مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ نے سچائی کو اپنا لیا ہے؟‏

کیا آپ نے سچائی کو اپنا لیا ہے؟‏

کیا آپ نے سچائی کو اپنا لیا ہے؟‏

‏”‏عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ آجکل،‏ ایک سچا مسیحی ہونا آسان کیوں نہیں ہے؟‏

اس اخیر زمانے کے ”‏بُرے دنوں“‏ میں ایک سچا مسیحی ہونا آسان نہیں ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ درحقیقت،‏ مسیح کے نمونے کی پیروی کرنے کے خواہشمند ہر شخص کیلئے دُنیا پر غالب آنا لازمی ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۴‏)‏ مسیحی راستے کی بابت یسوع کی اس بات کو ذرا یاد کریں:‏ ”‏تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔‏ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔‏“‏ اس نے مزید کہا:‏ ”‏اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور ہر روز اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔‏“‏—‏متی ۷:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ لوقا ۹:‏۲۳‏۔‏

۲ زندگی کا تنگ راستہ تلاش کر لینے کے بعد،‏ ایک مسیحی کیلئے اگلا چیلنج اس پر قائم رہنا ہوتا ہے۔‏ یہ ایک چیلنج کیوں ہے؟‏ اسلئے کہ مخصوصیت اور بپتسمہ ہمیں شیطان کے مکارانہ کاموں یا ہتھکنڈوں کا ہدف بناتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱‏)‏ وہ ہماری روحانیت کو تباہ کرنے کیلئے ہماری کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ بہرکیف،‏ اگر اُس نے یسوع کو جھکانے کی کوشش کی تو کیا وہ ہمیں چھوڑیگا؟‏—‏متی ۴:‏۱-‏۱۱‏۔‏

شیطان کے حربے

۳.‏ شیطان نے حوا کے ذہن میں شک کا بیج کیسے بویا؟‏

۳ شیطان کا ایک حربہ ہمارے ذہن میں شک کے بیج بونا ہے۔‏ وہ ہمارے روحانی زرہِ‌بکتر میں نقص تلاش کرتا ہے۔‏ اس نے ابتدا میں حوا پر بھی یہی حربہ استعمال کِیا تھا:‏ ”‏کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱‏)‏ باالفاظِ‌دیگر شیطان یہ کہہ رہا تھا کہ ’‏کیا خدا کا تم پر ایسی ممانعت عائد کرنا واقعی ممکن ہے؟‏ کیا وہ تمہیں اتنی اچھی چیز نہیں دیگا؟‏ دراصل،‏ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اس درخت کا پھل کھاؤ گے تو تمہاری آنکھیں کھل جائینگی اور تم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے!‏‘‏ شیطان نے شک کا بیج بو کر اس کے بارور ہونے کا انتظار کِیا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۵‏۔‏

۴.‏ آجکل،‏ کونسے شکوک بعض اشخاص کو متاثر کر سکتے ہیں؟‏

۴ شیطان آجکل اس حربے کو کیسے استعمال کرتا ہے؟‏ اگر ہم اپنی بائبل پڑھائی،‏ اپنے ذاتی مطالعے،‏ اپنی دُعاؤں اور مسیحی خدمتگزاری اور اجلاسوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں تو ہم دیگر لوگوں کے پیداکردہ شکوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر:‏ ”‏ہمارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ وہی سچائی ہے جس کی تعلیم یسوع نے دی تھی؟‏“‏ ”‏کیا یہ واقعی آخری ایّام ہیں؟‏ ہم تو اب ۲۱ ویں صدی میں پہنچ گئے ہیں۔‏“‏ ”‏کیا ہرمجدون قریب ہے یا ابھی بہت دُور ہے؟‏“‏ اگر ایسے شکوک پیدا ہو جائیں تو ہمیں انہیں دُور کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟‏

۵،‏ ۶.‏ شکوک پیدا ہو جانے کی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۵ یعقوب نے یہ عملی مشورت پیش کی:‏ ”‏اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔‏ اسکو دی جائیگی۔‏ مگر ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔‏ ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے [‏یہوواہ]‏ سے کچھ ملیگا۔‏ وہ شخص دودِلا ہے اور اپنی سب باتوں میں بےقیام۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۵-‏۸‏۔‏

۶ توپھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ ہمیں دُعا میں ایمان اور فہم کیلئے ’‏خدا سے درخواست‘‏ کرنے کے علاوہ کسی بھی سوال یا شک کے سلسلے میں زیادہ ذاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ ہم پُختہ ایمان والے اشخاص سے بھی مدد کی درخواست کر سکتے اور یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں درکار حمایت ضرور فراہم کریگا۔‏ یعقوب نے یہ بھی کہا تھا:‏ ”‏پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائیگا۔‏ خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ جب ہم مطالعے اور دُعا کے ذریعے خدا کے نزدیک جاتے ہیں تو ہمارے شکوک ضرور دُور ہو جائینگے۔‏—‏یعقوب ۴:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ کونسے بنیادی معیار یسوع کی تعلیم کے مطابق پرستش کا تعیّن کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور ان معیاروں پر کون پورا اُترتے ہیں؟‏

۷ مثال کے طور پر،‏ اس سوال پر غور کریں:‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم یسوع کی تعلیم کے مطابق پرستش کر رہے ہیں؟‏ اس سوال کے جواب کیلئے،‏ کن معیاروں پر غور کِیا جانا چاہئے؟‏ بائبل نشاندہی کرتی ہے کہ سچے مسیحیوں کو آپس میں حقیقی محبت رکھنی چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ انہیں خدا کا نام،‏ یہوواہ پاک ماننا چاہئے۔‏ (‏یسعیاہ ۱۲:‏۴،‏ ۵؛‏ متی ۶:‏۹‏)‏ نیز انہیں لوگوں کو اس نام سے واقف کرانا چاہئے۔‏—‏خروج ۳:‏۱۵؛‏ یوحنا ۱۷:‏۲۶‏۔‏

۸ سچی پرستش کا ایک اَور شناختی نشان خدا کے کلام،‏ بائبل کا احترام ہے۔‏ یہ خدا کی شخصیت اور مقاصد کو آشکارا کرنے والی لاثانی کتاب ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۷؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ مزیدبرآں،‏ سچے مسیحی فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے سلسلے میں انسان کی واحد اُمید کے طور پر خدا کی بادشاہت کا پرچار کرتے ہیں۔‏ (‏مرقس ۱۳:‏۱۰؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۴‏)‏ وہ اس دُنیا کی بدعنوان سیاست اور بدچلنی سے علیٰحدہ رہتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۹؛‏ یعقوب ۱:‏۲۷؛‏ ۴:‏۴‏)‏ آجکل ان معیاروں پر کون پورا اُترتے ہیں؟‏ حقائق صرف ایک ہی جواب دیتے ہیں—‏یہوواہ کے گواہ۔‏

اگر شکوک جڑ پکڑ جائیں تو کیا کِیا جائے؟‏

۹،‏ ۱۰.‏ ہم جڑ پکڑ جانے والے شکوک پر غالب آنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۹ اگر ہم خود کو شک کے تاریک غار میں پھنسا ہوا پاتے ہیں تو کیا ہو؟‏ ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہئے؟‏ دانشمند بادشاہ سلیمان جواب دیتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے۔‏ ایسا کہ تُو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کے لئے آواز بلند کرے اور اُسکو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو اور اُسکی ایسی تلاش کرے جیسی پوشیدہ خزانوں کی تو تُو [‏یہوواہ]‏ کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کریگا۔‏“‏—‏امثال ۲:‏۱-‏۵‏۔‏

۱۰ کیا یہ حیران‌کُن خیال نہیں ہے؟‏ اگر ہم خلوصدلی سے خدائی حکمت پر دھیان لگاتے ہیں تو ہم ”‏خدا کی معرفت کو حاصل“‏ کرینگے۔‏ جی‌ہاں،‏ اگر ہم کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کے کلام کو جاننے اور سمجھنے پر آمادہ ہیں تو اس کی معرفت ہماری دسترس میں ہے۔‏ اس کا مطلب دُعا اور ذاتی مطالعہ کے ذریعے یہوواہ کی طرف رُجوع ہونا ہے۔‏ اس کے کلام کا پوشیدہ خزانہ کسی بھی شک کو دُور کر کے سچائی کی روشنی کو دیکھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏

۱۱.‏ الیشع کا خادم شک میں کیسے مبتلا ہو گیا تھا؟‏

۱۱ اس بات کی ایک واضح مثال ۲-‏سلاطین ۶:‏۱۱-‏۱۸ میں ملتی ہے کہ دُعا نے خدا کے ایک خوفزدہ اور مُتشکِک خادم کی مدد کیسے کی تھی۔‏ الیشع کے خادم میں روحانی بصیرت کی کمی تھی۔‏ وہ یہ بات سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسوری فوج نے خدا کے جس نبی کو گھیر رکھا ہے اُسکی مدد کیلئے آسمانی لشکر موجود ہیں۔‏ خوف کے مارے خادم چلّا اُٹھا:‏ ”‏ہائے اَے میرے مالک!‏ ہم کیا کریں؟‏“‏ الیشع نے کیا جواب دیا؟‏ ”‏خوف نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ والے اُنکے ساتھ والوں سے زیادہ ہیں۔‏“‏ لیکن خادم کو کیسے اسکا یقین دلایا جا سکتا تھا؟‏ وہ تو آسمانی لشکر دیکھ نہیں سکتا تھا۔‏

۱۲.‏ (‏ا)‏ الیشع کے خادم کا شک کس طرح دُور کِیا گیا تھا؟‏ (‏ب)‏ ہم اپنے شکوک کو کیسے دُور کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ ‏”‏الیشع نے دُعا کی اور کہا اَے [‏یہوواہ]‏ اُس کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ دیکھ سکے۔‏ تب [‏یہوواہ]‏ نے اُس جوان کی آنکھیں کھول دیں اور اُس نے جو نگاہ کی تو دیکھا کہ الیشعؔ کے گِرداگِرد کا پہاڑ آتشی گھوڑوں اور رتھوں سے بھرا ہے۔‏“‏ اس معاملے میں یہوواہ نے اُس خادم کو آسمانی لشکر دیکھنے کے قابل بنایا جو الیشع کی حفاظت کر رہے تھے۔‏ تاہم،‏ ہمیں آجکل ایسی الہٰی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ اس نبی کے خادم کے پاس پوری بائبل نہیں تھی جس کا وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے مطالعہ کر سکتا۔‏ ہمارے پاس بائبل ہے۔‏ اگر ہم اسے مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا ایمان بھی اسی طرح مضبوط ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم کئی ایسی سرگزشتوں پر غور کر سکتے ہیں جن میں اپنی آسمانی بارگاہ میں تخت‌نشین یہوواہ کی تصویرکشی کی گئی ہے۔‏ انہیں پڑھنے کے بعد اس سلسلے میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ واقعی یہوواہ کی ایک آسمانی تنظیم ہے جو آجکل عالمگیر تعلیمی کام میں اس کے خادموں کی حمایت کر رہی ہے۔‏—‏یسعیاہ ۶:‏۱-‏۴؛‏ حزقی‌ایل ۱:‏۴-‏۲۸؛‏ دانی‌ایل ۷:‏۹،‏ ۱۰؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱-‏۱۱؛‏ ۱۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

شیطان کے ہتھکنڈوں سے خبردار رہیں!‏

۱۳.‏ شیطان کن طریقوں سے سچائی پر ہماری گرفت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے؟‏

۱۳ ہماری روحانیت اور سچائی پر ہماری گرفت کو کمزور کرنے کیلئے شیطان اَور کونسے طریقے استعمال کرتا ہے؟‏ ان میں سے ایک بداخلاقی ہے جسکی مختلف صورتیں ہیں۔‏ آجکل جنس کی دیوانی دُنیا میں،‏ معاشقہ (‏بےوفائی کا حسین انداز)‏ یا ایک رات کا ساتھ (‏تفریحاً حرامکاری)‏ ہر قیمت پر موج‌مستی کرنے پر تلی ہوئی اس لذت‌پسند نسل کیلئے روز کا معمول بن گیا ہے۔‏ ٹی‌وی اور فلمیں ایسے طرزِزندگی کو فروغ دیتی ہیں۔‏ میڈیا بالخصوص انٹرنیٹ پر فحاشی کا راج ہے۔‏ متجسس شخص کسی بھی لمحے آزمائش میں پڑ سکتا ہے۔‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۳-‏۵؛‏ یعقوب ۱:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

۱۴.‏ بعض مسیحی شیطان کے ہتھکنڈوں کا شکار کیوں ہو گئے ہیں؟‏

۱۴ بعض مسیحیوں نے تجسّس سے مغلوب ہو کر فحش فلموں اور رسالوں سے اپنے دل‌ودماغ کو آلودہ کر لیا ہے۔‏ اُنہوں نے خود کو شیطان کے پُرفریب پھندے میں پھنسا لیا ہے۔‏ ایسا کرنا اکثراوقات روحانی تباہی کا باعث بنا ہے۔‏ ایسے اشخاص ”‏بدی میں .‏ .‏ .‏ بچے“‏ بننے میں ناکام ہو گئے ہیں۔‏ وہ ”‏سمجھ میں جوان“‏ نہیں بنے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۲۰‏)‏ ہر سال ہزاروں خدا کے اصولوں اور معیاروں کی پابندی نہ کرنے کی قیمت چکاتے ہیں۔‏ اُنہوں نے ”‏خدا کے سب ہتھیار باندھ“‏ لینے اور انہیں استعمال کرنے میں غفلت برتی ہے۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۰-‏۱۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۵-‏۱۰؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏۔‏

اپنے ورثے کی قدر کریں

۱۵.‏ بعض اپنے روحانی ورثے کی قدر کرنے میں کیوں ناکام ہو سکتے ہیں؟‏

۱۵ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲‏)‏ بیشتر گواہوں کو اپنے سابقہ طرزِزندگی اور مذہبی رفیقوں کو چھوڑنا پڑا تھا۔‏ لہٰذا،‏ وہ سچائی کے ذریعے حاصل ہونے والی آزادی کی بہت قدر کرتے ہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ سچائی میں اپنے والدین سے پرورش پانے والے بعض نوجوانوں کو اپنے روحانی ورثے کی قدر کرنا مشکل معلوم ہو سکتا ہے۔‏ وہ کبھی بھی جھوٹے مذہب یا اس دُنیا کا حصہ نہیں رہے جو عیش‌وعشرت،‏ منشیات کے استعمال اور بداخلاقی پر زور دیتی ہے۔‏ نتیجتاً،‏ وہ ہمارے روحانی فردوس اور شیطان کی بدعنوان دُنیا کے درمیان واضح فرق کو دیکھنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔‏ بعض تو محض یہ دیکھنے کیلئے دُنیا کے زہر کو چکھنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے کیا کھو دیا ہے!‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷؛‏ مکاشفہ ۱۸:‏۱-‏۵‏۔‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ہم خود سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیا کرنے کی تعلیم اور حوصلہ‌افزائی دی گئی ہے؟‏

۱۶ کیا ہمیں درد اور تکلیف کا اندازہ لگانے کے لئے واقعی اپنی انگلیاں جلانے کی ضرورت ہے؟‏ کیا ہم دوسروں کے منفی تجربات سے نہیں سیکھ سکتے؟‏ کیا ہمیں یہ دیکھنے کے لئے اس دُنیا کی ”‏دلدل“‏ کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم کسی چیز سے محروم رہ گئے ہیں؟‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۲۰-‏۲۲‏)‏ پطرس نے پہلی صدی کے اُن مسیحیوں کو یاددہانی کرائی جو پہلے شیطان کی دُنیا کا حصہ تھے:‏ ”‏غیرقوموں کی مرضی کے موافق کام کرنے اور شہوت‌پرستی۔‏ بُری خواہشوں۔‏ مےخواری۔‏ ناچ‌رنگ۔‏ نشہ‌بازی اور مکروہ بُت‌پرستی میں جس قدر ہم نے پہلے وقت گذارا وہی بہت ہے۔‏“‏ یقیناً،‏ ہمیں یہ دیکھنے کے لئے دُنیا کی ”‏سخت بدچلنی“‏ کا تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ زندگی کتنی گھٹیا ہو سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ اس کے برعکس،‏ ہمیں کنگڈم ہالوں میں جو بائبل تعلیم کے مراکز ہیں،‏ یہوواہ کے اعلیٰ معیار سکھائے جاتے ہیں۔‏ نیز یہاں ہماری حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے کہ ہم یہ یقین کرنے کے لئے کہ ہمارے پاس سچائی ہے اپنی ادراکی قوتیں استعمال کریں اور یوں سچائی کو اپنا لیں۔‏—‏یشوع ۱:‏۸؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۴-‏۱۷‏۔‏

ہمارا نام محض لیبل نہیں

۱۷.‏ ہم یہوواہ کے مؤثر گواہ کیسے بن سکتے ہیں؟‏

۱۷ اگر ہم سچائی کو اپنا لیتے ہیں تو ہم ہر موزوں موقع پر دوسروں کو بھی اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں گے۔‏ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ دلچسپی نہیں دکھاتے ہم انہیں زبردستی اپنا پیغام سنائیں گے۔‏ (‏متی ۷:‏۶‏)‏ اس کے برعکس،‏ ہم یہوواہ کے گواہوں کے طور پر اپنی شناخت کرانے سے بھی نہیں گھبرائیں گے۔‏ اگر کوئی شخص ایک مخلصانہ سوال یا بائبل پر مبنی کوئی اشاعت قبول کرنے سے ذرا سی بھی دلچسپی دکھاتا ہے تو ہم اُسے اپنی اُمید میں شریک کرنے کے لئے آمادہ اور تیار رہیں گے۔‏ لہٰذا،‏ ہم جہاں کہیں بھی ہوں—‏گھر پر،‏ کام پر،‏ سکول میں،‏ دُکان پر یا تفریحی مقامات پر—‏ہمارے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی لٹریچر ضرور ہونا چاہئے۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

۱۸.‏ مسیحیوں کے طور پر اپنی واضح شناخت کرانا ہماری زندگی پر کیسے مثبت اثر ڈال سکتا ہے؟‏

۱۸ جب ہم مسیحیوں کے طور پر اپنی واضح شناخت کراتے ہیں تو ہم شیطان کے خفیہ حملوں کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط بناتے ہیں۔‏ اگر کوئی جنم‌دن یا کرسمس کی تقریب یا آفس لاٹری کا معاملہ ہو تو ساتھی کارکُن اکثر کہیں گے ”‏اُسے تنگ نہ کرو۔‏ وہ یہوواہ کا گواہ ہے۔‏“‏ اسی وجہ سے،‏ لوگ ہماری موجودگی میں گندے مذاق کرنے سے بھی گریز کریں گے۔‏ لہٰذا،‏ اپنا مسیحی موقف ظاہر کرنا ہماری زندگی پر مثبت اثر ڈالتا ہے جیسا کہ پطرس رسول نے بھی ان الفاظ میں اس بات کی نشاندہی کی:‏ ”‏اگر تم نیکی کرنے میں سرگرم ہو تو تم سے بدی کرنے والا کون ہے؟‏ اور اگر راستبازی کی خاطر دُکھ سہو بھی تو تم مبارک ہو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۱۹.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم آخری ایّام میں بہت آگے نکل آئے ہیں؟‏

۱۹ سچائی کو اپنانا ہمارے لئے اس بات کا یقین کرنے کے سلسلے میں بھی مفید ثابت ہوگا کہ یہ واقعی اس نظام‌اُلعمل کے آخری ایّام ہیں۔‏ ہمیں معلوم ہوگا کہ بہتیری بائبل پیشینگوئیاں ہمارے وقت میں پایۂ‌تکمیل کو پہنچ رہی ہیں۔‏ * گزشتہ صدی کے ہولناک واقعات نے کافی حد تک پولس کی اس آگاہی کی تصدیق کر دی ہے کہ ”‏اخیر زمانہ میں بُرے دن آئینگے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵؛‏ مرقس ۱۳:‏۳-‏۳۷‏)‏ بیسویں صدی کے متعلق ایک حالیہ اخبار کے مضمون کا عنوان تھا کہ ”‏بربریت کا یہ دَور ہمیشہ یاد رہیگا۔‏“‏ مضمون نے بیان کِیا:‏ ”‏انتہائی خونین صدی کے دوسرے نصف حصے میں ۱۹۹۹ انتہائی خونین سال ثابت ہوا۔‏“‏

۲۰.‏ اب کس کارروائی کا وقت ہے؟‏

۲۰ اب ڈانوانڈول رہنے کا وقت نہیں ہے۔‏ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ یہوواہ پوری دُنیا کی اقوام کو گواہی دینے کے عظیم‌ترین تعلیمی کام کو برکت دے رہا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ سچائی کو اپنائیں اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کریں۔‏ آپ کے ابدی مستقبل کا انحصار آپکے موجودہ اعمال پر ہے۔‏ ہاتھ ڈھیلے کرنے سے یہوواہ کی برکت حاصل نہیں ہوگی۔‏ (‏لوقا ۹:‏۶۲‏)‏ اس کے برعکس،‏ اب وقت ہے کہ ہم ”‏ثابت‌قدم اور قائم“‏ رہیں اور ”‏خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش“‏ کرتے رہیں ”‏کیونکہ یہ جانتے“‏ ہیں کہ ہماری ”‏محنت خداوند میں بیفائدہ نہیں ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 19 مینارِنگہبانی جنوری ۱۵،‏ ۲۰۰۰،‏ صفحہ ۱۲-‏۱۴ کا مطالعہ کریں۔‏ پیراگراف ۱۳-‏۱۸ یہ ظاہر کرتے ہوئے چھ پُرزور شہادتیں پیش کرتے ہیں کہ ۱۹۱۴ سے ہم آخری ایّام میں رہ رہے ہیں۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• ہم شکوک کو کیسے دُور کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم الیشع کے خادم کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں اخلاقیات سے متعلق کن آزمائشوں کے خلاف مسلسل خبردار رہنا چاہئے؟‏

‏• ہمیں یہوواہ کے گواہوں کے طور پر اپنی واضح شناخت کیوں کرانی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

باقاعدہ بائبل مطالعہ اور دُعا شکوک کو دُور کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

الیشع کے خادم کے شکوک ایک رویا کے ذریعے دُور کئے گئے تھے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

بنین کے اس کنگڈم ہال جیسے دیگر کئی کنگڈم ہالوں میں ہمیں یہوواہ کے اعلیٰ معیاروں کی تعلیم دی جاتی ہے