مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جہاں پر بھی میری ضرورت تھی مَیں نے خدمت کی

جہاں پر بھی میری ضرورت تھی مَیں نے خدمت کی

میری کہانی میری زبانی‏—‏

جہاں پر بھی میری ضرورت تھی مَیں نے خدمت کی

از جیمز بی بیری

یہ سن ۱۹۳۹ کی بات ہے کہ ریاستہائےمتحدہ میں کسادبازاری کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو گئی تھیں اور سارے یورپ میں جنگ کے آثار نظر آ رہے تھے۔‏ مَیں اور میرا چھوٹا بھائی بینٹ کام کی تلاش میں مس‌سیسی‌پی سے اپنا گھر چھوڑ کر ہوسٹن،‏ ٹیکساس آ گئے تھے۔‏

ایک روز موسمِ‌گرما کے آخر میں،‏ ہم نے ریڈیو کی خراب آواز میں یہ حیران‌کُن اعلان سنا:‏ ہٹلر کی فوجیں پولینڈ میں داخل ہو گئی ہیں۔‏ یہ اعلان سن کر میرے بھائی نے بلند آواز سے کہا،‏ ”‏ہرمجدون شروع ہو گئی ہے!‏“‏ ہم نے فوراً اپنی نوکریاں چھوڑ دیں۔‏ ہم قریبی کنگڈم ہال میں گئے اور پہلی مرتبہ اجلاس پر حاضر ہوئے۔‏ کنگڈم ہال میں کیوں؟‏ آئیں مَیں آپ کو شروع سے بتاتا ہوں۔‏

مَیں ۱۹۱۵ میں حبرون،‏ مس‌سیسی‌پی میں پیدا ہوا۔‏ ہم دیہات میں رہتے تھے۔‏ بائبل سٹوڈنٹس،‏ جیسا کہ یہوواہ کے گواہ اُس وقت کہلاتے تھے،‏ سال میں ایک مرتبہ آکر کسی کے گھر میں تقریر کا بندوبست کِیا کرتے تھے۔‏ نتیجتاً،‏ میرے والدین کے پاس بائبل پر مبنی بہتیری مطبوعات تھیں۔‏ مَیں اور بینٹ ان کتابوں میں پیش کی گئی تعلیم—‏آتشی دوزخ کا کوئی وجود نہیں ہے،‏ جان مرتی ہے،‏ راستباز زمین پر ہمیشہ زندہ رہینگے—‏کو ماننے لگے۔‏ تاہم،‏ ہمیں ابھی بھی بہت کچھ سیکھنا تھا۔‏ سکول سے فارغ ہونے کے بعد مَیں اور میرا بھائی کام کی تلاش میں ٹیکساس روانہ ہوئے۔‏

بالآخر،‏ جب کنگڈم ہال میں ہمارا رابطہ گواہوں سے ہوا تو انہوں نے ہم سے پوچھا کہ آیا ہم پائنیر ہیں۔‏ ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پائنیر یہوواہ کے گواہوں کا ایک کُل‌وقتی خادم ہوتا ہے۔‏ اس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ آیا ہم منادی کرنا چاہتے ہیں۔‏ ”‏یقیناً!‏“‏ ہم نے جواب دیا۔‏ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہمارے ساتھ کسی کو یہ دکھانے کیلئے بھیجیں گے کہ یہ کام کیسے کِیا جاتا ہے۔‏ اس کی بجائے انہوں نے ہمیں ایک نقشہ تھمایا اور کہا،‏ ”‏یہاں کام کریں!‏“‏ مَیں اور بینٹ چونکہ منادی کی بابت کچھ نہیں جانتے تھے اسلئے ہمیں کسی بھی طرح کی شرمندگی کا سامنا کرنے کے خیال سے کوفت ہو رہی تھی۔‏ آخرکار،‏ ہم نے ٹیریٹری کارڈ لیٹربکس میں ڈالا اور واپس مس‌سیسی‌پی آ گئے!‏

بائبل سچائی اپنانا

گھر واپس آنے کے بعد،‏ ہم نے تقریباً ایک سال تک ہر روز گواہوں کی مطبوعات پڑھیں۔‏ ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی پس رات کو ہم الاؤ کی روشنی میں پڑھتے تھے۔‏ ان دنوں زون خادم یا سفری نگہبان یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں اور دُوراُفتادہ علاقوں میں رہنے والے گواہوں کو روحانی تقویت دینے کیلئے دَورہ کِیا کرتے تھے۔‏ ان میں سے ایک خادم ٹیڈ کلائن نے ہماری کلیسیا کا دَورہ کِیا اور گھرباگھر کی منادی میں میرے اور بینٹ کیساتھ کام کِیا،‏ وہ اکثر ہم دونوں کو ایک ساتھ ہی لیجاتا تھا۔‏ اس نے پائنیر کام کی بابت ہمیں بہت کچھ بتایا۔‏

اس کی رفاقت نے ہمیں خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی بابت سوچنے کی تحریک دی۔‏ پس اپریل ۱۸،‏ ۱۹۴۰ کو بھائی کلائن نے مجھے،‏ بینٹ اور ہماری بہن ویلوا کو بپتسمہ دیا۔‏ ہمارے والدین ہمارے بپتسمہ پر موجود تھے اور ہمارے اس فیصلے سے خوش تھے۔‏ تقریباً دو سال بعد،‏ انہوں نے بھی بپتسمہ لے لیا۔‏ وہ دونوں—‏ابو ۱۹۵۶ میں اور امی ۱۹۷۵ میں—‏اپنی موت تک خدا کے وفادار رہے۔‏

جب بھائی کلائن نے مجھ سے پوچھا کہ آیا مَیں پائنیر خدمت کر سکتا ہوں تو مَیں نے بتایا کہ مَیں چاہتا تو ہوں لیکن میرے پاس پیسے،‏ کپڑے وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے۔‏ ”‏کوئی بات نہیں،‏“‏ اس نے کہا،‏ ”‏اُس کا انتظام مَیں کر دونگا۔‏“‏ اور اس نے کِیا بھی۔‏ سب سے پہلے اُس نے میری پائنیر خدمت کی درخواست بھیجی۔‏ اس کے بعد وہ مجھے ۳۰۰ کلومیٹر دُور نیو اورلین لے گیا اور مجھے ایک کنگڈم ہال کے اُوپر بننے ہوئے نفیس اپارٹمنٹ دکھائے۔‏ وہ پائنیروں کیلئے تھے۔‏ جلد ہی مَیں وہاں منتقل ہو گیا اور پائنیر کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کِیا۔‏ نیو اورلین میں گواہ پائنیروں کو کپڑے،‏ پیسے اور کھانا دینے سے مدد کرتے تھے۔‏ دن کے دوران بھائی ہمارے لئے کھانا دروازے پر چھوڑ جاتے یا فریج میں رکھ جاتے تھے۔‏ ایک بھائی جو ایک قریبی ریسٹورنٹ کا مالک تھا اس نے ہمیں کہہ رکھا تھا کہ ہم روزانہ ریسٹورنٹ بند ہونے کے وقت وہاں جاکر دن کا بچا ہوا تازہ کھانا—‏گوشت،‏ روٹی،‏ قیمہ اور شملہ‌مرچ کا سالن اور میٹھی ڈش—‏لے سکتے ہیں۔‏

متشدّد ہجوم کا سامنا کرنا

کچھ عرصہ بعد،‏ مجھے پائنیر خدمت کیلئے جیکسن،‏ مس‌سیسی‌پی بھیج دیا گیا۔‏ مجھے اور میرے نوجوان ساتھی کو وہاں متشدّد ہجوم کا سامنا ہوا جسکی پُشت پر غالباً قانون نافذ کرنے والے مقامی لوگ تھے!‏ ہماری اگلی تفویض،‏ کولمبس،‏ مس‌سیسی‌پی میں بھی ایسی ہی بات واقع ہوئی۔‏ تمام نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو منادی کرنے کی وجہ سے بعض سفیدفام لوگ ہم سے نفرت کرتے تھے۔‏ بہتیرے لوگوں کے خیال میں ہم تخریب‌کار تھے۔‏ ایک نہایت حب‌الوطن تنظیم،‏ امریکن لیجن کا سابق کمانڈر بھی یہی نظریہ رکھتا تھا۔‏ کئی مرتبہ اس نے مشتعل ہجوم کو ہم پر حملہ کرنے کیلئے اُکسایا۔‏

کولمبس میں جب ہم پر پہلی مرتبہ حملہ ہوا تو ہم گلی میں رسالے پیش کر رہے تھے کہ ایک ہجوم نے ہمیں گھیر لیا۔‏ انہوں نے ہمیں شیشے والی ایک دُکان کی کھڑکی کیساتھ کھڑا کر دیا۔‏ ایک بِھیڑ تماشا دیکھنے کیلئے جمع ہو گئی۔‏ جلد ہی وہاں پولیس پہنچ گئی اور ہمیں عدالت میں لے گئی۔‏ ہجوم عدالت تک ہمارے پیچھے آیا اور سب سرکاری افسروں کے سامنے اعلان کِیا کہ اگر ہم نے مخصوص تاریخ تک اس شہر کو نہ چھوڑا تو وہ ہمیں جان سے مار دینگے۔‏ ہم نے سوچا کہ کچھ عرصہ کیلئے علاقے کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے!‏ لیکن کچھ ہفتوں بعد،‏ ہم واپس لوٹ آئے اور دوبارہ منادی شروع کر دی۔‏

زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ آٹھ آدمیوں کا ایک گروہ ہم پر چڑھ آیا اور ہمیں اپنی دو کاروں میں زبردستی بٹھا لیا۔‏ وہ ہمیں جنگل میں لے گئے اور ہمارے کپڑے اُتار کر میرے ہی بیلٹ سے ہم دونوں کو تیس تیس بیلٹ مارے!‏ ان کے پاس بندوقیں اور رسیاں بھی تھیں اور مَیں ضرور کہوں گا کہ ہم ڈر گئے تھے۔‏ میرا خیال تھا کہ وہ ہمیں باندھ کر دریا میں پھینک دیں گے۔‏ انہوں نے ہمارا لٹریچر پھاڑ کر بکھیر دیا اور فونوگراف ایک درخت سے مار مار کر توڑ دیا۔‏

ہمیں مارنے کے بعد،‏ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ اپنے کپڑے پہن کر پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر جنگل کے راستے چلیں جائیں۔‏ جب ہم چل رہے تھے تو ہم نے سوچا کہ اگر ہم نے پیچھے مڑنے کی جُرأت کی تو وہ ہمیں گولی مار دینگے اور کوئی اُنہیں کچھ نہیں کہے گا!‏ لیکن چند منٹ بعد،‏ ہم نے ان کے جانے کی آواز سنی۔‏

ایک اَور موقع پر جب ایک مشتعل ہجوم نے ہمارا تعاقب کِیا تو ہمیں بچنے کیلئے اپنے کپڑے اپنی گردنوں پر باندھ کر دریا عبور کرنا پڑا۔‏ اس کے کچھ ہی دیر بعد ہمیں تخریب‌کاری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔‏ مقدمہ چلنے سے پہلے ہم کوئی تین ہفتے جیل میں رہے۔‏ کولمبس میں اس واقعہ کی خوب تشہیر ہوئی۔‏ قریبی کالج کے طالبعلموں کو مقدمے کی سماعت پر حاضر ہونے کیلئے جلدی چھٹی دے دی گئی۔‏ جب دن آیا تو کمرۂعدالت اتنا بھرا ہوا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی!‏ حکومت کی طرف سے گواہی دینے والوں میں دو مُناد،‏ میئر اور پولیس شامل تھی۔‏

جی.‏ سی.‏ کلارک نامی ایک گواہ وکیل اور اس کے ساتھی کو ہماری نمائندگی کرنے کیلئے بھیجا گیا۔‏ انہوں نے کہا کہ شہادت نہ ہونے کے باعث تخریب‌کاری کے الزامات خارج کر دئے جانے چاہئیں۔‏ بھائی کلارک کیساتھ کام کرنے والے وکیل نے گواہ نہ ہونے کے باوجود ہمارے حق میں زبردست بیان دئے۔‏ ایک موقع پر اُس نے جج سے کہا،‏ ”‏لوگ کہتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ دیوانے ہیں۔‏ دیوانے؟‏ تھامس ایڈیسن کو بھی لوگ دیوانہ کہتے تھے!‏“‏ اس کے بعد اس نے بلب کی طرف اشارہ کر کے کہا،‏ ”‏لیکن اس بلب کی طرف دیکھیں!‏“‏ ایڈیسن جس نے بلب ایجاد کِیا بعض کے خیال میں وہ دیوانہ تھا لیکن کوئی بھی اس کی کامرانیوں پر اُنگلی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔‏

گواہی سننے کے بعد جج نے مدعی سے کہا:‏ ”‏آپ کے پاس تخریب‌کاری کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور انہیں یہ کام کرنے کا حق بھی ہے۔‏ اسلئے آئندہ جبتک آپ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو انہیں عدالت میں لا کر حکومت کا پیسہ اور وقت اور میرا بھی وقت ضائع نہ کریں!‏“‏ ہم جیت گئے!‏

اس کے بعد،‏ جج نے ہمیں اپنے چیمبر میں بلایا۔‏ وہ جانتا تھا کہ سارا شہر اس فیصلے کے خلاف ہے۔‏ لہٰذا اس نے ہمیں خبردار کِیا:‏ ”‏میرا فیصلہ قانون کے مطابق تھا لیکن مَیں آپ دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ یہاں سے چلیں جائیں ورنہ وہ آپ کو قتل کر ڈالینگے!‏“‏ ہم جانتے تھے کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے لہٰذا ہم نے شہر چھوڑ دیا۔‏

مَیں وہاں سے بینٹ اور ویلوا کے پاس چلا گیا جو کلارکس‌وائل ٹنی‌سی میں سپیشل پائنیروں کے طور پر کام کر رہے تھے۔‏ چند ماہ کے بعد،‏ ہمیں پیرس کین‌ٹکی میں بھیج دیا گیا۔‏ ڈیڑھ سال بعد،‏ جب ہم وہاں ایک کلیسیا تشکیل دینے والے تھے تو مجھے اور بینٹ کو ایک خاص دعوت حاصل ہوئی۔‏

مشنری خدمت کیلئے روانگی

جب ہم نے واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی دوسری کلاس میں حاضر ہونے کا دعوت‌نامہ دیکھا تو ہم نے سوچا،‏ ’‏ان سے غلطی ہو گئی ہے!‏ وہ سکول میں مس‌سیسی‌پی کے دو سادہ نوجوانوں کو بھلا کیوں بلائینگے؟‏‘‏ ہمارا خیال تھا کہ اُنہیں تعلیم‌یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے لیکن بہرحال ہم چلے گئے۔‏ کلاس میں ۱۰۰ طالبعلم تھے اور پانچ ماہ کا کورس تھا۔‏ گریجویشن جنوری ۳۱،‏ ۱۹۴۴ میں ہوئی اور ہم غیرملکی میدان میں خدمت کرنے کے مشتاق تھے۔‏ لیکن ان دنوں ویزے اور پاسپورٹ میں کافی وقت لگتا تھا لہٰذا طالبعلموں کو عارضی طور پر ریاستہائےمتحدہ میں ہی خدمت کیلئے مقرر کر دیا گیا۔‏ البامہ اور جارجیا میں پائنیروں کے طور پر خدمت کرنے کے بعد،‏ آخرکار مجھے اور بینٹ کو بارباڈوس،‏ ویسٹ‌انڈیز میں خدمت کرنے کی تفویض ملی۔‏

دوسری عالمی جنگ ابھی زوروں پر تھی اور بارباڈوس سمیت بہتیرے ممالک میں یہوواہ کے گواہوں کے کام اور لٹریچر پر پابندی تھی۔‏ وہاں کسٹم کے افسروں نے ہمارا سامان کھولا اور اس کا معائنہ کِیا اور جو لٹریچر ہم نے چھپایا ہوا تھا اسے دیکھ لیا۔‏ ہمارے خیال میں،‏ ’‏اب ہماری خیر نہیں تھی۔‏‘‏ اس کی بجائے،‏ ایک اہلکار نے بڑی سادگی سے کہا:‏ ”‏ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کا سامان دیکھا؛‏ اس میں سے کچھ لٹریچر پر بارباڈوس میں پابندی ہے۔‏“‏ پھر بھی اس نے ہمیں سارے لٹریچر سمیت بارباڈوس میں داخل ہونے دیا!‏ بعدازاں،‏ جب ہم نے حکومتی اہلکاروں کو گواہی دی تو انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ اس لٹریچر پر پابندی کیوں لگائی گئی ہے۔‏ کچھ ماہ بعد پابندی اُٹھا لی گئی۔‏

بارباڈوس میں ہماری خدمت کافی کامیاب رہی۔‏ ہم دونوں پندرہ پندرہ بائبل مطالعے کراتے تھے جن میں سے زیادہ‌تر طالبعلموں نے روحانی طور پر ترقی کی۔‏ ہم بعض کو کلیسیائی اجلاس پر آتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔‏ تاہم،‏ کچھ عرصہ کیلئے لٹریچر پر پابندی ہونے کی وجہ سے،‏ بھائی اجلاس منعقد کرانے کے تازہ‌ترین طریقوں سے واقف نہیں تھے۔‏ تاہم،‏ جلد ہی ہم کئی لائق بھائیوں کو تربیت دینے کے قابل ہوئے۔‏ ہمیں اپنے کئی طالبعلموں کو مسیحی خدمتگزاری کا آغاز کرنے میں مدد دینے اور کلیسیا کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنے کی خوشی بھی حاصل ہوئی۔‏

خاندان کی پرورش کرنا

بارباڈوس میں ۱۸ ماہ کے بعد،‏ مجھے آپریشن کرانے کیلئے ریاستہائےمتحدہ آنا پڑا۔‏ وہاں قیام کے دوران مَیں نے ڈورتھی نامی ایک گواہ سے شادی کر لی جس سے مَیں خط‌وکتابت کرتا تھا۔‏ میری بیوی اور مَیں نے تلاہاسی،‏ فلوریڈا میں پائنیرنگ کی،‏ لیکن چھ ماہ بعد ہم لوئیول،‏ کین‌ٹکی میں منتقل ہو گئے جہاں ایک گواہ نے مجھے ملازمت کی پیشکش کی۔‏ میرے بھائی بینٹ نے بارباڈوس میں کئی سال تک خدمت جاری رکھی۔‏ اس نے بھی بعد میں ایک ساتھی مشنری سے شادی کر لی اور جزائر میں سفری خدمت انجام دی۔‏ آخرکار انہیں صحت خراب ہونے کی وجہ سے ریاستہائےمتحدہ واپس آنا پڑا۔‏ انہوں نے ۱۹۹۰ میں ۷۳ سال کی عمر میں بینٹ کی موت تک سفری کام میں ہسپانوی زبان بولنے والی کلیسیاؤں میں خدمت کرنا جاری رکھا۔‏

ڈورتھی نے ۱۹۵۰ میں ہماری پہلی بچی کو جنم دیا جس کا نام ہم نے ڈیرل رکھا۔‏ ہمارے پانچ بچے ہوئے۔‏ ہمارے دوسرے بچے کا نام ڈیرک تھا جو صرف ڈھائی سال کی عمر میں گردن‌توڑ بخار کی وجہ سے مر گیا۔‏ لیکن ۱۹۵۶ میں لیزلی اور ۱۹۵۸ میں ایورٹ پیدا ہوا۔‏ مَیں نے اور ڈورتھی نے بائبل سچائی کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش کی۔‏ ہم نے ہمیشہ ہفتہ‌وار خاندانی بائبل مطالعے کے پروگرام پر کاربند رہنے اور اسے بچوں کیلئے دلچسپ بنانے کی کوشش کی۔‏ جب ڈیرل،‏ لیزلی اور ایورٹ ابھی چھوٹے ہی تھے تو ہم انہیں ہر ہفتے کچھ سوالات دیتے تھے تاکہ وہ اگلے ہفتے تحقیق کر کے ان کا جواب دیں۔‏ وہ ہمیں گھرباگھر کی منادی بھی کر کے دکھاتے تھے۔‏ ایک کپڑوں کی الماری میں جاتا اور صاحبِ‌خانہ بنتا۔‏ دوسرا باہر کھڑا ہو کر دستک دیتا۔‏ وہ ایک دوسرے کو ڈرانے کیلئے کچھ اظہارات بھی استعمال کرتے لیکن اس بات نے منادی کے کام کیلئے محبت پیدا کرنے میں انکی مدد کی۔‏ ہم بھی انکے ساتھ باقاعدگی سے منادی کرتے تھے۔‏

جب ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا،‏ ایلٹن ۱۹۷۳ میں پیدا ہوا تو ڈورتھی کی عمر ۵۰ اور میری ۶۰ کے قریب تھی۔‏ کلیسیا میں ہمیں ابرہام اور سارہ کہنے لگے!‏ (‏پیدایش ۱۷:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ بڑے لڑکے اکثراوقات خدمتگزاری میں ایلٹن کو اپنے ساتھ لیجاتے تھے۔‏ ہم نے محسوس کِیا کہ خاندانوں—‏بھائیوں اور بہنوں،‏ والدین اور بچوں—‏کو اکٹھے ملکر دوسروں کو بائبل سچائی سکھاتے ہوئے دیکھنا لوگوں کیلئے اثرآفرین گواہی تھی۔‏ ایلٹن کے بڑے بھائی اسے اپنے کندھوں پر باری باری اُٹھاتے اور اس کے ہاتھ میں بائبل پر مبنی ایک اشتہار دے دیتے تھے۔‏ جب لوگ دروازہ کھول کر اس خوبصورت بچے کو اپنے بھائی کے کندھوں پر بیٹھا دیکھتے تو وہ ہمیشہ بات سنتے تھے۔‏ لڑکوں نے ایلٹن کو سکھایا تھا کہ بات‌چیت کے بعد وہ اس شخص کو اشتہار دے اور کچھ بات کرے۔‏ اس طرح اس نے منادی کرنا شروع کِیا۔‏

ان تمام سالوں کے دوران ہم نے دوسروں کی یہوواہ کیساتھ واقفیت پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔‏ ہم ۱۹۷۰ کے دہے کے آخر میں خدمت کرنے کیلئے لوئیول سے شیل‌بائیویل،‏ کین‌ٹکی میں اس کلیسیا میں منتقل ہو گئے جہاں ضرورت زیادہ تھی۔‏ وہاں،‏ ہم نے نہ صرف کلیسیا میں ترقی دیکھی بلکہ جگہ تلاش کر کے کنگڈم ہال بنانے میں بھی مدد کی۔‏ بعدازاں ہمیں ایک اَور کلیسیا میں خدمت کرنے کیلئے کہا گیا جو زیادہ دُور نہیں تھی۔‏

خاندانی زندگی کی بےثبات حالتیں

میری خواہش تھی کہ ہمارے سب بچے یہوواہ کی راہ میں قائم رہیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‏ جب وہ بڑے ہوکر ہم سے علیٰحدہ رہنے لگے تو ہمارے چار میں سے تین بچوں نے سچائی کی راہ کو ترک کر دیا۔‏ تاہم،‏ ہمارے بیٹے ایورٹ نے میرے نمونے کی پیروی میں کُل‌وقتی خدمت اختیار کی۔‏ اس نے بعدازاں نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹر میں خدمت کی اور اُسے ۱۹۸۴ میں گلئیڈ کی ۷۷ ویں کلاس میں مدعو کِیا گیا۔‏ گریجویشن کے بعد،‏ اسے سیرالیون،‏ مغربی افریقہ میں تعینات کِیا گیا۔‏ اس نے ۱۹۸۸ میں بیلجیئم کی ایک پائنیر،‏ میرئن سے شادی کر لی۔‏ وہ اُس وقت سے مشنریوں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔‏

تمام والدین تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ بات کتنی تکلیف‌دہ تھی کہ ہمارے تین بچوں نے اُس طرزِزندگی کو ترک کر دیا جو نہ صرف اب اطمینان بخشتا ہے بلکہ مستقبل میں فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی خوبصورت اُمید بھی دیتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار مَیں خود کو الزام دیتا تھا۔‏ لیکن یہ جاننے سے مجھے تسلی ملی کہ یہوواہ کی اپنی روحانی اولاد یا فرشتگان میں سے بعض نے اس کی خدمت کرنا چھوڑ دی تھی—‏لیکن یہوواہ محبت اور شفقت کیساتھ تربیت کرتا ہے اور وہ کبھی غلطی نہیں کرتا۔‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴؛‏ یوحنا ۸:‏۴۴؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۴،‏ ۹‏)‏ اس سے مَیں یہ سمجھ گیا کہ والدین اپنے بچوں کی یہوواہ کی راہ میں پرورش کرنے کیلئے خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں بعض پھربھی سچائی کو قبول کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔‏

جس طرح ایک درخت کو تُندوتیز آندھی کی ٹکریں لگتی ہیں ویسے ہی ہمیں بھی مختلف سختیوں اور مسائل کا تجربہ ہو سکتا ہے جنکے باعث ہمیں اپنی زندگی میں ردوبدل کرنا پڑتا ہے۔‏ کئی سالوں کے تجربے سے مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ باقاعدہ بائبل مطالعہ اور اجلاسوں پر حاضری مجھے ایسا ردوبدل پیدا کرنے اور روحانی طور پر قائم رہنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔‏ اس بڑھاپے میں جب مَیں اپنی ماضی کی غلطیوں پر نگاہ کرتا ہوں تو مَیں انکے روشن پہلو کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔‏ بہرحال،‏ اگر ہم وفادار رہیں تو ایسے تجربات ہماری روحانی ترقی میں اضافہ کرینگے۔‏ اگر ہم ان سے سبق سیکھیں تو زندگی کے منفی پہلوؤں کے بعض مثبت پہلو ضرور ہو سکتے ہیں۔‏—‏یعقوب ۱:‏۲،‏ ۳‏۔‏

اس وقت میری اور ڈورتھی کی صحت اچھی نہیں جسکی وجہ سے ہم یہوواہ کی خدمت میں بھرپور حصہ نہیں لے پاتے۔‏ لیکن ہم اپنے عزیز مسیحی بہن بھائیوں کی حمایت کیلئے شکرگزار ہیں۔‏ تقریباً ہر اجلاس پر بھائی ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ ہماری موجودگی کی کتنی قدر کرتے ہیں۔‏ نیز وہ ہر ممکن طریقے سے—‏حتیٰ‌کہ ہمارے گھر اور کار کی مرمت کے سلسلے میں بھی—‏ہماری مدد کرتے ہیں۔‏

کبھی‌کبھار،‏ ہم امدادی پائنیر خدمت میں شریک ہوتے ہیں اور دلچسپی رکھنے والے اشخاص کیساتھ مطالعے بھی کرتے ہیں۔‏ ہم افریقہ میں خدمت کرنے والے اپنے بیٹے کی طرف سے خبریں سُن کر ہمیشہ خاص خوشی محسوس کرتے ہیں۔‏ ہم ابھی تک خاندانی بائبل مطالعہ کرتے ہیں،‏ اگرچہ اب اس میں صرف دو اشخاص ہی ہوتے ہیں۔‏ ہم خوش ہیں کہ ہم نے اتنے سال یہوواہ کی خدمت کی ہے۔‏ وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ ’‏ہمارے کام اور اس محبت کو کبھی نہیں بھولے گا جو ہم نے اُسکے نام کے واسطے ظاہر کی ہے۔‏‘‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ٹیڈ کلائن نے اپریل ۱۸،‏ ۱۹۴۰ کو مجھے،‏ ویلوا اور بینٹ کو بپتسمہ دیا

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

۱۹۴۰ کے دہے کے اوائل میں اور ۱۹۹۷ میں اپنی بیوی ڈورتھی کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

بارباڈوس میں ایک بس پر عوامی خطاب،‏ ”‏سلامتی کا شہزادہ“‏ کی تشہیر کی جا رہی ہے

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

مشنری ہوم کے سامنے میرا بھائی بینٹ