کیا بائبل اخلاقیت بہترین ہے؟
کیا بائبل اخلاقیت بہترین ہے؟
”معاشرے کو اپنے ارکان کی حفاظتوراہنمائی کیلئے بنیادی اقدار کے ایک ڈھانچے کی ضرورت ہے۔“ یہ ایک تجربہکار جرمن مصنف اور ٹیلیوژن براڈکاسٹر کا تبصرہ تھا۔ یہ بات واقعی معقول ہے۔ انسانی معاشرے کو مستحکم اور خوشحال بنانے کیلئے، لوگوں کے پاس عام طور پر قابلِقبول معیاروں کی ٹھوس بنیاد ہونی چاہئے جو اچھے اور بُرے یا صحیح اور غلط کی شناخت کرے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے معیار معاشرے اور اُسکے ارکان کیلئے بہترین ہیں؟
اگر بائبل کی اخلاقی اقدار کو معیار مان لیا جائے تو انہیں مستحکم اور خوشحال زندگیاں گزارنے میں لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔ اِن اقدار کی پابندی کرنے سے ایک خوشحال اور مستحکم معاشرہ تشکیل پانا چاہئے۔ کیا معاملہ ایسا ہی ہے؟ آئیے غور کریں کہ دو اہم مسائل کی بابت بائبل کیا بیان کرتی ہے: بیاہتا زندگی میں وفاداری اور روزمرّہ زندگی میں دیانتداری۔
اپنے ساتھی سے جُدا نہ ہوں
ہمارے خالق نے آدم کے لئے حوا کو اُس کے ساتھی کے طور پر خلق کِیا۔ اُنکا ملاپ تاریخ میں سب سے پہلی شادی تھی اور اِسے ایک پائیدار رشتہ ہونا تھا۔ خدا نے کہا: ”مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑیگا اور اپنی بیوی سے ملا رہیگا۔“ کوئی ۰۰۰،۴ سال بعد یسوع مسیح نے اپنے تمام پیروکاروں کیلئے اِسی ازدواجی پیدایش ۱:۲۷، ۲۸؛ ۲:۲۴؛ متی ۵:۲۷-۳۰؛ ۱۹:۵۔
معیار کو دہرایا۔ اِسکے علاوہ، اُس نے شادی کے باہر جنسی تعلقات کی مذمت بھی کی۔—بائبل کے مطابق، ایک خوشحال شادی کیلئے دونوں ساتھیوں کی طرف سے محبت اور احترام دو اہم کُنجیاں ہیں۔ گھر کے سردار کے طور پر شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی فلاحوبہبود کیلئے بےغرض محبت ظاہر کرے۔ اُسے اپنی بیوی کیساتھ ”تلخمزاجی“ کرنے کی بجائے ”عقلمندی“ سے پیش آنا چاہئے۔ بیوی کو بھی اپنے شوہر کا ’گہرا احترام‘ کرنا چاہئے۔ اگر شادیشُدہ جوڑے اِن اُصولوں کی پیروی کرتے ہیں تو وہ ازدواجی زندگی کے بہتیرے مسائل سے بچ سکتے یا انہیں حل کر سکتے ہیں۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کیساتھ رہنا چاہینگے۔—۱-پطرس ۳:۱-۷؛ کلسیوں ۳:۱۸، ۱۹؛ افسیوں ۵:۲۲-۳۳۔
کیا اپنے بیاہتا ساتھی کے ساتھ وفادار رہنے کا بائبل معیار ایک خوشحال شادی میں معاونت کرتا ہے؟ اِس سلسلے میں جرمنی کے ایک حالیہ سروے کے نتائج پر غور کریں۔ لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ ایک مستحکم شادی کیلئے کون سے عناصر ضروری ہیں۔ سرِفہرست باہمی وفاداری تھی۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرینگے کہ جب بیاہتا اشخاص کو اپنے ساتھیوں کی وفاداری کا یقین ہو تو وہ زیادہ خوشوخرم ہوتے ہیں؟
مسائل کی صورت میں کیا ہو؟
تاہم، اگر شوہر اور بیوی کے درمیان سنگین اختلافات پیدا ہو جائیں تو پھر کیا ہو؟ اگر انکی محبت ٹھنڈی پڑ جائے تو کیا ہو؟ کیا اِن حالات کے پیشِنظر شادی کو ختم کرنا ٹھیک نہیں؟ یا کیا اپنے بیاہتا ساتھی کیساتھ وفادار رہنے کا بائبل معیار اِس صورت میں بھی معقول ثابت ہوتا ہے؟
بائبل مصنّفین سمجھتے تھے کہ تمام شادیشُدہ جوڑوں کو انسانی ناکاملیت کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہوگا۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۸) الغرض، بائبل کے اخلاقی معیاروں پر عمل کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کو معاف کرنے اور باہم ملکر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ، ایسے حالات بھی ہیں—جیساکہ زناکاری یا جسمانی بدسلوکی—جب موزوں طور پر ایک مسیحی علیٰحدگی یا طلاق کی بابت سوچ سکتا ہے۔ (متی ۵:۳۲؛ ۱۹:۹) تاہم، کسی سنگین وجہ کے بغیر یا کسی دوسرے ساتھی کو پانے کیلئے شادی کو فوراً ختم کرنا دوسروں کیلئے ایک خودغرضانہ رُجحان ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یقیناً کسی کی زندگی مستحکم یا پُرمسرت نہیں بنتی۔ آئیے ایک مثال پر غور کریں۔
پیٹر نے محسوس کِیا کہ اُس کی شادی میں اب وہ بات نہیں رہی جو پہلے کبھی تھی *۔ لہٰذا، وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر مونیکا کیساتھ رہنے لگا جو اپنے شوہر کو چھوڑ چکی تھی۔ اِسکا کیا انجام رہا؟ پیٹر کو چند ہی مہینوں میں تسلیم کرنا پڑا کہ مونیکا کے ساتھ رہنا ”اتنا آسان نہیں تھا جتنا وہ سوچتا تھا۔“ کیوں نہیں؟ انسانی تقصیریں اُس کے اِس نئے رشتے میں بھی پُرانے رشتے کی طرح عیاں تھیں۔ اُسکے خودغرض اور جلدبازی میں کئے گئے فیصلے نے اُسے سنگین مالی مشکلات میں ڈال کر صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ اِسکے علاوہ، اُنکی خاندانی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی نے مونیکا کے بچوں کو جذباتی طور پر کچل ڈالا تھا۔
اِس تجربے کی روح سے جب شادی میں خراب موسم آتا ہے تو جہاز کو چھوڑ دینا اسکا حل نہیں ہوتا۔ اِسکے برعکس، طوفان میں خدا کے کلام بائبل کی اخلاقی اقدار کی پابندی اکثراوقات شادی کو قائم اور اسے پُرسکون پانیوں کی سطح پر لے آتی ہے۔ تھامس اور ڈورس کیساتھ یہی ہوا تھا۔
تھامس اور ڈورس کی شادی کو ۳۰ سے زیادہ سال ہو چکے تھے جب تھامس نے شرابنوشی شروع کر دی۔ ڈورس افسردگی کا شکار ہو گئی اور وہ دونوں طلاق کی بابت سوچنے لگے۔ ڈورس نے یہوواہ کی ایک گواہ بہن کو اعتماد میں لیکر بات کی۔ اُس گواہ بہن نے ڈورس کو شادی کی بابت بائبل کا بیان دکھایا اور اُسکی حوصلہافزائی کی کہ جلدبازی سے علیٰحدگی اختیار نہ کرے بلکہ اِس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں اپنے شوہر کیساتھ ملکر کام کرے۔ ڈورس نے ایسا ہی کِیا۔ کچھ ہی مہینوں میں، اُن دونوں نے طلاق پر باتچیت کرنا بند کر دی۔ تھامس اور ڈورس دونوں نے ملکر اپنے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ بائبل کی مشورت کے اطلاق نے اُنکی شادی کو مستحکم بنایا اور اپنے مسائل حل کرنے کیلئے اُنہیں وقت دیا۔
تمام چیزوں میں دیانتداری
اپنے بیاہتا ساتھی کیساتھ وفادار رہنے کیلئے کردار کی مضبوطی اور راست اُصولوں کیلئے محبت ضروری ہے۔ اِس بددیانت دُنیا میں دیانتداری برقرار رکھنے کیلئے بھی یہی خوبیاں ضروری ہیں۔ بائبل دیانتداری کی بابت بہت کچھ بتاتی ہے۔ پولس رسول نے یہودیہ میں پہلی صدی کے مسیحیوں کو لکھا: ”ہم ہر بات میں نیکی [”دیانتداری،“ اینڈبلیو] کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۸) اسکا مطلب کیا ہے؟
ایک دیانتدار شخص دھوکےبازی سے پاک اور سچا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں دیانتدار—صافگو، معقول ہوتا ہے اور جھوٹ یا فریب سے کام نہیں لیتا۔ اِسکے علاوہ، دیانتدار شخص راستی برقرار رکھتا ہے جو اپنے ساتھی انسانوں کو دھوکا نہیں دیتا۔ دیانتدار لوگ بھروسے اور اعتماد کی فضا کو فروغ دیتے ہیں جو صحتمندانہ رُجحانات پیدا کر کے مضبوط انسانی رشتوں کا باعث بنتی ہے۔
کیا دیانتدار لوگ مبارک ہوتے ہیں؟ بیشک، اُنکے پاس اِسکی وجہ ہوتی ہے۔ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی رشوتستانی اور دھوکےبازی کے باوجود—یا پھر شاید اِسی کی وجہ سے—دیانتدار اشخاص کی عموماً دوسرے لوگ بڑی قدر کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے درمیان کئے گئے ایک سروے کے مطابق، ۷۰ فیصد کے جواب میں دیانتداری کی خوبی کو ترجیح دی گئی تھی۔ مزیدبرآں، اپنی عمر سے قطعنظر، دیانتداری اُن لوگوں کے سلسلے میں ایک لازمی خوبی ہے جنہیں ہم اپنا دوست خیال کرتے ہیں۔
کرسٹین کو ۱۲ سال کی عمر سے چوری کرنا سکھایا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر جیبتراش بن گئی۔ وہ وضاحت کرتی ہے: ”ایسے دن بھی ہوتے تھے جب مَیں ڈوئش مارک [۲۰۰،۲ ڈالر] نقد گھر لے کر آتی تھی۔“ تاہم کرسٹین کو کئی بار گرفتار کِیا گیا اور اُسے جیل جانے کا ہمیشہ ڈر رہتا تھا۔ جب یہوواہ کے گواہوں نے وضاحت کی کہ بائبل دیانتداری کی بابت کیا کہتی ہے تو کرسٹین بائبل کے اخلاقی معیاروں سے بہت متاثر ہوئی۔ اُس نے اس نصیحت پر عمل کرنا سیکھا: ”چوری کرنے والا پھر چوری نہ کرے۔“—افسیوں ۴:۲۸۔
کرسٹین نے یہوواہ کی ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لینے کے بعد چوری چھوڑ دی۔ وہ سب باتوں میں دیانتدار رہنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ گواہ دیانتداری اور دیگر مسیحی خوبیوں پر بہت زور دیتے تھے۔ اخبار لاوزِٹس رُونٹشاؤ بیان کرتا ہے: ”دیانتداری، اعتدالپسندی اور پڑوسی کیلئے محبت جیسی اخلاقی خوبیوں کو گواہوں کے ایمان میں بلند مقام حاصل ہے۔“ کرسٹین اپنی زندگی میں اس تبدیلی کے بعد کیسا محسوس کرتی ہے؟ ”مَیں اب بہت خوش ہوں کہ مَیں نے چوری کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب مَیں معاشرے کی ایک باعزت شہری ہوں۔“
پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے
جو لوگ اپنے بیاہتا ساتھیوں کے ساتھ وفادار اور دیانتدار رہتے ہیں وہ نہ صرف خود خوشی حاصل کرتے ہیں بلکہ معاشرے کے لئے بھی فائدہمند ثابت ہوتے ہیں۔ آجر ایسے ملازمین کو پسند کرتے ہیں جو بددیانت نہیں ہوتے۔ ہم سب قابلِبھروسا پڑوسیوں کیساتھ رہنا اور ایماندار دُکانداروں کی دُکانوں سے خریداری کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم رشوتستانی کی مزاحمت کرنے والے سیاستدانوں، پولیس افسران اور ججوں کا احترام نہیں کرتے؟ جب معاشرہ مصلحت کے تحت دیانتداری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اُصولی طور پر ایسا کرتا ہے تو اس سے اسے بڑی حد تک فائدہ پہنچتا ہے۔
اِسکے علاوہ وفادار شادیشُدہ جوڑے مستحکم خاندانوں کی بنیاد ہیں۔ نیز، بیشتر لوگ یورپی سیاستدان سے اتفاق کرینگے جس نے بیان کِیا تھا: ”[روایتی] خاندان آج بھی انسانی تحفظ کیلئے بامقصد پناہگاہ ہے۔“ پُرامن خاندانی اکائی وہ جگہ ہے جہاں بالغوں اور بچوں دونوں کو جذباتی طور پر احساسِتحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا، وفادار رہنے والے بیاہتا ساتھی ایک مستحکم معاشرے کو تعمیر کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
ذرا سوچیں کہ اگر کسی بھی بیاہتا شخص نے اپنے ساتھی کو نہ چھوڑا ہو، عدالت سے طلاق حاصل نہ کی ہو یا بچوں کی تحویل کے سلسلے کے مقدمات نہ ہوں تو سب کو کتنا فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، اگر جیبکترے، اُٹھائیگیر، خوردبُرد کرنے والے، بدعنوان سرکاری اہلکار یا دھوکےباز سائنسدان نہ ہوں تو صورتحال کیسی ہو؟ کیا یہ محض ایک خواب دکھائی دیتا ہے؟ بائبل اور اُس میں متذکرہ مستقبل میں گہری دلچسپی لینے والوں کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ خدا کا کلام وعدہ فرماتا ہے کہ یہوواہ کی مسیحائی زبور ۳۷:۲۹۔
بادشاہت بہت جلد زمین کے تمام انسانی معاشرے پر حکومت کریگی۔ اس بادشاہت کی رعایا کو بائبل اخلاقیات کی مطابقت میں زندگی بسر کرنا سکھایا جائیگا۔ اُس وقت ”صادق زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہینگے۔“—بائبل اخلاقیت ہی بہترین اخلاقیت ہے
پاک صحائف کا جائزہ لینے والے ہزاروں لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بائبل مشورت خدائی حکمت پر مبنی ہے جو انسانی سوچ سے کہیں افضل ہے۔ ایسے لوگ بائبل کو ہماری جدید دُنیا میں زندگی کیلئے قابلِبھروسا اور موزوں خیال کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی مشورت پر عمل کرنے سے اُنکو فائدہ پہنچے گا۔
لہٰذا، ایسے اشخاص بائبل کی اس مشورت پر دھیان دیتے ہیں: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔“ (امثال ۳:۵، ۶) ایسا کرنے سے وہ اپنی زندگیوں میں بہتری لاتے ہیں اور اپنے چوگرد لوگوں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ نیز ”آیندہ کی زندگی“ پر اُنکا اعتماد پُختہ ہوتا ہے جب تمام نوعِانسان بائبل اخلاقیت کی پابندی کرینگے۔—۱-تیمتھیس ۴:۸۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 اِس مضمون میں نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۵ پر عبارت]
بیاہتا زندگی کے طوفان کے سامنے، بائبل معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرنا ایک شادی کو محفوظ رکھتا ہے اور اُسے پُرسکون پانیوں کی سطح پر لے آتا ہے
[صفحہ ۶ پر عبارت]
وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی رشوتستانی کے باوجود—یا پھر شاید اِسی کی وجہ سے—دیانتدار اشخاص کی عموماً قدر کی جاتی ہے