مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏اَے کاش،‏ ایمان کمزور نہ ہو جائے“‏!‏

‏”‏اَے کاش،‏ ایمان کمزور نہ ہو جائے“‏!‏

میری کہانی میری زبانی

‏”‏اَے کاش،‏ ایمان کمزور نہ ہو جائے“‏!‏

از ہربرٹ میولر

نیدرلینڈز پر ہٹلر کی فوج کے حملے کے چند ماہ بعد ہی یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔‏ جلد ہی میرا نام نازیوں کو مطلوب اشخاص کی فہرست میں تھا اور وہ میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔‏

ایک مرتبہ تو مَیں چھپنے اور بھاگنے سے اسقدر تھک کر چُور ہو چکا تھا کہ مَیں نے اپنی بیوی سے کہا کہ فوج کے ہاتھوں پکڑے جانے میں شاید مجھے آرام ملے۔‏ اس وقت مجھے ایک گیت کے بول یاد آئے:‏ ”‏اَے کاش،‏ ایمان کمزور نہ ہو جائے،‏ خواہ ہر دُشمن دبائے۔‏“‏ * اس گیت پر غور کرنے سے مجھے ازسرِنو طاقت حاصل ہوئی اور جرمنی میں میرے والدین اور اُس دن کی یاد تازہ ہوگئی جب میرے دوستوں نے مجھے الوداع کہنے کیلئے یہ گیت گایا تھا۔‏ کیا مَیں آپ کو ان میں سے کچھ یادوں میں شریک کر سکتا ہوں؟‏

میرے والدین کا نمونہ

جب مَیں ۱۹۱۳ میں جرمنی میں کوپٹس کے قصبے میں پیدا ہوا تو میرے والدین ایونجلیکل چرچ کے ارکان تھے۔‏ * میرے والد نے سات سال بعد،‏ ۱۹۲۰ میں،‏ چرچ کو چھوڑ دیا۔‏ اپریل ۶،‏ کو انہوں نے کرکیناس‌ٹریٹس‌بیشی ‏(‏چرچ سے علیٰحدگی کا اقرارنامہ)‏ کی درخواست کی۔‏ قصبے کے سول رجسٹریشن آفیسر نے ایک دستاویز پُر کر دی۔‏ تاہم،‏ ایک ہفتے بعد،‏ ہمارے والد کو یہ وضاحت کرنے کیلئے واپس دفتر جانا پڑا کہ اقرارنامے میں اس کی بیٹی کا نام درج نہیں ہے۔‏ آفیسر نے یہ بیان کرتے ہوئے دوسری دستاویز پُر کر دی کہ چرچ سے علیٰحدگی کا اطلاق مارتھا مارگریتھا میولر پر بھی ہوتا ہے۔‏ اس وقت میری بہن مارگریتھا ڈیڑھ سال کی تھی۔‏ جب یہوواہ کی خدمت کرنے کی بات آئی تو ہمارے والد نے محض جزوی اقدام نہ اُٹھائے!‏

اُسی سال،‏ میرے والدین کو بائبل طالبعلموں نے بپتسمہ دیا جیسا کہ یہوواہ کے گواہ اس وقت جانے جاتے تھے۔‏ ہمارے والد نے ہم بچوں کی پرورش بڑے سخت طریقے سے کی لیکن یہوواہ کیلئے اُنکی وفاداری نے ہمارے لئے اُنکی ہدایت کو قبول کرنا آسان بنا دیا۔‏ وفاداری نے میرے والدین کو تبدیلیاں لانے کی تحریک دی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک وقت ایسا تھا جب ہمیں اتوار کو گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔‏ تاہم،‏ ۱۹۲۵ میں،‏ ایک اتوار کے دن ہمارے والدین نے ہمیں بتایا کہ ہم باہر سیر کیلئے جا رہے ہیں۔‏ ہم نے کچھ اشیائے خوردونوش ساتھ لیں اور خوشگوار وقت گزارا—‏سارا دن گھر میں بند رہنے کے برعکس کیا ہی تبدیلی!‏ والد نے کہا کہ اس نے حالیہ کنونشن سے کچھ نکات سیکھے ہیں جنہوں نے اس کی اتوار کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اصلاح کی ہے۔‏ دیگر اوقات پر،‏ انہوں نے تبدیلی لانے کی ایسی ہی رضامندی ظاہر کی۔‏

اگرچہ میرے والدین کی صحت اتنی اچھی نہیں تھی توبھی وہ منادی کے کام سے پیچھے نہیں ہٹے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایکلیزی‌ایسٹکس انڈِکٹِڈ اشتہار پیش کرنے کیلئے،‏ ہم ایک شام اپنی کلیسیا کیساتھ ریل‌گاڑی میں سوار ہوئے اور ڈریسڈن سے کوئی ۳۰۰ کلومیٹر دُور ریجنزبرگ کے قصبے کیلئے روانہ ہوئے۔‏ اگلے روز،‏ ہم نے سارے قصبے میں اشتہارات تقسیم کئے اور جب وہ اشتہارات ختم ہو گئے تو ہم ریل‌گاڑی سے واپس آ گئے۔‏ گھر واپس پہنچنے تک تقریباً ۲۴ گھنٹے گزر چکے تھے۔‏

گھر چھوڑنا

ہماری کلیسیا میں یوگینٹ‌گروپ ‏(‏یوتھ گروپ)‏ نے بھی روحانی طور پر ترقی کرنے کے لئے میری مدد کی۔‏ ہر ہفتے،‏ ۱۴ سال سے بڑی عمر کے نوجوان کلیسیا کے عمررسیدہ بھائیوں سے ملا کرتے تھے۔‏ ہم کھیلتے اور موسیقی بجاتے،‏ بائبل کا مطالعہ کرتے اور تخلیق اور سائنس کی بابت گفتگو کِیا کرتے تھے۔‏ تاہم،‏ ۱۹۳۲ میں،‏ جب مَیں ۱۹ سال کا تھا تو اس گروپ کے ساتھ میری رفاقت ختم ہو گئی۔‏

اس سال اپریل میں،‏ ہمارے والد کو میگڈیبرگ میں واچ ٹاور سوسائٹی کے دفتر کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔‏ سوسائٹی کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو کار چلانا جانتا اور پائنیر خدمت کرنا چاہتا ہو۔‏ مَیں جانتا تھا کہ میرے والدین کی خواہش تھی کہ مَیں پائنیر خدمت کروں لیکن مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں ایسا نہیں کر سکتا۔‏ اپنے والدین کی غربت کی وجہ سے مَیں نے ۱۴ سال کی عمر میں سائیکلوں،‏ سلائی مشینوں،‏ ٹائپ‌رائٹر اور دفتر کے دیگر آلات کی مرمت کا کام شروع کر دیا تھا۔‏ مَیں اپنے خاندان کو کیسے چھوڑ سکتا تھا؟‏ انہیں میری مدد کی ضرورت تھی۔‏ مزیدبرآں،‏ میرا تو ابھی بپتسمہ بھی نہیں ہوا تھا۔‏ میرے والد صاحب میرے پاس بیٹھ کر یہ جاننے کیلئے مجھ سے کچھ سوال کرنے لگے کہ آیا مَیں سمجھتا ہوں کہ بپتسمہ لینے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ جب میرے جوابات نے انہیں یقین دلایا کہ مَیں نے روحانی طور پر اتنی ترقی کر لی ہے کہ بپتسمہ لے سکوں تو انہوں نے کہا:‏ ”‏آپ کو اس تفویض کیلئے خود کو پیش کرنا چاہئے۔‏“‏ مَیں نے ایسا ہی کِیا۔‏

ایک ہفتے کے بعد مَیں نے میگڈیبرگ آنے کی دعوت حاصل کی۔‏ جب مَیں نے یوتھ گروپ میں اپنے دوستوں کو بتایا تو وہ مجھے خوش‌کُن گیت کیساتھ روانہ کرنا چاہتے تھے۔‏ جس گیت کا مَیں نے انتخاب کِیا وہ اس پر حیران ہوئے کیونکہ اُنکے خیال میں وہ بہت ہی سنجیدہ تھا۔‏ پھربھی،‏ بعض نے اپنا وائلن،‏ سارنگی اور گیٹار پکڑی اور سب نے مِل کر گیت گایا:‏ ”‏اَے کاش،‏ ایمان کمزور نہ ہو جائے،‏ خواہ ہر دُشمن دبائے؛‏ وہ کسی آفت سے خوف نہ کھائے۔‏“‏ اُس روز،‏ مجھے اس بات کا احساس نہ ہوا کہ ان الفاظ نے آنے والے سالوں میں کتنی مرتبہ مجھے تقویت دینی تھی۔‏

پُرآشوب آغاز

میگڈیبرگ میں جب بھائیوں نے میری ڈرائیوری کی مہارتوں کو آزما لیا تو انہوں نے مجھے اور دیگر چار پائنیروں کو کار سونپ دی اور ہم بیلجیئم کے ایک قریبی علاقے شنائفل کیلئے روانہ ہو گئے۔‏ ہمیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ کار ہماری ضرورت تھی۔‏ اس علاقے میں کیتھولک چرچ کو ہماری موجودگی گِراں گزری اور پادریوں کے اُکسانے پر دیہاتی اکثر ہمیں نکالنے کیلئے تیار رہتے تھے۔‏ کئی مرتبہ کار نے ہمیں انکے حملوں سے بال بال بچا لیا۔‏

ریجنل اوورسیئر پال گراس‌مان نے ۱۹۳۳ میں میموریل کے بعد ہمیں بتایا کہ جرمنی میں سوسائٹی کے کام پر پابندی لگ گئی ہے۔‏ اس کے فوراً بعد،‏ برانچ دفتر نے مجھے کار سمیت میگڈیبرگ آنے،‏ وہاں سے لٹریچر اُٹھانے اور اسے میگڈیبرگ سے کوئی ۱۰۰ کلومیٹر دُور سیکسنی کی ریاست میں پہنچانے کیلئے کہا۔‏ میرے میگڈیبرگ پہنچنے تک گسٹاپو (‏نازی خفیہ پولیس)‏ سوسائٹی کے دفتر کو پہلے ہی بند کر چکی تھی۔‏ مَیں نے کار کو لائپسگ میں ایک بھائی کے پاس چھوڑا اور گھر واپس آ گیا—‏لیکن زیادہ دیر کیلئے نہیں۔‏

سوئٹزرلینڈ میں سوسائٹی کے دفتر نے مجھے نیدرلینڈز میں پائنیر خدمت انجام دینے کیلئے دعوت دی۔‏ مَیں نے ایک دو ہفتے میں جانے کیلئے منصوبہ‌سازی کر لی۔‏ تاہم،‏ والد صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں فوراً چلا جاؤں۔‏ مَیں نے انکی مشورت پر عمل کِیا اور چند ہی گھنٹوں کے اندر گھر سے نکل گیا۔‏ اگلے ہی روز پولیس میرے والد کے گھر آ پہنچی تاکہ فرار ہونے کے الزام میں مجھے گرفتار کر سکے۔‏ انہوں نے بہت دیر کر دی تھی۔‏

نیدرلینڈز میں شروعات

مَیں اگست ۱۵،‏ ۱۹۳۳ میں ایمسٹرڈیم سے ۲۵ کلومیٹر دُور ہیم‌سٹیڈ میں ایک پائنیر ہوم میں پہنچا۔‏ اگلے روز،‏ مَیں ڈچ زبان سے واقفیت کے بغیر منادی کرنے چلا گیا۔‏ شہادتی کارڈ جس پر وعظ چھپا ہوا تھا،‏ اس کے ساتھ لیس ہو کر مَیں نے منادی شروع کر دی۔‏ جب ایک کیتھولک خاتون نے ریکونسلی‌ایشن بُک قبول کی تو بڑی حوصلہ‌افزائی ہوئی!‏ اُسی روز،‏ مَیں نے ۲۷ کتابچے بھی تقسیم کئے۔‏ اُس پہلے دن کے اختتام پر،‏ مَیں دوبارہ آزادی سے منادی کا کام کرنے سے بہت خوش تھا۔‏

اُن دنوں میں،‏ پائنیروں کے پاس لٹریچر تقسیم ہونے کے عوض ملنے والے عطیات کے علاوہ،‏ آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔‏ اس پیسے سے کھانا اور دیگر ضروری اشیا خریدی جاتی تھیں۔‏ اگر مہینے کے آخر پر تھوڑا بہت پیسہ بچ جاتا تو اسے پائنیروں کے درمیان ذاتی اخراجات کیلئے تقسیم کر دیا جاتا تھا۔‏ مادی لحاظ سے ہمارے پاس بہت کم تھا تاہم،‏ یہوواہ نے ۱۹۳۴ میں اسقدر مہیا کِیا کہ مَیں سوئٹزرلینڈ میں کنونشن پر حاضر ہونے کے قابل تھا۔‏

ایک وفادار ساتھی

اس کنونشن پر،‏ مَیں نے ۱۸ سالہ ایریکا فنکی کو دیکھا۔‏ مَیں اُسے اس وقت سے جانتا تھا جب مَیں اپنے گھر پر رہا کرتا تھا۔‏ وہ میری بہن مارگریتھا کی سہیلی تھی اور مَیں سچائی کیلئے ایریکا کی ثابت‌قدمی سے بڑا متاثر تھا۔‏ اس کے بپتسمہ کے فوراً بعد،‏ ۱۹۳۲ میں،‏ کسی نے گسٹاپو کو خبر کر دی تھی کہ ایریکا نے ”‏ہائل ہٹلر“‏ کہنے سے انکار کر دیا ہے۔‏ گسٹاپو نے اس کا پیچھا کِیا اور اُسکے انکار کی وجہ جاننا چاہی۔‏ ایریکا نے پولیس سٹیشن میں افسر کے سامنے اعمال ۱۷:‏۳ پڑھی اور واضح کِیا کہ خدا نے صرف ایک ہی شخص کو نجات‌دہندہ مقرر کِیا ہے اور وہ یسوع مسیح ہے۔‏ افسر نے جاننا چاہا کہ ”‏کیا ایسا اعتقاد رکھنے والے اَور لوگ بھی ہیں؟‏“‏ ایریکا نے کسی بھی دوسرے کا نام دینے سے گریز کِیا۔‏ جب پولیس نے اسے گرفتار کرنے کی دھمکی دی تو ایریکا نے اُن سے کہا کہ وہ مر جائیگی لیکن نام نہیں بتائیگی۔‏ اُس نے اُسے گھورتے ہوئے زور سے چلّا کر کہا:‏ ”‏یہاں سے دفع ہو جاؤ۔‏ گھر چلی جاؤ۔‏ ہائل ہٹلر۔‏“‏

کنونشن کے بعد،‏ مَیں نیدرلینڈز واپس آ گیا جبکہ ایریکا نے سوئٹزرلینڈ میں قیام کِیا۔‏ تاہم،‏ ہم دونوں نے محسوس کِیا کہ ہماری دوستی پُختہ ہو چکی تھی۔‏ ایریکا ابھی سوئٹزرلینڈ میں ہی تھی کہ اُسے معلوم ہوا کہ گسٹاپو اس کی تلاش میں ہیں۔‏ اس نے سوئٹزرلینڈ میں رہنے اور پائنیر خدمت کرنے کا انتخاب کِیا۔‏ چند ماہ بعد،‏ سوسائٹی نے اُسے سپین جانے کیلئے کہا۔‏ اُس نے میڈرڈ،‏ پھر بِل‌باؤ اور بعد میں سان سباسچئن میں پائنیر خدمت کی،‏ جہاں پادریوں کی بھڑکائی ہوئی اذیت نے اُسے اور اس کی پائنیر ساتھی کو قیدخانہ میں ڈلوا دیا۔‏ سِن ۱۹۳۵ میں انہیں سپین سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔‏ ایریکا نیدرلینڈز آ گئی اور اُسی سال ہم نے شادی کر لی۔‏

اُفق پر جنگ کے بادل

ہماری شادی کے بعد،‏ ہم نے ہیم‌سٹیڈ میں پائنیر خدمت انجام دی اور بعدازاں ہم نے روٹرڈم کے شہر میں نقل‌مکانی کر لی۔‏ وہاں ہمارا بیٹا،‏ وولف‌گینگ،‏ ۱۹۳۷ میں پیدا ہوا۔‏ ایک سال بعد ہم نیدرلینڈز کے شمال میں گروننجن کے شہر میں منتقل ہو گئے جہاں ہم جرمن پائنیر فرڈینڈ اور ہیلگا ہولٹورف اور انکی بیٹی کیساتھ ایک ہی گھر میں رہے۔‏ جولائی ۱۹۳۸ میں سوسائٹی نے ہمیں بتایا کہ ڈچ حکومت نے ایک انتباہ جاری کِیا ہے کہ جرمن قومیت رکھنے والے گواہوں کو منادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‏ غالباً انہی دنوں،‏ مجھے زون سرونٹ (‏سرکٹ اوورسیئر)‏ مقرر کِیا گیا تھا اور ہمارا خاندان سوسائٹی کی کشتی،‏ لیکٹ‌ڈراکر ‏(‏روشنی بردار)‏ میں منتقل ہو گیا جس نے نیدرلینڈز کے شمالی علاقہ‌جات میں پائنیروں کیلئے منادی کرنے کی خاطر گھر کا کام انجام دیا۔‏ زیادہ وقت،‏ مَیں اپنے خاندان سے دُور رہتا اور سائیکل چلا کر ایک کلیسیا سے دوسری کلیسیا میں جاکر بھائیوں کو منادی کرنے کی حوصلہ‌افزائی دیتا۔‏ دیگر بھائیوں نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏ بعض نے اپنی کارگزاریوں میں اضافہ بھی کِیا۔‏ وِم کیٹلاری ایک عمدہ نمونہ تھا۔‏

جب وِم سے میری ملاقات ہوئی تو وہ ایک جوان آدمی تھا جس نے سچائی کو قبول کر لیا تھا تاہم وہ بہت ہی مصروف کسان تھا۔‏ ”‏اگر آپ یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو آپکو کوئی اَور ملازمت تلاش کرنی چاہئے،‏“‏ مَیں نے مشورہ دیا۔‏ اس نے ایسا ہی کِیا۔‏ بعدازاں،‏ جب ہم پھر ملے تو مَیں نے اسکی پائنیر خدمت کرنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کی۔‏ ”‏لیکن مجھے کھانے کیلئے کام کرنا ہے،‏“‏ اس نے جواب دیا۔‏ ”‏تم ضرور کھاؤ گے،‏“‏ مَیں نے یقین‌دہانی کرائی۔‏ ”‏یہوواہ آپ کی دیکھ‌بھال کریگا۔‏“‏ وِم نے پائنیر خدمت شروع کر دی۔‏ بعدازاں،‏ دوسری عالمی جنگ میں بھی اُس نے سفری نگہبان کے طور پر خدمت انجام دی۔‏ اِس وقت وہ ۸۰ کے دہے میں ہے تاہم وہ ابھی تک ایک سرگرم گواہ ہے۔‏ یہوواہ نے واقعی اُسکی دیکھ‌بھال کی ہے۔‏

پابندی کے تحت مطلوب

مئی ۱۹۴۰ میں ہماری بچی رینا کی پیدائش کے تقریباً ایک سال بعد،‏ ڈچ فوج نے ہتھیار ڈال دئے اور نازیوں نے نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا۔‏ جولائی میں گسٹاپو نے سوسائٹی کے دفتر اور چھاپہ‌خانہ پر قبضہ کر لیا۔‏ اس کے اگلے ہی سال گواہوں کو پکڑنا شروع کر دیا گیا تھا اور مَیں بھی پکڑا گیا۔‏ ایک گواہ اور جرمن فوجی خدمت کی عمر والا ایک شخص ہوتے ہوئے،‏ یہ تصور کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ گسٹاپو میرے ساتھ کیا کرینگے۔‏ مَیں نے اپنے خاندان سے پھر کبھی ملنے کی بابت سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔‏

اس کے بعد مئی ۱۹۴۱ میں،‏ گسٹاپو نے مجھے قیدخانے سے نکال کر حکم دیا کہ مَیں جا کر خود کو فوجی خدمت کیلئے پیش کروں۔‏ مَیں یقین نہیں کر سکتا تھا۔‏ اُسی روز مَیں نظروں سے اوجھل ہو گیا اور اسی مہینے پھر سرکٹ کے کام میں مصروف ہو گیا۔‏ گسٹاپو نے مجھے انتہائی مطلوب اشخاص کی فہرست میں شامل کر لیا۔‏

میرے خاندان نے کیسے سامنا کِیا

میری بیوی اور بچے مُلک کے مشرقی علاقے فورڈن کے دیہات میں منتقل ہو گئے۔‏ تاہم،‏ ان کیلئے خطرات کے پیشِ‌نظر مَیں نے گھر آنا جانا انتہائی محدود کر دیا تھا۔‏ (‏متی ۱۰:‏۱۶‏)‏ تحفظ کیلئے بھائیوں نے میرے اصلی نام کے برعکس صرف میری عرفیت ڈائٹس یان ‏(‏جرمن جان)‏ استعمال کی۔‏ حتیٰ کہ میرے چار سالہ بیٹے،‏ وولف‌گینگ کو بھی ”‏ابو“‏ کہنے کی اجازت نہیں تھی بلکہ وہ صرف ‏”‏اومی یان“‏ ‏(‏انکل جان)‏ کہہ سکتا تھا۔‏ اس کیلئے جذباتی طور پر،‏ یہ بہت ہی مشکل تھا۔‏

جب مَیں مفرور تھا تو ایریکا نے بچوں کی دیکھ‌بھال اور منادی کرنا جاری رکھا۔‏ جب رینا دو برس کی ہوئی تو ایریکا اُسے سائیکل کی سامان والی ٹوکری میں ڈال کر دیہاتوں میں نکل جاتی۔‏ اگرچہ خوراک کی قلّت تھی توبھی ایریکا نے خاندان کو خوراک سے کبھی محروم نہیں دیکھا تھا۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ ایک کیتھولک کسان نے اُسے کچھ آلو دئے،‏ جس کی ایک مرتبہ میں نے مشین ٹھیک کی تھی۔‏ اُسی نے ایریکا تک میرے پیغامات بھی پہنچائے۔‏ ایک مرتبہ،‏ اس نے ادویات کے سٹور میں ایک چیز کیلئے ایک گلڈن ادا کِیا۔‏ مالک نے اس بات کو جانتے ہوئے کہ وہ خفیہ طور پر رہ رہی ہے اور اُس کیلئے فوڈ راشن کارڈ حاصل کرنا مشکل ہے اُسے وہ چیز دی اور ساتھ دو گلڈن بھی دئے۔‏ ہمدردی کے ایسے اظہارات نے اس کی زندہ رہنے میں مدد کی۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۵‏۔‏

جُراتمند بھائیوں کے شانہ‌بشانہ کام کرنا

اس دوران،‏ مَیں نے کلیسیاؤں کا دورہ کرنا جاری رکھا—‏اگرچہ مَیں صرف کلیسیاؤں کے ذمہ‌دار بھائیوں ہی سے مل سکتا تھا۔‏ گسٹاپو کے تعاقب کے ڈر سے،‏ مَیں چند گھنٹوں سے زیادہ ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔‏ زیادہ‌تر بہن بھائیوں کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔‏ وہ صرف انہی گواہوں سے واقف تھے جو انکے چھوٹے چھوٹے بائبل مطالعوں کے گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔‏ نتیجتاً،‏ ایک ہی شہر کے مختلف حصوں میں رہنے والی دو سگی بہنوں کو دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پتہ چلا کہ وہ جنگ کے دوران گواہ بنی تھیں۔‏

سوسائٹی کے لٹریچر کو چھپانے کے لئے جگہ تلاش کرنا بھی میری ذمہ‌داری تھی۔‏ ہم نے کاغذ،‏ سٹینسل مشینیں اور مینارِنگہبانی کی نقل تیار کرنے والے ٹائپ‌رائٹرز بھی چھپا دئے تھے کہ کہیں ان کی ضرورت نہ پڑ جائے۔‏ بعض‌اوقات،‏ سوسائٹی کی مطبوعات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ چھپانا پڑتا تھا۔‏ ایک مرتبہ مجھے خود کو دوسروں کی نظروں سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے لٹریچر سے بھرے ہوئے ۳۰ کارٹنوں کو لیجانا یاد ہے جو ایک اعصاب‌شکن کام تھا!‏

علاوہ‌ازیں،‏ ہم نے کھانے کی چیزیں بھی مشرقی نیدرلینڈز کے کھیتوں سے مغرب کے شہروں میں منتقل کیں اگرچہ ایسا کرنا منع تھا۔‏ ہم خوراک کو گھوڑا گاڑی پر لاد کر مغرب کی طرف چل پڑتے تھے۔‏ جب ہم دریا پر پہنچتے تو ہم پُل استعمال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان پر فوجی پہرا دیتے تھے۔‏ اس کی بجائے،‏ ہم سامان چھوٹی کشتیوں میں اُتارتے،‏ اسے دریا کے پار لیجاتے اور پھر ایک اَور گاڑی پر سامان لادتے۔‏ جب ہم اپنی منزلِ‌مقصود کے قریب پہنچتے تو ہم اندھیرا پھیلنے کا انتظار کرتے اور گھوڑے کے کھروں پر جرابیں چڑھا کر خاموشی سے کلیسیا کے راشن کے خفیہ ڈپو میں چلے جاتے۔‏ وہاں سے ضرورتمند بھائیوں کو خوراک تقسیم کی جاتی۔‏

اگر جرمن فوج کو ایسے راشن ڈپو کا پتہ چل جاتا تو اس سے کسی کی جان بھی جا سکتی تھی۔‏ تاہم،‏ کئی بھائیوں نے رضاکارانہ مدد کی۔‏ مثال کے طور پر ایمرزفورٹ کے قصبے میں بلومنک خاندان نے اپنی بیٹھک کو راشن گودام کے طور پر استعمال کے لئے دے دیا اگرچہ انکا گھر جرمن فوجی چھاؤنی کے بالکل نزدیک تھا!‏ ایسے جراتمند گواہوں نے اپنے بھائیوں کے لئے اپنی جانوں کا خطرہ مول لیا۔‏

یہوواہ نے پابندی کے تمام سالوں میں وفادار رہنے کے لئے میری اور میری بیوی کی مدد کی۔‏ مئی ۱۹۴۵ میں جرمن فوج کو شکست ہوئی اور میری مفرور زندگی کا بالآخر اختتام ہوا۔‏ سوسائٹی نے مجھے کہا کہ مَیں اس وقت تک سفری نگہبان کے طور پر خدمت انجام دُوں جبتک دیگر بھائی دستیاب نہیں ہوتے۔‏ اِسکے بعد ۱۹۴۷ میں،‏ برٹس فان ڈر بال نے میرے کام کو سنبھالا۔‏ * اس وقت تک ہمارا تیسرا بچہ پیدا ہو چکا تھا اور ہم نے مُلک کے مشرقی علاقے میں سکونت اختیار کر لی۔‏

غم اور خوشی

جنگ کے بعد،‏ مجھے پتہ چلا کہ میرے گھر چھوڑنے کے ایک سال بعد میرے والد کو قید کر لیا گیا تھا۔‏ انہیں خراب صحت کی وجہ سے دو مرتبہ چھوڑ دیا گیا لیکن ہر مرتبہ دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا تھا۔‏ فروری ۱۹۳۸ میں انہیں بوخانوالٹ کے اجتماعی کیمپ میں اور اس کے بعد ڈاخاؤ کے کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔‏ وہاں مئی ۱۴،‏ ۱۹۴۲ میں میرے والد انتقال کر گئے۔‏ وہ مرتے دم تک ثابت‌قدم اور وفادار رہے۔‏

والدہ کو بھی ڈاخاؤ کیمپ بھیج دیا گیا تھا۔‏ وہ ۱۹۴۵ میں اپنی رہائی تک وہیں رہیں۔‏ اپنے والدین کے ثابت‌قدم نمونے سے روحانی برکات حاصل کرنے میں کافی مدد کی جن سے مَیں نے استفادہ کِیا،‏ یہ میرے لئے شرف کی بات تھی کہ امی جان ۱۹۵۴ میں ہمارے ساتھ رہنے کیلئے آئیں۔‏ میری بہن مارگریتھا بھی اُن کیساتھ آ گئی جو ۱۹۴۵ سے لیکر کیمونسٹ مشرقی جرمنی میں پائنیر خدمت کرتی رہی تھی۔‏ والدہ کے بیمار ہونے اور ڈچ زبان سے واقف نہ ہونے کے باوجود وہ اکتوبر ۱۹۵۷ میں اپنی زمینی زندگی کے اختتام تک وفاداری سے میدانی خدمت کرتی رہی تھیں۔‏

جرمنی میں ۱۹۵۵ کا نیورمبرگ کنونشن ایک خاص کنونشن ثابت ہوا۔‏ ہمارے یہاں آنے کے بعد،‏ ڈریسڈن سے بھائیوں نے ایریکا کو بتایا کہ اس کی والدہ بھی کنونشن پر موجود ہیں۔‏ چونکہ اس وقت ڈریسڈن مشرقی جرمنی کے تحت تھا اسلئے ایریکا نے اپنی والدہ کو ۲۱ سال سے نہیں دیکھا تھا۔‏ انکے ملنے کا بندوبست بنایا گیا اور وہ دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔‏ وہ بچھڑے ہوؤں کا خوش‌کُن ملاپ تھا!‏

وقت کیساتھ ہمارا خاندان آٹھ بچوں تک بڑھ گیا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بیٹوں میں سے ایک کار ایکسیڈنٹ میں جان‌بحق ہو گیا۔‏ تاہم،‏ اپنے باقی بچوں کو یہوواہ کی خدمت کرتے دیکھنا بڑی خوشی کا باعث ہے۔‏ ہم خوش ہیں کہ ہمارا بیٹا وولف گینگ اور اس کی بیوی سرکٹ کے کام میں ہیں اور انکا بیٹا بھی سرکٹ اوورسیئر کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔‏

نیدرلینڈز میں یہوواہ کے کام کی ترقی دیکھکر مَیں شکرگزار ہوں۔‏ جب مَیں نے ۱۹۳۳ میں یہاں پائنیر خدمت شروع کی تھی تو اسوقت یہاں تقریباً ایک سو گواہ تھے۔‏ آجکل،‏ ۰۰۰،‏۳۰ سے زائد گواہ ہیں۔‏ اس وقت ہماری طبعی قوت کے ماند پڑ جانے کے باوجود ایریکا اور مَیں گزرے دنوں کے گیت کے الفاظ کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے پُرعزم ہیں:‏ ”‏اَے کاش،‏ ایمان کمزور نہ ہو جائے۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 گیت ۱۹۴—‏یہوواہ کے حضور حمد کے گیت ‏(‏۱۹۲۸)‏۔‏

^ پیراگراف 7 کوپٹس کا قصبہ اب پائرنا کہلاتا ہے اور دریائے ایلبی پر ڈریسڈن کے شہر سے ۱۸ کلومیٹر دُور واقع ہے۔‏

^ پیراگراف 38 بھائی فان ڈر بال کی سوانح حیات،‏ ”‏سچائی سے بڑھکر کوئی اَور چیز نہیں ہے،‏“‏ دی واچ‌ٹاور جنوری ۱،‏ ۱۹۹۸ میں دیکھی جا سکتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

میدانی خدمت کے بعد وقفے کے دوران ”‏یوگینٹ‌گروپ“‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

ساتھی پائنیروں اور مَیں نے شنائفل کے علاقے کا احاطہ کِیا۔‏ اُس وقت میری عمر ۲۰ سال تھی

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

۱۹۴۰ میں ایریکا اور وولف‌گینگ کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

بائیں سے دائیں:‏ میرا پوتا جوناتھن اور اسکی بیوی،‏ مریم؛‏ ایریکا،‏ مَیں،‏ میرا بیٹا،‏ وولف‌گینگ اور اس کی بیوی،‏ جولیا

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ایک بھائی جس نے میرے والد کیساتھ قید میں ۱۹۴۱ میں انکی تصویر بنائی تھی