ایک خاص میراث کی بخشش
میری کہانی میری زبانی
ایک خاص میراث کی بخشش
از کیرل ایلن
مَیں اپنی خوبصورت نئی کتاب ہاتھ میں تھامے تنہا کھڑی تھی۔ خوف نے مجھے گھیر لیا اور میرے آنسو بہنے لگے۔ مَیں صرف سات برس کی چھوٹی بچی ہی تو تھی جو ایک اجنبی شہر میں ہزاروں لوگوں کے ہجوم میں کھو گئی تھی!
حال ہی میں، تقریباً ۶۰ سال بعد، اپنے شوہر پال کے ساتھ پیٹرسن نیو یارک میں خوبصورت واچٹاور ایجوکیشنل سینٹر کے دورے نے میرے بچپن کے اس تجربے کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ وہاں اُسے یہوواہ کے گواہوں کے سفری نگہبانوں کیلئے سکول کی دوسری جماعت میں شرکت کرنے کیلئے دعوت دی گئی تھی۔
جب ہم سورج کی روشنی میں لابی کا جائزہ لے رہے تھے تو میری نظر بہت ساری تصویروں پر پڑی جنکے ساتھ لکھا ہوا تھا ”کنونشن۔“ اس کے مرکزی حصے میں ایک پُرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی جس میں بچے خوشی سے اپنے ہاتھوں میں اُس کتاب کی کاپیاں لہرا رہے تھے جسکا تعلق میرے بچپن سے تھا! مَیں نے جلدی سے تصویر کیساتھ درج عبارت پڑھی: ”۱۹۴۱ میں سینٹ لوئیز، میسوری میں جب صبح کے سیشن کا آغاز ہوا، ۵ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے ۰۰۰،۱۵ بچے پلیٹفارم کے بالکل سامنے مرکزی حصے میں جمع تھے۔ . . . بھائی رتھرفورڈ نے نئی کتاب چلڈرن کی ریلیز کا اعلان کِیا۔“
ہر بچے کو اُسکی ذاتی کاپی دی گئی۔ پھر بچے وہاں چلے گئے جہاں اُن کے والدین بیٹھے تھے—سوائے میرے۔ مَیں گم گئی تھی! ایک مہربان حاضرباش نے مجھے اُٹھا کر ایک اُونچے عطیات کے بکس پر کھڑا کرکے مجھ سے کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کے لئے کہا جس سے میں واقف تھی۔ مَیں پریشانی سے سیڑھیوں سے آنے والے لوگوں کے ہجوم کا جائزہ لینے لگی۔ اچانک مَیں نے ایک چہرہ دیکھا جس کا تعلق میرے گھر سے تھا! ”انکل باب! انکل باب!“ مجھے ڈھونڈ لیا گیا تھا! باب رینر مجھے اُٹھا کر وہاں لے گیا جہاں
میرے والدین پریشانی کے عالم میں میرا انتظار کر رہے تھے۔میری زندگی کے ابتدائی واقعات
اِن تصویروں کو دیکھ کر یادوں کا ایک سیلاب اُمنڈ آیا—ایسے واقعات جنہوں نے میری زندگی کو تشکیل دیا اور جو پیٹرسن کی خوبصورت عمارت پر ہماری آمد کا باعث بنے۔ میرے خیالات سو سے بھی زیادہ سال پہلے کے واقعات پر مرکوز ہو گئے جو خصوصاً ایسی باتوں پر مشتمل تھے جو مَیں نے اپنے دادا دادی اور والدین سے سنی تھیں۔
دسمبر ۱۸۹۴ میں بائبل طالبعلموں کا ایک کُلوقتی خادم، جیساکہ یہوواہ کے گواہ اُس وقت کہلاتے تھے، میرے دادا کلاٹن جے وڈورتھ کے پاس سکرنٹن، پینسلوانیہ، یو.ایس.اے. میں اُن کے گھر پر آیا۔ کلاٹن کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے صدر چارلس ٹیز رسل کو خط لکھا جو جون ۱۵، ۱۸۹۵ کے مینارِنگہبانی میں شائع کِیا گیا تھا۔ اُنہوں نے وضاحت کی:
”ہم نوجوان میاں بیوی تقریباً ۱۰ سال سے ایک نامنہاد چرچ کے ممبر رہ چکے ہیں؛ مگر اب ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ ہم اُسکی تاریکی سے نکل کر نئے دن کی روشنی میں آ گئے ہیں جو اَب حقتعالیٰ کے مخصوصشُدہ فرزندوں کیلئے طلوع ہو رہا ہے۔ . . . ایک دوسرے کیساتھ ملنے سے بہت پہلے یہ ہماری دلی خواہش تھی کہ اگر خداوند کی مرضی ہوئی تو ہم غیرملکی علاقے میں مشنری کے طور پر اسکی خدمت کرینگے۔“
بعدازاں، ۱۹۰۳ میں میرے پڑنانا اور پڑنانی، سباسچین اور کیتھرین کرسجی نے، جو پینسلوانیہ میں پوکونو کے کوہساروں میں ایک بڑے فارم پر رہتے تھے، واچ ٹاور کے دو نمائندوں کی معرفت بائبل کے پیغام کو خوشی سے سنا۔ اُنکی بیٹیاں کورا اور میری بھی اپنے شوہروں واشنگٹن اور ایڈمنڈ ہاویل کے ہمراہ وہاں رہتی تھیں۔ واچ ٹاور کے نمائندے کارل ہمرلی اور رے ریٹکلف ہفتہبھر اُنکے ساتھ رہ کر اُنہیں بہت سی باتوں کی تعلیم دیتے رہے۔ چھ افراد پر مشتمل اِس خاندان نے پیغام سنا، مطالعہ کِیا اور جلد ہی پُرجوش بائبل طالبعلم بن گئے۔
اُسی سال ۱۹۰۳ میں کورا اور واشنگٹن ہاویل کی بیٹی کیتھرین پیدا ہوئی۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک دلچسپ اور معنیخیز کہانی ہے کہ اُس کی شادی آخرکار میرے والد کلاٹن جے وڈورتھ جونیئر سے کیسے ہوئی۔ اس سے میرے دادا کلاٹن جے وڈورتھ سینیئر کی پُرمحبت بصیرت اور شفقت بھری فکرمندی ظاہر کرتی ہے۔
میرے والد کیلئے پُرمحبت مدد
میرے والد کلاٹن جونیئر ۱۹۰۶ میں ہاویل فارم سے کوئی ۸۰ کلومیٹر دُور سکرنٹن میں پیدا ہوئے۔ اُن ابتدائی سالوں کے دوران دادا جان وڈورتھ نے ہاویل کے بڑے خاندان سے اچھی واقفیت پیدا کی اور اکثر اُنکی مشہور روایتی مہماننوازی سے لطفاندوز ہوتے تھے۔ وہ اُس علاقے کے بائبل طالبعلموں کی کلیسیا کیلئے بڑے مددگار تھے۔ وقت آنے پر، دادا کو ہاویل خاندان کے تین بیٹوں کا نکاح پڑھوانے کیلئے کہا گیا اور وہ اپنے بیٹے کی بہتری ذہن میں رکھتے ہوئے اُسے بھی ہر شادی پر اپنے ساتھ لے گئے۔
والد صاحب اُس وقت بائبل طالبعلموں کی خدمتگزاری میں سرگرمی سے حصہ نہیں لیتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دادا کو اُنکی خدمتگزاری کی ملاقات پر لے جاتے تھے مگر دادا کی حوصلہافزائی کے باوجود بھی وہ ذاتی طور پر سرگرم نہیں تھے۔ اُس وقت میرے والد موسیقی کو دیگر تمام دلچسپیوں سے زیادہ ترجیح دینے اور اُسے اپنا پیشہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
کورا اور واشنگٹن ہاویل کی بیٹی، کیتھرین بھی پیانو بجانے اور سکھانے لگی اور ایک ماہر موسیقار بنی۔ تاہم، جیسے ہی اِس فن کو پیشہ بنانے کی راہ ہموار ہوئی،
اُس نے اِس شوق کو ایک طرف رکھ کر کُلوقتی خدمت شروع کر دی۔ کمازکم میرے نقطۂنظر سے تو دادا جان اپنے بیٹے کیلئے اُس سے بہتر ساتھی کی بابت سوچ بھی نہیں سکتے تھے! والد صاحب نے بپتسمہ لیا اور چھ ماہ بعد جون ۱۹۳۱ میں اُنہوں نے میری ماں سے شادی کر لی۔دادا جان کو اپنے بیٹے کی موسیقی کی صلاحیت پر ہمیشہ ناز رہا۔ وہ اتنے خوش تھے جب والد صاحب کو کلیولینڈ، اوہائیو میں ۱۹۴۶ کے انٹرنیشنل کنونشن کے بڑے کنونشن آرکسٹرا کے مرکزی ممبران کو تربیت دینے کیلئے کہا گیا۔ آئندہ سالوں میں والد نے یہوواہ کے گواہوں کے کئی کنونشنوں پر آرکسٹرا میں پیشوائی کی۔
دادا کا مقدمہ اور قیدخانہ کی زندگی
پیٹرسن لابی میں میری اور پال کی نظر اُس تصویر پر بھی پڑی جو اگلے صفحے پر دکھائی گئی ہے۔ مَیں فوراً اِس تصویر کو پہچان گئی کیونکہ تقریباً ۵۰ سال پہلے دادا جان نے اِسکی کاپی مجھے بھیجی تھی۔ وہ بالکل دائیں طرف کھڑے ہیں۔
پہلی جنگِعظیم کے جنون میں، ان آٹھ بائبل طالبعلموں کو—واچ ٹاور سوسائٹی کے صدر، جوزف ایف رتھرفورڈ (درمیان میں بیٹھے) سمیت—بغیر ضمانت قید کر لیا گیا۔ اُن کے خلاف لگائے گئے الزامات سٹڈیز اِن دی سکرپچرز کی ساتویں جلد، بعنوان دی فِنشڈ مسٹری میں موجود بیانات پر مبنی تھے۔ اِن بیانات کو غلط مفہوم دیا گیا تھا کہ یہ پہلی جنگِعظیم میں ریاستہائےمتحدہ کی شمولیت کی حوصلہشکنی کر رہے تھے۔
کافی سالوں سے، چارلس ٹیز رسل نے سٹڈیز اِن دی سکرپچرز کی پہلی چھ جلدیں لکھیں مگر ساتویں جلد تحریر کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ لہٰذا، اُس کے نوٹس دادا جان اور ایک اَور بائبل طالبعلم کو دئے گئے جنہوں نے ساتویں جلد تحریر کی۔ اِسے جنگ کے اختتام سے پہلے، ۱۹۱۷ میں شائع کِیا گیا تھا۔ عدالتی کارروائی پر، دادا جان اور دیگر متحد اشخاص میں سے ہر ایک کو ۲۰ سال کے لئے چار دفعہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پیٹرسن لابی میں تصویری عبارت وضاحت کرتی ہے: ”رتھرفورڈ اور اُسکے ساتھیوں کو سزا ہونے کے نو مہینے بعد—جنگ کے ختم ہو جانے پر—مارچ ۲۱، ۱۹۱۹ میں اپیل کورٹ نے تمام آٹھ مدعاعلیہ کی ضمانت کا حکم دیا اور مارچ ۲۶ پر اُنہیں بروکلن میں ۰۰۰،۱۰ ڈالر فیکس ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ نیز، مئی ۵، ۱۹۲۰ میں جے. ایف. رتھرفورڈ کیساتھ دوسروں کو بھی بَری کر دیا گیا۔“
سزا سنائے جانے کے بعد، اِن آٹھ بھائیوں کو اٹلانٹا، جارجیہ میں وفاقی اصلاحی قیدخانہ میں بھیجے جانے سے پہلے، چند دنوں کیلئے بروکلن، نیو یارک کی رےمنڈ سٹریٹ جیل میں رکھا گیا۔ وہاں سے دادا نے خط میں تحریر کِیا کہ اُنہیں ”انتہائی غلاظت اور بدنظمی کے درمیان“ چھ فٹ لمبی اور آٹھ فٹ چوڑی کوٹھڑی میں رکھا
گیا۔ اُنہوں نے بیان کِیا: ”یہاں اخبارات کا ایک ڈھیر پڑا ہے اور اگر آپ پہلے اِنہیں معمولی خیال کر کے رد کریں توبھی آپ بہت جلد جان جائینگے کہ یہ اخبارات اور صابن اور تولیہ ہی صفائیستھرائی اور عزتِنفس برقرار رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔“تاہم، دادا جان نے اپنی مزاحیہحس کو قائم رکھا اور جیل کو ”ہوٹلڈے رےمونڈے“ کہتے ہوئے بیان کِیا کہ ”جیسے ہی اس ہوٹل سے میرا قیاموطعام ختم ہوگا، مَیں فوراً یہاں سے چلا جاؤنگا۔“ اُنہوں نے جیل کے صحن میں کی جانے والی اپنی چہلقدمی کو بھی بیان کِیا۔ ایک بار جب وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرنے کیلئے رُکے تو ایک جیبکترے نے اُنکی جیبی گھڑی چھیننے کی کوشش کی تاہم، اُنہوں نے لکھا، ”اُسکی چین ٹوٹ گئی اور مَیں نے اُسے بچا لیا۔“ جب مَیں ۱۹۵۸ میں بروکلن بیتایل کا دورہ کر رہی تھی تو اُس وقت واچ ٹاور سوسائٹی کے سیکرٹری اور خزانچی گرانٹ سوٹر نے اپنے دفتر میں بلا کر مجھے وہ گھڑی دی۔ مَیں نے اُسے ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے۔
والد پر اسکا اثر
جب ۱۹۱۸ میں دادا جان کو غیرمنصفانہ طور پر قید کِیا گیا تھا تو اُس وقت میرے والد صرف ۱۲ سال کے تھے۔ دادی جان نے اپنا گھر بند کِیا اور اُنہیں ساتھ لے کر اپنی ماں اور تین بہنوں کے ساتھ رہنے چلی گئی۔ شادی سے پہلے دادی جان کا خاندانی نام آرتھر تھا اور خاندان والے بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اُن کا ایک رشتہدار چسٹر ایلن آرتھر ریاستہائےمتحدہ کے ۲۱ویں صدر رہ چکے تھے۔
دادا جان وڈورتھ کو ریاستہائےمتحدہ کے خلاف مبیّنہ جرائم کے نتیجے میں طویل سزا سنائی جانے کے بعد، آرتھر خاندان نے واضح طور پر یہ محسوس کِیا کہ اُنہوں نے اُنکے خاندانی نام کو ڈبو دیا تھا۔ جذباتی طور پر یہ میرے والد کیلئے ایک تکلیفدہ وقت تھا۔ شاید اِس سلوک کی وجہ سے وہ شروع میں عوامی خدمتگزاری میں حصہ لینے سے ہچکچاتے تھے۔
قید سے رہا ہو کر دادا جان اپنے خاندان کو لیکر سکرنٹن میں کونزی سٹریٹ پر ایک بہت بڑے پکے گھر میں منتقل ہو گئے۔ بچپن ہی سے مَیں اِس گھر اور دادی جان کے خوبصورت چینی کے برتنوں سے بخوبی واقف تھی۔ ہم اِنہیں دادی کے مُقدس برتن کہتے تھے اسلئےکہ اُنکے علاوہ کسی کو بھی اِنہیں دھونے کی اجازت نہیں تھی۔ ۱۹۴۳ میں دادی کے مرنے کے بعد، ماں اکثر مہماننوازی میں اِن خوبصورت برتنوں کا استعمال کِیا کرتی تھیں۔
بادشاہتی خدمت میں مصروف
ایک روز پیٹرسن کیمپس پر، میری نظر بھائی رتھرفورڈ کی تصویر پر پڑی جس میں وہ ۱۹۱۹ سیڈر پوائنٹ، اوہائیو کی کنونشن پر تقریر پیش کر رہے تھے۔ وہاں اُنہوں نے سرگرمی سے خدا کی بادشاہت کا اعلان کرنے اور اُس کنونشن پر ریلیز ہونے والے نئے رسالے، دی گولڈن ایج کا استعمال کرنے کیلئے سب سے استدعا کی۔ دادا جان کو اِسکا ایڈیٹر مقرر کِیا گیا اور اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے، ۱۹۴۰ تک وہ اِس کیلئے مقالے لکھتے رہے۔ ۱۹۳۷ میں اِس رسالے کا نام تبدیل ہو کر کونسولیشن اور پھر ۱۹۴۶ میں اویک! (جاگو!) رکھا گیا۔
دادا جان سکرنٹن والے گھر کے علاوہ، تقریباً ۲۴۰ کلومیٹر دُور بروکلن میں واچ ٹاور ہیڈکوارٹرز میں بھی لکھائی کا کام کرتے تھے اور ایک جگہ پر دو ہفتے گزارتے تھے۔ والد صاحب یاد کرتے ہیں کہ بیشتر مرتبہ صبح پانچ بجے سے اُنکا ٹائپرائٹر چلنا شروع ہو جاتا تھا۔ تاہم، دادا جان منادی کی عوامی کارگزاری میں حصہ لینے کی ذمہداری کو بھی اہم خیال کرتے تھے۔ اُنہوں نے تو ایک ایسا بنیان ڈیزائن کِیا تھا جس کے اندر کی طرف بائبل مطبوعات کے لئے دو بڑی جیبیں تھیں۔ میری ۹۴ سالہ ممانی، نعومی ہاویل کے پاس ابھی تک ایسی ایک بنیان موجود ہے۔ اُنہوں نے خواتین کیلئے ایک بُک بیگ بھی ڈیزائن کِیا۔
ایک بار، ایک پُرجوش بائبل باتچیت کے بعد، دادا جان کے خدمتی ساتھی نے کہا: ”سی. جے.، آپ سے ایک غلطی ہوگئی۔“
”کونسی غلطی؟“ دادا نے پوچھا۔ اُس نے اپنی بنیان کی تلاشی لی۔ دونوں جیبیں خالی تھیں۔
”آپ اُسے دی گولڈن ایج کے لئے چندہ پیش کرنا بھول گئے۔“ اپنے رسالے پیش نہ کرنے کی بابت ایڈیٹر کی اِس بھول پر وہ دونوں بہت ہنسے۔
جوانی کی یادیں
مجھے دادا جی کی گود میں بیٹھنا ابھی تک یاد ہے، میرا ہاتھ اُنکے ہاتھ میں ہوتا تھا اور وہ مجھے ”انگلیوں کی کہانی“ سنایا کرتے تھے۔ ”ٹومی تھم“ سے لیکر ”پیٹر پواینٹر“ تک وہ مجھے ہر انگلی کی بابت کچھ خاص بات بتاتے تھے۔ پھر وہ میری تمام انگلیوں کو احتیاط سے جوڑ کر کہانی کا اخلاقی سبق دیتے تھے: ”اکٹھے ملکر اِنکا کام بہترین ہوتا ہے اور ہر ایک دوسروں کی مدد کرتی ہے۔“
شادی کے بعد، میرے والدین کلیولینڈ، اوہائیو چلے گئے اور ایڈ اور میری ہوپر کے قریبی دوست بن گئے۔ نئی صدی کے شروع ہی سے اُنکا خاندان بائبل طالبعلموں کے طور پر خدمت انجام دے رہا تھا۔ میرے والدین اَور انکل ایڈ اور آنٹی میری ایک دوسرے کے قریبی دوست تھے۔ ہوپر خاندان اپنی اکلوتی بیٹی کھو چکے تھے لہٰذا، جب مَیں ۱۹۳۴ میں آئی تو مَیں اُنکی خاص ”بیٹی“ بن گئی۔ ایسے روحانی ماحول میں پرورش پا کر مَیں نے خود کو خدا کیلئے مخصوص کِیا اور آٹھ برس کی عمر سے پہلے بپتسمہ لے لیا۔
بائبل پڑھائی میری زندگی کے ابتدائی سالوں کا حصہ تھی۔ میرے پسندیدہ صحیفائی اقتباسات میں سے ایک یسعیاہ ۱۱:۶-۹ تھا جہاں خدا کی نئی دُنیا میں زندگی کا بیان ملتا ہے۔ مَیں نے پوری بائبل پڑھنے کی پہلی کوشش ۱۹۴۴ میں کی جب مجھے بیوفالو، نیو یارک کی کنونشن پر ایک خاص ایڈیشن میں ریلیز ہونے والی امریکن سٹینڈرڈ ورشن کی ذاتی کاپی ملی۔ اِس ترجمے کو پڑھ کر مَیں بیحد خوش ہوئی جس میں خدا کا نام، یہوواہ ”پُرانے عہدنامے“ میں تقریباً ۰۰۰،۷ مرتبہ اپنی صحیح جگہ بحال کر دیا گیا تھا!
میرے لئے ہفتے اور اتوار کے دن خصوصی اہمیت رکھتے تھے۔ میرے والدین اور ہوپرز میاں بیوی مجھے دیہاتی علاقوں میں گواہی دینے کیلئے لیجاتے تھے۔ ہم اپنے ساتھ کھانا لے جاتے اور جھیل کے کنارے پکنک مناتے تھے۔ پھر ہم کُھلی فضا میں بائبل تقریر کیلئے کسی کے فارم پر جاتے تھے جس کیلئے ہم تمام پڑوسیوں کو بھی دعوت دیتے تھے۔ زندگی سادہ تھی۔ ہم خاندان کے طور پر خوشی حاصل کرتے تھے۔ اِن ابتدائی خاندانی دوستوں میں سے کئی بعدازاں سفری نگہبان بنے جن میں ایڈ ہوپر، باب رینر اور اُن کے دو بیٹے بھی شامل تھے۔ رچرڈ رینر اب بھی اپنی بیوی لنڈا کے ہمراہ یہ کام کرتا ہے۔
گرمیوں کا موسم خاص طور پر خوشگوار ہوتا تھا۔ مَیں اپنے رشتہداروں کیساتھ ہاویل فارم پر رہتی تھی۔ ۱۹۴۹ میں میری رشتہدار گریس نے میلکم ایلن سے شادی کر لی۔ اُس وقت مَیں نے سوچا بھی نہ تھا کہ سالوں بعد میری شادی اُس کے بھائی سے ہو جائیگی۔ میری رشتہدار میریئن جو عمر میں چھوٹی تھی یوروگوئے میں مشنری تھی۔ اُس نے ۱۹۶۶ میں ہاورڈ ہلبورن سے شادی کی۔ اِن دونوں رشتہداروں نے اپنے شوہروں کیساتھ بروکلن ہیڈکوارٹرز میں کئی سال خدمت کی۔
دادا جان اور میرا گریجویشن
میرے ہائی سکول کے سالوں کے دوران، دادا جان خط کا جواب فوراً دیا کرتے تھے۔ اُنکے خط میں شامل کئی پُرانی خاندانی تصاویر ہوتی تھیں جن کے پیچھے خاندانی تاریخ کی بابت مفصل نوٹس ٹائپ کئے جاتے تھے۔ مجھے اُس تصویر کی کاپی اِسی طرح ملی تھی جس میں اُنکے علاوہ دوسروں کو ناجائز طور پر قیدخانہ بھیج دیا گیا تھا۔
دادا جان کو ۱۹۵۱ کے آخر میں نرخرے کا کینسر ہوگیا۔ اُن کی یادداشت ابھی ٹھیک تھی تاہم، اُنہیں اپنے الفاظ ایک چھوٹی کاپی میں لکھنے پڑتے تھے جو وہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ میری ہائی سکول کلاس نے جنوری ۱۹۵۲ میں امتحانات سے فارغ ہونا تھا۔ دسمبر کے شروع میں، مَیں نے دادا جان کو اس دن کی تقریر کا خاکہ بھیجا جس دن ڈپلومہ ملنے کی تقریب ہونی تھی۔ اُنہوں نے اِس پر چند ادارتی نشانات لگائے اور پھر آخری صفحہ پر دو لفظ لکھے جو سیدھا میرے دل میں اُتر گئے: ”دادا جان خوش ہے۔“ اُن کی زمینی زندگی ۱۸ دسمبر، ۱۹۵۱ میں ۸۱ سال کی عمر میں ختم ہوئی۔ * مَیں نے ابھی تک تقسیماسناد کے دن کی تقریر کے اُس خستہحال انمول خاکے کو بحفاظت رکھا ہوا ہے جس کے آخری صفحہ پر وہ دو الفاظ موجود ہیں۔
مَیں نے فارغالتحصیل ہو کر پائنیر خدمت شروع کر دی، جیساکہ یہوواہ کے گواہ کُلوقتی منادی کے کام کو کہتے ہیں۔ مَیں ۱۹۵۸ میں، نیو یارک شہر میں ایک بہت بڑے کنونشن پر حاضر ہوئی جہاں ۱۲۳ ممالک سے لوگ یانکی سٹیڈیم اور پولو گراونڈ میں جمع ہوئے تھے اور انتہائی تعداد ۹۲۲،۵۳،۲ تھی۔ پھر ایک دن مَیں افریقہ کے ایک نمائندے سے ملی جس نے ایک شناختی بیج لگایا ہوا تھا جس پر ”وڈورتھ ملز“ لکھا ہوا تھا۔ تقریباً ۳۰ سال پہلے اُسے دادا جان کا نام دیا گیا تھا!
اپنی میراث سے خوش
جب مَیں ۱۴ سال کی تھی، میری ماں نے پائنیرنگ دوبارہ شروع کی۔ وہ ۴۰ سال بعد، ۱۹۸۸ میں اپنی وفات تک پائنیر تھی! والد صاحب جب موقع ملتا پائنیر خدمت میں حصہ لیتے تھے۔ اُنکی وفات ماں کی وفات سے نو مہینے پہلے ہوئی۔ وہ اشخاص جنکے ساتھ ہم نے مطالعہ کِیا زندگیبھر کے لئے ہمارے عزیز دوست بن گئے۔ اُنکے بعض بیٹے بروکلن ہیڈکوارٹرز میں خدمت کیلئے چلے گئے اور دیگر نے پائنیر خدمت میں حصہ لیا۔
میرے لئے ۱۹۵۹ ایک خاص سال تھا۔ اُس وقت میرا تعارف پال ایلن سے ہوا۔ اُنہیں یہوواہ کے گواہوں کے مشنریوں کیلئے ٹریننگ دینے والے سکول، گلئیڈ کی ساتویں کلاس سے گریجویٹ ہونے کے بعد ۱۹۴۶ میں سفری نگہبان مقرر کِیا گیا تھا۔ ہماری ملاقات کے وقت، ہم دونوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پال کی دوسری تفویض کلیولینڈ، اوہائیو میں ہوگی جہاں مَیں پائنیر خدمت کر رہی تھی۔ میرے والدین کو بھی وہ بہت پسند آئے۔ ہماری شادی جولائی ۱۹۶۳ میں ہاویل فارم پر ہمارے خاندانوں کی موجودگی میں ہوئی اور ایڈ ہوپر نے شادی کی تقریر پیش کی۔ یہ ایک خواب کی تعبیر تھی۔
پال نے کبھی بھی گاڑی نہیں لی تھی۔ جب ہم کلیولینڈ سے اُس کی دوسری تفویض پر روانہ ہوئے تو ہمارا سارا سامان ۱۹۶۱ ماڈل کی میری واکسویگن بگ میں آ گیا۔ جب سوموار والے دن ہم کسی دوسری کلیسیا کے لئے روانہ ہوتے تھے تو دوستاحباب اکثر ہمیں سامان چڑھاتے ہوئے دیکھنے آتے تھے۔ اُس چھوٹی سی کار میں سوٹکیس، بریفکیس، فائل بکس، ٹائپرائٹر وغیرہ غائب ہوتے دیکھنا بالکل ایک سرکس کا تماشا دیکھنے کی طرح ہوتا تھا۔
پال اور مَیں نے ایک ساتھ کئی کلومیٹر سفر طے کِیا ہے اور موجودہ زندگی کے نشیبوفراز سے استفادہ کِیا ہے اور تمام کام اُس طاقت سے انجام پائے ہیں جو صرف یہوواہ فراہم کر سکتا ہے۔ یہوواہ، ایک دوسرے اور نئے اور پُرانے دوستوں کی محبت سے بھرپور، گزرے ہوئے سال پُرلطف رہے۔ پال کی ٹریننگ کے دوران، پیٹرسن میں جو دو مہینے ہم نے گزارے وہ اب تک ہماری زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں وقت رہا ہے۔ یہوواہ کی زمینی تنظیم کا قریبی جائزہ میرے اعتماد کو مستحکم کرتا ہے جو میری بیشقیمت روحانی میراث کا حصہ ہے: یہ واقعی یہوواہ کی تنظیم ہے۔ اُسکا چھوٹا سا حصہ ہونا بھی کتنی خوشی کی بات ہے!
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 44 دیکھیں دی واچٹاور، فروری ۱۵، ۱۹۵۲، صفحہ ۱۲۸۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
ایڈ ہوپر کیساتھ، ۱۹۴۱ میں سینٹ لوئیز کے کنونشن سے کچھ دیر پہلے، جہاں مجھے ”چلڈرن“ بُک کی ذاتی کاپی ملی تھی
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
دادا جان ۱۹۴۸ میں
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
ہاویل فارم پر جب میرے والدین (دائرے میں) کی شادی ہوئی
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
آٹھ بائبل طالبعلم جنہیں ۱۹۱۸ میں کسی جرم کے بغیر قید کِیا گیا تھا (دادا جان انتہائی دائیں جانب کھڑے ہیں)
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
ہمارا تمام دُنیاوی سامان ہماری واکسویگن میں آ جاتا تھا
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
اپنے شوہر، پال کیساتھ