آپ کے نزدیک کامیابی کا معیار کیا ہے؟
آپ کے نزدیک کامیابی کا معیار کیا ہے؟
ایک لغت کامیابی کی تعریف ”دولت، شہرت یا اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے“ کے طور پر کرتی ہے۔ کیا یہ تعریف جامع ہے؟ کیا دولت، شہرت یا اعلیٰ مرتبہ ہی کامیابی کے معیار ہیں؟ اس سے پہلے کہ آپ جواب دیں ذرا اس پر سوچیں: یسوع مسیح نے اپنی زندگی میں کوئی مادی دولت نہیں کمائی تھی۔ اس نے انسانوں سے خوشنودی حاصل نہیں کی؛ نہ ہی اُس وقت کے زمانہساز لوگوں نے اس کی کوئی خاص قدر کی تھی۔ تاہم، یسوع ایک کامیاب آدمی تھا۔ کیوں؟
اپنی زمینی زندگی کے دوران یسوع ”خدا کے نزدیک دولتمند“ تھا۔ (لوقا ۱۲:۲۱) اس کی قیامت کے بعد، خدا نے اُسے ”جلال اور عزت“ کا تاج پہنایا۔ یہوواہ نے اپنے بیٹے کو ”بہت سر بلند کِیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔“ (عبرانیوں ۲:۹؛ فلپیوں ۲:۹) یسوع کی طرزِزندگی نے یہوواہ کے دل کو شاد کِیا۔ (امثال ۲۷:۱۱) اس کی زمینی زندگی کامیاب تھی کیونکہ اس نے اپنا مقصد پورا کِیا تھا۔ یسوع نے خدا کی مرضی پوری کی اور اس کے نام کو جلال دیا۔ اس کے جواب میں، خدا نے یسوع کو ایسی دولت، شہرت اور ایسے مرتبے سے نوازا کہ تعلیمی، سیاسی یا کھیل کے میدان کے کسی ہیرو نے بھی کبھی اُسکا تجربہ نہیں کِیا ہوگا۔ یسوع کسی وقت میں زمین پر رہنے والا واقعی کامیاب شخص تھا۔
مسیحی والدین یہ بات جانتے ہیں کہ اگر انکے نوجوان بچے مسیح کے نقشِقدم پر چلیں اور یسوع کی طرح خدا کے نزدیک دولتمند بنیں تو وہ اس وقت کثیر برکات حاصل کرینگے اور آنے والے نظاماُلعمل میں ناقابلِتصور اجر پائینگے۔ ایک نوجوان کیلئے اس سے بہتر اَور کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ ممکن ہو تو کُلوقتی خدمت میں حصہ لیکر مسیح کے نقشِقدم کی پیروی کرے۔
تاہم، بعض ثقافتوں میں، نوجوان لوگوں کا کُلوقتی خدمت سے دُور رہنا عام دستور بنتا جا رہا ہے۔ جب ایک نوجوان اپنی تعلیم سے فارغالتحصیل ہوتا ہے تو اُس سے کُلوقتی ملازمت اختیار کرنے، شادی کرنے اور گھر بسانے کی توقع کی جاتی ہے۔ بعضاوقات، ایسے پسمنظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان غلطفہمی کی بِنا پر کُلوقتی خدمت اختیار کرنے سے باز رہتے ہیں۔ (امثال ۳:۲۷) کیوں؟ دباؤ کی وجہ سے، وہ مروّجہ ثقافتی معیاروں سے ہمآہنگی پیدا کر لیتے ہیں۔ رابرٹ کیساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ *
جب ثقافت اور ضمیر میں تصادم ہوتا ہے
رابرٹ کی پرورش یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر کی گئی تھی۔ اپنی جواںعمری میں اس کا چالچلن اور دوستوں کا انتخاب اتنا اچھا نہیں تھا۔ اس کی ماں اس کی بابت فکرمند ہونے لگی تھی۔ لہٰذا، اس نے یہوواہ کے گواہوں کے ایک کُلوقتی خادم، ایک پائنیر سے اُسکی حوصلہافزائی کرنے کی درخواست کی۔ رابرٹ بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد کیا واقع ہوا۔
”مَیں نے اُس پائنیر بھائی کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی کی واقعی قدر کی۔ اس کے اچھے نمونے نے مجھے سکول سے فارغالتحصیل ہونے کے بعد پائنیر خدمت کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کرنے کی تحریک دی۔ امی ایک بار پھر—لیکن ایک فرق وجہ سے پریشان ہو گئیں۔ دراصل ہماری ثقافت میں ایک لڑکی کیلئے سکول کے فوراً بعد پائنیر خدمت کرنا ٹھیک ہے، لیکن ایک لڑکے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے مالی طور پر مستحکم ہو اور پھر وہ پائنیر خدمت کی بابت سوچ سکتا ہے۔
”مَیں نے کچھ محنت کرکے اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ جلد ہی مَیں اپنے کام میں مگن ہو گیا اور اجلاسوں پر حاضری اور منادی میرے لئے بس معمول کے کام بن گئے۔ میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑتا—مَیں جانتا تھا کہ مَیں یہوواہ کی خدمت اَور زیادہ بھرپور طریقے سے کر سکتا ہوں۔ تاہم، جس بات کی مجھ سے دوسرے توقع کرتے تھے اُس سے آزاد ہونا ایک حقیقی کوشش تھی لیکن خوشی کی بات ہے کہ مَیں نے ایسا کِیا۔ مَیں اسوقت شادیشُدہ ہوں اور پچھلے دو سال سے مَیں اور میری بیوی پائنیر خدمت کر رہے ہیں۔ حال ہی میں مجھے کلیسیا میں خدمتگزار خادم مقرر کِیا گیا ہے۔ مَیں دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت مَیں اپنے سارے دل اور اپنی پوری طاقت سے یہوواہ کی خدمت کرنے میں اطمینان محسوس کرتا ہوں۔“
اس رسالے نے بارہا نوجوانوں کی حوصلہافزائی کی ہے کہ اگر ممکن ہو تو سکول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک پیشہ یا کوئی مفید لیاقتیں پیدا کریں۔ کس مقصد کیلئے؟ دولتمند بننے کیلئے؟ ہرگز نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بالغوں کے طور پر مناسب طریقے سے اپنی کفالت کرنے اور جس قدر ممکن ہو یہوواہ کی بھرپور خدمت کرنے، بالخصوص کُلوقتی خدمت کرنے کے قابل ہونگے۔ تاہم، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان مردوزن ایسے دُنیاوی
پیشے اختیار کرتے ہیں کہ خدمتگزاری کی اہمیت ماند پڑ جاتی ہے۔ بعض کُلوقتی خدمت اختیار کرنے کی بابت بالکل نہیں سوچتے۔ کیوں نہیں؟رابرٹ کے تبصرے اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ اپنا کام جاننے کے بعد رابرٹ نے ایک کاروبار شروع کر دیا۔ جلد ہی، وہ پیسے کے پیچھے بھاگنے لگا جو ٹریڈ مل پر بھاگنے کی طرح لا حاصل ہے۔ اس کا نشانہ مالی طور پر مستحکم ہونا تھا۔ لیکن کیا کوئی شخص مسیحی کلیسیا کے اندر یا باہر کبھی اس نصباُلعین کو پوری طرح حاصل کر سکا ہے؟ مسیحیوں کو مالی طور پر ذمہدار ہونا، مستعدی سے اپنی مالی ذمہداریوں کو پورا کرنا چاہئے؛ لیکن انہیں اس بات کو پہچانا چاہئے کہ ان غیریقینی حالات میں چند ہی ایسے مقام تک پہنچے ہیں جہاں وہ واقعی خود کو مالی طور پر مستحکم خیال کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے متی ۶:۳۳ میں درج یسوع کا وعدہ مسیحیوں کیلئے اسقدر تسلیبخش ہے۔
رابرٹ خوش ہے کہ اس نے اپنی ثقافت کی پیروی کرنے کے برعکس، اپنی دلی تمناؤں پر چلنے کا فیصلہ کِیا۔ آجکل، وہ کُلوقتی خدمت کے پیشے سے محظوظ ہو رہا ہے۔ جیہاں، کُلوقتی خدمت ایک باعزت پیشہ ہے۔ رابرٹ کے بقول اُسے اطمینان حاصل ہے کیونکہ وہ ’اپنی پوری طاقت کیساتھ‘ یہوواہ کی خدمت کر رہا ہے۔
اپنی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں
یہوواہ کے گواہوں میں بھی بہتیرے خداداد لیاقتوں کے مالک ہیں۔ بعض نمایاں ذہنی صلاحیتیں رکھتے ہیں؛ دیگر جسمانی کارگزاریوں میں ماہر ہیں۔ یہ تمام لیاقتیں یہوواہ کی طرف سے ہیں جو ”سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔“ (اعمال ۱۷:۲۵) زندگی کے بغیر، اِن بخششوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔
لہٰذا، ہمارے لئے اپنی مخصوصشُدہ زندگیوں کو یہوواہ کی خدمت میں استعمال کرنا موزوں ہے۔ ایک باصلاحیت نوجوان نے یہی فیصلہ کِیا تھا۔ وہ پہلی صدی س.ع. میں رہتا تھا۔ ایک ممتاز خاندان کے رُکن کے طور پر اس نے اپنی جوانی کِلکیہ کے مشہور شہر ترسس میں گزاری۔ پیدائشی یہودی ہونے کے باوجود، اس نے اپنے باپ سے رومی شہریت وراثت میں پائی تھی۔ اس سے اسے بہت سارے حقوق اور مراعات حاصل تھیں۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے زمانے کے نامور ”پروفیسر“—گملیایل—سے قانون کی تعلیم پائی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’دولت، شہرت اور اعلیٰ رُتبہ‘ اُسکے گھر کی باندی تھیں۔—اعمال ۲۱:۳۹؛ ۲۲:۳، ۲۷، ۲۸۔
یہ نوجوان کون تھا؟ اس کا نام ساؤل تھا۔ لیکن ساؤل ایک مسیحی بن جانے کے بعد انجامکار پولس رسول بن گیا تھا۔ اس نے اپنی ابتدائی اُمنگیں ایک طرف رکھ کر ایک مسیحی کے طور پر اپنی ساری زندگی یہوواہ کی خدمت کیلئے وقف کر دی۔ پولس ایک ممتاز قانوندان ہونے کے باوجود، خوشخبری کے سرگرم مُناد کے طور پر مشہور ہو گیا۔ ایک مشنری کے طور پر تقریباً ۳۰ سال گزرانے کے بعد، پولس نے فلپی میں اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھا۔ اس میں اس نے مسیحی بننے سے قبل اپنی کچھ گزشتہ کامرانیوں کا اعادہ کِیا اور پھر اُس نے کہا: ”[یسوع مسیح] کی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کروں۔“ (فلپیوں ۳:۸) پولس کو اپنی طرزِزندگی پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا!
اس تربیت کی بابت کیا ہے جو اُس نے گملیایل سے حاصل کی تھی؟ کیا وہ کبھی اس کیلئے فائدہمند ثابت ہوئی تھی؟ جیہاں! کئی مواقع پر اس نے اسے ”خوشخبری کی جوابدہی اور ثبوت کیلئے“ استعمال کِیا۔ لیکن پولس کا اہم کام خوشخبری کے مُناد کے طور پر تھا—ایسا کام جو اس کی ابتدائی تعلیم اُسے کبھی نہیں سکھا سکتی تھی۔—فلپیوں ۱:۷؛ اعمال ۲۶:۲۴، ۲۵۔
اسی طرح آجکل، بعض اپنی بخششوں، صلاحیتوں اور اپنی تعلیم کو بادشاہتی مفادات کے فروغ کیلئے استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایمی کے پاس یونیورسٹی سے کامرس اور قانونکی ڈگری ہے۔ اس کے پاس وکیل کے دفتر میں منفعتبخش ملازمت تھی لیکن آجکل وہ واچٹاور سوسائٹی کے کسی برانچ دفتر میں رضاکارانہ خدمت انجام دے رہی ہے۔ ایمی اس وقت اپنی زندگی کا حال یوں بیان کرتی ہے: ”مجھے یقین ہے کہ مَیں نے زندگی میں بہترین انتخاب کِیا ہے۔ . . . مجھے خود کو اپنے یونیورسٹی کے دوستوں میں سے کسی کے مرتبے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ مجھے اپنی منتخب روش پر ناز ہے۔ مَیں مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہی ہوں اور ایسے پیشے کی مالک ہوں جو میری ضروریات پوری کرتا اور اطمینانبخش ہے اور جس کی بدولت میرے پاس دُنیا کی ہر وہ چیز موجود ہے جس کی مجھے ضرورت ہے اور میری خواہش ہے۔“
ایمی نے ایسی روش کا انتخاب کِیا ہے جس سے اُسے ذہنی سکون، اطمینان اور یہوواہ کی برکت حاصل ہے۔ یقیناً مسیحی والدین اپنے بچوں کیلئے اس سے کچھ کم نہیں چاہینگے!
مسیحی خدمتگزاری میں کامیابی
بیشک، مسیحی خدمتگزاری میں کامیابی کی بابت مناسب نقطۂنظر رکھنا نہایت اہم ہے۔ جب ہم خدمتگزاری میں پُرلطف وقت صرف کرتے، بائبل لٹریچر تقسیم کرتے یا اصحابِخانہ کو بائبل مباحثوں میں شریک کرتے ہیں تو کامیابی محسوس کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہمیں کبھیکبھار ہی سننے والا شخص ملتا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں کہ ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ تاہم، یاد رکھیں کہ کامیابی کی تعریف میں سے ایک ’کرمفرمائی حاصل کرنا‘ ہے۔ ہم کس کی کرمفرمائی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ بیشک، یہوواہ کی۔ خواہ لوگ ہمارے پیغام کو سنیں یا نہ سنیں، اِسکے باوجود ہم یہوواہ کی کرمفرمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک پُرزور درس دیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ یسوع نے ۷۰ بادشاہتی مُنادوں کو ”جس جس شہر اور جگہ کو خود جانے والا تھا وہاں اُنہیں دو دو کرکے“ اپنے آگے بھیجا۔ (لوقا ۱۰:۱) انہیں یسوع کے بغیر شہروں اور دیہاتوں میں مُنادی کرنا تھی۔ یہ تجربہ اُن کیلئے نیا تھا۔ لہٰذا، یسوع نے انہیں بھیجنے سے پہلے مفصل ہدایات دیں۔ جب انہیں کوئی ”سلامتی کا فرزند“ ملتا تو انہیں اُسے بادشاہت کے متعلق پوری گواہی دینی تھی۔ تاہم، ٹھکرائے جانے پر انہیں پرواہ کئے بغیر اپنی راہ چل دینا تھا۔ یسوع نے واضح کِیا کہ انکی سننے سے انکار کرنے والے حقیقت میں یہوواہ کو ردّ کر رہے ہونگے۔—لوقا ۱۰:۴-۷، ۱۶۔
جب ۷۰ شاگردوں نے اپنی مُنادی کی تفویض مکمل کر لی تو انہوں نے ”خوش ہو کر“ یسوع کے سامنے سب کچھ بیان کِیا: ”اور کہنے لگے اَے خداوند تیرے نام سے بدرُوحیں بھی ہمارے تابع ہیں۔“ (لوقا ۱۰:۱۷) طاقتور بدروحوں کو نکالنا اِن ناکامل انسانوں کیلئے ہیجانخیز رہا ہوگا! تاہم، یسوع نے اپنے پُرجوش شاگردوں کو خبردار کِیا: ”توبھی اِس سے خوش نہ ہو کہ رُوحیں تمہارے تابع ہیں بلکہ اِس سے خوش ہو کہ تمہارے نام آسمان پر لکھے ہوئے ہیں۔“ (لوقا ۱۰:۲۰) اُن ۷۰ کے پاس شاید بدرُوحوں کو نکالنے کی طاقت ہمیشہ نہیں رہی تھی اور نہ ہی انہوں نے خدمتگزاری میں ہمیشہ مثبت نتائج حاصل کئے ہونگے۔ تاہم، ہمیشہ وفادار رہنے کی صورت میں انہیں یہوواہ کی خوشنودی ہمیشہ حاصل رہیگی۔
کیا آپ کُلوقتی خادموں کی قدر کرتے ہیں؟
ایک نوجوان نے ایک مرتبہ ایک مسیحی بزرگ کو بتایا: ”جب مَیں ہائی سکول سے فارغالتحصیل ہونگا تو مَیں نوکری تلاش کرونگا۔ اگر مجھے نوکری نہ ملی تو پھر مَیں کُلوقتی خدمت اختیار کرنے کے بارے میں سوچونگا۔“ تاہم، پائنیر خدمتگزاری اختیار کرنے والے بیشتر لوگوں کا یہ نظریہ نہیں ہے۔ پائنیر خدمت کرنے کیلئے، بعض نے منافعبخش پیشوں کے مواقع کی جستجو ترک کر دی ہے۔ دیگر نے شاندار تعلیمی مواقع کو مسترد کر دیا ہے۔ پولس رسول کی مانند، انہوں نے قربانیاں دی ہیں، تاہم پولس، رابرٹ اور ایمی کی طرح وہ اپنے انتخابات پر نہیں پچھتاتے۔ وہ یہوواہ کی ستائش کیلئے اپنی بخششوں کو استعمال کرنے کے شرف کی قدر کرتے ہیں جو بہترین چیز کا مستحق ہے جسے وہ پیش کر سکتے ہیں۔
مختلف وجوہات کی بِنا پر یہوواہ کے بہتیرے وفادار گواہ پائنیر خدمت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ شاید اُنکی صحیفائی ذمہداریاں ہیں۔ پھربھی اگر وہ ’اپنے سارے دل، جان اور عقل سے‘ خدا کی خدمت کر رہے ہیں تو یہوواہ ان سے خوش ہے۔ (متی ۲۲:۳۷) اگرچہ وہ خود تو پائنیر خدمت نہیں کر سکتے توبھی وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پائنیر خدمت کرنے والوں نے عمدہ پیشے کا انتخاب کِیا ہے۔
پولس رسول نے لکھا: ”اس جہاں کے ہمشکل نہ بنو۔“ (رومیوں ۱۲:۲) پولس کی نصیحت کے مطابق، ہمیں اس دُنیا کے ثقافتی یا دُنیاوی معیاروں کو اپنی سوچ پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ خواہ آپ پائنیر خدمت کر سکتے ہیں یا نہیں، یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا محور بنائیں۔ جبتک آپ کو یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہے آپ کامیاب رہینگے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
پیسے کے پیچھے بھاگنا ٹریڈمل پر بھاگنے کی طرح لاحاصل ہے