مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بائبل—‏مقبول اور مسدود

بائبل—‏مقبول اور مسدود

بائبل‏—‏مقبول اور مسدود

‏”‏میری خواہش ہے کہ مُقدس کتابوں کا ترجمہ تمام زبانوں میں کِیا جائے،‏“‏ ۱۶ ویں صدی کے مشہور ڈچ سکولر ڈیزیڈیریس ایراسمس نے تحریر کِیا۔‏

ایراسمس کی سب سے بڑی تمنا یہ تھی کہ ہر شخص صحائف کو پڑھ کر سمجھ سکے۔‏ تاہم،‏ بائبل کے مخالفین نے ایسے نظریے کی پُرزور مخالفت کی۔‏ درحقیقت،‏ اُس زمانے میں یورپ،‏ بائبل میں ذرا سی دلچسپی لینے والے لوگوں کیلئے بھی ایک خطرناک خطہ تھا۔‏ انگلینڈ میں پارلیمنٹ نے ایک قانون وضع کر دیا تھا جسکے مطابق ”‏صحائف کو انگریزی زبان میں پڑھنے والے تمام اشخاص کو زمین،‏ جائیداد،‏ مال‌ومتاع اور اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑینگے .‏ .‏ .‏ اور اگر وہ اس ہٹ‌دھرمی سے باز نہ آئے یا معاف کئے جانے کے بعد پھر ایسا کرتے پائے گئے تو انہیں پہلے تو بادشاہ کے خلاف بغاوت کی سزا میں پھانسی دی جائیگی اور اسکے بعد خدا کی مخالفت کرنے کے جرم میں جلا دیا جائیگا۔‏“‏

برّاعظم یورپ میں،‏ کیتھولک مذہبی عدالت فرانسیسی ولندیزیوں جیسے ”‏مُلحد“‏ فرقوں کے لوگوں کو اذیت دینے کیلئے بڑی بیرحمی سے ڈھونڈتی تھی کیونکہ ”‏اناجیل اور رسولوں کے خطوط اور دیگر پاک صحائف سے منادی کرنا اُنکا دستور تھا .‏ .‏ .‏ جبکہ عام آدمی کے سامنے پاک صحائف کی منادی اور تشریح کرنا قعطاً ممنوع تھا۔‏“‏ بائبل سے محبت رکھنے کی وجہ سے بیشمار مردوزن کو اذیتناک تکلیف اور موت کا سامنا کرنا پڑا۔‏ انہیں خداوند کی دُعا یا دس احکام دہرانے اور اپنے بچوں کو سکھانے کے جرم میں بھی سخت جرمانوں کا خطرہ مول لینا پڑتا تھا۔‏

تاہم سمندر پار شمالی امریکہ میں آباد ہو جانے والے بہت سے تارکین‌وطن نے خدا کے کلام کے لئے عقیدت کو اپنے دلوں میں زندہ رکھا۔‏ کتاب اے ہسٹری آف پرائیویٹ لائف—‏پیشنز آف دی رنیسنز کے مطابق،‏ امریکہ کے ابتدائی دور میں ”‏پڑھائی اور مذہب کا چولی‌دامن کا ساتھ تھا جس نے ایک ایسی ثقافت کو جنم دیا جس کی واحد بنیاد بائبل علم تھی۔‏“‏ دراصل ۱۷۶۷ میں باسٹن سے شائع ہونے والے ایک وعظ نے تجویز کِیا:‏ ”‏پاک صحائف کی پڑھائی میں مستعد رہیں۔‏ آپ کو صبح‌وشام بائبل سے ایک باب ضرور پڑھنا چاہئے۔‏“‏

ونٹورا،‏ کیلیفورنیا میں بارنا ریسرچ گروپ کے مطابق،‏ ۹۰ فیصد امریکیوں کے پاس اوسطاً تین بائبلیں موجود ہیں۔‏ تاہم،‏ ایک حالیہ مشاہدے کے مطابق اگرچہ اب بھی وہاں بائبل کا گہرا احترام کِیا جاتا ہے لیکن ”‏اُس کی پڑھائی،‏ مطالعے اور اطلاق میں وقت صرف کرنا .‏ .‏ .‏ ماضی کی بات ہے۔‏“‏ بیشتر صرف اُس کی بابت سطحی علم رکھتے ہیں۔‏ ایک اخبار کے کالم‌نگار نے بیان کِیا:‏ ”‏یہ سوچ شاذونادر ہی پائی جاتی ہے کہ [‏بائبل]‏ کا حالیہ مسائل اور معاملات سے کوئی قریبی تعلق ہو سکتا ہے۔‏“‏

دُنیاوی رُجحان

ایک عام خیال یہ ہے کہ ہم محض استدلال اور انسانی تعاون کی بنیاد پر ایک کامیاب زندگی بسر کر سکتے ہیں۔‏ بائبل کو محض حقائق اور سچائی بیان کرنے والی کتاب کی بجائے مذہبی آراء اور ذاتی تجربات پر مبنی کئی کتابوں میں سے ایک خیال کِیا جاتا ہے۔‏

تاہم،‏ لوگ زندگی کے بڑھتے ہوئے پیچیدہ اور پریشان‌کُن مسائل سے کیسے نپٹتے ہیں؟‏ وہ مضبوط اخلاقی اور مذہبی ہدایت‌وراہنمائی سے عاری روحانی خلا میں کارفرما ہیں۔‏ وہ بےپتوار جہازوں کی مانند بن گئے ہیں جو ”‏آدمیوں کی بازیگری اور مکاری کے سبب سے .‏ .‏ .‏ ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے [‏پھرتے]‏“‏ ہیں۔‏—‏افسیوں ۴:‏۱۴‏۔‏

اب سوال یہ ہے کہ کیا بائبل محض ایک عام مذہبی کتاب ہے؟‏ کیا یہ عملی اور ضروری معلومات پر مشتمل واقعی خدا کا کلام ہے؟‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ کیا بائبل ہمارے غوروفکر کی مستحق ہے؟‏ اگلا مضمون اِن سوالات پر بات کریگا۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

ڈیزیڈیریس ایراسمس

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Deutsche Kulturgeschichte From the book

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

ولندیزی صحائف کی منادی کرنے کی وجہ سے اذیت کا نشانہ بنے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Stichting Atlas van Stolk, Rotterdam