مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏تم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا‘‏

‏’‏تم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا‘‏

میری کہانی میری زبانی

‏’‏تم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا‘‏

از ہربرٹ جےنگز

‏”‏گھانا میں ٹیما کی بندرگاہ سے واپس واچ ٹاور سوسائٹی کے برانچ آفس جاتے ہوئے مَیں نے راستے میں ایک نوجوان شخص کو لفٹ دی جو شہر جانا چاہتا تھا۔‏ مَیں نے اُسے گواہی دینے کے موقع سے فائدہ اُٹھایا۔‏ مَیں سوچ رہا تھا کہ مَیں بڑی عمدگی سے یہ کام کر رہا تھا!‏ تاہم،‏ جب ہم اس نوجوان شخص کی منزلِ‌مقصود تک پہنچے تو وہ ٹرک سے باہر نکل کر بھاگنے لگا۔‏“‏

میرے لئے مذکورہ‌بالا واقعہ ایک اشارہ تھا کہ میری زندگی

میں کچھ ہونے کو ہے۔‏ اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے،‏ مَیں آپکو یہ بتانا چاہونگا کہ ایک کنیڈین ہوتے ہوئے مَیں گھانا میں کیسے پہنچا تھا۔‏

وہ ۱۹۴۹،‏ کینیڈا،‏ ٹرانٹو کے شمال میں ایک نواحی آبادی میں دسمبر کے وسطی دن تھے۔‏ ہم ایک نئے گھر میں پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے کئی فٹ گہری کھدائی ختم کر چکے تھے۔‏ ہم سردی اور تھکان سے چُور،‏ لکڑیوں کی آگ کے گرد سمٹ کر بیٹھے ٹرک کا انتظار کر رہے تھے جس پر ہم نے سوار ہونا تھا۔‏ اچانک ایک ساتھی کارکُن آرنلڈ لارٹن ”‏لڑائیوں اور لڑائیوں کی افواہ،‏“‏ ”‏اس دُنیا کے خاتمے“‏ اور کچھ ایسے ہی دیگر اظہارات کی بابت بات‌چیت کرنے لگا جو میرے لئے بالکل نئے تھے۔‏ یکایک سب خاموش ہو گئے،‏ بعض متذبذب نظر آنے لگے اور بعض نے اسکی مخالفت شروع کر دی۔‏ مجھے یاد ہے کہ مَیں سوچنے لگا،‏ ’‏یہ شخص تو بہت بہادر ہے!‏ یہاں پر کوئی اس کی بات سننے کو تیار ہی نہیں اور وہ پھربھی بولے جا رہا ہے۔‏‘‏ تاہم اس کی باتوں نے مجھے متاثر کِیا۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم کو ختم ہوئے کچھ ہی سال گزرے تھے اور مَیں نے کرسٹاڈلفین مذہب میں ایسی باتیں کبھی نہیں سنی تھیں جو کئی صدیوں سے میرے خاندان کا حصہ تھا۔‏ مَیں اس کی وضاحت سے متاثر ہوا اور غور سے سننے لگا۔‏

مَیں نے مزید معلومات کیلئے آرنلڈ سے ملنے میں زیادہ دیر نہ کی۔‏ اب مجھے یاد آتا ہے کہ وہ اور اُسکی بیوی جین،‏ مجھ جیسے ۱۹ سالہ ناتجربہ‌کار نوجوان کے ساتھ کتنی مہربانی اور صبر سے پیش آتے تھے۔‏ مَیں ان سے بات‌چیت کرنے کیلئے اکثر بن‌بلائے اچانک انکے گھر چلا جاتا تھا۔‏ انہوں نے صحیح سمت میری راہنمائی کی اور معیاروں اور اخلاقیات کی بابت میرے ناپُختہ ذہن میں جاری تصادم کو ختم کرنے میں میری مدد کی۔‏ سڑک کے کنارے،‏ لکڑیوں کی اس آگ کے نزدیک پیش آنے والے اس واقعہ کے دس ماہ بعد،‏ مَیں نے اکتوبر ۲۲،‏ ۱۹۵۰ میں یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا اور نارتھ یارک میں ولوڈیل کلیسیا سے رفاقت قائم کی،‏ جو اب ٹرانٹو کا حصہ ہے۔‏

ساتھی پرستاروں کیساتھ ترقی کرنا

جب میرے والد سمجھ گئے کہ مَیں اپنے نئے ایمان پر قائم رہنے کا عزم رکھتا ہوں تو گھریلو زندگی میں دباؤ بتدریج بڑھتا گیا۔‏ والد کا حال ہی میں ایک ایسے ڈرائیور کی گاڑی کیساتھ ایکسیڈنٹ ہوا تھا جو کہ نشے میں تھا۔‏ اس حادثے کے بعد وہ اکثر چڑچڑے ہو جاتے تھے۔‏ میری والدہ،‏ میرے دو بھائی اور دو بہنوں کیلئے زندگی مشکل تھی۔‏ بائبل سچائی کے سلسلے میں دباؤ کی شدت بڑھ گئی۔‏ لہٰذا،‏ اپنے والدین کیساتھ امن قائم کرنے اور ”‏راہِ‌حق“‏ پر قائم رہنے کی خاطر مَیں نے گھر چھوڑنا مناسب سمجھا۔‏—‏۲-‏پطرس ۲:‏۲‏۔‏

مَیں نے ۱۹۵۱ کے موسمِ‌گرما کے آخر تک کولمون،‏ البرٹا کی ایک چھوٹی کلیسیا سے رفاقت شروع کر دی تھی۔‏ وہاں پر دو نوجوان،‏ راس ہنٹ اور کیت رابنز کُل‌وقتی عوامی منادی میں مصروف تھے جو باقاعدہ پائنیر کہلاتے تھے۔‏ انہوں نے اپنے جیسی رضاکارانہ خدمتگزاری اپنانے میں میری مدد کی۔‏ مَیں بھی مارچ ۱،‏ ۱۹۵۲ میں باقاعدہ پائنیر بن گیا۔‏

مَیں حاصل ہونے والی حوصلہ‌افزائی کو خوشی سے یاد کرتا ہوں۔‏ مجھے بہت کچھ سیکھنا تھا اور یہ میرے لئے تجربہ حاصل کرنے کی بہترین جگہ ثابت ہوئی۔‏ لتھ‌برچ کلیسیا،‏ البرٹا میں تقریباً ایک سال پائنیر خدمت کرنے کے بعد مجھے سفری نگہبان کی خدمت کرنے کی غیرمتوقع دعوت حاصل ہوئی۔‏ مجھے کینیڈا کے مشرقی ساحل،‏ مانک‌ٹن،‏ نیو برنزوک سے لیکر گیس‌پے،‏ کیوبک تک کے مختلف علاقوں میں دور دور واقع یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں خدمت کرنی تھی۔‏

ان پُختہ گواہوں کے مقابلہ میں جن کے ساتھ مجھے خدمت کرنی تھی،‏ مَیں خود کو نااہل محسوس کرتا تھا کیونکہ میری عمر صرف ۲۴ سال تھی اور مَیں سچائی میں نسبتاً نیا تھا۔‏ مَیں نے اگلے کئی مہینوں تک مستعدی سے کوشش کی۔‏ پھر ایک اَور حیرت‌انگیز بات واقع ہوئی۔‏

گلئیڈ سکول سے گولڈ کوسٹ کی جانب

مجھے ستمبر ۱۹۵۵ میں ساؤتھ لانسنگ،‏ نیو یارک میں واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۲۶ ویں کلاس میں تقریباً سو طالبعلموں کیساتھ دعوت ملی۔‏ ہمیں اس پانچ ماہ کی پُرزور تربیت اور مطالعے کی واقعی ضرورت تھی۔‏ میرا جذبہ اس انتہائی متحرک گروپ کیساتھ رہنے سے اور بھی مضبوط ہوا۔‏ اسی دوران میرے ساتھ ایک اَور واقعہ پیش آیا جس سے میری زندگی ہی بدل گئی۔‏

مشنری خدمت کے لئے تیاری کرنے والے طالبعلموں میں ایک نوجوان بہن آلین سٹ‌بز بھی تھی۔‏ مجھے آلین میں ایک خاص استحکام،‏ سنجیدہ عملی رُجحان اور ایک فروتن اور خوشگوار میلان نظر آیا۔‏ مجھے لگتا ہے کہ مَیں نے اس سے شادی کرنے کے ارادے کا اظہار کر کے اسے ڈرا دیا۔‏ تاہم،‏ وہ ڈر کر بھاگی نہیں!‏ باہمی رضامندی سے آلین نے کوسٹاریکا میں اور مَیں نے گولڈ کوسٹ (‏اب گھانا)‏ جنوبی افریقہ میں اپنی اپنی مشنری تفویض پر جانے کا فیصلہ کِیا۔‏

مئی ۱۹۵۶،‏ کی ایک صبح مَیں نے بروکلن نیو یارک میں دسویں منزل پر بھائی ناتھن نار کے دفتر میں خود کو موجود پایا۔‏ اُس وقت وہ واچ ٹاور سوسائٹی کے صدر تھے۔‏ مجھے برانچ خادم کے طور پر گولڈ کوسٹ ٹوگولینڈ (‏اب ٹوگو)‏ آئیوری کوسٹ (‏اب کوٹ ڈی‌آئیوری)‏ اپر وولٹا (‏اب برکینا فاسکو)‏ اور دی گیمبیا میں منادی کے کام کی نگرانی کی تفویض دی جا رہی تھی۔‏

بھائی نار کے وہ الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں جیسے کہ کل ہی کی بات ہو۔‏ انہوں نے کہا،‏ ”‏آپکو فوراً ہی یہ ذمہ‌داری نہیں سنبھالنی۔‏ اس پر سوچنے میں وقت لیں؛‏ وہاں کے تجربہ‌کار بھائیوں سے سیکھیں۔‏ جب آپ محسوس کریں کہ اب آپ تیار ہیں توپھر آپ کو برانچ خادم کے طور پر خدمت شروع کرنی چاہئے۔‏ .‏ .‏ .‏ یہ ہے آپ کی تقرری کا خط۔‏ آپکے پہنچنے کے سات دن بعد آپکو اپنی ذمہ‌داری سنبھالنی ہوگی۔‏“‏

مَیں نے سوچا،‏ ‏’‏صرف سات دن۔‏ کیا ‏”‏اس پر سوچنے میں وقت“‏ لینے کا یہی مطلب تھا؟‏‘‏ اس انٹرویو نے مجھے حیران کر دیا۔‏

اگلے چند دن تیزی سے گزر گئے۔‏ جلد ہی مَیں ایسٹ ریور پر ایک فریٹر کے جنگلے کے پاس کھڑا تھا جو گولڈ کوسٹ تک اپنے ۲۱ دن کا بحری سفر شروع کرتے ہوئے سوسائٹی کے بروکلن دفاتر سے گزرا۔‏

آلین اور مَیں نے خط‌وکتابت جاری رکھی۔‏ ہم ۱۹۵۸ میں پھر ملے اور اسی سال اگست ۲۳ کو ہماری شادی ہوگئی۔‏ مَیں ایسے عمدہ ساتھی کیلئے یہوواہ کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں۔‏

مَیں نے ۱۹ سال تک سوسائٹی کے برانچ دفتر میں ساتھی مشنریوں اور اپنے افریقی بہن‌بھائیوں کیساتھ خدمت کرنے کے اس شرف کی قدر کی۔‏ اسی دوران بیت‌ایل خاندان میں اضافہ ہوا اور ان کی تعداد چند افراد سے بڑھ کر تقریباً ۲۵ ہو گئی۔‏ وہ ہمارے لئے چیلنج‌خیز،‏ تاریخ‌ساز اور نتیجہ‌خیز دن تھے۔‏ تاہم،‏ مجھے صاف‌گوئی سے کام لینا چاہئے۔‏ ذاتی طور پر میرے لئے وہاں کا گرم اور مرطوب موسم ایک خاص چیلنج تھا۔‏ مجھے لگتا تھا کہ مَیں ہمیشہ پسینے سے شرابور رہتا تھا اور بعض‌اوقات چڑچڑا ہو جاتا تھا۔‏ اسکے باوجود،‏ خدمت کرنے سے حقیقی خوشی حاصل ہوتی تھی اور گھانا میں سرگرم منادوں کی ہماری تعداد ۱۹۵۶ میں ۰۰۰،‏۶ سے بڑھ کر ۱۹۷۵ میں ۰۰۰،‏۲۱ ہو گئی۔‏ نیز،‏ اب وہاں ۰۰۰،‏۶۰ سے زیادہ بادشاہتی منادوں کو دیکھ کر اور بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‏

ہمیں ”‏کل“‏ کی توقع نہیں تھی

تقریباً ۱۹۷۰ میں مجھے صحت کے ایک ایسے مسئلے کا تجربہ ہوا جس کی تشخیص میں مشکل پیش آئی۔‏ اپنا تمام طبّی معائنہ کرانے کے بعد مجھ سے محض یہ کہا گیا کہ مَیں ”‏بالکل صحتمند“‏ ہوں۔‏ تو پھر مَیں ہمیشہ بیمار،‏ تھکا ہوا اور بےچین کیوں محسوس کرتا تھا؟‏ جواب دو چیزوں نے فراہم کِیا جو میرے لئے حیران‌کُن تھیں۔‏ واقعی،‏ جیسا کہ یعقوب نے لکھا:‏ تم ”‏یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا۔‏“‏—‏یعقوب ۴:‏۱۴‏۔‏

اسکا پہلا اشارہ میرا وہ تجربہ تھا جو اس نوجوان شخص کے ساتھ پیش آیا جسے مَیں نے اسکے علاقے تک چھوڑا تھا۔‏ میرے وہم‌وگمان میں بھی نہ تھا کہ مَیں مستقل بڑبڑا رہا تھا اور ہر گزرتے ہوئے لمحے کیساتھ مَیں اَور تیز باتیں کر رہا تھا۔‏ جب ہم اس نوجوان شخص کی منزل تک پہنچے تو اسکے ٹرک سے نکل کر بھاگنے پر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔‏ گھانا کے بیشتر لوگ فطرتاً مطمئن اور پُرسکون لوگ ہوتے ہیں جو آسانی سے نہیں گھبراتے۔‏ اسکا ردِعمل اِسکے بالکل برعکس تھا۔‏ مَیں وہاں بیٹھا سوچنے لگا۔‏ مجھے احساس ہوا کہ مَیں مشکل میں ہوں۔‏ تاہم،‏ مَیں نہیں جانتا تھا کہ یہ مشکل کِیا تھی۔‏ لیکن مَیں یقیناً مشکل میں تھا۔‏

دوم،‏ ایک سنجیدہ گفتگو کے بعد آلین نے تجویز پیش کی:‏ ”‏اگر یہ مسئلہ جسمانی نہیں تو پھر ذہنی ہوگا۔‏“‏ لہٰذا مَیں نے احتیاط کیساتھ اپنی بیماری کی تمام علامات لکھ لیں اور ماہرِنفسیات کے پاس چلا گیا۔‏ جب مَیں نے اپنی فہرست پڑھی تو انہوں نے جواب دیا:‏ ”‏یہ تو ایک کلاسک کیس ہے۔‏ آپ ذہنی اختلال کا شکار ہیں۔‏“‏

مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا!‏ اگلے چند سالوں کے دوران کوشش کے باوجود میری حالت تیزی سے بگڑتی گئی۔‏ مَیں اس مسئلہ کا حل تلاش کرتا رہا۔‏ لیکن کوئی بھی اسکے علاج سے واقف نہ تھا۔‏ یہ کوشش بہت مایوس‌کُن ثابت ہوئی!‏

ہماری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی تھی کہ ہم کُل‌وقتی خدمت کے شرف کو زندگی‌بھر کا پیشہ بنائیں اور ابھی تو ہمیں بہت سا کام کرنا تھا۔‏ مَیں نے کئی بار پُرخلوص دلی دُعائیں مانگی:‏ ”‏یہوواہ،‏ اگر آپ چاہیں تو مَیں ’‏زندہ بھی رہونگا اور یہ کام بھی کرونگا۔‏‘‏ “‏ (‏یعقوب ۴:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ ایسا نہیں ہوا۔‏ لہٰذا،‏ حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے،‏ ہم نے جون ۱۹۷۵ میں،‏ گھانا اور اپنے قریبی دوستوں کو چھوڑنے اور کینیڈا واپس جانے کا بندوبست کِیا۔‏

یہوواہ اپنے لوگوں کے وسیلہ مدد فراہم کرتا ہے

مجھے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ مَیں ہی اہم شخص نہیں تھا اور نہ ہی میرا مسئلہ انوکھا تھا۔‏ لہٰذا،‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۹ کے الفاظ میرے ذہن میں آئے:‏ ”‏یہ جان [‏لو]‏ .‏ .‏ .‏ کہ تمہارے بھائی جو دُنیا میں ہیں ایسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔‏“‏ واقعی،‏ یہ بات سمجھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس ناخوشگوار تبدیلی کے باوجود یہوواہ نے کیسے ہماری مدد کی تھی۔‏ ’‏ہمارے بھائیوں‘‏ نے مختلف طریقوں سے عمدگی کیساتھ ہماری مدد کی تھی!‏

اگرچہ،‏ ہم بہت مالدار تو نہیں تھے توبھی یہوواہ نے ہمیں بےیارومددگار نہیں چھوڑا تھا۔‏ اس نے گھانا میں ہمارے دوستوں کو ہماری مادی اور دوسری ضروریات پوری کرنے میں مدد دینے کی تحریک دی۔‏ گہرے اور ناقابلِ‌بیان جذبات کیساتھ ہم نے ان بہن‌بھائیوں کو الوداع کِیا جن کے ہم بہت قریب آ گئے تھے اور اس غیرمتوقع ”‏کل“‏ کا سامنا کرنے کی تیاری کی۔‏

ہمیں آلین کی بہن لینورا اور اسکے شوہر الون فریزن نے اپنے گھر میں اُتارا اور کافی عرصہ تک فراخدلی سے ہماری دیکھ‌بھال کی۔‏ ایک مشہور ماہرِنفسیات نے یہ حوصلہ‌افزا پیشگوئی کی:‏ ”‏آپ چھ ماہ کے اندر اندر ٹھیک ہو جائینگے۔‏“‏ شاید مجھ میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے ایسا کہا گیا تھا کیونکہ چھ سال بعد بھی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔‏ آج بھی مَیں اس بیماری کا مقابلہ کرتا ہوں جسے ذہنی اختلال کا نام دیا گیا ہے۔‏ یقیناً یہ ایک مہذب نام ہے مگر اس سے دوچار لوگ خوب جانتے ہیں کہ ایسا مہذب نام اس بیماری کی ناقابلِ‌برداشت علامات کو کم نہیں کرتا۔‏

اس وقت تک،‏ بھائی نار بھی ایک ایسی بیماری کا شکار ہو گئے تھے جو جون ۱۹۷۷ میں جان لیوا ثابت ہوئی۔‏ اسکے باوجود،‏ انہوں نے مجھے تسلی اور مشورت دینے کیلئے طویل اور حوصلہ‌افزا خطوط لکھنے میں اپنے وقت اور توانائی کو صرف کِیا۔‏ مَیں نے ابھی تک وہ خطوط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔‏ انکے الفاظ وقتاًفوقتاً میرے اندر پیدا ہونے والے ناکامی کے احساسات کی مزاحمت کرنے میں بڑے معاون ثابت ہوئے ہیں۔‏

ہمیں ۱۹۷۵ کے آخر میں اپنی بیش‌قیمت کُل‌وقتی خدمت کو چھوڑ کر اپنی صحت پر توجہ مرکوز کرنی پڑی۔‏ دن کی عام روشنی میری آنکھوں کو تکلیف پہنچاتی تھی۔‏ اچانک پیدا ہونے والی تیز آواز رائفل کی گولیوں کی طرح گونجنے لگتی تھی۔‏ بھیڑ میں جمع لوگوں کے چلنےپھرنے سے مَیں گھبرا جاتا تھا۔‏ میرے لئے مسیحی اجلاسوں پر محض حاضر ہونا ایک حقیقی جدوجہد تھی۔‏ اسکے باوجود مَیں روحانی رفاقت کی قدروقیمت پر پورا اعتماد رکھتا تھا۔‏ اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے مَیں کنگڈم ہال میں عموماً اُس وقت داخل ہوتا تھا جب سب بیٹھ جاتے تھے اور پروگرام کے اختتام پر دوسروں کے اُٹھنے سے پہلے ہی نکل جاتا تھا۔‏

عوامی خدمتگزاری میں حصہ لینا بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔‏ بعض‌اوقات کسی کے گھر تک جانے کے بعد بھی مَیں گھنٹی نہیں بجا سکتا تھا۔‏ تاہم،‏ مَیں نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ مجھے یقین تھا کہ ہماری خدمتگزاری ہمارے لئے اور مثبت جوابی عمل دکھانے والوں کیلئے نجات کا مطلب رکھتی ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۶‏)‏ کچھ دیر بعد،‏ جب مَیں اپنے جذبات پر قابو پانے کے قابل ہو جاتا تو اگلے دروازے تک جا کر دوبارہ کوشش کرتا۔‏ خدمتگزاری میں باقاعدہ شرکت سے مَیں مناسب روحانی صحت قائم رکھ سکا اور اس سے میری مقابلہ کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔‏

دائمی ذہنی اختلال نے مجھے احساس دلایا کہ یہ بیماری اس نظام‌اُلعمل کے دوران مستقل طور پر میری زندگی کا حصہ رہیگی۔‏ اِسکے بعد ۱۹۸۱ میں اویک!‏ * رسالے نے اس مسئلے پر بڑے عمدہ سلسلہ‌وار مضامین شائع کئے۔‏ ان مضامین کی بدولت مَیں اس مرض کو بہتر طور پر سمجھنے لگا اور اس کا مقابلہ کرنے کے زیادہ مؤثر طریقے سمجھ گیا۔‏

مقابلہ کرنا سیکھنا

یہ سب کچھ میری بیوی کے ردوبدل کرنے اور قربانی دینے کے بغیر انجام نہیں پاتا۔‏ اگر آپ کو اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے تو آپ اسکے مشاہدات سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں:‏

‏”‏ذہنی اختلال کی بیماری میں بظاہر اچانک تبدیلی آ سکتی ہے۔‏ اس مرض میں مبتلا شخص جو چند گھنٹے پہلے نئے منصوبے اور خیالات پیش کرتے ہوئے سرگرم اور تقویت‌بخش دکھائی دیتا ہے اب ایک دم تھکےماندے اور منفی سوچ رکھنے والے شخص میں بدل جاتا ہے جسے غصہ بھی آتا ہے۔‏ اگر یہ تسلیم نہ کِیا جائے کہ یہ کیفیت ایک بیماری ہے تو یہ دوسروں میں اشتعال اور حیرانگی کے احساسات پیدا کر سکتی ہے۔‏ واضح طور پر،‏ منصوبوں کو جلد تبدیل کرنا پڑتا ہے اور مایوسی اور استرداد کے احساسات کیساتھ ذاتی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔‏“‏

جہاں تک میرا تعلق ہے تو جب مَیں غیرضروری طور پر بہتر محسوس کرتا ہوں تو پریشانی کا شکار ہو جاتا ہوں۔‏ مجھے جبلّی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ”‏انتہائی خوشی“‏ کی کیفیت ”‏شدید مایوسی“‏ میں بدلنے والی ہے۔‏ مجھے ”‏انتہائی خوشی“‏ کی نسبت ”‏شدید مایوسی“‏ بہتر لگتی ہے کیونکہ یہ مجھے عموماً کئی دنوں تک سُست کر دیتی ہے اور مَیں ہر غیرمناسب طرزِعمل سے محفوظ رہتا ہوں۔‏ آلین مجھے زیادہ جوش میں آنے پر خبردار کرنے اور مایوسی کی کیفیت میں مجھے سہارا دینے سے میری بڑی مدد کرتی ہے۔‏

جب یہ بیماری عروج پر ہوتی ہے تو اپنی ذات میں مگن ہونے کا خطرہ اس قدر حقیقی ہوتا ہے کہ دوسری تمام چیزوں کو نظرانداز کِیا جاتا ہے۔‏ ایسا مریض جب افسردہ ہوتا ہے تو خود کو مکمل طور پر الگ‌تھلگ کر سکتا ہے یا بےچینی کی کیفیت کے دوران دوسروں کے احساسات اور ردِعمل کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے۔‏ میرے لئے ماضی میں اپنے ذہنی اور جذباتی مسئلے کو تسلیم کرنا مشکل تھا۔‏ مجھے اس سوچ سے لڑنا پڑتا تھا کہ اس مسئلے کی وجہ کوئی بیرونی چیز جیساکہ کوئی ناکام کوشش یا ایک دوسرا شخص ہے۔‏ اکثر مجھے خود کو یاد دلانا پڑتا تھا،‏ ’‏میرے اردگرد کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔‏ مسئلہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی تھا۔‏‘‏ میری سوچ بتدریج تبدیل ہو گئی ہے۔‏

ان سالوں کے دوران ہم دونوں نے اپنی صورتحال کی بابت دوسروں کیساتھ اور اپنے ساتھ دیانتداری اور صاف‌گوئی سے کام لینا سیکھا ہے۔‏ ہم ایک مثبت رُجحان قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بیماری کو اپنی زندگی پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔‏

ایک بہتر ”‏کل“‏

ہم پُرخلوص دُعاؤں اور مختلف کوششوں کے بعد یہوواہ کی برکت اور حمایت سے مستفید ہوئے ہیں۔‏ ہم دونوں اب عمررسیدہ ہو چکے ہیں۔‏ مَیں اب باقاعدہ طبّی نگرانی میں پابندی سے تھوڑی بہت ادویات کا استعمال کرتا ہوں اور کافی حد تک صحتمند ہوں۔‏ ہم خدمت کرنے کے ہر شرف کی قدر کرتے ہیں۔‏ مَیں کلیسیائی بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔‏ ہم ہمیشہ دوسرے ہم‌ایمانوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

واقعی،‏ جیساکہ یعقوب ۴:‏۱۴ بیان کرتی ہے:‏ ہم ”‏جانتے نہیں کہ کل کیا ہوگا۔‏“‏ اس نظام‌اُلعمل پر یہ بات صادق آتی ہے۔‏ تاہم،‏ یعقوب ۱:‏۱۲ کی صداقت بھی قائم رہتی ہے:‏ ”‏مبارک وہ شخص ہے جو آزمایش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ تاج حاصل کریگا جسکا خداوند [‏”‏یہوواہ،‏“‏این‌ڈبلیو‏]‏ نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کِیا ہے۔‏“‏ دُعا ہے کہ ہم سب آج بھی ثابت‌قدم رہیں کہ کل یہوواہ جو برکات فراہم کریگا اُنہیں حاصل کریں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 36 اویک!‏ کے مضامین،‏ ”‏آپ زندگی کا مقابلہ کر سکتے ہیں،‏“‏ اگست ۸،‏ ۱۹۸۱،‏ ”‏آپ افسردگی کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں،‏“‏ ستمبر ۸،‏ ۱۹۸۱ اور ”‏شدید افسردگی کے خلاف جدوجہد“‏ اکتوبر ۲۲،‏ ۱۹۸۱ کے شماروں کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

میرے آرٹ سٹوڈیو میں خلوت کی تلاش

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اپنی بیوی آلین کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

ٹیما،‏ گھانا میں ۱۹۶۳ میں منعقد ہونے والی اسمبلی ”‏ابدی خوشخبری“‏ کے دوران