مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ کو اس کا یقین کرنا چاہئے؟‏

کیا آپ کو اس کا یقین کرنا چاہئے؟‏

کیا آپ کو اس کا یقین کرنا چاہئے؟‏

وہ ۱۲ سالہ طالبعلم الجبرا کے بنیادی اُصول کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔‏ اس کے اُستاد نے جماعت کو الجبرے کا بظاہر ایک سادہ سا سوال حل کرنے کے لئے دیا تھا۔‏

اس نے شروع کرتے ہوئے کہا،‏ ”‏ثابت کریں کہ X=Y جبکہ دونوں کی قیمت ۱ کے برابر ہے۔‏“‏

‏’‏یہاں تک تو کوئی مشکل نہیں،‏‘‏ طالبعلم نے سوچا۔‏

تاہم،‏ کچھ دیر بظاہر منطقی جمع‌تفریق کرنے کے بعد اُستاد نے حیران‌کُن نتیجہ اخذ کِیا:‏ ”‏لہٰذا،‏ ۱=۲!‏“‏

‏”‏ثابت کرو کہ یہ غلط ہے،‏“‏ اس نے اپنے حیرت‌زدہ طالبعلموں کو چیلنج کِیا۔‏

وہ نوجوان طالبعلم،‏ الجبرا کے محدود علم کے ساتھ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ اسے غلط کیسے ثابت کر سکتا ہے۔‏ حسابات کا ہر مرحلہ بالکل درست دکھائی دیتا تھا۔‏ پھر کیا اسے اس حیرت‌انگیز نتیجے پر یقین کرنا چاہئے؟‏ بہرصورت اُس کا اُستاد ریاضی میں اس سے زیادہ مہارت رکھتا تھا۔‏ یقیناً اُسے ایسا نہیں کرنا چاہئے!‏ ’‏مجھے اسے غلط ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،‏‘‏ اس نے سوچا۔‏ ’‏فہم‌وفراست ظاہر کرتی ہے کہ یہ غیرمعقول ہے۔‏‘‏ (‏امثال ۱۴:‏۱۵،‏ ۱۸‏)‏ وہ جانتا تھا کہ اُسکا اُستاد اور اُسکے ہم‌جماعت کبھی بھی دو ڈالر کے بدلے میں ایک ڈالر قبول نہیں کرینگے!‏

الجبرے کے اُس طالبعلم نے تھوڑی دیر کے بعد،‏ حساب کرنے کے عمل میں موجود غلطی پکڑ لی۔‏ اس اثنا میں اس تجربہ نے اسے ایک بیش‌قیمت سبق سیکھایا تھا۔‏ ایک بہت زیادہ علم رکھنے والا شخص بھی جب احتیاط کیساتھ تیارکردہ اور بظاہر ناقابلِ‌تردید دلیل پیش کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ سننے والا محض اس بِنا پر اس احمقانہ نتیجے پر یقین کر لے کہ وہ اس وقت اسے غلط ثابت نہیں کر سکتا۔‏ وہ طالبعلم درحقیقت بائبل کے ایک بڑے عملی اُصول کی پیروی کر رہا تھا جو ۱-‏یوحنا ۴:‏۱ میں ملتا ہے—‏بظاہر کسی معتبر ذرائع کی بات کا بھی جلد یقین نہیں کرنا چاہئے۔‏

اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ پہلے سے قائم‌شُدہ نظریات پر ہٹ‌دھرمی سے قائم رہیں۔‏ غلط نقطۂ‌نظر کو درست کرنے والی معلومات کو نظرانداز کرنا غلط ہے۔‏ تاہم،‏ آپ کو زیادہ علم یا اختیار کا دعویٰ کرنے والے شخص کے دباؤ میں آکر اپنی ”‏عقل [‏کو]‏ دفعتہً پریشان“‏ بھی نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۲‏)‏ بِلاشُبہ وہ اُستاد اپنے طالبعلموں کیساتھ ایک چال چل رہا تھا۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات صورتحال اتنی بےضرر نہیں ہوتی۔‏ لوگ حد سے زیادہ ”‏بازیگری اور مکاری“‏ سے کام لے سکتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۴:‏۱۴؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۴،‏ ۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

کیا ماہرین ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں؟‏

ماہرین کے صاحبِ‌علم ہونے کے باوجود ان کے مختلف نظریات اور بدلتی ہوئی آراء ہر شعبے میں نظر آتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ طبّی سائنس میں اس بنیادی مسئلے پر بحث اب تک جاری ہے کہ بیماری کی وجوہات کیا ہیں۔‏ ہارورڈ یونیورسٹی میں طب کے ایک پروفیسر نے تحریر کِیا:‏ ”‏بیماری میں فطرت بالمقابل موروثی اثرات کی نسبتی اہمیت سائنسدانوں میں شدید بحث‌وتکرار کا موضوع ہے۔‏“‏ نظریۂ‌جبریت کے حامیوں کا یقین ہے کہ ہماری جینز مختلف بیماریوں کے لئے ہماری اثرپذیری کا تعیّن کرنے میں فیصلہ‌کُن کردار ادا کرتی ہیں۔‏ تاہم،‏ دوسرے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ماحولیات اور طرزِزندگی ہی انسانی مرضیات کے اہم عناصر ہیں۔‏ دونوں فریقین اپنے نظریہ کی حمایت میں مطالعوں اور اعدادوشمار کا حوالہ پیش کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔‏ اس کے باوجود یہ بحث جاری ہے۔‏

مشہورومعروف مفکر بھی بارہا غلط ثابت ہوئے ہیں جبکہ ایک وقت میں ان کی تعلیم بِلاتذبذب قبول کی جاتی تھی۔‏ فلاسفر برٹرینڈ رسل نے ارسطو کو ”‏سب سے زیادہ اثرورُسوخ رکھنے والے فلسفی“‏ کے طور پر بیان کِیا۔‏ تاہم،‏ رسل نے یہ بھی آشکارا کِیا کہ ارسطو کے بیشتر نظریات ”‏صریحاً غلط“‏ تھے۔‏ اس نے تحریر کِیا کہ ”‏زمانۂ‌جدید میں سائنس،‏ منطق یا فلسفے میں ترقی کی جانب تقریباً جو بھی قدم اُٹھایا گیا ہے وہ ارسطو کے شاگردوں کے نظریات کے بالکل برعکس رہا ہے۔‏“‏—‏ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی۔‏

‏”‏جس علم کو ’‏علم‘‏ کہنا ہی غلط ہے“‏

ابتدائی مسیحی سقراط،‏ افلاطون اور ارسطو جیسے مقبول یونانی مفکروں کے بیشتر شاگردوں سے ملے ہونگے۔‏ اس دَور کے تعلیم‌یافتہ لوگ خود کو بہتیرے مسیحیوں سے زیادہ ذہین سمجھتے تھے۔‏ یسوع کے بیشتر شاگرد ”‏حکیم“‏ خیال نہیں کئے جاتے تھے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۶‏)‏ درحقیقت اس وقت کے فلسفے میں تعلیم پانے والے سمجھتے تھے کہ مسیحیوں کے عقائد محض ”‏بیوقوفی“‏ یا ”‏لغو“‏ ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۳‏۔‏

اگر آپ اُن ابتدائی مسیحیوں میں سے ہوتے تو کیا آپ اس زمانہ کے ممتاز دانشور طبقے کے مدلل دلائل سے متاثر یا ان کی حکمت کے مظاہروں سے بیحد مرعوب ہوتے؟‏ (‏کلسیوں ۲:‏۴‏)‏ پولس رسول کے مطابق ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔‏ اس نے مسیحیوں کو یاددہانی کرائی کہ یہوواہ ”‏حکیموں کی حکمت“‏ اور ”‏عقلمندوں کی عقل“‏ کو بیوقوفی خیال کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۹‏)‏ اس نے پوچھا،‏ ”‏کہاں کا حکیم؟‏ کہاں کا فقیہ؟‏ کہاں کا بحث کرنے والا؟‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۰‏)‏ ان کی تمام‌تر ذہانت کے باوجود،‏ پولس کے زمانہ میں حکیم،‏ فقیہ اور بحث کرنے والے نسلِ‌انسانی کے مسائل کا کوئی حقیقی حل تلاش نہ کر سکے۔‏

لہٰذا،‏ مسیحیوں نے پولس رسول کے مطابق،‏ ”‏جس علم کو ’‏علم‘‏ کہنا ہی غلط ہے اس کی .‏ .‏ .‏ مخالفت“‏ پر توجہ نہیں دی۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰‏)‏ ایسے علم کو ’‏غلط‘‏ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ایک اہم عنصر کی کمی تھی—‏خدا کی طرف سے کوئی معیار یا حوالہ نہیں دیا گیا تھا جس کے ذریعے ان کے نظریات کو پرکھا جا سکے۔‏ (‏ایوب ۲۸:‏۱۲؛‏ امثال ۱:‏۷‏)‏ اس عنصر کی کمی کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے فریبی،‏ ابلیس کے بہکانے پر وہ لوگ جو اس علم کی حمایت کرتے ہیں کبھی بھی سچائی کی تلاش نہیں کر پاتے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۶-‏۸،‏ ۱۴؛‏ ۳:‏۱۸-‏۲۰؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴؛‏ ۱۱:‏۱۴؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏۔‏

بائبل—‏ایک الہامی راہنما

ابتدائی مسیحیوں نے صحائف میں آشکارا خدا کی مرضی،‏ مقصد اور اُصولوں پر کبھی شک نہیں کِیا تھا۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اس سے انہیں ’‏اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب کا شکار ہونے سے‘‏ تحفظ حاصل تھا ’‏جو انسانوں کی روایت کے مؤافق‘‏ ہے۔‏ (‏کلسیوں ۲:‏۸‏)‏ آج بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔‏ آدمیوں کی پیچیدہ اور متضاد آراء کے برعکس،‏ خدا کا تحریری کلام ہمارے اعتقاد کے لئے ایک مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۷؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۳؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۲۱‏)‏ اس کے بغیر ہم ہمہ‌وقت بدلنے والے انسانی نظریات اور فیلسوفیوں پر کوئی مضبوط چیز تعمیر کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہینگے۔‏—‏متی ۷:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

تاہم،‏ کوئی یہ کہہ سکتا ہے،‏ ’‏ذرا ٹھہریں۔‏ کیا یہ سچ نہیں کہ سائنسی حقائق نے بائبل کو غلط ثابت کر دیا ہے،‏ لہٰذا یہ بھی ہمہ‌وقت بدلنے والی انسانی فیلسوفی کی طرح ناقابلِ‌بھروسا ہے؟‏‘‏ مثال کے طور پر،‏ برٹرینڈ رسل بیان کرتا ہے کہ ”‏کوپرنیکس،‏ کیپ‌لر اور گلیلیو کو یہ نظریہ ثابت کرنے کے لئے ارسطو کے ساتھ ساتھ بائبل کے خلاف بھی جانا پڑا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں۔‏“‏ (‏نسخ ہمارا)‏ مثلاً،‏ کیا یہ سچ نہیں کہ تخلیق کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بائبل یہ تعلیم دیتی ہے کہ زمین ۲۴ گھنٹوں کے چھ دنوں میں خلق کی گئی تھی جبکہ تمام حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ زمین کئی بلین سال پُرانی ہے؟‏

حقیقت میں بائبل یہ بیان نہیں کرتی کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔‏ یہ چرچ راہنماؤں کی تعلیم تھی جو خود بھی خدا کے کلام کی پیروی نہیں کرتے تھے۔‏ پیدایش میں تخلیق کی بابت بیان ظاہر کرتا ہے کہ زمین کئی بلین سال پُرانی ہو سکتی ہے اور یہ ہر تخلیقی دن کو ۲۴ گھنٹوں تک محدود نہیں کرتا۔‏ ‏(‏پیدایش ۱:‏۱،‏ ۵،‏ ۸،‏ ۱۳،‏ ۱۹،‏ ۲۳،‏ ۳۱؛‏ ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ دیانتداری سے بائبل کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعی سائنس کی درسی کتاب نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ یہ ”‏لغو“‏ بھی نہیں ہے۔‏ درحقیقت یہ مصدقہ سائنسی حقائق سے پوری طرح ہم‌آہنگ ہے۔‏ *

‏”‏سمجھ کی طاقت“‏

اگرچہ یسوع کے بیشتر شاگرد سادہ‌مزاج اور محدود تعلیمی معیار کے لوگ تھے توبھی ان کے پاس ایک اَور خداداد بخشش موجود تھی۔‏ ان کے پس‌منظر سے قطع‌نظر،‏ ان سب کو سمجھنے کی طاقت اور سوچنے کی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا۔‏ پولس رسول نے اپنے ساتھی مسیحیوں کو اپنی ”‏استدلالی قوت،‏ این‌ڈبلیو‏“‏ کو بروئےکار لاتے ہوئے ”‏خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم [‏کرنے]‏“‏ کی حوصلہ‌افزائی کی تھی۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

خداداد ”‏استدلالی قوت،‏ این‌ڈبلیو‏“‏ کی بدولت ابتدائی مسیحی یہ سمجھنے کے قابل ہوئے تھے کہ خدا کے کلام سے ٹکرانے والی ہر فیلسوفی یا تعلیم بےفائدہ تھی۔‏ بعض معاملات میں اُس زمانے کے دانشمند آدمی حقیقت میں ”‏حق کو .‏ .‏ .‏ دبائے رکھتے“‏ اور خدا کے وجود کو ثابت کرنے والے موجودہ ثبوت کو نظرانداز کرتے تھے۔‏ تاہم،‏ پولس رسول نے تحریر کِیا،‏ ”‏وہ اپنےآپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔‏“‏ اِس لئے کہ اُنہوں نے خدا اور اُس کے مقصد کی بابت سچائی کو رد کر دیا تھا،‏ وہ ”‏باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بےسمجھ دِلوں پر اندھیرا چھا گیا۔‏“‏—‏رومیوں ۱:‏۱۸-‏۲۲؛‏ یرمیاہ ۸:‏۸،‏ ۹‏۔‏

خود کو دانا جتانے والے لوگ اکثر ایسے نتائج اخذ کرتے ہیں کہ ”‏کوئی خدا نہیں“‏ یا ”‏بائبل قابلِ‌بھروسا نہیں“‏ یا ”‏یہ ’‏اخیر زمانہ‘‏ نہیں۔‏“‏ یہ نظریات خدا کے نزدیک اتنے ہی احمقانہ ہیں جتنا کہ ”‏۱=۲۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۱۹‏)‏ لوگ خواہ اپنے اختیار کی بابت کوئی بھی دعویٰ کریں اگر وہ خدا کے خلاف،‏ اس کے کلام کو نظرانداز اور فہم‌وفراست کی خلاف‌ورزی کرتے ہیں تو آپکو اسے قبول کرنے کی ضرورت نہیں۔‏ انجام‌کار دانشمندانہ روش ہمیشہ یہی ہے کہ ”‏خدا سچا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جھوٹا۔‏“‏—‏رومیوں ۳:‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 20 مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لئے،‏ واچ‌ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائع‌کردہ کتابیں دی بائبل—‏گاڈز ورڈ اَور مینز؟‏ اور از دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویریں]‏

بائبل ہمہ‌وقت بدلنے والی انسانی آراء کے برعکس اعتقاد کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Left, Epicurus: Photograph taken by courtesy of the British

‏,Museum; upper middle, Plato: National Archaeological Museum

Athens, Greece; right, Socrates: Roma, Musei Capitolini