مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏میرے فرمان کو بجا لا اور زِندہ رہ“‏

‏”‏میرے فرمان کو بجا لا اور زِندہ رہ“‏

‏”‏میرے فرمان کو بجا لا اور زِندہ رہ“‏

وہ نوجوان،‏ ذہین ہونے کے علاوہ ”‏خوبصورت اور حسین“‏ بھی تھا۔‏ اُسکے آجر کی بیوی عیاش اور بےحیا تھی۔‏ وہ اِس نوجوان پر عاشق تھی جسکی وجہ سے وہ ہر روز اُسے پھنسانے کی کوشش کرتی تھی۔‏ ”‏ایک دِن یوں ہؤا کہ وہ اپنا کام کرنے کیلئے گھر میں گیا اور گھر کے آدمیوں میں سے کوئی بھی اندر نہ تھا۔‏ تب اُس عورت نے اُسکا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم‌بستر ہو۔‏“‏ لیکن آبائی بزرگ یعقوب کا بیٹا،‏ یوسف اپنا پیراہن فوطیفار کی بیوی کے پاس ہی چھوڑ کر بھاگ گیا۔‏—‏پیدایش ۳۹:‏۱-‏۱۲‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ ہر کوئی آزمائش سے اسطرح نہیں بھاگتا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک نوجوان کے معاملے پر غور کیجئے جسے قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے رات کے وقت گلیوں میں دیکھا تھا۔‏ ایک بدقماش عورت کے بہکاوے میں آکر ”‏وہ فوراً اُس کے پیچھے ہو لیا۔‏ جیسے بیل ذبح ہونے کو جاتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۷:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

مسیحیوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ ”‏حرامکاری سے بھاگو۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸‏)‏ نوجوان مسیحی شاگرد تیمتھیس کے نام پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جوانی کی خواہشوں سے بھاگ۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۲‏)‏ حرامکاری،‏ زناکاری یا جنسی بداخلاقی کی دیگر آزمائشوں کے سامنے ہمیں بھی اِن سے اُسی طرح بھاگنا چاہئے جیسے یوسف فوطیفار کی بیوی سے بھاگا تھا۔‏ ایسا کرنے کے لئے کونسی چیز ہماری مدد کرے گی؟‏ بائبل میں امثال کی کتاب کے ۷ویں باب میں،‏ سلیمان ہمیں گراں‌بہا مشورت پیش کرتا ہے۔‏ وہ نہ صرف بداخلاق لوگوں کے حیلوں سے بچانے والی باتیں بتاتا ہے بلکہ ایک بدچلن عورت کے جھانسے میں آ جانے والے نوجوان کا منظر پیش کرنے سے اُن کے طریقۂ‌کار کی وضاحت بھی کرتا ہے۔‏

‏’‏میرے احکام کو اپنی اُنگلیوں پر باندھ لے‘‏

بادشاہ پدرانہ مشورت کیساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے:‏ ‏”‏اَے میرے بیٹے!‏ میری باتوں کو مان اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھ۔‏ میرے فرمان کو بجا لا اور زندہ رہ اور میری تعلیم کو اپنی آنکھ کی پتلی جان۔‏“‏‏—‏امثال ۷:‏۱،‏ ۲‏۔‏

والدین،‏ بالخصوص والد،‏ اپنے بچوں کو نیک‌وبد کے سلسلے میں خدائی معیاروں کی تعلیم دینے کی خداداد ذمہ‌داری رکھتے ہیں۔‏ موسیٰ نے والدوں کو نصیحت کی تھی:‏ ”‏یہ باتیں جنکا حکم آج مَیں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔‏ اور تُو اِن کو اپنی اولاد کے ذہن‌نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت اِنکا ذکر کِیا کرنا۔‏“‏ (‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ اِسی طرح پولس رسول نے بھی لکھا:‏ ”‏اَے اولاد والو!‏ تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اُنکی پرورش کرو۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ پس،‏ والدین کی ہدایات کی قدر یا توقیر کی جانی چاہئے جن میں خدا کے کلام بائبل میں پائی جانی والی یاددہانیاں،‏ احکام اور قوانین یقیناً شامل ہوتے ہیں۔‏

والدین کی تعلیم‌وتربیت میں دیگر ضوابط—‏خاندانی اصول—‏بھی شامل ہو سکتے ہیں۔‏ یہ اہلِ‌خانہ کی بھلائی کیلئے ہوتے ہیں۔‏ یہ بات درست ہے کہ ہر خاندان کی ضروریات کے پیشِ‌نظر یہ اصول مختلف ہوتے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہ فیصلہ کرنا والدین کا کام ہے کہ اُنکے خاندان کیلئے کونسے اصول مفید ثابت ہونگے۔‏ تاہم اُنکے وضع‌کردہ اصول اکثر اُنکی حقیقی محبت اور فکرمندی کا اظہار ہوتے ہیں۔‏ پس،‏ نوجوانوں کیلئے مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کی طرف سے حاصل ہونے والی صحیفائی تعلیمات کیساتھ ساتھ ان اصولوں کی بھی پابندی کریں۔‏ جی‌ہاں،‏ اِن ہدایات کی ”‏اپنی آنکھ کی پتلی“‏ کی طرح خوب حفاظت کی جانی چاہئے۔‏ یہوواہ کے معیاروں سے رُوگردانی کے مُہلک اثر سے بچنے اور ”‏زندہ“‏ رہنے کا طریقہ یہی ہے۔‏

سلیمان بیان جاری رکھتا ہے:‏ ‏”‏اُن [‏میرے احکام]‏ کو اپنی اُنگلیوں پر باندھ لے۔‏ اُنکو اپنے دل کی تختی پر لکھ لے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۷:‏۳‏)‏ جیسے اُنگلیاں ہر لمحہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہتی ہیں اور ہمارے مقاصد کی انجام‌دہی کیلئے نہایت اہم ہوتی ہیں ویسے ہی صحائف پر مبنی پرورش سے سیکھے ہوئے اسباق یا بائبل کے علم کا حصول مسلسل یاددہانی فراہم کرتا اور ہمارے ہر کام میں راہنمائی کرتا ہے۔‏ ہمیں اِنہیں اپنے دل کی تختی پر لکھ کر اپنی ذات کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔‏

بادشاہ حکمت اور فہم کی اہمیت کو نظرانداز کرنے کی بجائے تاکید کرتا ہے:‏ ‏”‏حکمت سے کہہ تُو میری بہن ہے اور فہم کو اپنا رشتہ‌دار قرار دے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۷:‏۴‏)‏ حکمت خداداد علم کو صحیح استعمال میں لانے کی خوبی ہے۔‏ ہمیں حکمت سے اپنی عزیز بہن کی طرح پیار کرنا چاہئے۔‏ فہم سے کیا مُراد ہے؟‏ یہ کسی معاملے کو مجموعی طور پر اور اُسکے مختلف پہلوؤں کے مابین تعلق کو دیکھکر اُسکے مفہوم کو جاننے اور سمجھنے کی خوبی ہے۔‏ فہم کو ایک جگری دوست کی طرح ہمارے قریب ہونا چاہئے۔‏

ہمیں صحیفائی تربیت کی پابندی اور حکمت‌وفہم سے دوستی کیوں پیدا کرنی چاہئے؟‏ اسلئےکہ ‏”‏[‏خود]‏ کو پرائی عورت سے بچائیں یعنی بیگانہ عورت سے جو چاپلوسی کی باتیں کرتی ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۷:‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ اس سے اجنبی یا بیگانہ—‏بداخلاق شخص—‏کی چاپلوسی اور چرب‌زبانی سے ہماری حفاظت ہوگی۔‏ *

‏’‏ ایک چالاک عورت‘‏ سے نوجوان کی ملاقات

اب اسرائیل کا بادشاہ ایک چشم‌دید واقعہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏مَیں نے اپنے گھر کی کھڑکی سے یعنی جھروکے میں سے باہر نگاہ کی اور مَیں نے ایک بےعقل جوان کو نادانوں کے درمیان دیکھا۔‏ یعنی نوجوانوں کے درمیان وہ مجھے نظر آیا کہ اُس عورت کے گھر کے پاس گلی کے موڑ سے جا رہا ہے اور اُس نے اُسکے گھر کا راستہ لِیا۔‏ دِن چھپے شام کے وقت۔‏ رات کے اندھیرے اور تاریکی میں۔‏“‏‏—‏امثال ۷:‏۶-‏۹‏۔‏

سلیمان جس کھڑکی سے جھانک رہا تھا وہ لکڑی سے بنی ہوئی اور دلکش نقش‌ونگار سے مزین تھی۔‏ شام کے دھندلکے کے بعد گلیوں میں رات کی تاریکی چھا جاتی ہے۔‏ وہ ایک نوجوان کو دیکھتا ہے جسکے آزمائش میں پڑنے کا خاص طور پر خطرہ ہے۔‏ اُس میں فہم‌وبصیرت کی کمی ہے اور اُسکا دل بےایمان ہو چکا ہے۔‏ غالباً،‏ وہ جانتا ہے کہ وہ کس قسم کے علاقے میں آ گیا ہے اور اُسکے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔‏ وہ نوجوان اُسکے گھر کے پاس گلی کے ”‏موڑ“‏ پر آتا ہے۔‏ وہ عورت کون ہے؟‏ اُسکا مقصد کیا ہے؟‏

تیزنظر بادشاہ بیان جاری رکھتا ہے:‏ ‏”‏دیکھو!‏ وہاں اُس سے ایک عورت آ ملی جو دل کی چالاک اور کسبی کا لباس پہنے تھی۔‏ وہ غوغائی اور خودسر ہے۔‏ اُسکے پاؤں اپنے گھر میں نہیں ٹکتے۔‏ ابھی وہ کُوچوں میں ہے۔‏ ابھی بازاروں میں اور ہر موڑ پر گھات میں بیٹھتی ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۷:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

اِس عورت کا لباس ہی اُسکے چال‌چلن کی عکاسی کرتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۳۸:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اُس نے ایک کسبی کی طرح بےحیا لباس پہن رکھا ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ اُسکے دل‌ودماغ میں ”‏مکروفریب“‏ بھرا ہے اور اُسکا منصوبہ نہایت ”‏عیارانہ“‏ ہے۔‏ ‏(‏این امریکن ٹرانسلیشن؛‏ نیو انٹرنیشنل ورشن)‏ وہ غوغائی اور خودسر،‏ باتونی اور ہٹ‌دھرم،‏ بیہودہ اور خودرائے،‏ بےحیا اور گستاخ ہے۔‏ گھر میں ٹکنے کی بجائے وہ بازاروں میں مٹرگشتی کرنا پسند کرتی ہے اور گلی‌کوچوں کے موڑوں پر اپنے شکار پھانستی ہے۔‏ وہ کسی نوجوان کی تاک میں رہتی ہے۔‏

‏’‏میٹھی میٹھی باتیں‘‏

یوں ایک نوجوان کی ملاقات ایک عیار اور بدچلن عورت سے ہوتی ہے۔‏ یہ سارا واقعہ سلیمان کیلئے جاذبِ‌توجہ کیسے بن گیا!‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏اُس نے اُسکو پکڑ کر چوما اور بےحیا منہ سے اُس سے کہنے لگی سلامتی کی قربانی کے ذبیحے مجھ پر فرض تھے۔‏ آج مَیں نے اپنی نذریں ادا کی ہیں۔‏ اِسی لئے مَیں تیری ملاقات کو نکلی کہ کسی طرح تیرا دیدار حاصل کروں۔‏ سو تُو مجھے مِل گیا۔‏“‏‏—‏امثال ۷:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

اِس عورت کی باتیں بڑی چکنی‌چپڑی ہیں۔‏ وہ بڑی بےباکی اور اعتماد سے باتیں کرتی ہے۔‏ وہ اس نوجوان کو پھانسنے کیلئے بڑی سوچ‌سمجھ کر بات کرتی ہے۔‏ سلامتی کی قربانیاں اور دیگر نذریں گذراننے کا ذکر کرنے سے وہ راستبازی اور روحانی طور پر مضبوط ہونے کا اظہار کرتی ہے۔‏ یروشلیم کی ہیکل میں پیش کی جانے والی سلامتی کی قربانیوں میں گوشت،‏ میدہ،‏ تیل اور مے شامل ہوتی تھی۔‏ (‏احبار ۱۹:‏۵،‏ ۶؛‏ ۲۲:‏۲۱؛‏ گنتی ۱۵:‏۸-‏۱۰‏)‏ چونکہ سلامتی کی قربانی گذراننے والے شخص کو اس میں سے اپنا اور اپنے خاندان کا حصہ لینے کی اجازت ہوتی تھی اس لئے وہ یہ لالچ بھی دیتی ہے کہ اُس کے گھر میں کھانےپینے کی افراط ہوگی۔‏ مقصد بالکل واضح ہے:‏ اِس نوجوان کا وقت وہاں بہت اچھا گزرے گا۔‏ وہ اپنے گھر سے اُسی کی تلاش میں نکلی ہے۔‏ اگر کوئی یقین کر سکے تو یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے۔‏ ایک بائبل عالم بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ سچ ہے کہ وہ کسی کی تلاش میں نکلی ہے لیکن کیا وہ واقعی اسی شخص کی تلاش میں ہے؟‏ صرف احمق—‏شاید یہی شخص—‏اُسکا یقین کریگا۔‏“‏

یہ چالباز عورت پُرکشش لباس،‏ چاپلوسی اور بوس‌وکنار ہونے کے علاوہ خوشبو کا سہارا بھی لیتی ہے۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ‏”‏مَیں نے اپنے پلنگ پر کامدار غالیچے اور مؔصر کے سوت کے دھاری‌دار کپڑے بچھائے ہیں۔‏ مَیں نے اپنے بستر کو مُر اور عود اور دارچینی سے مُعطر کِیا ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۷:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اُس نے اپنے بستر کو مصر کے رنگین سوت سے سجایا اور نہایت قیمتی مُر،‏ عود اور دارچینی سے معطر کِیا ہے۔‏

وہ مزید کہتی ہے:‏ ‏”‏آ ہم صبح تک دل‌بھر کر عشق‌بازی کریں اور محبت کی باتوں سے دل بہلائیں۔‏“‏ یہ صرف ملکر اچھا کھانا کھانے کی دعوت نہیں تھی۔‏ وہ ہم‌آغوشی سے لطف‌اندوز ہونے کا وعدہ کرتی ہے۔‏ اس نوجوان کیلئے یہ پیشکش نہایت سنسنی‌خیز اور پُرلطف تھی!‏ وہ اُسے لبھانے کیلئے مزید کہتی ہے:‏ ‏”‏کیونکہ میرا شوہر گھر میں نہیں۔‏ اُس نے دُور کا سفر کِیا ہے۔‏ وہ اپنے ساتھ روپے کی تھیلی لے گیا ہے اور پورے چاند کے وقت گھر آئیگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۷:‏۱۸-‏۲۰‏)‏ وہ اُسے یقین دلاتی ہے کہ اُنہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ اُسکا شوہر کاروبار کی غرض سے باہر گیا ہوا ہے اور جلدی واپس نہیں آئیگا۔‏ وہ نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی ماہر ہے!‏ ‏”‏اُس نے میٹھی میٹھی باتوں سے اُسکو پھسلا لِیا اور اپنے لبوں کی چاپلوسی سے اُسکو بہکا لِیا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۷:‏۲۱‏)‏ کوئی یوسف جیسے مضبوط کردار کا مالک ہی ایسی آزمائش سے بچ سکتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۳۹:‏۹،‏ ۱۲‏)‏ کیا یہ نوجوان اس معیار پر پورا اُترتا ہے؟‏

‏’‏ جیسے بیل ذبح ہونے کو جاتا ہے‘‏

سلیمان بیان کرتا ہے کہ ‏”‏وہ فوراً اُس کے پیچھے ہو لیا۔‏ جیسے بیل ذبح ہونے کو جاتا ہے یا بیڑیوں میں احمق سزا پانے کو۔‏ جیسے پرندہ جال کی طرف تیز جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ اُسکی جان کے لئے ہے۔‏ حتیٰ‌کہ تیر اُسکے جگر کے پار ہو جائیگا۔‏“‏‏—‏امثال ۷:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

نوجوان اس پیشکش سے انکار نہیں کر پاتا۔‏ وہ سب کچھ بُھلا کر اُس کے پیچھے چل پڑتا ہے ’‏جیسے بیل ذبح ہونے کو جاتا ہے۔‏‘‏ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے انسان کیلئے جسطرح سزا سے فرار ناممکن ہوتا ہے اُسی طرح یہ نوجوان بھی گناہ میں اُلجھ جاتا ہے۔‏ جب تک ”‏تیر اُسکے جگر کے پار“‏ نہیں ہو جاتا یعنی جبتک اُسے کوئی مُہلک زخم نہیں لگتا تب تک وہ خطرے کو دیکھ نہیں پاتا۔‏ حقیقی معنوں میں اُسکی موت بھی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ وہ جنسی طور پر لگنے والی جان‌لیوا بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔‏ * اس زخم سے اُسکی روحانی موت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ”‏اُس کی جان کے لئے ہے۔‏“‏ خدا کے خلاف سنگین گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے اُس کا سارا وجود اور زندگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ وہ پھندے کی طرف تیزی سے جانے والے ایک پرندے کی طرح جلد موت کے جال میں پھنس جاتا ہے!‏

‏”‏ اُسکی راہوں کی طرف مائل نہ ہو“‏

آنکھوں دیکھے ماجرے سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے،‏ دانشمند بادشاہ تاکید کرتا ہے:‏ ‏”‏سو اب اَے میرے بیٹو!‏ میری سنو اور میرے مُنہ کی باتوں پر توجہ کرو۔‏ تیرا دل اُسکی راہوں کی طرف مائل نہ ہو۔‏ تُو اُسکے راستوں میں گمراہ نہ ہونا۔‏ کیونکہ اُس نے بہتوں کو زخمی کرکے گِرا دیا ہے۔‏ بلکہ اُسکے مقتول بےشمار ہیں۔‏ اُسکا گھر پاتال کا راستہ ہے اور موت کی کوٹھریوں کو جاتا ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۷:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

سلیمان واضح طور پر بدچلن عورت کی مُہلک راہوں سے کنارہ کرکے ”‏زندہ“‏ رہنے کی نصیحت کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۷:‏۲‏)‏ ہمارے زمانے کیلئے یہ نصیحت کتنی بروقت ہے!‏ ایسی جگہوں پر جانے سے بھی گریز کرنا چاہئے جہاں اپنے شکار کی گھات میں بیٹھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔‏ آپ ایسی جگہوں پر جانے سے اُنکی ترکیبوں کا نشانہ کیوں بنیں؟‏ بیشک،‏ آپ کو ’‏دل میں بُری خواہش‘‏ کو آنے اور ”‏بیگانہ“‏ کی راہوں میں بھٹکنے کی اجازت کیوں دینی چاہئے؟‏

بادشاہ نے جس ”‏بیگانہ عورت“‏ کو دیکھا اُس نے نوجوان شخص کو ”‏محبت کی باتوں سے دل“‏ بہلانے کی پیشکش کرکے پھنسایا تھا۔‏ کیا بہتیرے نوجوانوں—‏بالخصوص لڑکیوں—‏کو اسی طرح نہیں پھنسایا جاتا؟‏ لیکن ذرا غور کریں:‏ جب کوئی آپکو جنسی بداخلاقی کیلئے ورغلاتا ہے تو کیا یہ سچی محبت ہوتی ہے یا محض جنسی ہوس؟‏ ایک عورت سے سچی محبت کرنے والا مرد اُس پر مسیحی تربیت اور ضمیر کے خلاف قدم اُٹھانے کا دباؤ کیوں ڈالیگا؟‏ سلیمان تاکید کرتا ہے کہ ’‏تیرا دل ان راہوں سے کبھی نہ ہٹے۔‏‘‏

ہر فریبی بڑی چکنی‌چپڑی باتیں کرتا ہے۔‏ حکمت اور فہم کی مدد سے ہم ان کی جانچ کرنے کے قابل ہونگے۔‏ یہوواہ کے فرمان کو ہرلمحہ یاد رکھنا ہمارے لئے باعثِ‌تحفظ ہوگا۔‏ پس،‏ دُعا ہے کہ ہم تمام حالات میں ’‏خدا کے حکموں پر عمل کریں اور ہمیشہ زندہ رہیں۔‏‘‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 11 لفظ ”‏بیگانہ“‏ شریعت سے مُنہ موڑ کر یہوواہ سے منحرف ہو جانے والے لوگوں کیلئے استعمال ہوتا تھا۔‏ لہٰذا،‏ ایک کسبی جیسی بدکار عورت کو ایک ”‏بیگانہ عورت“‏ کہا گیا ہے۔‏

^ پیراگراف 24 بعض جنسی بیماریاں جگر کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ آتشک کے آخری مراحل میں بیکٹیریا جگر کو خراب کر دیتے ہیں۔‏ نیز سوزاک سے جگر میں سوزش ہو جاتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویریں]‏

آپ والدین کے وضع‌کردہ اصولوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

خدائی احکام کی پابندی کا مطلب زندگی ہے