جنگی نقصان کی تلافی کرنا
جنگی نقصان کی تلافی کرنا
ابرہام نے ۲۰ سال تک گوریلا فوج میں رہنے کے بعد اب جنگ میں کبھی حصہ نہ لینے کا قصد کر لیا ہے۔ * دراصل، اُسکے سابقہ دُشمن اُسکے جگری دوست بن گئے ہیں۔ اُس میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟ بائبل کی بدولت۔ اس نے ابرہام کو اُمید اور بصیرت عطا کی جس سے وہ انسانی معاملات کو خدائی نقطۂنظر سے دیکھنے کے قابل ہوا۔ بائبل نے اُسکی متشدّد ذہنیت کو ختم کر ڈالا جس سے وہ اپنے رنجوالم اور نفرتوعناد پر قابو پانے لگا۔ اُس نے محسوس کِیا کہ بائبل دل کیلئے زوداثر دوا ہے۔
بائبل جذباتی گھاؤ بھرنے میں کسی شخص کی مدد کیسے کر سکتی ہے؟ یہ اُن حالتوں کو تو بدل نہیں سکتی تھی جنکا ابرہام کو تجربہ ہو چکا تھا۔ البتہ، خدا کے کلام کی پڑھائی اور غوروخوض سے وہ اپنے خالق کا اندازِفکر اپنانے کے قابل ہو گیا۔ اب اُسکے پاس مستقبل کی اُمید اور نئی ترجیحات ہیں۔ خدا جن چیزوں کو اہم سمجھتا ہے وہ اُسکے نزدیک بھی اہم ہیں۔ جب ایسا واقع ہونا شروع ہوا تو اُسکے دل کے زخم بھرنے لگے۔ یوں ابرہام کی بدلنے میں مدد ہوئی۔
خانہجنگی میں ملوث
ابرہام ۱۹۳۰ کے دہے میں افریقہ میں پیدا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد، ابرہام کے مُلک پر ایک طاقتور پڑوسی مُلک کی حکومت تھی جس سے اُسکے ہموطن آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ابرہام ۱۹۶۱ میں، تحریکِآزادی میں شامل ہو گیا اور اُسی طاقتور پڑوسی مُلک کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔
ابرہام بیان کرتا ہے کہ ”وہ ہمارے جانی دُشمن تھے۔ اُنہوں نے ہمیں ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا جس کا انتقام لینے کیلئے ہم نے بھی اُنہیں نیست کر ڈالنے کی ٹھان لی۔“
ابرہام کی زندگی ہر لمحہ خطرے میں رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ ۲۰ سال تک جنگ لڑنے کے بعد ۱۹۸۲ میں یورپ فرار ہو گیا۔ اب اُسکی عمر تقریباً ۵۰ سال تھی اور اُسکے پاس اپنی زندگی کا جائزہ لینے کا وقت تھا۔ کیا اُسکے خوابوں کی تعبیر ہوئی تھی؟ اُسکا مستقبل کیسا ہوگا؟ ابرہام کی ملاقات یہوواہ کے گواہوں میں سے کچھ لوگوں کیساتھ ہوئی اور اُس نے اُنکے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔ اُسے یاد تھا کہ کچھ سال پہلے افریقہ میں ایک گواہ نے اُسے ایک اشتہار دیا تھا جسے اُس نے پڑھا بھی تھا۔ اُس اشتہار میں زمینی فردوس اور نوعِانسان پر حکمرانی کرنے والی آسمانی حکومت کی بابت معلومات تھیں۔ کیا یہ واقعی سچ ہو سکتا تھا؟
ابرہام بیان کرتا ہے: ”مَیں نے بائبل کی مدد سے سمجھ لیا تھا کہ مَیں نے جنگ میں وقت ضائع کِیا تھا۔ صرف خدا کی بادشاہت ہی سب کیساتھ انصاف کریگی۔“
جب ابرہام کا یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ ہوا تو اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد رابرٹ نامی ایک شخص افریقہ سے بھاگ کر اُسی یورپی شہر میں آ گیا جہاں ابرہام مقیم تھا۔ رابرٹ اور ابرہام ایک دوسرے کے جنگی حریف تھے۔ رابرٹ اکثر زندگی کے حقیقی مقصد کی بابت سوچا کرتا تھا۔ وہ مذہبی رُجحان رکھتا تھا اور بائبل کے کئی حصے پڑھنے کی بدولت خدا کے نام یہوواہ سے واقف تھا۔ جب ابرہام کی کلیسیا کے گواہوں نے بائبل کی بہتر سمجھ حاصل کرنے کے لئے رابرٹ کو مدد کی پیشکش کی تو اُس نے فوراً قبول کر لی۔
رابرٹ وضاحت کرتا ہے: ”مَیں شروع ہی سے اس بات کا قائل تھا کہ گواہ یہوواہ اور یسوع کو الگالگ ہستیاں سمجھتے ہوئے اُنکے ناموں کو کتنی دُرستی سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بات مَیں نے بائبل سے پہلے ہی سیکھ لی تھی۔ گواہ صافستھرا لباس پہنتے اور تمام قومیتوں کے لوگوں سے مہربانہ سلوک کرتے ہیں۔ ایسی باتوں سے مَیں بہت ہی متاثر تھا۔“
دُشمن دوست بن جاتے ہیں
رابرٹ اور ابرہام پہلے ایک دوسرے کے جانی دُشمن تھے مگر اب وہ قریبی دوست ہیں۔ وہ یہوواہ کے گواہوں کی ایک ہی کلیسیا میں کُلوقتی مُنادوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ ”جنگ کے دوران مَیں اکثر سوچا کرتا تھا کہ پڑوسی ممالک کے لوگ ایک ہی مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں،“ ابرہام وضاحت کرتا ہے۔ ”مَیں اور رابرٹ ایک ہی چرچ کے رُکن ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اب ہم دونوں یہوواہ کے گواہ ہیں اور ہمارے ایمان نے ہمیں متحد کر دیا ہے۔“
”یہی تو فرق ہے،“ رابرٹ مزید بیان کرتا ہے۔ ”اب ہمارا تعلق ایک ایسے ایمان سے ہے جس نے ہمیں حقیقی برادری کا حصہ بنا دیا ہے۔ اب ہم کبھی جنگ نہیں کرینگے۔“ بائبل نے ان سابقہ دُشمنوں کے دلوں پر گہرا اثر کِیا ہے۔ نفرتوعناد بتدریج اعتماد اور دوستی میں بدل گئے ہیں۔
جب ابرہام اور رابرٹ جنگ میں تھے تو دو اَور نوجوان کسی دوسری جگہ پر دو پڑوسی ممالک کی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جلد ہی بائبل اُن کے زخموں کا مرہم بھی بنی۔ کیسے؟
مارو اور پھر شہید ہو جاؤ
ایک مذہبی خاندان میں پرورش پانے والے گبرئیل کو سکھایا گیا تھا کہ اُسکا آبائی وطن مُقدس جنگ لڑ رہا ہے۔ لہٰذا، ۱۹ سال کی عمر میں، وہ رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہو گیا اور سب سے اگلے مورچوں میں بھیجے جانے کی درخواست کی۔ وہ ۱۳ ماہ تک جنگی خطروں سے کھیلتا رہا، بعضاوقات تو وہ دُشمن سے صرف ایک میل کے فاصلے پر ہوتا تھا۔ ”مجھے ایک موقع خاص طور پر یاد ہے،“ وہ بیان کرتا ہے۔ ”ہمارے کمانڈر نے
ہمیں بتایا کہ دُشمن آج رات حملہ کرنے والا ہے۔ ہم اسقدر جوش میں تھے کہ ہم نے ساری رات گولہباری جاری رکھی۔“ وہ پڑوسی مُلک کے باشندوں کو اپنا دُشمن اور موت کے لائق سمجھتا تھا۔ ”مَیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنا چاہتا تھا۔ تاہم، اپنے دیگر دوستوں کی طرح مجھے بھی جامِشہادت نوش فرمانے کی حسرت تھی۔“البتہ، ایک وقت آیا جب گبرئیل کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ پہاڑوں پر بھاگ گیا جہاں سے وہ سرحد پار کر کے ایک غیرجانبدار مُلک میں آ گیا اور پھر یورپ چلا گیا۔ وہ خدا سے ہمیشہ یہی سوال کرتا تھا کہ زندگی اسقدر کٹھن کیوں ہے اور کیا یہ ساری مشکلات اُسکی طرف سے سزا کا ثبوت ہیں۔ جب اُسکی ملاقات یہوواہ کے گواہوں کیساتھ ہوئی تو اُنہوں نے اُسے بائبل میں سے بتایا کہ زندگی آجکل مشکلات سے پُر کیوں ہے۔—متی ۲۴:۳-۱۴؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
بائبل کی ترقیپسندانہ تحقیق نے گبرئیل پر واضح کر دیا کہ سچائی اسی میں ہے۔ ”مَیں نے سیکھا کہ ہمارے لئے فردوسی زمین پر ابد تک زندہ رہنا ممکن ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ بچپن سے مجھے اسی کی آرزو تھی۔“ بائبل نے گبرئیل کے مضطرب دل کو اطمینان بخشا۔ اُسکے گہرے جذباتی زخم بھرنے لگے۔ لہٰذا، جب اُسکی ملاقات اپنے سابقہ دُشمن ڈینئل سے ہوئی تو گبرئیل کے دل میں اُس کیلئے کسی قسم کی کوئی نفرت نہیں تھی۔ لیکن ڈینئل یورپ کس لئے آیا تھا؟
”اگر واقعی تیرا کوئی وجود ہے تو میری مدد کر!“
ڈینئل نے ایک کیتھولک کے طور پر پرورش پائی تھی اور وہ ۱۸ سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ وہ جنگ میں گبرئیل کا حریف تھا۔ میدانِجنگ میں ڈینئل ایک ٹینک پر سوار دُشمن کی جانب بڑھ رہا تھا کہ ایک میزائل سیدھا آ کر ٹینک کو لگا۔ اُس کے دوست مارے گئے جبکہ اُسے شدید چوٹیں آئیں اور اُسے اسیر کر لیا گیا۔ اُس نے کئی مہینے ہسپتال اور کیمپ میں گزارے جس کے بعد اُسے ایک غیرجانبدار مُلک میں بھیج دیا گیا۔ تنہائی اور مایوسی کے عالم میں اُس نے خودکُشی کرنی چاہی۔ ڈینئل نے خدا سے دُعا کی: ”اگر واقعی تیرا کوئی وجود ہے تو میری مدد کر!“ اگلے ہی دن، یہوواہ کے گواہوں نے اُسکے دروازے پر دستک دی اور اُسکے بہت سے سوالوں کا جواب دیا۔ بالآخر، اُس نے یورپ میں پناہ لے لی۔ ایک بار پھر، ڈینئل نے گواہوں سے رابطہ کِیا اور بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔ بائبل کی تعلیم نے اُسکی پریشانی اور تلخی کو ختم کر دیا۔
گبرئیل اور ڈینئل اب اچھے دوست اور یہوواہ کے بپتسمہیافتہ گواہوں کی روحانی برادری کا حصہ ہیں۔ ”یہوواہ کیلئے میری محبت اور بائبل کے علم نے خدائی نقطۂنظر اپنانے میں میری مدد کی ہے۔ ڈینئل اب میرا دُشمن نہیں ہے۔ کئی سال پہلے مَیں نے اُسے قتل کر کے خوشی محسوس کی ہوتی۔ لیکن بائبل نے مجھے اسکے بالکل برعکس تعلیم دی ہے کہ اُسکی خاطر خوشی سے اپنی جان دے دوں،“ گبرئیل بیان کرتا ہے۔
”مَیں نے مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کو قتل کرتے دیکھا ہے،“ ڈینئل بیان کرتا ہے۔ ”بلکہ ایک ہی مذہب کے لوگ مدِمقابل کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ جب
مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کا ذمہدار خدا ہی ہے۔ اب مَیں جانتا ہوں کہ تمام جنگوں کی پُشت پر شیطان ہے۔ مَیں اور گبرئیل اب ہمایمان ہیں۔ ہم دوبارہ کبھی نہیں لڑیں گے!“”خدا کا کلام زندہ اور مؤثر ہے“
ابرہام، رابرٹ، گبرئیل اور ڈینئل میں اتنی بڑی ڈرامائی تبدیلیاں کیوں واقع ہوئیں؟ وہ گہری نفرت اور غم کو اپنے دل سے نکالنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
ان سب نے خدا کے ”زندہ اور مؤثر“ کلام کی سچائی کو پڑھ کر پورے دل سے اُس پر غور کرنے کے بعد اسے قبول کِیا تھا۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) نوعِانسان کا خالق ہی بائبل کا مصنف ہے جو سننے اور سیکھنے پر آمادہ شخص کے دل پر مثبت اثر ڈالنا جانتا ہے۔ ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔“ بائبل پڑھنے والا کوئی بھی شخص جب اسکی راہنمائی کو قبول کرتا ہے تو اُسے اقداروقواعد کا ایک نیا ضابطہ مل جاتا ہے۔ وہ معاملات کو یہوواہ کے نقطۂنظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس سے جنگی نقصان کی تلافی کے علاوہ اَور بھی کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
خدا کا کلام واضح کرتا ہے کہ کسی قوم، نسل یا طبقے کو کسی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ”خدا کسی کا طرفدار نہیں۔ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔“ جو شخص اس حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے اُس کی قومی یا نسلی نفرت کے احساسات پر قابو پانے میں مدد ہوتی ہے۔—اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
بائبل کی پیشینگوئیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بہت جلد موجودہ انسانی حکمرانی کی جگہ خدا کی مسیحائی بادشاہت لے لیگی۔ اپنی اس آسمانی حکومت کے ذریعے خدا ”زمین کی انتہا تک جنگ موقوف کراتا ہے۔“ جنگ کو ہوا دینے والے ادارے بھی ختم کر دئے جائینگے جو لوگوں کو جنگ میں حصہ لینے کی تحریک دیتے ہیں۔ جنگ سے ہلاک ہونے والوں کو زندہ کر کے فردوسی زمین پر رہنے کا موقع بخشا جائیگا۔ پھر کسی کو بھی ظلموستم سے ڈر کر بھاگنا نہیں پڑیگا۔—زبور ۴۶:۹؛ دانیایل ۲:۴۴؛ اعمال ۲۴:۱۵۔
اُس وقت زمین پر زندہ لوگوں کی بابت بائبل بیان کرتی ہے: ”وہ گھر بنائینگے اور اُن میں بسینگے۔ وہ تاکستان لگائینگے اور اُنکے میوے کھائینگے۔ نہ کہ وہ بنائیں اور دوسرا بسے۔ . . . اُنکی محنت بےسُود نہ ہوگی اور اُنکی اولاد ناگہاں ہلاک نہ ہوگی۔“ اُس وقت ہر نقصان یا زخم کا ازالہ کر دیا جائیگا۔ ایسی اُمید پر ایمان رکھنا بتدریج ایک شخص کے دل سے رنجوالم کو دُور کر دیتا ہے۔—یسعیاہ ۶۵:۲۱-۲۳۔
بائبل واقعی دل کی زوداثر دوا ہے۔ اسکی تعلیمات پہلے ہی سے جنگی نقصان کی تلافی کر رہی ہیں۔ سابقہ دُشمن عالمگیر برادری میں متحد ہو گئے ہیں۔ خدا کے نئے نظام میں اصلاح کا یہ سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہیگا جب تک انسان کے دل سے نفرتوعناد اور رنجوالم نہیں نکل جاتے۔ خالق کا وعدہ ہے کہ ”پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئینگی۔“—یسعیاہ ۶۵:۱۷۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 2 اس مضمون میں بعض نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۴ پر عبارت]
”مَیں نے بائبل کی مدد سے سمجھ لیا تھا کہ مَیں نے جنگ میں وقت ضائع کِیا تھا“
[صفحہ ۵ پر عبارت]
بائبل سابقہ دُشمنوں کے دلوں پر گہرا اثر کر سکتی ہے
[صفحہ ۶ پر عبارت]
نفرتوعناد رفتہرفتہ اعتماد اور دوستی میں بدل گئے
[صفحہ ۶ پر عبارت]
بائبل پڑھنے والا کوئی بھی شخص جب اسکی راہنمائی کو قبول کرتا ہے تو اُسے اقداروقواعد کا ایک نیا ضابطہ مل جاتا ہے
[صفحہ ۷ پر تصویر]
سابقہ دُشمن اب عالمگیر برادری میں متحد ہو گئے ہیں
[صفحہ ۵ پر تصویر کا حوالہ]
Refugee camp: UN PHOTO 186811/J. Isaac