”اَیسے ہی دَوڑو“
”اَیسے ہی دَوڑو“
خود کو پُرجوش تماشائیوں سے بھرے کھیل کے میدان میں تصور کریں۔ کھلاڑی میدان میں آتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو دیکھ کر بِھیڑ نعرے مارنے لگتی ہیں۔ اُصولوں کی پابندی کرانے کیلئے جج صاحبان پاس ہی موجود ہیں۔ جیسے ہی مقابلے شروع ہوتے ہیں تو فتح کے پُرزور نعروں کیساتھ ساتھ مایوسی کے اظہارات بھی سنائی دیتے ہیں۔ زوردار تالیوں میں جیتنے والوں کا خیرمقدم کِیا جاتا ہے!
آپ کسی حالیہ کھیلوں کے مقابلہ کی بجائے تقریباً ۰۰۰،۲ سال پہلے خاکنائےکرنتھس میں منعقد ہونے والے مقابلے کو دیکھتے ہیں۔ یہاں چھٹی صدی ق.س.ع. سے لیکر چوتھی صدی س.ع. تک ہر دو سال کے بعد خاکنائےکرنتھس کے مشہور کھیل منعقد ہوتے تھے۔ یہ مقابلہ کئی دنوں تک پورے یونان کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا۔ یہاں پر ہونے والے کھیل محض کسرتی مقابلے نہیں ہوتے تھے۔ کھلاڑی فوجی تیاری کی علامت تھے۔ جیتنے والوں کو درخت کے پتوں کے تاج پہنائے جاتے تھے جنکی ہیروز کے طور پر پرستش کی جاتی تھی۔ انہیں بےپناہ تحائف دئے جاتے تھے اور پوری زندگی انہیں شہر کی طرف سے بھاری پنشن ملتی رہتی تھی۔
پولس رسول کرنتھس کے قریب خاکنائے کھیلوں سے واقف تھا لہٰذا اس نے مسیحی طرزِزندگی کا موازنہ اس کھیل کے مقابلے سے کِیا۔ اس نے دوڑ میں حصہ لینے والوں، پہلوانوں اور باکسروں کا حوالے دیتے ہوئے اچھی تربیت، بامقصد کوشش اور برداشت کے اجر کو بخوبی بیان کِیا۔ یقیناً، جن مسیحیوں کو اس نے لکھا وہ بھی ان کھیلوں سے واقف تھے۔ ان میں سے بعض لوگ بِلاشُبہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے ہجوم میں بھی شامل ہوتے تھے۔ لہٰذا وہ آسانی سے پولس کی تمثیلوں کو سمجھ سکتے تھے۔ آج ہماری بابت کیا ہے؟ ہم بھی ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں۔ پولس نے جن مقابلوں کا حوالہ دیا ہم ان سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
’باقاعدہ مقابلہ کرنا‘
قدیم کھیلوں میں حصہ لینے کے اُصول بہت سخت تھے۔ ایک نقیب ہر کھلاڑی کو تماشائیوں کے سامنے پیش کر کے یہ اعلان کرتا تھا: ’کیا اس آدمی کیخلاف کوئی جُرم ثابت کر سکتا ہے؟ کیا یہ چور، بدکار یا بداخلاق ہے؟‘ آرکیولوجیا گریکا کے مطابق، ”کسی بدنامِزمانہ مجرم یا اسطرح کے شخص کے کسی قریبی رشتےدار کو بھی مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔“ نیز کھیلوں کے اُصولوں کی خلافورزی کرنے والوں کو سخت سزا ملتی تھی اور انہیں مقابلے سے خارج کر دیا جاتا تھا۔
یہ حقیقت پولس کے بیان کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے: ”دنگل میں مقابلہ کرنے والا بھی اگر اُس نے باقاعدہ مقابلہ نہ کِیا ہو تو سہرا نہیں پاتا۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۵) اسی طرح زندگی کی دوڑ میں حصہ لینے کیلئے ہمیں بائبل میں درج یہوواہ کے اعلیٰ اخلاقی معیاروں پر پورا اُترتے ہوئے اسکے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔ تاہم، بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے: ”انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔“ (پیدایش ۸:۲۱) لہٰذا، اس دوڑ میں شامل ہونے کے بعد بھی ہمیں احتیاط کیساتھ باقاعدہ مقابلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہوواہ کی مقبولیت میں رہ کر ہمیشہ کی زندگی پائیں۔
اس راہ پر گامزن رہنے کیلئے سب سے بڑی مدد خدا کیلئے محبت ہے۔ (مرقس ۱۲:۲۹-۳۱) ایسی محبت ہمیں یہوواہ کو خوش کرنے اور اسکی مرضی کے مطابق کام کرنے کی تحریک دیگی۔—۱-یوحنا ۵:۳۔
’ہر ایک بوجھ دُور کریں‘
قدیم کھیلوں میں، دوڑ میں حصہ لینے والے غیرضروری کپڑوں یا دوسری چیزوں کا بوجھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ ”دوڑ میں حصہ لینے والے ہلکے اور مختصر کپڑے پہنتے تھے،“ کتاب دی لائف آف دی گریکز اینڈ رومنز بیان کرتی ہے۔ کپڑوں کے بغیر، کھلاڑی چستی، تیزی اور مہارت سے دوڑ سکتے تھے۔ غیرضروری بوجھ اُٹھانے کی وجہ سے توانائی کو ضائع نہیں کِیا جاتا تھا۔ عبرانی مسیحیوں کو لکھتے وقت پولس کے ذہن میں شاید یہی بات تھی: ”ہم بھی ہر ایک بوجھ . . . دُور کر کے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“—عبرانیوں ۱۲:۱۔
زندگی کی دوڑ میں کس قسم کا بوجھ ہمارے لئے رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے؟ ان میں سے ایک غیرضروری مادی چیزیں جمع کرنے یا عمدہ معیارِزندگی برقرار رکھنے کی خواہش ہو سکتی ہے۔ شاید بعض تحفظ کیلئے مالودولت پر توکل کرتے ہیں یا اسے خوشی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ایسا بیجا ”بوجھ“ دوڑنے والے کو اسقدر سُست کر سکتا ہے کہ نتیجتاً اس کی نظر میں خدا کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ (لوقا ۱۲:۱۶-۲۱) نیز ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بھی بہت دُور نظر آتی ہے۔ ایک شخص استدلال کر سکتا ہے کہ ’ایک نہ ایک دن نئی دُنیا ضرور آئیگی چنانچہ اس کے آنے تک کیوں نہ ہم ان چیزوں سے مستفید ہوں جو یہ دُنیا پیش کرتی ہے۔‘ (۱-تیمتھیس ۶:۱۷-۱۹) اس طرح کا مادی رُجحان زندگی کی دوڑ کو آسانی سے چھوڑ دینے بلکہ اسے شروع کرنے میں بھی رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے بیان کِیا: ”کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھیگا اور دوسرے سے محبت۔ یا ایک سے ملا رہیگا اور دوسرے کو ناچیز جانیگا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔“ چنانچہ جانوروں اور پودوں کی ضروریات کیلئے یہوواہ کی فکرمندی کا ذکر کرنے اور انسان کی اعلیٰ قدر کا ذکر کرنے کے بعد اس نے نصیحت کی: ”اِسلئے فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائینگے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنینگے؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مِل جائینگی۔“—متی ۶:۲۴-۳۳۔
”صبر سے دوڑیں“
ہر دوڑ کم فاصلے کی نہیں تھی۔ ایک دوڑ جسے ڈولیہوس کہتے تھے چار کلومیٹر لمبی ہوتی تھی۔ یہ طاقت اور صبر کا تقاضا کرتی تھی۔ روایت کے مطابق، ۳۲۸ ق.س.ع. میں ائیس نامی ایک کھلاڑی جب اس دوڑ میں جیتا تو وہ اپنی فتح کی خبر سنانے کی خاطر آگوس کے شہر میں اپنے گھر تک دوڑا چلا گیا۔ اُس روز اس نے تقریباً ۱۱۰ کلومیٹر کی دوڑ لگائی تھی!
مسیحی دوڑ بھی ایک ایسی ہی طویل اور صبرآزما دوڑ ہے۔ یہوواہ کی خوشنودی اور ہمیشہ کی زندگی کا انعام حاصل کرنے کیلئے اس دوڑ کو صبر کیساتھ ختم کرنا ضروری ہے۔ پولس نے اس دوڑ کو اسی طرح مکمل کِیا ۲-تیمتھیس ۴:۷، ۸) پولس کی طرح ہمیں بھی اس دوڑ کو ”ختم“ کرنا ہے۔ اگر ہم صبر کرنے میں محض اسلئے ناکام رہتے ہیں کہ یہ دوڑ ہماری توقع سے زیادہ لمبی ہے تو ہم اپنا انعام حاصل نہیں کر سکیں گے۔ (عبرانیوں ۱۱:۶) یہ بات کتنی افسوسناک ہوگی جبکہ ہم دوڑ ختم کرنے کے اسقدر قریب ہیں!
تھا۔ اپنی زندگی کے اختتام کے قریب وہ یہ کہنے کے قابل ہوا: ”مَیں اچھی کشتی لڑ چکا۔ مَیں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔ مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔ آیندہ کے لئے میرے واسطے راستبازی کا . . . تاج رکھا ہوا ہے۔“ (انعام
قدیم یونان میں مقابلے میں حصہ لینے والوں کو درختوں کے پتوں کے تاج پہنائے جاتے تھے جنہیں پھولوں سے سجایا جاتا تھا۔ پائیتھین کھیلوں میں جیتنے والوں کو لارل کا تاج پہنایا جاتا تھا۔ اولمپک کھیلوں میں انہیں زیتون کے پتوں کے تاج پہناتے تھے جبکہ خاکنائے کے کھیل میں انہیں صنوبر کے پتوں کے تاج پہنائے جاتے تھے۔ ایک بائبل عالم بیان کرتا ہے، ”مقابلے کے دوران، کھلاڑیوں کو جوش دلانے کیلئے تاج، فتح کے انعام اور کھجور کی شاخیں سٹیڈیم میں ایسی جگہ پر تین ٹانگوں والے سٹول یا میز پر رکھی جاتی تھیں جہاں سے سب اسے دیکھ سکتے تھے۔“ جیتنے والے کیلئے تاج پہننا عزتواحترام کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ گھر واپس لوٹتے وقت وہ کامیابی اور شان کیساتھ رتھ پر سوار ہو کر شہر میں داخل ہوتے تھے۔
پولس نے اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، کرنتھس کے رہنے والوں سے سوال کِیا: ”کیا تم نہیں جانتے کہ دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں مگر انعام ایک ہی لے جاتا ہے؟ تم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔ . . . وہ لوگ تو مرجھانے والا سہرا پانے کے لئے یہ کرتے ہیں مگر ہم اُس سہرے کے لئے کرتے ہیں جو نہیں مرجھاتا۔“ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۴، ۲۵؛ ۱-پطرس ۱:۳، ۴) کیا ہی شاندار امتیاز! قدیم کھیلوں میں حاصل ہونے والے ناپائیدار سہروں کے برعکس، زندگی کی دوڑ ختم کرنے والوں کو حاصل ہونے والا انعام کبھی فنا نہیں ہو گا۔
اس شاندار تاج کی بابت پطرس رسول نے لکھا: ”جب سردار گلّہبان ظاہر ہوگا تو تم کو جلال کا ایسا سہرا ملیگا جو مرجھانے کا نہیں۔“ (۱-پطرس ۵:۴) کیا اس دُنیا کی طرف سے پیش کئے جانے والے کسی بھی انعام کا موازنہ غیرفانیت یعنی مسیح کے ساتھ آسمانی جلال کی غیرفانی زندگی کے ساتھ کِیا جا سکتا ہے؟
آجکل، دوڑ میں حصہ لینے والے مسیحیوں کی اکثریت کو خدا نے اپنے روحانی بیٹوں کے طور پر مسح نہیں کِیا اور وہ آسمانی اُمید نہیں رکھتے۔ وہ غیرفانیت کے انعام کیلئے نہیں دوڑ رہے۔ تاہم، خدا نے ان کیلئے بھی لاثانی انعام رکھا ہے۔ یہ آسمانی بادشاہت کے تحت فردوسی زمین پر کاملیت میں ہمیشہ کی زندگی کا انعام ہے۔ دوڑ میں حصہ لینے والا مسیحی خواہ کسی بھی انعام کیلئے جدوجہد کرے، اسکا عزم اور جوش کھیلوں کے مقابلہ میں دوڑنے والے کھلاڑی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہ انعام کبھی فنا نہیں ہوگا: ”جسکا اُس نے ہم سے وعدہ کِیا وہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔“—۱-یوحنا ۲:۲۵۔
اگر ایسا بیمثال انعام دوڑ میں حصہ لینے والے مسیحی کے سامنے رکھا ہے تو اس دُنیا کی دلفریب چیزوں کی بابت اسکا نظریہ کیا ہونا چاہئے؟ اس کا نقطۂنظر پولس کی طرح ہونا چاہئے جس نے بیان کِیا: ”مَیں اپنے خداوند مسیح یسوؔع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔ جس کی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں۔“ اس بات کی مطابقت میں، پولس کتنی جانفشانی سے دوڑا ہو گا! ”اَے بھائیو! میرا یہ گمان نہیں کہ پکڑ چکا ہوں بلکہ صرف یہ کرتا ہوں کہ جو چیزیں پیچھے رہ گئیں اُن کو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھا ہوا۔ فلپیوں ۳:۸، ۱۳، ۱۴) پولس نے دوڑ میں اپنی آنکھیں انعام پر جمائے رکھیں۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔
نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ اُس انعام کو حاصل کروں۔“ (ہمارے لئے بہترین نمونہ
قدیم کھیلوں میں چیمپیئن کو وسیع شہرت حاصل تھی۔ شاعر انکی بابت لکھتے تھے اور مجسّمہساز انکے مجسّمے بناتے تھے۔ مؤرخ ویرا اولیووا نے بیان کِیا کہ وہ ”اس شانوشوکت کو پسند کرتے تھے اور اپنی بےپناہ مقبولیت سے لطفاندوز ہوتے تھے۔“ وہ نئی نسل کے چیمپیئن کے لئے تقلیدی کردار بھی ہوتے تھے۔
مسیحیوں کے لئے سب سے عمدہ نمونہ قائم کرنے والا ”چیمپیئن“ کون ہے؟ پولس جواب فراہم کرتا ہے: ”آؤ ہم . . . اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔ اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوؔع کو تکتے رہیں جس نے اُس خوشی کے لئے جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کر کے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔“ (عبرانیوں ۱۲:۱، ۲) جیہاں، اگر ہم ابدی زندگی کی دوڑ میں فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یسوع مسیح کے نمونے کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم انجیل کی سرگزشتوں کو باقاعدگی سے پڑھنے اور اسکی نقل کرنے کے طریقوں پر غور کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔ ایسا مطالعہ اس بات کی قدر کرنے میں ہماری مدد کریگا کہ یسوع مسیح خدا کا فرمانبردار رہا اور اس نے صبر کے ذریعے اپنے ایمان کی خوبی کو ثابت کِیا۔ اپنے صبر کے انعام میں اس نے کئی شاندار استحقاقات کیساتھ ساتھ یہوواہ خدا کی خوشنودی بھی حاصل کی۔—فلپیوں ۲:۹-۱۱۔
واقعی، یسوع کی سب سے نمایاں خوبی محبت تھی۔ ”اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔“ (یوحنا ۱۵:۱۳) اس نے ہم سے یہ کہہ کر ”محبت“ کی اصطلاح کے مفہوم کو وسیع بنا دیا کہ ہم اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھیں۔ (متی ۵:۴۳-۴۸) یسوع کو اپنے آسمانی باپ سے محبت تھی اسلئے وہ اپنے باپ کی مرضی بجا لانے سے خوشی حاصل کرتا تھا۔ (زبور ۴۰:۹، ۱۰؛ امثال ۲۷:۱۱) زندگی کی کٹھن دوڑ میں یسوع کو اپنا نمونہ بنانے سے اور اُسے اپنی رفتار کا تعیّن کرنے کی اجازت دینے سے ہم خدا اور اپنے پڑوسی سے محبت کرنے اور اپنی پاک خدمت میں حقیقی خوشی حاصل کرنے کی تحریک پائیں گے۔ (متی ۲۲:۳۷-۳۹؛ یوحنا ۱۳:۳۴؛ ۱-پطرس ۲:۲۱) یاد رکھیں کہ یسوع کسی ناممکن چیز کا تقاضا نہیں کرتا۔ وہ ہمیں یقین دلاتا ہے: ”مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ . . . تمہاری جانیں آرام پائینگی۔ کیونکہ میرا جُوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“—متی ۱۱:۲۸-۳۰۔
یسوع کی طرح، ہمیں بھی اپنی آنکھیں اس انعام پر جمائے رکھنے کی ضرورت ہے جو آخر تک برداشت کرنے والوں کیلئے مخصوص کِیا گیا ہے۔ (متی ۲۴:۱۳) اگر ہم اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے، تمام بوجھ کو دُور کر کے صبر کیساتھ دوڑتے ہیں تو ہم کامیابی حاصل کرنے کیلئے پُراعتماد رہ سکتے ہیں۔ ہمارا نشانہ ہمیں آگے بڑھتے رہنے کی تحریک دیتا ہے! یہ ہمارے اندر خوشی پیدا کر کے ہماری طاقت کو بحال کرتا ہے، ایسی خوشی جو ہمارے راستے کو آسان بنا دیتی ہے۔
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
مسیحی دوڑ کا فاصلہ طویل ہے—اس میں صبر کی ضرورت پڑتی ہے
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
تاج پہننے والے کھلاڑیوں کے برعکس، مسیحی غیرفانی انعام کی توقع کر سکتے ہیں
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
آخر تک برداشت کرنے والے سب لوگ انعام حاصل کرینگے
[صفحہ ۲۸ پر تصویر کا حوالہ]
Copyright British Museum