جنگی نقصان
جنگی نقصان
”جنگ میں کسی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ سب کی ہار ہی ہوتی ہے۔“ یہ بات دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے ایک سابقہ فوجی نے کہی تھی۔ بہتیرے اُس کیساتھ اتفاق بھی کرینگے۔ جیتنے اور ہارنے والے دونوں فریقین کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی لاکھوں لوگ جنگی نقصان کے باعث مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں۔
کیسا نقصان؟ جنگ کی وجہ سے بیشمار لوگوں کی ہلاکت کے علاوہ لاتعداد بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ جنگ کے بعد بچنے والوں میں سے بہتیرے جسمانی اور نفسیاتی طور پر زخمخوردہ ہوتے ہیں۔ لاکھوں لوگ مفلس یا پناہگزین بن جاتے ہیں۔ کیا ہم جنگ سے بچنے والوں کے دلوں میں پیدا ہو جانے والی نفرت اور غم کا تصور کر سکتے ہیں؟
زخمی دل
جنگبندی کے وقت بندوقیں خاموش ہو جاتی ہیں، فوجی اپنےاپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں پر لگے ہوئے زخم مدتوں تک ہرے رہتے ہیں۔ آئندہ نسلوں میں ایک دوسرے کیلئے نفرت کا بیج بو دیا جاتا ہے۔ یوں ایک جنگ سے لگنے والے زخم دوسری جنگ کا سبب بنتے ہیں۔
مثال کے طور پر، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں ۱۹۱۹ میں منظورشُدہ معاہدۂورسائی کی رُو سے جرمنی پر ایسی پابندیاں عائد کر دی گئیں جو اس کے باشندوں کے نزدیک نہایت سخت اور انتقامی تھیں۔ دی انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق، اس معاہدے کی شرائط ”جرمنوں کے دلوں میں نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکانے کا موجب بنیں۔“ کچھ سال بعد، ”امن معاہدے سے پیدا ہونے والی نفرت نے ہٹلر کو ازسرِنو انقلاب برپا کرنے کی تحریک دی“ جو دوسری عالمی جنگ کا سبب بننے کیلئے ایک اہم عنصر ثابت ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ پولینڈ سے شروع ہو کر بلقانی ریاستوں تک پھیل گئی۔ اس علاقے کے نسلی گروہوں نے ۱۹۴۰ کے دہے میں جو زخم ایک دوسرے کو لگائے وہ ۱۹۹۰ کے دہے کے دوران بلقانی ریاستوں میں جنگ کا باعث بنے۔ ایک جرمن اخبار دے تست نے بیان کِیا: ”نفرت اور انتقام کے گھناؤنے تسلسل نے شدت اختیار کرتے کرتے ہمارے زمانے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔“
اگر نوعِانسان کیلئے پُرامن زندگی مقصود ہے تو جنگی نقصان کی تلافی ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ نفرت اور غم کو مٹانے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟ جنگی نقصان کی تلافی کون کر سکتا ہے؟
[صفحہ ۲ پر تصویر کا حوالہ]
COVER: Fatmir Boshnjaku
[صفحہ ۳ پر تصویروں کے حوالہجات]
U.S. Coast Guard photo; UN PHOTO 158297/J. Isaac