کامل ہوکر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہیں
کامل ہوکر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہیں
”وہ تمہارے لئے دُعا کرنے میں ہمیشہ جانفشانی کرتا ہے تاکہ تم کامل ہوکر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہو۔“—کلسیوں ۴:۱۲۔
۱، ۲. (ا) ابتدائی مسیحیوں کی کونسی بات دیگر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی؟ (ب) کلسیوں کی کتاب مشفقانہ دلچسپی کی عکاسی کیسے کرتی ہے؟
یسوع کے پیروکار ساتھی پرستاروں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری اور تیسری صدی س.ع. کے مصنف طرطلیان نے یتیموں، غریبوں اور بوڑھوں کیلئے اُنکی شفقت کا ذکر کِیا تھا۔ ایسی عملی محبت سے متاثر ہو کر بےایمانوں نے مسیحیوں کی بابت کہا کہ ’دیکھو وہ آپس میں کیسی محبت رکھتے ہیں۔‘
۲ کلسیوں کی کتاب پولس اور اپفراس کی طرف سے کُلسّے کے بھائیبہنوں کیلئے ایسی ہی مشفقانہ دلچسپی کی عکاسی کرتی ہے۔ پولس نے اُنہیں لکھا: ”اؔپفراس . . . تمہارے لئے دُعا کرنے میں ہمیشہ جانفشانی کرتا ہے تاکہ تم کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہو۔“ سن ۲۰۰۱ کے دوران یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ آیت کلسیوں ۴:۱۲ ہوگی جو بیان کرتی ہے: ”کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہو۔“
۳. اپفراس نے کن دو چیزوں کیلئے دُعا کی تھی؟
۳ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے عزیزوں کے حق میں اپفراس کی دُعاؤں کے دو پہلو تھے: (۱) وہ ”کامل“ ہوں اور (۲) ”پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم“ رہیں۔ پاک صحائف میں یہ بات ہمارے فائدے کیلئے لکھی گئی ہے۔ پس خود سے پوچھیں، ’مجھے ذاتی طور پر کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہنے کے سلسلے میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ نیز میرے ایسا کرنے کا اثر کیا ہوگا؟‘ آئیے دیکھتے ہیں۔
”کامل“ ہونے کی کوشش کریں
۴. کُلسّے کے مسیحیوں کو کس مفہوم میں ”کامل“ بننے کی ضرورت تھی؟
۴ اپفراس کی بڑی تمنا تھی کہ کُلسّے میں اُس کے روحانی بہنبھائی ”کامل“ ہو جائیں۔ پولس نے جو اصطلاح استعمال کی جس کا ترجمہ یہاں ”کامل“ کِیا گیا ہے وہ اکملیت، بلوغت یا پختگی کا مفہوم پیش کرتی ہے۔ (متی ۱۹:۲۱؛ عبرانیوں ۵:۱۴؛ یعقوب ۱:۴، ۲۵) آپ غالباً اس امر سے واقف ہیں کہ کسی شخص کا یہوواہ کا بپتسمہیافتہ گواہ ہونا لامحالہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ ایک پُختہ مسیحی بھی ہے۔ کُلسّے کے مغرب میں آباد افسیوں کے نام خط میں پولس نے لکھا کہ چرواہے اور اُستاد سب کی مدد کریں تاکہ وہ ”خدا کے بیٹے کے ایمان اور اُس کی پہچان میں ایک . . . ہو جائیں اور کامل انسان . . . بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک . . . پہنچ جائیں۔“ کسی اَور جگہ پر پولس نے مسیحیوں کو ”سمجھ میں جوان“ بننے کی تاکید کی تھی۔—افسیوں ۴:۸-۱۳؛ ۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۰۔
۵. ہم کاملیت کو اپنا نصبالعین کیسے بنا سکتے ہیں؟
۵ اگر کُلسّے میں بعض ابھی روحانی طور پر پُختہ یا کامل نہیں تھے تو اُنہیں اسے اپنا نصبالعین بنانا چاہئے تھا۔ کیا آج بھی ایسا ہی نہیں ہونا چاہئے؟ خواہ ہم عشروں یا تھوڑے ہی عرصے سے بپتسمہیافتہ ہیں، کیا ہم اپنی قوتِاستدلال اور نظریات میں ترقی کو دیکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے بائبل اصولوں پر غور کرتے ہیں؟ کیا خدا اور کلیسیائی مفادات سے متعلق معاملات ہماری زندگی میں زیادہ اہمیت اختیار کر رہے ہیں یا اِنکی وقعت کم ہوتی جا رہی ہے؟ ہم کمال کی جانب بڑھنے کے تمام طریقوں کی وضاحت تو نہیں کر سکتے البتہ دو مثالیں پیشِخدمت ہیں۔
۶. کس ایک حلقے میں کوئی شخص یہوواہ کی طرح کامل بننے کے قابل ہو سکتا ہے؟
۶ پہلی مثال: ممکن ہے کہ ہم نے دوسری نسل، قوم یا خطے کے لوگوں کے لئے تعصّب یا دُشمنی کے ماحول میں پرورش پائی ہے۔ ہم اب جانتے ہیں کہ یہوواہ کسی کا طرفدار نہیں اور ہمیں بھی نہیں ہونا چاہئے۔ (اعمال ۱۰:۱۴، ۱۵، ۳۴، ۳۵) ہماری کلیسیا یا سرکٹ میں، مختلف پسمنظر کے لوگ ہوتے ہیں۔ پس، ہم مختلف پسمنظر سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کیلئے اپنے دل میں کس حد تک منفی احساسات یا شکوک رکھتے ہیں؟ جب کسی فرق پسمنظر والے شخص سے ہمارے خلاف کوئی معمولی سی غلطی یا خطا سرزد ہو جاتی ہے تو کیا ہم فوراً غصے میں آکر اُسکے خلاف منفی باتیں سوچنے لگتے ہیں؟ خود سے پوچھیں، ’کیا مجھے خدا کا غیرجانبدارانہ نظریہ اپنانے کے سلسلے میں زیادہ ترقی کرنے کی ضرورت ہے؟‘
۷. ایک مسیحی کے طور پر کامل بننے میں دوسروں کی بابت کونسا نظریہ اپنانا شامل ہو سکتا ہے؟
۷ دوسری مثال: فلپیوں ۲:۳ کے مطابق ہمیں ”تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ“ نہیں کرنا چاہئے ”بلکہ فروتنی سے . . . دوسرے کو اپنے سے بہتر“ سمجھنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہم کیسی ترقی کر رہے ہیں؟ ہر شخص میں خوبیوں کیساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ اگر ہم پہلے دوسروں کی کمزوریوں کی طرف فوراً متوجہ ہو جاتے تھے تو کیا اب ہم نے اُن سے ”کامل“ بن جانے کی توقع کرنا چھوڑ دینے کی حد تک ترقی کر لی ہے؟ (یعقوب ۳:۲) کیا اب ہم پہلے سے زیادہ ایسے حلقوں کو دیکھنے کے قابل ہیں جن میں دوسرے ہم سے بہتر ہیں؟ ’مَیں مانتا ہوں کہ وہ بہن صبروتحمل کے معاملے میں مجھ سے کہیں بہتر ہے۔‘ ’اُس شخص کا ایمان بہت مضبوط ہے۔‘ ’وہ بھائی یقیناً مجھ سے اچھا اُستاد ہے۔‘ ’وہ بہن اپنے غصے پر قابو پانے کے سلسلے میں مجھ سے بہتر ہے۔‘ غالباً بعض کلسیوں کو ان معاملات میں ترقی کرنے کی ضرورت تھی۔ کیا ہمیں ہے؟
۸، ۹. (ا) اپفراس نے کُلسّے کے مسیحیوں کیلئے کس مفہوم میں کامل ہو کر ”قائم“ رہنے کی دُعا کی تھی؟ (ب) ’کامل ہو کر قائم رہنے‘ کا مستقبل کیلئے کیا مطلب ہو سکتا تھا؟
۸ اپفراس کی دُعا تھی کہ کُلسّے کے مسیحی ”کامل“ ہو جائیں۔ دراصل، خدا سے اپفراس کی دُعا کا مقصد یہ تھا کہ کُلسّے کے مسیحی جس حد تک کامل اور پُختہ بن گئے ہیں اُسی حالت میں ”قائم“ بھی رہیں۔
۹ یہ سوچ درست نہیں ہوگی کہ مسیحی بننے والا ہر شخص، خواہ کتنا ہی پُختہ کیوں نہ ہو، اس روش پر قائم رہیگا۔ یسوع نے بیان کِیا کہ خدا کا ملکوتی بیٹا بھی ”سچائی پر قائم نہیں رہا“ تھا۔ (یوحنا ۸:۴۴) نیز پولس نے کرنتھس کے مسیحیوں کو ایسے لوگوں کی بابت بھی بتایا جو ماضی میں کچھ وقت یہوواہ کی خدمت کرنے کے بعد اُس سے منحرف ہو گئے تھے۔ اُس نے رُوح سے مسحشُدہ بھائیوں کو آگاہ کِیا: ”پس جو کوئی اپنے آپکو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲) اس بات سے یہ دُعا اَور بھی مؤثر ہو جاتی ہے کہ کُلسّے کے مسیحی ”کامل ہوکر“ قائم رہیں۔ کامل یا پُختہ ہو جانے کے بعد اُنہیں قائم رہنے کی بھی ضرورت تھی تاکہ پیچھے نہ ہٹیں، ماندہ نہ ہوں یا گمراہ نہ ہو جائیں۔ (عبرانیوں ۲:۱؛ ۳:۱۲؛ ۶:۶؛ ۱۰:۳۹؛ ۱۲:۲۵) یوں وہ ملاحظہ اور حتمی فیصلے کے دن ”کامل“ پائے جائینگے۔—۲-کرنتھیوں ۵:۱۰؛ ۱-پطرس ۲:۱۲۔
۱۰، ۱۱. (ا) دُعا کے متعلق اپفراس نے ہمارے لئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟ (ب) اپفراس نے جوکچھ کِیا اُسکے مطابق آپ کیا کرنے کا عزم کرینگے؟
۱۰ ہم دوسروں کا نام لیکر اُن کے حق میں خصوصی دُعا کرنے کی اہمیت پر پہلے ہی گفتگو کر چکے ہیں تاکہ یہوواہ اُنکی مدد کرے، اُنہیں تسلی، برکت اور رُوحاُلقدس عنایت کرے۔ کلسیوں کے حق میں اپفراس کی دُعائیں اسی قسم کی تھیں۔ اس سے ہم یہ قابلِقدر مشورہ پاتے ہیں—اور ہمیں پانا بھی چاہئے—کہ یہوواہ سے دُعا میں ہم اپنے لئے کیا مانگ سکتے ہیں۔ یقیناً ہم یہوواہ سے دُعا میں مدد مانگنا چاہینگے تاکہ ہم ذاتی طور پر بھی ”کامل ہو کر“ قائم رہ سکیں۔ کیا آپ اس معاملے میں اُسکی مدد کیلئے دُعا کرتے ہیں؟
۱۱ کیوں نہ دُعا میں اپنی حالت کا ذکر کریں؟ خدا کے سامنے اقرار کریں کہ آپ کس حد تک ”کامل“ یا پُختہ بن گئے ہیں۔ ایسے حلقوں کی نشاندہی کیلئے مدد کے سلسلے میں اُس سے درخواست کریں جن میں آپ کو ابھی روحانی ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ (زبور ۱۷:۳؛ ۱۳۹:۲۳، ۲۴) بِلاشُبہ ایسے حلقے ضرور ہونگے۔ پس حوصلہشکن ہونے کی بجائے، ترقی کرنے میں مدد کے لئے خدا سے واضح الفاظ میں التجا کریں۔ باقاعدگی سے ایسا کرتے رہیں۔ دراصل، کیوں نہ یہ عزم کریں کہ آپ آنے والے ہفتے کے دوران ’کامل ہوکر قائم رہنے‘ کے سلسلے میں تفصیلی دُعا کرینگے۔ نیز سالانہ آیت پر غور کرتے ہوئے اَور زیادہ ایسا کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ اپنی دُعاؤں میں، پیچھے ہٹنے، ماندہ ہو جانے یا خدا کی خدمت اور اُسکے لوگوں سے دُور چلے جانے کے رُجحانات اور ان سے بچنے کے طریقے پر توجہ مُرتکز رکھیں۔—افسیوں ۶:۱۱، ۱۳، ۱۴، ۱۸۔
پُختہ اعتقاد کیلئے دُعا کریں
۱۲. کُلسّے کے مسیحیوں کو ”پورے اعتقاد“ کی خاص ضرورت کیوں تھی؟
۱۲ اپفراس نے ایک اَور چیز کیلئے دُعا کی جو خدا کی مقبولیت میں قائم رہنے کیلئے کُلسّے کے مسیحیوں کے واسطے اشد ضروری تھی۔ ہمارے لئے بھی یہ اتنی ہی ضروری ہے۔ یہ چیز کیا تھی؟ اُس نے دُعا کی کہ وہ ”پورے اعتقاد گلتیوں ۳:۱۹؛ کلسیوں ۲:۸، ۱۶-۱۸۔
کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم“ رہیں۔ وہ کفروالحاد اور تباہکُن فیلسوفیوں سے گِھرے ہوئے تھے جن میں سے بعض نے سچی پرستش کا مغالطہآمیز روپ دھار رکھا تھا۔ مثلاً، اُن پر روزہ رکھنے یا کھانےپینے کے مخصوص دن منانے کا دباؤ تھا جیسے کہ وہ پہلے یہودی مذہب میں کِیا کرتے تھے۔ جھوٹے اُستادوں نے موسیٰ تک شریعت پہنچانے کیلئے استعمال ہونے والی طاقتور مخلوق، فرشتوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تھا۔ ذرا ایسے دباؤ کا تصور کریں! مختلف اقسام کے متضاد نظریات کی بہتات نے ابتری پھیلا رکھی تھی۔—۱۳. کس بات کو تسلیم کرنا کُلسّے کے مسیحیوں کیلئے مفید ہو سکتا تھا اور یہی بات ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
۱۳ پولس نے یسوع مسیح کے کردار پر زور دینے سے ایسے تمام نظریات کی نفی کر دی۔ ”پس جس طرح تم نے مسیح یسوؔع خداوند کو قبول کِیا اُسی طرح اُس میں چلتے رہو۔ اور اُس میں جڑ پکڑتے اور تعمیر ہوتے جاؤ اور جس طرح تم نے تعلیم پائی اُسی طرح ایمان میں مضبوط رہو۔“ واقعی، (کُلسّے کے مسیحیوں کو اور ہمیں بھی) خدا کے مقصد اور ذاتی زندگی میں مسیح کے کردار کی بابت پُختہ اعتقاد رکھنے کی ضرورت تھی۔ پولس نے وضاحت کی: ”اُلوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے۔ اور تم اُسی میں معمور ہو گئے ہو جو ساری حکومت اور اختیار کا سر ہے۔“—کلسیوں ۲:۶-۱۰۔
۱۴. کُلسّے کے مسیحیوں کی اُمید حقیقی کیوں تھی؟
۱۴ کُلسّے کے مسیحی رُوح سے مسحشُدہ تھے۔ وہ آسمانی زندگی کی واضح اُمید رکھتے تھے اور اس اُمید کو تابندہ رکھنے کی اُنکے پاس ہر وجہ موجود تھی۔ (کلسیوں ۱:۵) ”خدا کی مرضی“ کی بدولت ہی وہ اپنی اُمید کے بَر آنے پر پُختہ اعتقاد رکھتے تھے۔ کیا اُن میں سے کسی کو بھی اپنی اُمید پر شُبہ تھا؟ ہرگز نہیں! کیا آجکل زمینی فردوس میں زندگی کے خداداد امکان کے حامل اشخاص کا رُجحان کچھ فرق ہونا چاہئے؟ ہرگز نہیں! یہ یقینی اُمید واضح طور پر ”خدا کی مرضی“ کا حصہ ہے۔ اب اِن سوالوں پر غور کیجئے: اگر آپ ”بڑی مصیبت“ سے زندہ بچنے والی ”بڑی بِھیڑ“ کا حصہ بننے کیلئے کوشاں ہیں تو آپ کی اُمید کسقدر حقیقی ہے؟ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) کیا یہ ”خدا کی پوری مرضی“ پر آپ کے پُختہ اعتقاد کا حصہ ہے؟
۱۵. پولس نے کونسے نکات بیان کئے جن میں اُمید بھی شامل تھی؟
۱۵ ایسی ”اُمید“ کوئی کھوکھلی خواہش یا بےبنیاد حسرت نہیں ہے۔ ہم یہ بات رومیوں کے سامنے پیشکردہ پولس کے سلسلہوار نکات سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تمام نکات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ غور فرمائیں کہ پولس اپنے استدلال میں ”اُمید“ کو کس مقام پر رکھتا ہے: ”مصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کر کہ مصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے۔ اور صبر سے پختگی [”مقبولیت،“ اینڈبلیو] اور پختگی [”مقبولیت،“ اینڈبلیو] سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔ اور اُمید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ رُوحاُلقدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اُسکے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دِلوں میں ڈالی گئی ہے۔“—رومیوں ۵:۳-۵۔
۱۶. جب آپ نے بائبل سچائی سیکھی تو آپ کو کونسی اُمید ملی تھی؟
۱۶ جب یہوواہ کے گواہوں نے پہلی مرتبہ آپکو بائبل کا پیغام سنایا تھا تو ممکن ہے کہ مُردوں کی حالت یا قیامت جیسی کوئی سچائی آپکی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔ بہتیروں کیلئے فردوسی زمین پر زندگی کی بابت بائبل پر مبنی اُمید بالکل ایک نئی بات تھی۔ وہ وقت یاد کریں جب آپ نے پہلی مرتبہ یہ تعلیم سنی تھی۔ کتنی شاندار اُمید—بیماری اور بڑھاپے کا خاتمہ، آپ اپنی محنت کا پھل کھانے کیلئے ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں اور جانوروں کیساتھ بھی صلح ہوگی! (واعظ ۹:۵، ۱۰؛ یسعیاہ ۶۵:۱۷-۲۵؛ یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴) آپ کو نہایت شاندار اُمید ملی تھی!
۱۷، ۱۸. (ا) رومیوں کیلئے پولس کی مشورت اُمید پر کیسے منتج ہوتی ہے؟ (ب) رومیوں ۵:۴، ۵ میں کس قسم کی اُمید کا ذکر ہے اور کیا آپ ایسی اُمید رکھتے ہیں؟
۱۷ شاید آپ کو مخالفت یا اذیت کا سامنا ہوا تھا۔ (متی ۱۰:۳۴-۳۹؛ ۲۴:۹) آجکل بھی کئی ممالک میں گواہوں کے گھروں کو یا تو لوٹا گیا ہے یا پھر اُنہیں اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے پر مجبور کِیا گیا ہے۔ بعض کو اذیت پہنچا کر اُنکا بائبل لٹریچر ضبط کر لیا گیا یا پھر میڈیا کے ذریعے اُنکے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی گئی ہیں۔ آپ نے خواہ کسی بھی طرح کی اذیت کا سامنا کِیا ہو، رومیوں ۵:۳ کے مطابق آپ نے مصیبت میں بھی خوشیوفخر کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہونے سے اچھا ثمر حاصل کِیا تھا۔ پولس کے بیان کی مطابقت میں مصیبت نے آپکے اندر صبر پیدا کر دیا۔ پھر صبر نے مقبولیت پیدا کی۔ آپ جانتے تھے کہ آپ خدا کی مرضی بجا لانے سے حق پر چل رہے ہیں اسلئے آپ کو یقین تھا کہ آپ کو اُس کی مقبولیت حاصل ہے۔ یوں آپکو پولس کی بات کے مطابق ”مقبولیت“ کا احساس ہوا تھا۔ پولس مزید تحریر کرتا ہے کہ ”مقبولیت سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔“ یہ بات شاید کچھ عجیب معلوم ہو۔ پولس نے ”اُمید“ کو سب سے آخر میں کیوں رکھا؟ کیا خوشخبری سننے سے بہت پہلے ہی آپ اُمید نہیں رکھتے تھے؟
۱۸ واضح طور پر، پولس یہاں کامل زندگی سے متعلق ہماری ابتدائی اُمید کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہے۔ اُس نے دراصل نہایت عمیق اور تحریکانگیز بات کی طرف اشارہ کِیا تھا۔ جب ہم وفاداری سے برداشت کرتے اور خدا کی مقبولیت کا احساس رکھتے ہیں تو اس کا ہماری ابتدائی اُمید پر مثبت اور تقویتبخش اثر پڑتا ہے۔ ہماری یہ اُمید اب پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی، پُختہ اور شخصی بن جاتی ہے۔ یہ پُختہ اُمید زیادہ درخشاں بھی ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے تنمن میں سرایت کر جاتی ہے۔ ”اور اُمید سے شرمندگی حاصل
نہیں ہوتی کیونکہ رُوحاُلقدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اُسکے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دِلوں میں ڈالی گئی ہے۔“۱۹. آپ کی اُمید آپ کی بِلاناغہ دُعاؤں کا حصہ کیسے ہونی چاہئے؟
۱۹ اپفراس کی مخلصانہ دُعا یہی تھی کہ کُلسّے میں اُسکے بھائیبہن ”پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی“ بجا لانے سے مستقبل کی اُمید سے سرشار اور مطمئن رہیں۔ ہم سب کو بھی اسی طرح اپنی اُمید کی مضبوطی کے سلسلے میں خدا سے روزانہ منت کرنی چاہئے۔ اپنی ذاتی دُعاؤں میں نئی دُنیا کی بابت اپنی اُمید کو بھی شامل کریں۔ یہوواہ پر واضح کریں کہ آپ نئی دُنیا کی یقینی آمد پر مکمل بھروسے کے ساتھ اسکے کسقدر منتظر ہیں۔ اپنے اعتماد کی مضبوطیودوامیت کے سلسلے میں مدد کیلئے اُس سے التجا کریں۔ جس طرح اپفراس نے کُلسّے کے مسیحیوں کے حق میں دُعا کی کہ وہ ”پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم“ رہیں، آپ بھی اکثروبیشتر ایسا ہی کِیا کریں۔
۲۰. کچھ لوگوں کا مسیحی طریق سے منحرف ہو جانا حوصلہشکنی کا باعث کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۲۰ آپ کو اس بات سے انتشارِخیال یا حوصلہشکنی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ سب لوگ کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ قائم نہیں رہتے۔ بعض ناکام، گمراہ یا بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ یسوع کی قربت میں رہنے والے رسولوں میں ایسا واقع ہوا تھا۔ لیکن جب یہوداہ نے غداری کی تو کیا باقی رسول سُست پڑ گئے تھے یا اُنہوں نے خدمت چھوڑ دی تھی؟ ہرگز نہیں! پطرس نے زبور ۱۰۹:۸ کا اطلاق کرتے ہوئے واضح کِیا کہ کوئی دوسرا شخص یہوداہ کی جگہ لیگا۔ پس کسی دوسرے شخص کو منتخب کِیا گیا اور خدا کے وفاداروں نے سرگرمی سے منادی جاری رکھی۔ (اعمال ۱:۱۵-۲۶) وہ کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہنے کا عزم کئے ہوئے تھے۔
۲۱، ۲۲. آپ کو کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہنے کا صلہ کیسے ملیگا؟
۲۱ آپ قطعی یقین رکھ سکتے ہیں کہ آپ کا کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم رہنا رائیگاں نہیں جائیگا۔ اسکا صلہ ضرور ملیگا۔ تاہم کس کی طرف سے ملیگا؟
۲۲ آپ کو جاننے اور آپ سے محبت کرنے والے آپکے بہنبھائی اسے سراہینگے۔ اگر وہ اپنے مُنہ سے اسکا اقرار نہ بھی کریں توبھی اسکا اثر بالکل ایسا ہی ہوگا جیسا کہ ہم ۱-تھسلنیکیوں ۱:۲-۶ میں پڑھتے ہیں: ”تم سب کے بارے میں ہم خدا کا شکر ہمیشہ بجا لاتے ہیں اور اپنی دُعاؤں میں تمہیں یاد کرتے ہیں۔ اور اپنے خدا اور باپ کے حضور تمہارے ایمان کے کام اور محبت کی محنت اور اُس اُمید کے صبر کو بِلاناغہ یاد کرتے ہیں جو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کی بابت ہے۔ . . . اسلئے کہ ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طور پر پہنچی بلکہ قدرت اور رُوحاُلقدس اور پورے اعتقاد کے ساتھ بھی . . . اور تم . . . خداوند کی مانند بنے۔“ آپ کے وفادار ساتھی مسیحی جب یہ دیکھیں گے کہ آپ ”کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم“ ہیں تو وہ بھی ایسا ہی محسوس کرینگے۔—کلسیوں ۱:۲۳۔
۲۳. آئندہ سال کے دوران آپکا عزمِمُصمم کیا ہونا چاہئے؟
۲۳ آپ کا آسمانی باپ بھی یقیناً یہ دیکھکر خوش ہوگا۔ اس کا یقین رکھیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ آپ کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ ”خدا کی پوری مرضی“ پر قائم ہیں۔ پولس نے کُلسّے کے مسیحیوں کو اس ضمن میں بڑی حوصلہافزا باتیں لکھیں کہ اُنکا ”چالچلن [یہوواہ] کے لائق“ ہے اور ”اُسکو ہر طرح سے پسند“ ہے۔ (کلسیوں ۱:۱۰) جیہاں، ناکامل انسانوں کیلئے اُسے پوری طرح خوش کرنا ممکن ہے۔ کُلسّے میں آپکے بھائیبہن ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ آجکل آپ کے مسیحی ساتھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں! پس، آئندہ سال کے دوران، اپنی بِلاناغہ دُعاؤں اور اعمال سے ثابت کریں کہ آپ ”کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ خدا کی پوری مرضی پر قائم“ رہنے کیلئے پُرعزم ہیں۔
کیا آپ یاد کر سکتے ہیں؟
• ’کامل ہو کر قائم‘ رہنے میں کیا شامل ہے؟
• آپکو دُعا میں اپنی ذات کی بابت کونسی باتیں شامل کرنی چاہئیں؟
• رومیوں ۵:۴، ۵ کے مطابق آپ کس قسم کی اُمید رکھنا چاہتے ہیں؟
• اس مطالعے سے آپکو آئندہ سال کیلئے کونسا نصبالعین قائم کرنے کی تحریک ملی ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
اپفراس نے دُعا کی کہ اُسکے بھائی مسیح اور اپنی اُمید کی بابت کامل ہوکر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہیں
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
لاکھوں دیگر لوگ بھی آپکی یقینی اُمید اور پُختہ اعتقاد میں شامل ہیں