا کر سکتا ہے مگر ایک زناکار اپنے گناہ کی تلافی نہیں کر سکتا۔‏ وہ ایک غضبناک شوہر کو کیا ہرجانہ پیش کر سکتا ہے؟‏ بہت زیادہ منت‌سماجت سے بھی خطاکار اپنے لئے کوئی رحم حاصل نہیں کر پائیگا۔‏ زناکار کسی بھی طریقے سے اپنے گُناہ کا ازالہ نہیں کر سکتا۔‏ وہ اپنے ماتھے پر لگے ہوئے داغ کو کبھی مٹا نہیں پائیگا۔‏ اسکے علاوہ،‏ وہ واجب سزا سے بچنے کیلئے کسی قسم کا معاوضہ پیش نہیں کر سکتا۔‏

زناکاری اور دوسرے ایسے کاموں اور رُجحانات سے بچنا کتنی دانشمندانہ بات ہے جو ہماری نیکنامی کو تباہ کرنے کیساتھ ساتھ خدا کو بھی رُسوا کر سکتے ہیں!‏ دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی بِلاسوچےسمجھے کسی کے ضامن نہ بنیں۔‏ محنت اور صداقت کو ہماری وجۂ‌شہرت ہونا چاہئے۔‏ خدا کرے کہ جب ہم اُن چیزوں سے نفرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے یہوواہ کو نفرت ہے تو ہم اُس کے حضور اور اپنے ساتھی انسانوں کے درمیان نیکنام پیدا کریں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 28 موسوی شریعت کے مطابق،‏ ایک چور کو چرائی ہوئی چیز کے بدلے میں دو گُنا،‏ چار گُنا یا پانچ گُنا زیادہ دینا پڑتا تھا۔‏ (‏خروج ۲۲:‏۱-‏۴‏)‏ ”‏سات گُنا“‏ کی اصطلاح سے مُراد غالباً پورا جرمانہ ہے جو چرائی گئی چیز کی قیمت سے کئی گُنا زیادہ ہو سکتا تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

قرضے کی ضمانت دیتے وقت احتیاط سے کام لیں

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

چیونٹی کی مانند محنتی بنیں

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

نقصان‌دہ فضول‌گوئی سے خبردار رہیں