مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بحرِمُردار کے طوماروں کی حقیقت کیا ہے؟‏

بحرِمُردار کے طوماروں کی حقیقت کیا ہے؟‏

بحرِمُردار کے طوماروں کی حقیقت کیا ہے؟‏

تقریباً ۵۰ سال پہلے کسی بدّو چرواہے کا ایک غار میں پھینکا ہوا پتھر بعض کے کہنے کے مطابق ۲۰ ویں صدی کی سب سے بڑی اَثریاتی دریافت پر منتج ہوا۔‏ اس بدّو نے پتھر سے مٹی کے مرتبان کے ٹوٹنے کی آواز سنی۔‏ غار کے اندر جا کر دیکھنے سے اُسے ایک طومار ملا جو بحرِمُردار کے معروف طوماروں میں سے پہلا تھا۔‏

یہ طومار ادبی دُنیا اور ذرائع‌ابلاغ دونوں میں توجہ اور بحث‌وتکرار کا مرکز بنے رہے ہیں۔‏ عوام میں ان کی بابت اُلجھن اور غلط معلومات پائی جاتی ہیں۔‏ ان طوماروں کی معلومات پر پردہ ڈالنے کی بابت افواہیں پھیل چکی ہیں جس کی وجہ ان میں مسیحیوں اور یہودیوں کے مذہب کو ہلا دینے والے حقائق پائے جانے کا خوف ہے۔‏ تاہم ان طوماروں کی حقیقی اہمیت کیا ہے؟‏ تقریباً ۵۰ سال سے زائد عرصہ کے بعد،‏ کیا حقائق معلوم کرنا ممکن ہے؟‏

بحرِمُردار کے طومار کیا ہیں؟‏

بحرِمُردار کے طومار قدیم یہودی مسودے ہیں جن میں سے زیادہ‌تر عبرانی،‏ بعض ارامی اور چند یونانی میں لکھے گئے تھے۔‏ ان طوماروں اور پارچہ‌جات میں سے بہتیرے ۰۰۰،‏۲ سال سے زیادہ پُرانے ہیں گویا وہ یسوع کی پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں۔‏ بدّوؤں سے حاصل ہونے والے سب سے پہلے طومار سات لمبے مسودے تھے جو نہایت خستہ حالت میں تھے۔‏ جب مزید غاروں میں تلاش کی گئی تو دیگر طومار اور ہزاروں پارچہ‌جات دریافت ہوئے۔‏ بحرِمُردار کے قریب قمران میں ۱۹۴۷ اور ۱۹۵۶ کے دوران ایسے ۱۱ غار دریافت ہوئے جن سے طومار ملے ہیں۔‏

جب طوماروں اور پارچہ‌جات کی چھانٹی کی گئی تو ان کا شمار ۸۰۰ کے قریب تھا۔‏ ایک تہائی یا تقریباً ۲۰۰ مسودہ‌جات بائبل کے عبرانی متن کے حصوں کی نقلیں ہیں۔‏ دیگر مسودہ‌جات قدیم غیربائبلی یہودی تحریریں،‏ اپاکرفا اور سودوپی‌گرافا ہیں۔‏ *

بعض طومار جنہوں نے عالموں کو انتہائی حیرت‌زدہ کر دیا پہلے نامعلوم تحریریں تھیں۔‏ ان میں یہودی شریعتی معاملات کی تفسیریں،‏ قمران میں آباد لوگوں کے خاص رسم‌ورواج،‏ عبادتی گیت اور دُعاؤں کے ساتھ ساتھ بائبل پیشینگوئی کی تکمیل اور آخری ایّام کی بابت نظریات کو آشکارا کرنے والی معادیاتی دستاویزات شامل ہیں۔‏ اس کے علاوہ منفرد بائبل تفسیریں بھی ہیں جو جدید زمانے میں بائبل متن پر آیت‌باآیت تفسیر کی انتہائی قدیم‌ترین مماثل ہیں۔‏

بحرِمُردار کے طومار کس کی تحریر ہیں؟‏

قدیم دستاویزات کی تاریخ کا تعیّن کرنے کے مختلف طریقے ظاہر کرتے ہیں کہ طوماروں کو تیسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ اور پہلی صدی س.‏ع.‏ میں نقل یا مُرتب کِیا گیا تھا۔‏ بعض عالموں کے خیال میں ان طوماروں کو ۷۰ س.‏ع.‏ میں ہیکل کی تباہی سے پہلے یروشلیم کے یہودیوں نے غاروں میں چھپا دیا تھا۔‏ تاہم،‏ ان طوماروں پر تحقیق کرنے والے عالموں کی اکثریت اس نظریے کو طوماروں کے مشمولات کے بالکل برعکس پاتی ہے۔‏ بہتیرے طومار ایسے نظریات کی عکاسی کرتے ہیں جو یروشلیم کے مذہبی پیشواؤں کے نظریات کے خلاف تھے۔‏ یہ طومار ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جنکا یہ اعتقاد تھا کہ خدا نے کاہنوں اور یروشلیم کی ہیکل میں خدمت کو رد کر دیا ہے اسلئے اب وہ اس بیابان میں اُنکی پرستش کو ہیکل میں خدمت کا متبادل خیال کرتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ یروشلیم کی ہیکل کے اربابِ‌اختیار کا ایسے طوماروں کو چھپا کر رکھنا غیرمتوقع دکھائی دیتا ہے۔‏

قمران میں مکتبِ‌فقہا ہونے کے باوجود،‏ معتقدین غالباً بہتیرے طومار کہیں اَور سے اکٹھے کرکے یہاں لائے تھے۔‏ اس لحاظ سے،‏ بحرِمُردار کے طومار ایک وسیع لائبریری کی مانند ہیں۔‏ جس طرح ایک لائبریری میں مذہبی نظریات پر مبنی کتابوں کے علاوہ اَور بھی بہت سی کتابیں ہوتی ہیں،‏ اُسی طرح متعدد نقول کی صورت میں موجود یہ طومار بھی غالباً اسی فرقے کی خاص سرگرمیوں اور اعتقادات کو اُجاگر کرتے ہیں۔‏

کیا قمران میں اسینی آباد تھے؟‏

اگر یہ طومار قمران کی لائبریری سے تھے تو اس کے باشندے کون تھے؟‏ یروشلیم میں عبرانی یونیورسٹی کیلئے ۱۹۴۷ میں تین طومار حاصل کرنے والا پروفیسر،‏ الیعزر سُوکےنک یہ خیال پیش کرنے والا پہلا شخص تھا کہ یہ طومار اسینیوں کے تھے۔‏

اسینی ایک یہودی فرقہ تھا جس کا ذکر پہلی صدی کے مصنّفین،‏ یوسیفس،‏ اسکندریہ کے فیلو اور بڑے پلینی نے کِیا تھا۔‏ اسینیوں کی ابتدا کے متعلق وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں مکابیوں کی بغاوت کے بعد کی شورش کے دوران برپا ہوئے تھے۔‏ * یوسیفس اسی دَور میں انکی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ انکے مذہبی نظریات فریسیوں اور صدوقیوں سے خاصے فرق تھے۔‏ پلینی نے بحرِمُردار کے قریب یریحو اور عین‌جدی کے درمیان ایک اسینی آبادی کا ذکر کِیا۔‏

بحرِمُردار کے طوماروں کا ایک عالم پروفیسر جیمز وینڈرکیم خیال پیش کرتا ہے کہ ”‏قمران میں آباد اسینی اُس بڑی اسینی تنظیم کا محض ایک چھوٹا سا حصہ تھے“‏ جس کی تعداد یوسیفس کے مطابق تقریباً چار ہزار تھی۔‏ اگرچہ تمام باتیں اسینیوں پر تو عائد نہیں ہوتیں توبھی قمران کے طوماروں کی معلومات اُس زمانے کے معروف یہودی گروہوں کی نسبت اسینیوں پر زیادہ صادق آتی ہیں۔‏

بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیت کا آغاز قمران سے ہوا تھا۔‏ تاہم،‏ قمران کے فرقے اور ابتدائی مسیحیوں کے مذہبی اعتقادات میں نمایاں فرق دیکھے جا سکتے ہیں۔‏ قمرانی تحریریں سبت اور رسمی طہارت کے سلسلے میں انتہائی سخت قوانین‌وضوابط کو اُجاگر کرتی ہیں۔‏ (‏متی ۱۵:‏۱-‏۲۰؛‏ لوقا ۶:‏۱-‏۱۱‏)‏ یہ بات دراصل معاشرے سے اسینیوں کی گوشہ‌نشینی،‏ قسمت اور جان کی غیرفانیت پر اعتقاد اور تجرد اور فرشتوں کیساتھ ملکر پرستش کرنے کے سلسلے میں اُنکے پُراسرار نظریات پر صادق آتی ہے۔‏ یہ بات انہیں یسوع اور ابتدائی مسیحیوں کی تعلیمات سے فرق ظاہر کرتی ہے۔‏—‏متی ۵:‏۱۴-‏۱۶؛‏ یوحنا ۱۱:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ کلسیوں ۲:‏۱۸؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱-‏۳‏۔‏

طوماروں کو درپردہ یا پوشیدہ نہیں رکھا گیا

بحرِمُردار کے طوماروں کی دریافت کے اگلے ہی سال،‏ مختلف مطبوعات شائع کی گئیں جنکی بدولت ساری دُنیا کے عالم ابتدائی معلومات بآسانی حاصل کر سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ چوتھے غار میں سے ملنے والے ہزاروں پارچہ‌جات نے زیادہ مسئلہ پیدا کِیا۔‏ یہ مشرقی یروشلیم (‏اُس وقت اُردن کا حصہ)‏ میں فلسطینی اَثریاتی عجائب‌گھر کی ایک چھوٹی سی بین‌الاقوامی ٹیم کے پاس تھے۔‏ اس ٹیم میں کسی یہودی یا اسرائیلی عالم کو شامل نہیں کِیا گیا تھا۔‏

ٹیم نے یہ پالیسی اختیار کی کہ تحقیق کے سرکاری نتائج شائع ہونے تک کسی کو بھی یہ طومار پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔‏ ٹیم میں عالموں کی تعداد کی بھی حد مقرر کی گئی۔‏ ٹیم کے کسی رُکن کے فوت ہو جانے کی صورت میں صرف ایک ہی نئے عالم کو اس کی جگہ ٹیم میں شامل کِیا جاتا تھا۔‏ کام کے لحاظ سے تو بہت بڑی ٹیم درکار تھی جس میں بعض معاملات کیلئے عبرانی اور ارامی زبان کے ماہرین کا ہونا بھی لازمی تھا۔‏ جیمز وینڈرکیم یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہزاروں پارچہ‌جات پر تحقیق کرنا آٹھ اشخاص کے بس کی بات نہیں تھی اگرچہ وہ اپنے کام میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔‏“‏

۱۹۶۷ کی چھ‌روزہ جنگ کے نتیجے میں،‏ مشرقی یروشلیم اور اس کے طومار اسرائیلی دائرہ‌اختیار میں آ گئے لیکن طوماروں کی تحقیقی ٹیم کے سلسلے میں کوئی پالیسی تبدیل نہ ہوئی۔‏ جب چوتھے غار سے ملنے والے طوماروں کی اشاعت میں سالوں سے دہوں کی تاخیر ہو گئی تو کئی عالموں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔‏ ۱۹۷۷ میں،‏ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر غزہ ورمس نے اسے ۲۰ ویں صدی کا سب سے انوکھا ادبی سکینڈل قرار دیا۔‏ افواہیں پھیلنا شروع ہو گئیں کہ کیتھولک چرچ نے جان‌بوجھ کر طوماروں کی معلومات کو پوشیدہ رکھا ہے کیونکہ یہ مسیحیت کیلئے تباہ‌کُن ثابت ہو سکتی ہیں۔‏

آخرکار ۱۹۸۰ کے دہے میں ٹیم میں علما کی تعداد کو بڑھا کر ۲۰ کر دیا گیا۔‏ اس کے بعد،‏ ۱۹۹۰ میں ٹیم کے نئے مقررشُدہ چیف ایڈیٹر،‏ یروشلیم کی عبرانی یونیورسٹی کے عمانوایل تووَ کی زیرِہدایت ٹیم میں علما کی تعداد ۵۰ کر دی گئی۔‏ باقی طوماروں کے سلسلے میں علما کی آراء اور تبصرہ‌جات پر مبنی ایڈیشنوں کو شائع کرنے کیلئے ایک سخت شیڈول تشکیل دیا گیا۔‏

۱۹۹۱ میں غیرمتوقع طور پر ایک حقیقی ایجاد سامنے آئی۔‏ سب سے پہلے اے پریلیمینری ایڈیشن آف دی ان‌پبلشڈ ڈیڈ سی سکرولز ‏(‏بحرِمُردار کے غیرشائع‌شُدہ طوماروں کا ابتدائی ایڈیشن)‏ شائع ہوا۔‏ یہ کمپیوٹر پر دستیاب ٹیم کے مرتب‌کردہ اشاریے کی نقل پر مبنی تھا۔‏ اس کے بعد،‏ سان میرنو میں ہن‌ٹنگ‌ٹن لائبریری کیلیفورنیا نے اعلان کِیا کہ کوئی بھی عالم طوماروں کی تصاویر کے مکمل سیٹ کو استعمال کر سکتا ہے۔‏ کچھ دیر بعد،‏ اے فیسی‌مائل ایڈیشن آف دی ڈیڈ سی سکرولز ‏(‏بحرِمُردار کے طوماروں کا تصویری ایڈیشن)‏ کی اشاعت کے باعث پہلے غیرشائع‌شُدہ طوماروں کی تصاویر بآسانی دستیاب ہو گئیں۔‏

پچھلے دہے سے بحرِمُردار کے تمام طوماروں کو تحقیق کی خاطر سب کیلئے دستیاب کِیا گیا ہے۔‏ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ طوماروں کو درپردہ یا پوشیدہ نہیں رکھا گیا تھا۔‏ طوماروں کے آخری باضابطہ ایڈیشن کو شائع کرنے کے بعد ہی اب مکمل تجزیہ ہو سکتا ہے۔‏ طوماروں کی تحقیق کرنے والے عالموں کی ایک نئی نسل پیدا ہو چکی ہے۔‏ لیکن بائبل طالبعلموں کیلئے اس تحقیق کی اہمیت کیا ہے؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 اپاکرفا (‏لفظی مطلب ”‏پوشیدہ“‏)‏ اور سودوپی‌گرافا (‏لفظی مطلب ”‏جعلی تحریریں“‏)‏ تیسری صدی ق.‏س.‏ع.‏ سے لے کر پہلی صدی س.‏ع.‏ کی یہودی تحریریں ہیں۔‏ رومن کیتھولک چرچ اپاکرفا کو الہامی بائبل کے حصے کے طور پر قبول کرتا ہے لیکن یہودی اور پروٹسٹنٹ ان کتابوں کو تسلیم نہیں کرتے۔‏ سودوپی‌گرافا بائبل کہانیوں کی توسیعی شکل ہیں جو بائبل کے کسی مشہور کردار سے منسوب کی گئی ہیں۔‏

^ پیراگراف 13 دی واچ‌ٹاور نومبر ۱۵،‏ ۱۹۹۸ صفحہ ۲۱-‏۲۴ پر مضمون ”‏مکابی کون تھے؟‏“‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

بحرِمُردار کے قریب یہ وہ غار ہیں جن سے قدیم طومار ملے تھے

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

Scroll fragment: Pages 3, 4, and 6: Courtesy of Israel Antiquities Authority

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy of Shrine of the Book, Israel Museum, Jerusalem