مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

فروتن یوسیاہ یہوواہ کا منظورِنظر تھا

فروتن یوسیاہ یہوواہ کا منظورِنظر تھا

فروتن یوسیاہ یہوواہ کا منظورِنظر تھا

یہوداہ کا پانچ‌سالہ شہزادہ،‏ یوسیاہ یقیناً خوفزدہ ہو گا۔‏ اُس کی ماں جدیدہ اُس کے دادا منسی کی وفات پر ماتم کر رہی ہے۔‏—‏۲-‏سلاطین ۲۱:‏۱۸‏۔‏

اب یوسیاہ کا باپ،‏ امون یہوداہ کا بادشاہ ہوگا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۳:‏۲۰‏)‏ دو سال بعد،‏ (‏۶۵۹ ق.‏س.‏ع.‏)‏ امون کو اُسکے خادم قتل کر دیتے ہیں۔‏ لوگ سازشیوں کو قتل کرکے نوجوان یوسیاہ کو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۲۱:‏۲۴؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۳:‏۲۵‏)‏ امون کے دورِحکومت میں،‏ لوگوں نے جھوٹے معبودوں کی پرستش کے لئے اپنی چھتوں پر مذبحے بنا رکھے تھے جن پر جلائے جانے والے بخور کی خوشبو یروشلیم کی فضا میں رَچ‌بس گئی تھی جس سے یوسیاہ مانوس ہو چکا تھا۔‏ جھوٹے معبودوں کے پجاری ہر جگہ چلتےپھرتے نظر آتے تھے اور اِن کے پرستار—‏حتیٰ‌کہ یہوواہ کی پرستش کے بعض دعویدار بھی—‏ملکوم دیوتا پر ایمان رکھتے تھے۔‏—‏صفنیاہ ۱:‏۱،‏ ۵‏۔‏

یوسیاہ جانتا ہے کہ امون نے جھوٹے دیوی‌دیوتاؤں کی پرستش کرکے بہت بڑی بدی کی تھی۔‏ یہوداہ کا یہ نوجوان بادشاہ خدا کے نبی صفنیاہ کی آگاہیوں کی بھی بہتر سمجھ حاصل کرتا ہے۔‏ جب یوسیاہ ۱۵ سال (‏۶۵۲ ق.‏س.‏ع.‏)‏ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اُسکی حکومت کا آٹھواں سال شروع ہوتا ہے اور وہ صفنیاہ کے پیغام پر دھیان دینے کا عزم کرتا ہے۔‏ اپنی نوعمری میں ہی وہ یہوواہ کا طالب ہوتا ہے۔‏—‏۲-‏سلاطین ۳:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ ۴:‏۳‏۔‏

یوسیاہ کارروائی کرتا ہے!‏

چار سال گزر چکے ہیں اور یوسیاہ یہوداہ اور یروشلیم کو جھوٹے مذہب سے پاک کرنا شروع کرتا ہے (‏۶۴۸ ق.‏س.‏ع.‏)‏۔‏ وہ بُتوں،‏ یسیرتوں اور بعل کی پرستش میں بخور جلانے والے مذبحوں کو ڈھا دیتا ہے۔‏ جھوٹے دیوتاؤں کی مورتوں کو چکناچور کرکے اُنکی خاک اُن لوگوں کی قبروں پر ڈال دی جاتی ہے جو اُن کے آگے قربانیاں پیش کرتے تھے۔‏ ناپاک پرستش کیلئے استعمال ہونے والے مذبحوں کو بےحرمت کر کے اُنہیں ڈھا دیا جاتا ہے۔‏—‏۲-‏سلاطین ۲۳:‏۸-‏۱۴‏۔‏

جس دوران جھوٹی پرستش کو نیست‌ونابود کرنے کیلئے یوسیاہ کی مہم زوروں پر ہے تو ایک لاوی کاہن کا بیٹا،‏ یرمیاہ یروشلیم آتا ہے (‏۶۴۷ ق.‏س.‏ع.‏)‏۔‏ یہوواہ خدا نے نوجوان یرمیاہ کو اپنا نبی مقرر کِیا ہے اور وہ جھوٹے مذہب کے خلاف یہوواہ کے پیغام کا پُرزور اعلان کرتا ہے!‏ یوسیاہ اور یرمیاہ دونوں ہم‌عمر تھے۔‏ تاہم،‏ جھوٹی پرستش کی بیخ‌کنی کیلئے یوسیاہ کی دلیرانہ کارروائی اور یرمیاہ کی بےباک آگاہیوں کے باوجود لوگ دوبارہ اِس میں اُلجھ گئے۔‏—‏یرمیاہ ۱:‏۱-‏۱۰‏۔‏

ایک انمول دریافت!‏

اب تقریباً پانچ سال اَور گزر چکے ہیں۔‏ پچّیس سالہ یوسیاہ کو حکومت کرتے ہوئے تقریباً ۱۸ سال ہو گئے ہیں۔‏ وہ اپنے مُنشی سافن،‏ شہر کے حاکم معسیاہ اور مؤرخ یوآخ کو بلواتا ہے۔‏ بادشاہ سافن کو حکم دیتا ہے:‏ ’‏خلقیاہ سردار کاہن سے کہہ کہ وہ نقدی جو ہیکل کے دربانوں نے لوگوں سے لیکر جمع کی ہے اُسے کاریگروں کو دیں تاکہ وہ یہوواہ کے گھر کی مرمت کر سکیں۔‏‘‏—‏۲-‏سلاطین ۲۲:‏۳-‏۶؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۴:‏۸‏۔‏

مزدور صبح سویرے ہی سے بڑی محنت سے ہیکل کی مرمت کرنے لگتے ہیں۔‏ یوسیاہ یقیناً یہوواہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسکے بعض بدطینت آباؤاجداد نے جو نقصان خدا کے گھر کو پہنچایا تھا اُسے یہ کاریگر دُور کر رہے ہیں۔‏ مرمت کے اِس کام کے دوران سافن ایک خبر لیکر آتا ہے۔‏ مگر یہ خبر کیا ہے؟‏ اُسکے ہاتھ میں ایک طومار ہے!‏ وہ وضاحت کرتا ہے کہ سردار کاہن خلقیاہ کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی توریت کی کتاب جو موسیٰؔ کی معرفت دی گئی تھی ملی“‏ ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۴:‏۱۲-‏۱۸‏)‏ کیا ہی شاندار دریافت—‏واقعی یہ شریعت کی اصلی دستاویز تھی!‏

یوسیاہ اس کتاب کے ہر لفظ کو سننے کا مشتاق ہے۔‏ جب سافن اِسے پڑھتا ہے تو بادشاہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہر حکم کا اطلاق اُس پر اور اُس کے لوگوں پر کیسے ہوتا ہے۔‏ وہ خاص طور پر اس بات سے متاثر ہوتا ہے کہ کتاب کیسے سچی پرستش پر زور دیتی ہے اور اُن آفتوں اور غلامی کی پیشینگوئی کرتی ہے جنکا لوگوں کو جھوٹا مذہب اختیار کرنے کی صورت میں سامنا ہوگا۔‏ اب جب یوسیاہ کو پتہ چلتا ہے کہ خدا کے تمام احکام پر عمل نہیں کِیا گیا تو وہ اپنے کپڑے پھاڑ کر خلقیاہ،‏ سافن اور دیگر کو حکم دیتا ہے:‏ ’‏اِس کتاب کی باتوں کے بارے میں یہوواہ سے دریافت کرو کیونکہ یہوواہ کا بڑا غضب ہم پر اِسی سبب سے بھڑکا ہے کہ ہمارے باپ دادا نے اِس کتاب کی باتوں کو سنا نہیں تھا۔‏‘‏—‏۲-‏سلاطین ۲۲:‏۱۱-‏۱۳؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۴:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

یہوواہ کا پیغام پہنچتا ہے

یوسیاہ کے پیامبر یروشلیم میں خلدہ نبِیّہ کے پاس جاتے ہیں اور وہاں سے خبر لیکر آتے ہیں۔‏ خلدہ یہوواہ کا یہ پیغام دیتی ہے کہ حال ہی میں ملنے والی اِس کتاب میں درج آفتیں اِس برگشتہ قوم پر ضرور نازل ہونگی۔‏ لیکن یوسیاہ یہوواہ خدا کے حضور عاجزی کرنے کی وجہ سے،‏ اِن آفتوں کو نہیں دیکھیگا۔‏ وہ اپنے باپ دادا کیساتھ ملا دیا جائیگا اور وہ اپنی گور میں سلامتی سے اُتارا جائیگا۔‏—‏۲-‏سلاطین ۲۲:‏۱۴-‏۲۰؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۴:‏۲۲-‏۲۸‏۔‏

یوسیاہ چونکہ جنگ میں ہلاک ہوا تھا اِسلئے کیا خلدہ کی پیشینگوئی سچ ثابت ہوئی تھی؟‏ (‏۲-‏سلاطین ۲۳:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ کیونکہ جس ”‏سلامتی“‏ کیساتھ وہ اپنی قبر میں اُتارا گیا وہ اُن ”‏آفتوں“‏ کے بالکل برعکس تھی جو یہوداہ پر نازل ہونے والی تھیں۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۲۲:‏۲۰؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۴:‏۲۸‏)‏ جب بابلیوں نے یروشلیم کا محاصرہ کر کے اُسے ۶۰۹-‏۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں تباہ کِیا تو اِس آفت سے پہلے یوسیاہ وفات پا چکا تھا۔‏ نیز،‏ اپنے ’‏باپ دادا کے ساتھ ملا دئے جانے‘‏ کا مطلب ضروری طور پر متشدّد موت سے مستثنیٰ قرار پانا نہیں ہے۔‏ متشدّد اور غیرمتشدّد دونوں طرح کی موت کیلئے ایک مساوی اظہار استعمال کِیا گیا ہے۔‏—‏استثنا ۳۱:‏۱۶؛‏ ۱-‏سلاطین ۲:‏۱۰؛‏ ۲۲:‏۳۴،‏ ۴۰‏۔‏

سچی پرستش فروغ پاتی ہے

یوسیاہ یروشلیم کے لوگوں کو ہیکل میں جمع کرکے یہوواہ کے گھر سے ملنی والی ”‏عہد کی کتاب .‏ .‏ .‏ کی سب باتیں“‏ اُنکو پڑھ کر سناتا ہے۔‏ اِس کے بعد وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی پیروی کرنے اور اُس کے حکموں اور شہادتوں اور آئین کو اپنے سارے دل اور ساری جان سے ماننے اور اِس عہد کی باتوں پر جو اُس کتاب میں لکھی ہیں عمل“‏ کرنے کا عہد کرتا ہے۔‏ سب لوگ اِس عہد کی حمایت کرتے ہیں۔‏—‏۲-‏سلاطین ۲۳:‏۱-‏۳‏۔‏

اِسکے بعد یوسیاہ بادشاہ بُت‌پرستی کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ بڑی مہم کا آغاز کرتا ہے۔‏ غیرمعبودوں کے پجاریوں کا کاروبار ختم کر دیا جاتا ہے۔‏ ناپاک پرستش میں حصہ لینے والے لاوی کاہن یہوواہ کے مذبح پر خدمت کرنے کا شرف کھو بیٹھتے ہیں اور سلیمان بادشاہ کی حکومت میں بنائے گئے اُونچے مقام پرستش کیلئے غیرموزوں قرار دے دئے جاتے ہیں۔‏ اسرائیل کی سابقہ دس قبائیلی سلطنت میں سے بھی جھوٹی پرستش کا خاتمہ کرنے کی کارروائی کی جاتی ہے جسے پہلے اسوریوں نے (‏۷۴۰ ق.‏س.‏ع.‏)‏ تباہ کر دیا تھا۔‏

ایک گم‌نام ”‏مردِخدا“‏ نے ۳۰۰ سال پہلے جو بات کہی تھی اُس کی مطابقت میں یوسیاہ بعل کے کاہنوں کی ہڈیاں اُس مذبح پر جلاتا ہے جسے یربعام بادشاہ نے بیت‌ایل میں بنوایا تھا۔‏ اِس شہر کیساتھ ساتھ دوسرے شہروں کے اُونچے مقام بھی ڈھا دئے جاتے ہیں اور بُتوں کے پجاریوں کو اُنہی مذبحوں پر قربان کر دیا جاتا ہے جہاں وہ قربانیاں چڑھایا کرتے تھے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۱۳:‏۱-‏۴؛‏ ۲-‏سلاطین ۲۳:‏۴-‏۲۰‏۔‏

ایک عظیم‌الشان فسح منائی جاتی ہے

سچی پرستش کو فروغ دینے کیلئے یوسیاہ کی کوششوں کو الہٰی حمایت حاصل ہے۔‏ یہ بادشاہ آخری دم تک یہوواہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اُسکے لوگ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے باپ دادا کے خدا کی پیروی سے نہ ہٹے۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۴:‏۳۳‏)‏ نیز،‏ یوسیاہ اپنی سلطنت کے ۱۸ویں برس میں رُونما ہونے والے ایک شاندار واقعہ کو کیسے بھول سکتا ہے؟‏

بادشاہ لوگوں کو حکم دیتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے لئے فسح مناؤ جیسا عہد کی اِس [‏حال ہی میں ملنے والی]‏ کتاب میں لکھا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۲۳:‏۲۱‏)‏ یوسیاہ لوگوں کا عمدہ جوابی‌عمل دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔‏ اِس فسح کو منانے کیلئے وہ خود ۰۰۰،‏۳۰ قربانی کے جانور اور ۰۰۰،‏۳ بچھڑے پیش کرتا ہے۔‏ کتنی عظیم‌الشان فسح!‏ قربانیوں،‏ انتظامات اور پرستاروں کی تعداد کے لحاظ سے یہ فسح سموئیل کے زمانے میں منائی جانے والی فسح کی تمام تقریبات پر سبقت لیجاتی ہے۔‏—‏۲-‏سلاطین ۲۳:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۵:‏۱-‏۱۹‏۔‏

موت پر بڑا ماتم

اپنی ۳۱سالہ حکومت (‏۶۵۹-‏۶۲۹ ق.‏س.‏ع.‏)‏ کے باقی سالوں میں یوسیاہ ایک نیک بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرتا ہے۔‏ اپنی حکومت کے آخری سالوں میں اُسے پتہ چلتا ہے کہ شاہِ‌مصر نکوہ بابلی فوجوں کا راستہ روکنے اور یوں دریائے فرات کے کنارے کرکمیس کے مقام پر اسور کے بادشاہ کی مدد کرنے کیلئے یہوداہ سے ہوکر گزرنا چاہتا ہے۔‏ نامعلوم وجوہات کی بِنا پر یوسیاہ مصریوں سے لڑنے کیلئے نکل پڑتا ہے۔‏ نکوہ اپنے پیامبروں کو یہ پیغام دیکر اُسکے پاس بھیجتا ہے:‏ ”‏تُو خدا سے جو میرے ساتھ ہے مزاحم نہ ہو۔‏ ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے ہلاک کر دے۔‏“‏ تاہم یوسیاہ اپنا بھیس بدل کر مصری فوج کو مجدو کی وادی کی طرف موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔‏—‏۲-‏تواریخ ۳۵:‏۲۰-‏۲۲‏۔‏

یہوداہ کے بادشاہ کا یہ فعل اُس کیلئے بڑا نقصاندہ ثابت ہوتا ہے!‏ وہ دشمن کے تیراندازوں کا نشانہ بن جاتا ہے اور اپنے خادموں سے کہتا ہے:‏ ”‏مجھے لے چلو کیونکہ مَیں بہت زخمی ہو گیا ہوں۔‏“‏ لہٰذا وہ یوسیاہ کو اُس کے جنگی رتھ سے اُتار کر دوسرے رتھ میں بٹھاتے ہیں اور یروشلیم کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔‏ یوسیاہ وہاں پہنچ کر یا شاید راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔‏ الہامی سرگزشت بیان کرتی ہے کہ ”‏وہ مر گیا اور اپنے باپ دادا کی قبروں میں دفن ہوا اور سارے یہوؔداہ اور یرؔوشلیم نے یوؔسیاہ کے لئے ماتم کِیا۔‏“‏ یرمیاہ نے اُس پر نوحہ کِیا اور اِسکے بعد یوسیاہ کا ذکر خاص مواقع پر گائے جانے والے مرثیوں میں بھی ہونے لگا۔‏—‏۲-‏تواریخ ۳۵:‏۲۳-‏۲۵‏۔‏

واقعی،‏ مصریوں کے ساتھ جنگ کرنا یوسیاہ بادشاہ کی بہت بڑی حماقت تھی۔‏ (‏زبور ۱۳۰:‏۳‏)‏ تاہم،‏ اپنی فروتنی اور سچی پرستش کے لئے ثابت‌قدمی کی وجہ سے وہ خدا کا منظورِنظر بن گیا۔‏ یوسیاہ کی زندگی اِس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ یہوواہ اپنے فروتن دل خادموں پر ہمیشہ نظرِکرم رکھتا ہے!‏—‏امثال ۳:‏۳۴؛‏ یعقوب ۴:‏۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

نوجوان بادشاہ یوسیاہ خلوصدلی سے یہوواہ کا طالب ہوا

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

یوسیاہ نے اُونچے مقام ڈھا کر سچی پرستش کو فروغ دیا