کیا آپ اپنی مخصوصیت پر قائم ہیں؟
کیا آپ اپنی مخصوصیت پر قائم ہیں؟
”جو کام کرو جی سے کرو۔ یہ جان کر کہ [یہوواہ] کے لئے کرتے ہو نہ کہ آدمیوں کے لئے۔“—کلسیوں ۳:۲۳۔
۱. دُنیاوی نقطۂنظر سے لفظ ”مخصوصیت“ کس بات کی دلالت کرتا ہے؟
کھلاڑی اپنی انتہائی کارکردگی کیسے دکھاتے ہیں؟ ٹینس، فٹبال، دوڑ، گولف یا کوئی بھی کھیل ہو سب سے بہترین کھلاڑی اپنی مستحکم مخصوصیت کی بدولت ہی عزتوشہرت کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اس کیلئے جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کی موزوں حالت اور استعمال سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ بات لفظ ”مخصوص“ کی اس تعریف کے عین مطابق ہے کہ ”کسی خاص نظریے یا کام کیلئے پوری طرح وقف ہونا۔“
۲. بائبل میں ”مخصوصیت“ کا کیا مطلب ہے؟ وضاحت کریں۔
۲ تاہم، بائبل کے لحاظ سے ”مخصوصیت“ کا کیا مطلب ہے؟ ”مخصوص“ ایک عبرانی فعل کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ”علیٰحدہ، الگ اور جُدا ہونا“ ہے۔ * قدیم اسرائیل میں، سردار کاہن ہارون عمامہ کے اُوپر ”مُقدس تاج“ پہنا کرتا تھا جو خالص سونے کا پتر تھا جس پر عبرانی الفاظ میں یہ عبارت کندہ تھی کہ ”[یہوواہ] کے لئے مُقدس۔“ یہ دراصل سردار کاہن کیلئے ایک یاددہانی تھی کہ اُسے مقدِس کی بےحُرمتی کرنے والے کسی بھی کام سے گریز کرنا چاہئے ”کیونکہ اُسکے خدا کے مسح کرنے کے تیل کا تاج اُس پر [تھا]۔“—خروج ۲۹:۶؛ ۳۹:۳۰؛ احبار ۲۱:۱۲۔
۳. مخصوصیت کو ہمارے چالچلن پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
۳ اس سیاقوسباق کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مخصوصیت ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ خدا کے خادم کے طور پر رضاکارانہ شناخت کی دلالت اور پاک چالچلن کا تقاضا کرتی ہے۔ اسلئے، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پطرس رسول نے یہوواہ کی اس بات کا حوالہ کیوں دیا تھا: ”پاک ہو اسلئے کہ مَیں پاک ہوں۔“ (۱-پطرس ۱:۱۵، ۱۶) مخصوص مسیحیوں کے طور پر، آخر تک وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مخصوصیت پر قائم رہنا ہماری بھاری ذمہداری ہے۔ لیکن مسیحی مخصوصیت میں کیا شامل ہے؟—احبار ۱۹:۲؛ متی ۲۴:۱۳۔
۴. ہم مخصوصیت کے قدم تک کیسے پہنچتے ہیں اور اسے کس سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے؟
۴ یہوواہ خدا اور اس کے مقاصد اور یسوع مسیح اور ان مقاصد میں اسکے کردار کا صحیح علم حاصل کر لینے کے بعد، ہم نے اپنے سارے دل، جان اور طاقت سے خدا کی خدمت کرنے کا ذاتی فیصلہ کِیا تھا۔ (مرقس ۸:۳۴؛ ۱۲:۳۰؛ یوحنا ۱۷:۳) اسے ایک ذاتی عہد، خدا کیلئے غیرمشروط مخصوصیت خیال کِیا جا سکتا تھا۔ ہماری مخصوصیت کسی جذباتی ترنگ کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ قوتِاستدلال کو استعمال کرتے ہوئے، محتاط اور دُعائیہ غوروفکر کیساتھ کی گئی تھی۔ لہٰذا، یہ کوئی عارضی فیصلہ نہیں تھا۔ ہم ایسے کسی بھی شخص کی مانند نہیں بننا چاہتے جو کھیت میں ہل چلانا شروع کرتا ہے مگر پھر کام ادھورا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اُسے یہ کام بہت سخت لگتا ہے یا وہ سمجھتا ہے کہ کٹائی ابھی بہت دُور ہے یا اس کا کوئی وقت مُعیّن نہیں ہے۔ بعض ایسے اشخاص کی مثالوں پر ذرا غور کریں جنہوں نے اچھے بُرے تمام طرح کے حالات میں تھیوکریٹک ذمہداریوں کے ’ہل پر سے ہاتھ‘ نہیں ہٹایا۔—لوقا ۹:۶۲؛ رومیوں ۱۲:۱، ۲۔
اُنہوں نے اپنی مخصوصیت کو ترک نہ کِیا
۵. یرمیاہ خدا کے مخصوص خادم کے طور پر ایک شاندار مثال کیسے ثابت ہوا؟
۵ یروشلیم میں یرمیاہ کی خدمتگزاری ۴۰ سے زیادہ سال پر محیط یرمیاہ ۱:۲-۶) اُسے ہر روز یہوداہ کے سختدل لوگوں کا سامنا کرنے کے لئے حوصلے اور برداشت کی ضرورت تھی۔ (یرمیاہ ۱۸:۱۸؛ ۳۸:۴-۶) تاہم، یرمیاہ نے یہوواہ خدا پر توکل رکھا جس نے اُسے طاقت بخشی اور وہ خدا کا مخصوص خادم ثابت ہوا۔—یرمیاہ ۱:۱۸، ۱۹۔
(۶۴۷-۶۰۷ ق.س.ع.) تھی اور یہ کوئی آسان تفویض نہ تھی۔ وہ اپنی خامیوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ (۶. یوحنا رسول نے ہمارے لئے کیا نمونہ قائم کِیا ہے؟
۶ وفادار رسول یوحنا پر بھی غور کریں جو ”خدا کے کلام اور یسوؔع کی نسبت گواہی دینے کے باعث“ اپنے بڑھاپے میں پتمُس کے ناسازگار ٹاپو پر قید میں تھا۔ (مکاشفہ ۱:۹) وہ تقریباً ۶۰ سال تک برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مسیحی مخصوصیت پر قائم رہا۔ وہ رومی فوج کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی کے بعد تک زندہ رہا۔ اُسے ایک انجیل، تین الہامی خطوط اور مکاشفہ کی کتاب لکھنے کا شرف حاصل ہوا جس میں اس نے ہرمجدون کی جنگ کو پیشازوقت دیکھا۔ کیا وہ یہ جانکر بیدل ہو گیا کہ ہرمجدون اس کی زندگی میں نہیں آئے گی؟ کیا وہ بےحسی کا شکار ہو گیا تھا؟ ہرگز نہیں، یوحنا یہ جانتے ہوئے موت تک وفادار رہا کہ اگرچہ ’وقت نزدیک تھا‘ توبھی اس رویا کی تکمیل بعد کے کسی زمانے میں ہونی ہے۔—مکاشفہ ۱:۳؛ دانیایل ۱۲:۴۔
مخصوصیت کی جدید مثالیں
۷. ایک بھائی نے مسیحی مخصوصیت کے سلسلے میں کیسے شاندار نمونہ قائم کِیا؟
۷ زمانۂجدید میں، ہزاروں وفادار مسیحی ہرمجدون تک زندہ نہ رہنے کے باوجود سرگرمی سے اپنی مخصوصیت پر قائم رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص انگلینڈ کا ارنسٹ ای. بیور تھا۔ وہ ۱۹۳۹ میں دوسری عالمی جنگ کے شروع میں گواہ بنا اور اس نے کُلوقتی خدمت اختیار کرنے کے لئے پریس فوٹوگرافی کا ایک نفعبخش کاروبار ترک کر دیا۔ اپنی مسیحی غیرجانبداری کو برقرار رکھنے کی وجہ سے اُسے دو سال کے لئے قید کر دیا گیا۔ اس کے خاندان نے اس کی حمایت کی اور ۱۹۵۰ میں اس کے تین بچوں نے نیو یارک میں مشنریوں کیلئے واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ سے تربیت حاصل کی۔ بھائی بیور اپنی منادی کی کارگزاری میں اس قدر سرگرم تھا کہ اس کے دوست اُسے ہرمجدون ارنی کہتے تھے۔ وہ وفاداری سے اپنی مخصوصیت پر قائم رہا اور ۱۹۸۶ میں اپنی موت تک اس نے خدا کی ہرمجدون کی جنگ کے قریب ہونے کا اعلان کِیا۔ اُس نے اپنی مخصوصیت کو خدا کے ساتھ ایک قلیل مدتی معاہدہ خیال نہیں کِیا تھا! *—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
۸، ۹. (ا) سپین میں فرانکو نظامِحکومت کے تحت بہتیرے نوجوانوں نے کیا نمونہ قائم کِیا؟ (ب) کونسے سوالات موزوں ہیں؟
۸ تاحیات سرگرمی سے خدمت کرنے کی ایک اَور مثال سپین سے ہے۔ فرانکو نظامِحکومت (۱۹۳۹-۱۹۷۵) کے دوران، سینکڑوں مخصوص نوجوان گواہوں نے غیرجانبدارانہ مؤقف اختیار کِیا۔ ان میں سے بہتیرے ۱۰ سال سے زیادہ عرصے تک فوجی قید میں رہے۔ خسوس مارٹن نامی ایک
گواہ کی مجموعی قید ۲۲ سال تھی۔ اُسے شمالی افریقہ میں ایک فوجی قیدخانہ میں بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ اس بدسلوکی کو برداشت کرنا آسان تو نہیں تھا لیکن اُس نے مصالحت نہ کی۔۹ اکثراوقات، ان نوجوانوں کو بالکل پتہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں کب رہائی ملے گی کیونکہ انہیں سلسلہوار مختلف سزائیں سنائی گئی تھیں۔ تاہم، وہ اپنی راستی پر اٹل رہے اور اسیری میں بھی خدمتگزاری کیلئے اپنا جوش برقرار رکھا۔ جب ۱۹۷۳ میں، صورتحال آخرکار بہتر ہونے لگی تو ان گواہوں میں سے بہتیروں نے جو اپنے ۳۰ کے دہے کے اوائل میں تھے، قید سے آزاد ہو کر فوراً کُلوقتی خدمت اختیار کر لی، بعض تو سپیشل پائنیر اور سفری نگہبان بن گئے۔ وہ قید میں بھی اپنی مخصوصیت پر قائم رہے اور بیشتر نے رہائی کے بعد بھی اِسے ترک نہ کِیا۔ * آجکل، ہماری بابت کیا ہے؟ کیا ہم بھی ان وفادار اشخاص کی مانند وفاداری سے اپنی مخصوصیت پر قائم ہیں؟—عبرانیوں ۱۰:۳۲-۳۴؛ ۱۳:۳۔
اپنی مخصوصیت کی بابت مناسب نقطۂنظر
۱۰. (ا) ہمیں اپنی مخصوصیت کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ (ب) یہوواہ ہماری خدمت کو کیسا خیال کرتا ہے؟
۱۰ ہم خدا کی مرضی پوری کرنے کی خاطر اس کے لئے اپنی مخصوصیت کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ کیا یہ ہماری زندگی میں مقدم ہے؟ خواہ ہم نوجوان ہیں یا بوڑھے، شادیشُدہ ہیں یا کنوارے، صحتمند ہیں یا بیمار ہمیں اپنے حالات کے مطابق اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایک شخص کے حالات اُسے پائنیر، واچ ٹاور سوسائٹی کے برانچ دفتر میں ایک رضاکار، ایک مشنری یا پھر ایک سفری خادم کے طور پر کُلوقتی خدمت اختیار کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض والدین خاندان کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرنے میں ازحد مصروف ہو سکتے ہیں۔ کیا ہر ماہ خدمتگزاری میں اُنکے چند گھنٹے یہوواہ کی نظر میں کسی کُلوقتی خادم کے کئی گھنٹوں کی نسبت کم اہمیت رکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہوواہ کبھی بھی ہم سے وہ چیز نہیں مانگتا جو ہماری استطاعت میں نہیں ہے۔ پولس رسول نے یہ اصول بیان کِیا: ”اگر نیت ہو تو خیرات اُسکے موافق مقبول ہوگی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُسکے موافق جو اُسکے پاس نہیں۔“—۲-کرنتھیوں ۸:۱۲۔
۱۱. ہماری نجات کا انحصار کس پر ہے؟
۱۱ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، ہماری نجات کا انحصار ہمارے کام پر نہیں بلکہ ہمارے خداوند، مسیح یسوع کے وسیلے یہوواہ کے غیرمستحق فضل پر ہے۔ پولس نے صاف طور پر بیان کِیا: ”سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُسکے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوؔع میں ہے مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔“ تاہم، ہمارے کام خدا کے وعدوں پر ہمارے فعال ایمان کا ثبوت ہیں۔—رومیوں ۳:۲۳، ۲۴؛ یعقوب ۲:۱۷، ۱۸، ۲۴۔
۱۲. ہمیں موازنے کیوں نہیں کرنے چاہئیں؟
۱۲ ہمیں خدا کی خدمت کے سلسلے میں اپنے وقت، بائبل لٹریچر کی پیشکش یا بائبل مطالعوں کی تعداد کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کی گلتیوں ۶:۳، ۴) مسیحی خدمتگزاری میں ہماری کامیابی سے قطعنظر، ہم سب کو یسوع کی یہ انکسارانہ بات یاد رکھنی چاہئے: ”اِسی طرح تم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تمہیں حکم ہؤا تعمیل کر چکو تو کہو کہ ہم نکمّے نوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کِیا ہے۔“ (لوقا ۱۷:۱۰) ہم واقعی کتنی مرتبہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ”سب باتوں کی جن کا [ہمیں] حکم ہؤا“ تعمیل کی ہے؟ پس سوال یہ ہے، خدا کے حضور ہماری خدمت کا معیار کیا ہونا چاہئے؟—۲-کرنتھیوں ۱۰:۱۷، ۱۸۔
ضرورت نہیں ہے۔ (ہر دن کو اہم خیال کریں
۱۳. ہمیں کس رُجحان کیساتھ اپنی مخصوصیت کو پورا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۳ بیویوں، شوہروں، بچوں اور نوکروں کو مشورہ دینے کے بعد، پولس لکھتا ہے: ”جو کام کرو جی سے کرو۔ یہ جان کر کہ [یہوواہ] کے لئے کرتے ہو نہ کہ آدمیوں کے لئے۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ [یہوواہ] کی طرف سے اسکے بدلہ میں تم کو میراث ملیگی۔ تم خداوند مسیح کی خدمت کرتے ہو۔“ (کلسیوں ۳:۲۳، ۲۴) یہوواہ کی خدمت میں ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ آدمیوں کو متاثر کرنے کیلئے نہیں ہے۔ ہم یسوع کے نمونے کی پیروی کرتے ہوئے خدا کی خدمت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُس نے اپنی نسبتاً مختصر خدمتگزاری کو فوری تعمیل کے احساس کیساتھ انجام دیا تھا۔—۱-پطرس ۲:۲۱۔
۱۴. پطرس نے اخیر زمانے کے متعلق کونسی آگاہی دی؟
۱۴ پطرس رسول نے بھی فوری تعمیل کے احساس کا مظاہرہ کِیا۔ اپنے دوسرے خط میں اس نے خبردار کِیا کہ اخیر زمانے میں ٹھٹھاباز—برگشتہ اور مُتشکِک—لوگ ہونگے جو اپنی خواہشوں کے مطابق، مسیح کی موجودگی کی بابت سوال اُٹھائینگے۔ تاہم، پطرس نے کہا: ”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں ۲-پطرس ۳:۳، ۴، ۹، ۱۰۔
تحمل کرتا ہے اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔ لیکن [یہوواہ] کا دن چور کی طرح آ جائیگا۔“ جیہاں، یہوواہ کا دن یقیناً آئیگا۔ لہٰذا، ہمیں ہر روز اس بات پر دھیان دینا چاہئے کہ خدا کے وعدے پر ہمارا ایمان کسقدر مضبوط ہے۔—۱۵. ہمیں اپنی زندگی کے ہر دن کا جائزہ کیسے لینا چاہئے؟
۱۵ فرضشناسی سے اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کے لئے، ہمیں ہر دن کو یہوواہ کی حمد کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ ہمیں ہر دن کے آخر پر پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہئے کہ ہم نے کس طریقے سے خدا کے نام کی تقدیس اور بادشاہت کی خوشخبری کا اعلان کرنے میں معاونت کی ہے؟ یہ ہمارے صاف ضمیر، ہماری تعمیری گفتگو یا خاندان اور دوستوں کے لئے پُرمحبت فکرمندی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ کیا ہم نے دوسروں کو مسیحی اُمید میں شریک کرنے کے لئے دستیاب مواقع کو استعمال کِیا تھا؟ کیا ہم نے کسی شخص کی خدا کے وعدوں کی بابت سنجیدگی سے سوچنے کے لئے مدد کی تھی؟ آئیں ہر روز روحانی لحاظ سے کوئی قیمتی چیز جمع کریں اور یوں ایک بڑا روحانی بینک اکاؤنٹ بنائیں۔—متی ۶:۲۰؛ ۱-پطرس ۲:۱۲؛ ۳:۱۵؛ یعقوب ۳:۱۳۔
اپنی بصارت دُرست رکھیں
۱۶. کن طریقوں سے شیطان خدا کیلئے ہماری مخصوصیت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے؟
۱۶ موجودہ زمانے میں رہنا مسیحیوں کیلئے روزبروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ شیطان اور اس کے ایجنٹ اچھائی اور بُرائی، پاک اور ناپاک، اخلاقی اور غیراخلاقی معیاروں کے درمیان فرق کو ماند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (رومیوں ۱:۲۴-۲۸؛ ۱۶:۱۷-۱۹) اس نے ہمارے لئے ٹیوی ریموٹ کنٹرول یا کمپیوٹر کیبورڈ کے ذریعے اپنے دلودماغ کو آلودہ کرنا نہایت آسان بنا دیا ہے۔ ہماری روحانی بصارت دھندلا سکتی ہے جس سے ہم اس کے ہتھکنڈوں کو پہچاننے سے قاصر رہ سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی روحانی اقدار کے سلسلے میں مصالحت کر لیتے ہیں تو اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کا ہمارا عزم کمزور ہو سکتا اور ”ہل“ پر ہماری گرفت ڈھیلی پڑ سکتی ہے۔—لوقا ۹:۶۲؛ فلپیوں ۴:۸۔
۱۷. پولس کی مشورت خدا کیساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
۱۷ لہٰذا، تھسلنیکے کی کلیسیا کے نام پولس کے الفاظ انتہائی بروقت ہیں: ”خدا کی مرضی یہ ہے کہ تُم پاک بنو یعنی حرامکاری سے بچے رہو۔ اور ہر ایک تُم میں سے پاکیزگی اور عزت کے ساتھ اپنے ظرف کو حاصل کرنا جانے۔ نہ شہوت کے جوش سے اُن قوموں کی مانند جو خدا کو نہیں جانتیں۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۳-۵) بداخلاقی بعض ایسے لوگوں کو مسیحی کلیسیا سے خارج کر دینے کا باعث بنی ہے جنہوں نے خدا کیلئے اپنی مخصوصیت سے غفلت برتی تھی۔ اُنہوں نے خدا کیساتھ اپنے رشتے کو کمزور کر لیا گویا انکی زندگیوں میں اب اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ تاہم، پولس نے کہا: ”خدا نے ہم کو ناپاکی کے لئے نہیں بلکہ پاکیزگی کے لئے بلایا۔ پس جو نہیں مانتا وہ آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا جو تم کو اپنا پاک رُوح دیتا ہے۔“—۱-تھسلنیکیوں ۴:۷، ۸۔
آپ کا عزم کیا ہے؟
۱۸. ہمارا عزمِمُصمم کیا ہونا چاہئے؟
۱۸ اگر ہم یہوواہ خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کی سنجیدگی کو سمجھتے ہیں تو ہمیں کیا کرنے کیلئے پُرعزم ہونا چاہئے؟ ہمارا پُختہ عزم اپنے چالچلن اور خدمتگزاری کے سلسلے میں نیک ضمیر رکھنا ہونا چاہئے۔ پطرس نے تلقین کی: ”نیت بھی نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں تمہاری بدگوئی ہوتی ہے اُن ہی میں وہ لوگ شرمندہ ہوں جو تمہارے مسیحی نیک چالچلن پر لعنطعن کرتے ہیں۔“ (۱-پطرس ۳:۱۶) ہمیں اپنے مسیحی چالچلن کی وجہ سے بدسلوکی برداشت کرنا پڑ سکتی ہے لیکن خدا کیلئے اپنے ایمان اور وفاداری کے باعث مسیح نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ ”پس“ پطرس نے کہا، ”جبکہ مسیح نے جسم کے اعتبار سے دُکھ اُٹھایا تو تم بھی ایسا ہی مزاج اختیار کر کے ہتھیاربند بنو کیونکہ جس نے جسم کے اعتبار سے دُکھ اُٹھایا اُس نے گناہ سے فراغت پائی۔“—۱-پطرس ۴:۱۔
۱۹. ہمارے حق میں کیا کہا جانا چاہئے؟
۱۹ واقعی، اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کا عزمِمُصمم ہمیں شیطان کی دُنیا کے پھندے میں پھنسنے سے محفوظ رکھیگا جو روحانی، اخلاقی اور جسمانی طور پر بیمار ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھکر، ہمیں یہ اعتماد حاصل ہوگا کہ ہمیں خدا کی مقبولیت حاصل ہے جو شیطان اور اس کے نمائندوں کی پیشکردہ کسی بھی چیز سے کہیں افضل ہے۔ لہٰذا، ہمارے حق میں یہ بات کبھی بھی نہیں کہی جانی چاہئے کہ اب ہم میں وہ محبت نہیں جو سچائی سیکھنے کے وقت تھی۔ اس کے برعکس، ہمارے بارے میں ہمیشہ وہی بات کہی جانی چاہئے جو پہلی صدی کی تھواتیرہ کی کلیسیا کی بابت کہی گئی تھی: ”مَیں تیرے کاموں اور محبت اور ایمان اور خدمت اور صبر کو تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تیرے پچھلے کام پہلے کاموں سے زیادہ ہیں۔“ (مکاشفہ ۲:۴، ۱۸، ۱۹) پس، ہمیں اپنی مخصوصیت کے سلسلے میں نیمگرم ہونے کی بجائے خاتمے تک ”روحانی جوش میں بھرے“ رہنا چاہئے کیونکہ خاتمہ واقعی نزدیک ہے۔—رومیوں ۱۲:۱۱؛ مکاشفہ ۳:۱۵، ۱۶۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 2 اپریل ۱۵، ۱۹۸۷ کے واچٹاور میں صفحہ ۳۱ کا مطالعہ کریں۔
^ پیراگراف 7 ارنسٹ بیور کی زندگی کی تفصیلی سرگزشت کیلئے واچٹاور مارچ ۱۵، ۱۹۸۰، صفحہ ۸-۱۱ کا مطالعہ کریں۔
^ پیراگراف 9 واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ ۱۹۷۸ ائیربُک آف جیہوواز وٹنسز، صفحہ ۱۵۶-۱۵۸، ۲۰۱-۲۱۸ کا مطالعہ کریں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• مخصوصیت میں کیا شامل ہے؟
• خدا کے کونسے قدیم اور جدید مخصوص خادموں کی مثالیں ہمارے لئے قابلِتقلید ہیں؟
• ہمیں خدا کیلئے اپنی خدمت کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
• خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کے سلسلے میں ہمارا عزمِمُصمم کیا ہونا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
یرمیاہ ظالمانہ برتاؤ کے باوجود وفادار رہا
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
ارنسٹ بیور نے ایک پُرجوش مسیحی کے طور پر اپنے بچوں کیلئے عمدہ نمونہ قائم کِیا
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
سپین کے قیدخانوں میں سینکڑوں نوجوان گواہوں نے اپنی راستی برقرار رکھی
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
ہمیں روحانی مفہوم میں ہر دن کچھ نہ کچھ ضرور جمع کرنا چاہئے