مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم نیکی کو کیسے عمل میں لا سکتے ہیں

ہم نیکی کو کیسے عمل میں لا سکتے ہیں

ہم نیکی کو کیسے عمل میں لا سکتے ہیں

جدید ڈکشنریاں ”‏نیکی“‏ کی تعریف ”‏اخلاقی فضیلت اور بھلائی“‏ کے طور پر کرتی ہیں۔‏ نیکی ”‏درست فکروعمل اور کردار کی خوبی“‏ ہے۔‏ لغت‌نویس ماروِن آر.‏ ونسینٹ کے مطابق معیاری یونانی میں لفظ ”‏نیکی“‏ کا مطلب ”‏کسی بھی قسم کی فضیلت ہے۔‏“‏ پس کچھ عجب نہیں کہ زیرکی،‏ جرأت،‏ ذاتی تربیت،‏ حقیقت‌پسندی،‏ دردمندی،‏ استقلال،‏ دیانتداری،‏ فروتنی اور وفاداری جیسی خوبیوں کی تعریف اکثروبیشتر نیکی کے طور پر کی جاتی ہے۔‏ نیکی کی تعریف ”‏حق کے معیار کی اطاعت“‏ کے طور پر بھی کی گئی ہے۔‏

ہمیں فضیلت،‏ نیکی اور حق کے معیار کے سلسلے میں کس کی اطاعت کرنی چاہئے؟‏ اِس سلسلے میں نیوزویک رسالے نے یوں بیان کِیا:‏ ”‏ایک معتبر اخلاقی مکتبِ‌فکر کے مطابق ۱۸ویں صدی کی تحریکِ‌عقلیت کی پیداکردہ تشکیک نے صحیح اور غلط کے امتیاز کو ذاتی پسند،‏ جذباتی اور ثقافتی ترجیحات کا معاملہ قرار دیا ہے۔‏“‏ لیکن کیا محض پسند یا ترجیح صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کا تسلی‌بخش طریقہ ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اگر ہم نیکی کو عمل میں لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اچھائی اور بُرائی کے ایک قابلِ‌اعتماد معیار کی ضرورت ہے—‏ایک ایسا معیار جس سے مخصوص کام،‏ رُجحان یا خوبی کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ لگایا جا سکے۔‏

اخلاقی معیاروں کا واحد حقیقی ماخذ

اخلاقیت کے معیاروں کا واحد حقیقی ماخذ—‏نسلِ‌انسانی کا خالق،‏ یہوواہ خدا ہے۔‏ پہلے انسان آدم کی تخلیق کے فوراً بعد،‏ یہوواہ خدا نے آدمی کو یہ حکم دیا:‏ ”‏تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروک‌ٹوک کھا سکتا ہے۔‏ لیکن نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ یہوواہ خدا نے اُس درخت کو اپنی مخلوقات کے لئے اچھے اور بُرے کا فیصلہ کرنے کے اپنے امتیازی حق کی نمائندگی کرنے کے لئے یہ منفرد نام دیا۔‏ لہٰذا نیک‌وبد کے خدائی معیار انسانی کاموں،‏ نقطۂ‌نظر اور شخصی خصائل کی عدالت یا جانچ کرنے کی بنیاد بن گئے۔‏ پس ایسے معیاروں کے بغیر ہم صحیح اور غلط میں صحیح امتیاز نہیں کر سکتے۔‏

نیک‌وبد کے درخت کے متعلق حکم نے آدم اور حوا کے سامنے فرمانبرداری یا نافرمانی کرنے کا ایک انتخاب رکھ دیا تھا۔‏ ان کیلئے نیکی کا مطلب اس حکم کی تعمیل تھا۔‏ اِسکے بعد یہوواہ نے مزید آشکارا کِیا کہ وہ کس طرح کی باتوں سے خوش اور ناراض ہوتا ہے اور اس نے اسے ہمارے لئے بائبل میں قلمبند کرا دیا ہے۔‏ پس نیکی کو عمل میں لانے کے لئے صحائف میں پیش‌کردہ یہوواہ کے راست معیاروں کی اطاعت کرنا شامل ہے۔‏

خدا کے معیاروں سے پوری طرح واقف ہوں

یہوواہ خدا کی طرف سے اچھائی اور بُرائی کے مُعیّن معیاروں کے بائبل میں آشکارا ہونے کی وجہ سے کیا ہمیں ان سے پوری طرح واقف نہیں ہونا چاہئے؟‏ پولس رسول نے تحریر کِیا:‏ ”‏ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ‌مند بھی ہے۔‏ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

مثال کے طور پر،‏ پچھلے مضمون میں متذکرہ کونی‌ہیٹو کی غلط‌فہمی پر غور کریں جس کا اُسے اپنی ثقافت کے نقطۂ‌نظر سے انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامنا کرنا پڑا تھا۔‏ صحیفائی معیاروں کے قریبی جائزے نے اس کی بعدازاں زیادہ متوازن سوچ اختیار کرنے میں مدد کی۔‏ بائبل یقیناً انکساری کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے اور یہ حد سے زیادہ خوداعتمادی اور تکبّر کے خلاف مشورہ دیتی ہے۔‏ (‏امثال ۱۱:‏۲؛‏ میکاہ ۶:‏۸‏)‏ تاہم،‏ ”‏جو شخص نگہبان کا عہدہ چاہتا ہے،‏“‏ اِس شرف کے لئے ضروری لیاقتوں کا ذکر کرتے ہوئے پولس رسول نے بیان کِیا کہ ”‏وہ اچھے کام کی خواہش کرتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ ایسے ”‏اچھے کام کی خواہش“‏ نہ صرف شیخی‌باز یا متکبر ہوئے بغیر بلکہ خود کو غیرضروری طور پر حقیر سمجھے بغیر کی جانی چاہئے۔‏

بائبل کاروباری حلقے میں اخلاقی فضیلت کی بابت کیا کہتی ہے؟‏ قابلِ‌اعتراض طریقوں کو عمل میں لانا یا سرکاری ضابطوں اور ٹیکس کے قوانین سے بچنا آجکل کی کاروباری دُنیا کا عام دستور ہے۔‏ تاہم،‏ اس سے قطع‌نظر کہ دوسرے کیا کرتے ہیں بائبل کا معیار یہ ہے کہ ہمیں ”‏ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا“‏ چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ تاہم،‏ ہم آجروں،‏ اجیروں،‏ گاہکوں اور سرکاری حکومتوں کے ساتھ دیانتدار اور غیرجانبدار ہونے سے نیکی کے طالب ہوتے ہیں۔‏ (‏استثنا ۲۵:‏۱۳-‏۱۶؛‏ رومیوں ۱۳:‏۱؛‏ ططس ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ دیانتداری یقیناً اعتماد اور خیرخواہی کو فروغ دیتی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ معاہدوں کو تحریری شکل دینا اکثراوقات غلط‌فہمیوں اور پیچیدگیوں سے بچاتا ہے جو ”‏حادثہ“‏ کے باعث کھڑی ہو سکتی ہیں۔‏—‏واعظ ۹:‏۱۱؛‏ یعقوب ۴:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

لباس اور وضع‌قطع کا معاملہ ایک اَور حلقہ ہے جس میں ہمیں نیکی کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔‏ ثقافت کے لحاظ سے کپڑوں کا انتخاب فرق ہوتا ہے اور حالیہ اسٹائل اور فیشن کو اپنانے کا دباؤ شدید ہو سکتا ہے۔‏ لیکن ہمیں ہر وقتی اسٹائل یا فیشن کو کیوں اپنانا چاہئے؟‏ بائبل ہمیں ”‏اس جہان کے ہمشکل نہ [‏بننے]‏“‏ کی فہمائش کرتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۲‏)‏ قوانین بنانے کے برعکس پولس رسول نے خدائی الہام سے لکھا:‏ ”‏مَیں چاہتا ہوں کہ .‏ .‏ .‏ عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے۔‏ بلکہ نیک کاموں سے جیسا خداپرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کو مناسب ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اس بنیادی معیار کا اطلاق آدمیوں اور عورتوں دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔‏ بیشک،‏ ثقافتی ترجیح یا ذاتی پسند کی بِنا پر مختلف قسم کے معقول‌ومقبول اسٹائل اپنانے کی گنجائش ہے۔‏

بائبل بداخلاقی کے کاموں کی بابت بھی بتاتی ہے جنکی خدا صریحاً مذمت کرتا ہے۔‏ ہم ۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹،‏ ۱۰ میں آگاہی پڑھتے ہیں:‏ ”‏کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کی وارث نہ ہونگے؟‏ فریب نہ کھاؤ۔‏ نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہونگے نہ بت‌پرست نہ زناکار نہ عیاش۔‏ نہ لونڈےباز۔‏ نہ چور۔‏ نہ لالچی نہ شرابی۔‏ نہ گالیاں بکنے والے نہ ظالم۔‏“‏ اس صحیفے نے شروع میں متذکرہ ماریہ کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ اخلاقی فضیلت کے سلسلے میں خالق کے معیار کے مطابق،‏ ہوآن کیساتھ اس کی وابستگی غلط تھی اور اگر وہ خدا کی خوشنودی چاہتی ہے تو اسے اس معاملے کو ختم کر دینا چاہئے۔‏ واضح طور پر نیکی کو عمل میں لانے کیلئے ہمیں یہوواہ کے معیاروں سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔‏

دل سے سیکھیں

نیکی محض بدی سے انفعالی طور پر کنارہ‌کشی نہیں ہے۔‏ اس میں اخلاقی قوت شامل ہوتی ہے۔‏ ایک نیک شخص اخلاقی فضیلت کا مالک ہوتا ہے۔‏ ایک پروفیسر کے مطابق،‏ ”‏نیکی کو دل کیساتھ ساتھ ذہن سے سیکھا جانا چاہئے۔‏“‏ پس،‏ نیکی کو عمل میں لانے میں خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔‏ یہ لکھی ہوئی باتوں پر غوروخوض کرنے کا تقاضا کرتا ہے اس طرح ہمارے دل یہوواہ کی شکرگزاری کیساتھ معمور رہتے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں میں صحیفائی اُصولوں کا اطلاق کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔‏

‏”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔‏“‏ زبورنویس کیسے زوردار طریقے سے بیان کرتا ہے۔‏ ”‏مجھے دن بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۷‏)‏ اس کے علاوہ داؤد بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏مَیں گذشتہ زمانوں کو یاد کرتا ہوں۔‏ مَیں تیرے [‏خدا کے]‏ سب کاموں پر غور کرتا ہوں اور تیری دستکاری پر دھیان کرتا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۳:‏۵‏)‏ ہمیں بھی دُعائیہ غوروفکر کو بائبل اور بائبل پر مبنی مطبوعات کے اپنے مطالعہ کا جُزولازم بنانا چاہئے۔‏

یہ سچ ہے کہ مستعد مطالعے کے ساتھ ساتھ غوروخوض کے لئے وقت نکالنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔‏ لیکن نیکی کو عمل میں لانے کے لئے ہمیں دیگر کاموں سے وقت نکالنا پڑتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ ہارون،‏ جس کی عمر ۲۴ سال ہے،‏ ہر روز صبح آدھا گھنٹہ پہلے اُٹھکر ایسا وقت نکالتا ہے جبکہ پہلے وہ ایسا نہیں کِیا کرتا تھا۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں شروع شروع میں پورے آدھے گھنٹے کے لئے صرف پڑھائی کرتا تھا۔‏ تاہم،‏ مَیں نے حال ہی میں غوروخوض کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔‏ تاہم اب مَیں تقریباً نصف وقت کو جو کچھ مَیں نے پڑھا ہوتا ہے اس پر غور کرنے میں صرف کرتا ہوں۔‏ یہ واقعی بااجر رہا ہے۔‏“‏ دیگر اوقات پر غوروخوض کِیا جا سکتا ہے۔‏ داؤد نے یہوواہ کے لئے ایک گیت میں کہا:‏ ”‏رات کے ایک ایک پہر میں تجھ پر دھیان کرونگا۔‏“‏ (‏زبور ۶۳:‏۶‏)‏ بائبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ”‏شام کے وقت اِضحاؔق سوچنے کو میدان میں گیا۔‏“‏—‏پیدایش ۲۴:‏۶۳‏۔‏

نیکی کو عمل میں لانے کے لئے غوروخوض قابلِ‌قدر ہے کیونکہ یہ یہوواہ کے فکروعمل کو اپنانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ماریہ جانتی تھی کہ خدا حرامکاری سے منع کرتا ہے۔‏ لیکن ’‏بدی سے نفرت رکھنے اور نیکی سے لپٹے رہنے‘‏ کے لئے اُسے بائبل کی کلیدی آیات پر غوروخوض کرنے کی ضرورت تھی۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۹‏)‏ کلسیوں ۳:‏۵ پڑھنے کے بعد تبدیلیاں لانے کی ضرورت کو سمجھنے میں اس کی مدد کی گئی جو ہمیں تاکید کرتی ہے کہ ’‏اپنے اعضا یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو مُردہ کرو۔‏‘‏ ماریہ کو خود سے پوچھنا پڑا:‏ ’‏مجھے کس قسم کی شہوت کو مُردہ کرنا چاہئے؟‏ مجھے گندی خواہشات کو پیدا کرنے والی کس چیز سے گریز کرنا چاہئے؟‏ جس طرح مَیں مخالف‌جنس کے اشخاص سے پیش آتی ہوں کیا مجھے اُس میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے؟‏‘‏

غوروخوض میں کام کے نتیجے پر غور کرنا شامل ہوتا ہے۔‏ پولس نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ حرامکاری سے بچے رہیں اور ضبطِ‌نفس پیدا کریں تاکہ ”‏کوئی شخص اپنے بھائی کیساتھ اِس امر میں زیادتی اور دغا نہ کرے۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۷‏)‏ غورطلب عمدہ سوال یہ ہیں:‏ ’‏اس کام سے مجھے،‏ میرے خاندان کو یا دیگر اشخاص کو کیسے نقصان پہنچے گا؟‏ مَیں روحانی طور پر،‏ جذباتی طور پر اور جسمانی طور پر کیسے متاثر ہونگا؟‏ ماضی میں خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کرنے والوں کا کیا انجام ہوا؟‏‘‏ ایسے غوروخوض نے ماریہ کے دل کو مضبوط کِیا اور ایسا ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔‏

مثالوں سے سیکھیں

کیا ایک کلاس‌روم میں نیکی سکھائی جا سکتی ہے؟‏ اس سوال نے ہزاروں سال سے مفکرین کو اُلجھن میں ڈال رکھا ہے۔‏ یونانی مفکر افلاطون اس سوچ کی طرف مائل تھا کہ یہ سکھائی جا سکتی ہے۔‏ دوسری طرف ارسطو نے استدلال کِیا کہ نیکی عمل سے پیدا کی جا سکتی ہے۔‏ ایک صحافی نے اس طرح سے بحث کو سمیٹا:‏ ”‏مختصراً،‏ نیکی کا ضابطۂ‌اخلاق سیکھا نہیں جا سکتا۔‏ نہ ہی اسے کسی درسی کتاب سے سکھایا جا سکتا ہے۔‏ عمدہ کردار لوگوں میں رہنے سے حاصل ہوتا ہے .‏ .‏ .‏ جہاں نیکی کی حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے اور اس کا اجر دیا جاتا ہے۔‏“‏ لیکن ہم حقیقی طور پر نیک اشخاص کہاں پا سکتے ہیں؟‏ اگرچہ زیادہ‌تر ثقافتیں نیکی کی چند مثالیں صرف اپنے اساطیری ہیرو اور کہانیوں میں پیش کرتی ہیں،‏ تاہم بائبل میں کافی حقیقی مثالیں پائی جاتی ہیں۔‏

نیکی کی اعلیٰ‌ترین مثال یہوواہ کی ہے۔‏ وہ ہمیشہ نیکی کو عمل میں لاتا ہے اور راستی اور بھلائی کے کام کرتا ہے۔‏ ہم ”‏خدا کی مانند [‏بننے]‏“‏ سے نیکی کے طالب ہو سکتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱‏)‏ اس کے علاوہ،‏ خدا کے بیٹے یسوع مسیح نے ’‏ہمیں ایک نمونہ دیا ہے تاکہ ہم اُسکے نقشِ‌قدم پر چلیں۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ مزیدبرآں،‏ بائبل میں ابرہام،‏ سارہ،‏ یوسف،‏ روت،‏ ایوب،‏ دانی‌ایل اور اُس کے تین عبرانی ساتھیوں جیسے بہتیرے وفادار اشخاص کی سرگزشتیں پائی جاتی ہیں۔‏ یہوواہ کے زمانۂ‌جدید کے خادموں کی مثالیں بھی کوئی کم اہم نہیں ہیں۔‏

ہم کامیاب ہو سکتے ہیں

کیا ہم خدا کی نظر میں نیک کام کرنے میں واقعی کامیاب ہو سکتے ہیں؟‏ موروثی ناکاملیت کے باعث،‏ بعض‌اوقات ہمارے باطن میں عقل اور جسم کے درمیان یعنی نیک کام کرنے کی خواہش اور اپنے گنہگارانہ رُجحانات کی پیروی کرنے کے درمیان شدید کشمکش ہو سکتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲؛‏ ۷:‏۱۳-‏۲۳‏)‏ لیکن یہ لڑائی خدا کی مدد سے جیتی جا سکتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہوواہ نے اپنا کلام اور بائبل پر مبنی مطبوعات فراہم کی ہیں۔‏ صحائف کے مستعد مطالعے اور ان پر دُعائیہ غوروفکر سے ہم پاک دل ہو سکتے ہیں۔‏ اِسی پاک دل سے نیک خیال،‏ الفاظ اور افعال نکل سکتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۶:‏۴۵‏)‏ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی مثالوں پر مبنی ایک خداترس شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔‏ نیز ہم یقیناً ایسے اشخاص سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو آجکل خدا کی وفاداری سے خدمت کر رہے ہیں۔‏

پولس رسول نے اپنے قارئین کو تاکید کی کہ نیکی اور تعریف کی باتوں پر ”‏غور کِیا کرو۔‏“‏ ایسا کرنا یقیناً خدا کی برکت حاصل کرنے پر منتج ہوگا۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ یہوواہ کی مدد کے ساتھ،‏ ہم نیکی کو عمل میں لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

غوروخوض کو اپنے بائبل مطالعے کا جُزولازم بنائیں

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

مسیح یسوع کی نقل کرنے سے ایک خداترس شخصیت کی تعمیر کریں