کینیا میں لائق اشخاص کی تلاش
کینیا میں لائق اشخاص کی تلاش
کینیا قدرتی حسن کا شاہکار ہے۔ یہ جاذبِنظر سرزمین سرسبزوشاداب جنگلات، وسیع میدان، تپتے صحرا اور برفپوش پہاڑوں سے آراستہ ہے۔ یہ دس لاکھ سے زائد جنگلی جانوروں اور ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار گینڈوں کا مسکن ہے۔ اس سرزمین پر آپ کو زرافوں کے بڑے بڑے جھنڈ بھی گھومتےپھرتے نظر آئینگے۔
یہاں پرندے بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جن میں بلند پرواز کرنے والے طاقتور عقاب اور رنگبرنگے پرندوں کے غول شامل ہیں جنکے نغمے فضا میں رس گھولتے ہیں۔ اِسکے علاوہ کوئی ہاتھی اور شیروں کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟ واقعی، کینیا کے دلکش مناظر، اسکے جھرنوں اور خوشالحان پرندوں کی آوازیں ناقابلِفراموش ہیں۔
تاہم، اس خوبصورت سرزمین پر ایک اَور قسم کی آواز بھی گونج رہی ہے۔ یہ اُن ہزاروں آوازوں کی گونج ہے جو اُمید کا پیغام دے رہی ہے۔ (یسعیاہ ۵۲:۷) یہ آوازیں ۴۰ سے زائد قبیلوں اور لسانی گروہوں تک پہنچ رہی ہیں۔ اس لحاظ سے، کینیا روحانی حسن کا پیکر بھی ہے۔
کینیا کے بیشتر لوگ مذہبی رُجحان رکھتے ہیں اور وہ روحانی معاملات پر باتچیت کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، دیگر ممالک کی طرح کینیا میں بھی دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو تلاش کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے کیونکہ یہ بھی ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔
معاشی مشکلات نے بہتیروں کو اپنی طرزِزندگی میں ردوبدل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لہٰذا خواتین جنہیں روایتاً گھروں میں کام کرنا چاہئے وہ اب دفتروں میں یا پھر سڑک کے کنارے پھل، سبزیاں، مچھلی اور ہاتھ سے بنائی ہوئی ٹوکریاں فروخت کر رہی ہیں۔ اپنے خاندانوں کی ضروریاتِزندگی پوری کرنے کیلئے آدمی زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں۔ بچے بھی اپنے ننھےننھے ہاتھوں میں بھنی ہوئی مونگپھلی کے پیکٹ اور اُبلے ہوئے انڈے لئے انہیں فروخت کرنے کی خاطر گلیوں میں مارےمارے پھرتے ہیں۔ نتیجتاً دن کے وقت بہت تھوڑے لوگ گھروں پر ملتے ہیں۔ اس صورتحال نے بادشاہی کی خوشخبری دینے والوں کیلئے ردوبدل کرنا ضروری بنا دیا ہے۔
یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ گھروں سے باہر اپنے روزمرّہ کاموں میں مشغول لوگوں، اپنے دوستوں، رشتےداروں، کاروباری اشخاص اور ساتھی کارندوں پر زیادہ توجہ دیں۔ لہٰذا، بھائیوں نے اس مشورے پر عمل کِیا اور ہر جگہ لوگوں سے گفتگو کرنا شروع کر دی۔ (متی ۱۰:۱۱) کیا اپنے کام کو وسیع کرنے کی اُن کی کوششیں پھلدار ثابت ہوئی ہیں؟ واقعی ایسا ہوا ہے! چند مثالوں پر غور کریں۔
رشتہدار—ہمارے قریبی پڑوسی
کینیا کے دارالحکومت نیروبی کی آبادی تقریباً تین ملین ہے۔ اس شہر کے مشرقی حصے میں فوج کا ایک ریٹائرڈ میجر رہتا تھا جسے یہوواہ کے گواہوں سے سخت نفرت تھی حالانکہ اسکا اپنا بیٹا گواہ تھا۔ ایک مرتبہ فروری کے مہینے میں یہ ریٹائرڈ افسر ۱۶۰ کلومیٹر کا سفر کر کے رفٹ ویلی کے قصبے ناکورو میں اپنے بیٹے کے گھر گیا۔ ملاقات کے دوران اس کے بیٹے نے اُسے تحفے میں ایک کتاب دی جسکا عنوان تھا علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے۔ * اُسکے والد نے اسے قبول کر لیا اور واپس آ گیا۔
گھر آ کر سابقہ افسر نے کتاب اپنی بیوی کو دے دی جس نے یہ سوچے بغیر ہی کہ اسے یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا ہے پڑھنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ بائبل سچائی نے اس کے دل پر اثر کرنا شروع کر دیا اور وہ یہ معلومات اپنے شوہر کو بھی بتانے لگی۔ تجسّس کے باعث، اُس نے بھی کتاب کو پڑھنا شروع کر دیا۔ جب انہیں اس کے ناشرین کی بابت پتہ چلا تو وہ سمجھ گئے کہ اُنہیں یہوواہ کے گواہوں کی بابت سچ نہیں بتایا گیا تھا۔ انہوں نے مقامی گواہوں سے رابطہ کِیا اور بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔ اُنہوں نے کتاب کو خود پڑھنے سے یہ سمجھ لیا تھا کہ تمباکو کا استعمال اور فروخت غیرمسیحی کام ہے۔ (متی ۲۲:۳۹؛ ۲-کرنتھیوں ۷:۱) انہوں نے اپنی دکان میں موجود تمام سگریٹ فوری طور پر ضائع کر دئے۔ کچھ مہینوں کے بعد وہ غیربپتسمہیافتہ پبلشر بننے کے قابل ہو گئے اور جلد ہی ایک ڈسٹرکٹ کنونشن پر بپتسمہ لے لیا۔
کوڑے میں چھپا خزانہ
بعض ضلعوں کے کچھ دیہاتوں میں ہزاروں لوگ آباد ہیں۔ یہاں آپکو قطاردرقطار مٹی، لکڑی، ٹوٹیپھوٹی لوہے کی چادروں کے گھر نظر آئینگے۔ جب کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کی کمی ہو جاتی ہے تو لوگ وقتی تدبیر نکال لیتے ہیں۔ جوآکلی (سواحلی میں ”تیز سورج“) مزدور کڑک دھوپ میں کام کرتے ہیں، پرانی گاڑیوں کے ٹائروں سے چپلیں یا بےکار ٹینڈبوں سے مٹی کے تیل کے لیمپ بناتے ہیں۔ دیگر لوگ کوڑےکرکٹ کے ڈھیروں اور کوڑےدانوں میں کاغذ، ٹینڈبے اور بوتلیں تلاش کرتے ہیں تاکہ اُنہیں دوبارہ استعمال کیلئے بیچ سکیں۔
کیا کوڑےکرکٹ میں خزانہ چھپا ہو سکتا ہے؟ جیہاں! ایک بھائی یاد کرتا ہے: ”ایک ہٹاکٹا، گندہسڑا اور بےڈھنگا آدمی اخباروں اور رسالوں کی ردی سے بھرا ہوا پلاسٹک کا بڑا سا تھیلا اُٹھائے ہمارے اسمبلی ہال میں داخل ہوا۔ یہ بتانے کے بعد کہ اسکا نام ولیم ہے، اُس نے مجھ سے پوچھا: ’کیا آپکے پاس مینارِنگہبانی کا نیا شمارہ ہے؟‘ مَیں حیرانی کے عالم میں یہ سوچنے لگا کہ اسکا آخر مقصد کیا ہے۔ جب مَیں نے اسے پانچ رسالے دکھائے تو اُس نے سب کو باری باری دیکھنے کے بعد مجھ سے کہا: ’مَیں یہ تمام رسالے لینا چاہتا ہوں۔‘ مَیں حیرانوپریشان اپنے کمرے میں گیا اور کتاب آپ زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں لے آیا۔ * مَیں نے اسے فردوس کی تصویر دکھائی اور اس بات کی وضاحت کی کہ ہم لوگوں کو مُفت بائبل مطالعہ کرواتے ہیں۔ پھر مَیں نے اسے مشورہ دیا: ’ولیم اگر آپ کل یہاں آئیں تو ہم مطالعہ شروع کرینگے؟‘ اس نے ایسا ہی کِیا!
”ایک اتوار وہ پہلی مرتبہ اجلاس پر حاضر ہوا۔ اس دن مَیں عوامی تقریر دے رہا تھا۔ جب ولیم اندر داخل ہوا تو اس نے حاضرین پر سرسری سی نگاہ ڈالی، مجھے پلیٹفارم پر دیکھا اور فوراً ہال سے باہر نکل گیا۔ بعدازاں مَیں نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کِیا۔ اس نے شرماتے ہوئے جواب دیا: ’لوگ بہت صافستھرے تھے۔ مَیں گھبرا گیا تھا۔‘
علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے ریلیز ہونے کے بعد ہم نے اس سے مطالعہ شروع کر دیا۔ اس اثنا میں، وہ تھیوکریٹک منسٹری سکول میں دو تقاریر دے چکا تھا اور غیربپتسمہیافتہ پبلشر بھی بن گیا تھا۔ جب سپیشل اسمبلی ڈے پر اُس نے بپتسمہ لیا تو مَیں نے روحانی بھائی کے طور پر اُسکا بڑی خوشی سے خیرمقدم کِیا۔“
”جوںجوں ولیم مطالعہ میں ترقی کرتا گیا بائبل سچائی نے اس کی زندگی کو تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ اس نے غسل کِیا، بال کٹوائے، صافستھرے کپڑے پہنے اور جلد ہی اجلاسوں پر باقاعدہ آنے لگا۔ کتابولیم نے پہلی مرتبہ بیشقیمت مینارِنگہبانی رسالہ کہاں دیکھا تھا؟ ”مَیں نے کوڑے میں پھینکے ہوئے ردی میں اسکے چند شمارے دیکھے تھے۔“ جیہاں، اُس نے عجیبوغریب طریقے سے یہ خزانہ حاصل کِیا تھا!
جائےملازمت پر گواہی دینا
کیا ہم اپنی جائےملازمت پر غیررسمی گواہی دینے کے مواقع سے فائدہ اُٹھانے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں؟ نیروبی کلیسیا کے ایک بزرگ جیمز کو اسی طرح بائبل سے رُوشناس کرایا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ بھی دوسروں تک رسائی کرنے کیلئے اس طریقے کو استعمال کرنے میں ماہر ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مرتبہ جیمز نے دیکھا کہ اُسکا ایک ساتھی کارکُن ایک بیج لگا کر دفتر آیا ہے جس پر لکھا تھا کہ ”یسوع نجاتدہندہ ہے۔“ جیمز نے مبشر فلپس کی نقل کرتے ہوئے اپنے ساتھی کارکُن سے پوچھا: ”کیا آپ درحقیقت ان الفاظ کا مطلب سمجھتے ہیں؟“ (اعمال ۸:۳۰) اس سوال سے عمدہ باتچیت شروع ہو گئی۔ ایک بائبل مطالعہ شروع ہو گیا اور بعدازاں اُس آدمی نے بپتسمہ لے لیا۔ کیا جیمز کو دوسروں کے سلسلے میں بھی کامیابی حاصل ہوئی؟ اُسکی زبانی سنیں:
”ٹام اور مَیں ایک ہی کمپنی میں ملازم تھے۔ ہم اکثر اپنی سٹاف بس میں اکٹھے سفر کرتے تھے۔ ایک صبح ہم دونوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جسے مَیں نے اسطرح پکڑ رکھا تھا کہ ٹام اسے اچھی طرح دیکھ سکے۔ میری توقع کے مطابق، اس سے واقعی اُسکے اندر دلچسپی پیدا ہوئی اور مَیں نے بخوشی اُسے اپنی کتاب دے دی۔ وہ اس کتاب کی معلومات پڑھ کر بہت زیادہ متاثر ہوا اور بائبل مطالعہ کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ اب وہ اور اسکی بیوی یہوواہ کے بپتسمہیافتہ خادم ہیں۔“
جیمز مزید بیان کرتا ہے: ”کمپنی میں اکثروبیشتر دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے دوران بہت دلچسپ بحثمباحثے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک موقع پر میری ملاقات افرائیم اور والٹر سے ہوئی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ مَیں ایک گواہ ہوں۔ افرائیم یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ یہوواہ کے گواہوں کی اتنی زیادہ مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ والٹر کے ذہن میں گواہوں اور دیگر مذاہب کے مابین فرق کی بابت سوالات تھے۔ وہ دونوں میرے صحیفائی جوابوں سے مطمئن تھے اور مطالعہ کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔ افرائیم نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ وقت آنے پر، ان دونوں میاںبیوی نے اپنی زندگیاں یہوواہ کیلئے مخصوص کر دیں۔ اب وہ ایک بزرگ کے طور پر خدمت انجام دے رہا ہے اور اسکی بیوی ریگولر پائنیر ہے۔ تاہم، والٹر کو اتنی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے اپنی مطالعہ کی کتاب پھینک دی۔ لیکن میری مستقلمزاجی کی وجہ سے اس نے دوبارہ مطالعہ شروع کر دیا۔ اب وہ بھی بزرگ کے طور پر خدمت انجام دینے کے استحقاق سے خوش ہے۔“ جیمز کے اپنی جائےملازمت پر غیررسمی گواہی دینے کے مواقع سے فائدہ اُٹھانے کی بدولت مجموعی طور پر ۱۱ اشخاص سچے مسیحی بن گئے ہیں۔
انتہائی حیرانکُن نتیجہ
لیک وکٹوریا کے کنارے پر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں تجہیزوتدفین کے ایک موقع پر بہت سے دوست اور رشتہدار موجود تھے۔ سوگواروں میں ایک عمررسیدہ گواہ بھی تھا۔ وہ ڈولی نامی ایک سکول ٹیچر کے پاس گیا اور اسے مُردوں کی حالت اور موت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینے کے سلسلے میں یہوواہ کے مقصد کی بابت بتایا۔ اُسکے مثبت ردِعمل کو دیکھتے ہوئے اس نے
اُسے یقین دلایا: ”جب آپ اپنے آبائی شہر واپس جائینگی تو ہمارا کوئی مشنری آپکے پاس آئیگا اور آپکو بائبل سکھائیگا۔“ڈولی کا آبائی شہر کینیا کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اُس وقت وہاں صرف چار مشنری گواہ کام کر رہے تھے۔ دراصل اس عمررسیدہ بھائی نے کسی بھی مشنری کو ڈولی سے ملاقات کرنے کیلئے مطلع نہیں کِیا تھا۔ لیکن اُسے پورا بھروسا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا! کچھ ہی عرصہ بعد ایک مشنری بہن کی ملاقات ڈولی سے ہوئی اور یوں اُسکے ساتھ بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔ اب ڈولی بپتسمہیافتہ ہے، اسکی بیٹی کا نام تھیوکریٹک سکول میں درج ہے اور اس کے دو بیٹے بھی بپتسمہیافتہ ہیں۔ اُس نے پائنیر سروس سکول میں شرکت سے بھی لطف اُٹھایا ہے۔
ترقی کے مطابق انتظامات
غیررسمی گواہی پر زیادہ زور دینے کی وجہ سے کینیا میں ہزاروں اشخاص خوشخبری سننے کے قابل ہوئے ہیں۔ اس وقت ۰۰۰،۱۵ سے زائد پبلشر اس اہم کام میں مصروف ہیں اور گزشتہ سال ۰۰۰،۴۱ سے زائد لوگ یسوع کی موت کی یادگاری پر حاضر تھے۔ سارے کینیا میں، اجلاسوں کی حاضری اکثر بادشاہتی پبلشروں کی تعداد سے دُگنی ہوتی ہے۔ اس سے مزید کنگڈم ہالوں کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔
بڑے بڑے شہروں اور دُورافتادہ علاقوں میں بھی کنگڈم ہال تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نیروبی کے شمالمشرق میں تقریباً ۳۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سامبورو کا قصبہ ہے۔ اس قصبے کا نام ۱۹۳۴ میں مارالال پڑ گیا جسکا مطلب سامبورو زبان میں ”چمکنا“ ہے کیونکہ یہاں استعمال ہونے والی سب سے پہلی لوہے کی چھت سورج کی روشنی میں چمکتی تھی۔ باسٹھ سال بعد مارالال میں لوہے کی چادر سے تیارشُدہ چھت والی ایک دوسری عمارت تعمیر کی گئی۔ یہ بھی ”چمکتی“ اور ”دمکتی“ ہے کیونکہ یہ سچی پرستش کا مقام ہے۔
کینیا کے اس دُورافتادہ علاقے میں پہلا کنگڈم ہال تعمیر کرنے کے لئے ۱۵ پبلشروں نے بہت زیادہ محنت کی۔ فنڈز کے محدود ہونے کی وجہ سے بھائیوں کو مقامی طور پر دستیاب سازوسامان کو ہی استعمال کرنا پڑا۔ اُنہوں نے سُرخ مٹی سے دیواریں بنائیں جنہیں پانی سے تر کِیا گیا اور مضبوط ستونوں میں چن دیا گیا۔ دیواروں پر گوبر اور راکھ کا پلستر کِیا گیا تھا جس سے یہ مضبوط ہونے کے علاوہ کئی سال تک قائم رہ سکتی ہیں۔
عمارت کیلئے لکڑی حاصل کرنے کیلئے بھائیوں نے درخت کاٹنے کی اجازت حاصل کر لی۔ لیکن قریبترین جنگل بھی تقریباً دس کلومیٹر دُور تھا۔ بھائی اور بہنیں پیدل جنگل تک جاتے، درختوں کو کاٹتے اور پھر لکڑیوں کو تراش کر تعمیر کی جگہ پر لاتے تھے۔ ایک مرتبہ، جنگل سے واپسی پر بھائیوں کو پولیس نے روک لیا اور یہ الزام لگایا کہ اُنکا اجازتنامہ غیرقانونی ہے۔ پولیس نے ایک پائنیر سے کہا کہ اُسے درخت کاٹنے کے جُرم میں گرفتار کِیا جاتا ہے۔ علاقے کے لوگوں اور پولیس کی نظر میں اچھی شہرت رکھنے والی ایک مقامی بہن نے کہا: ”اگر آپ ہمارے بھائی کو گرفتار کرتے ہیں تو آپکو ہم سب کو بھی گرفتار کرنا ہوگا کیونکہ ہم سب نے درخت کاٹے ہیں!“ یوں پولیس افسر نے ان سب کو جانے دیا۔
جنگل میں خطرناک جانوروں کی وجہ سے پیدل چلنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ایک دن جب ایک بہن نے درخت کاٹ کر زمین پر گِرایا تو اُسے ایک جانور چھلانگ لگا کر بھاگتا ہوا نظر آیا۔ اچانک گندمی رنگ دیکھ کر اُس نے سوچا کہ یہ کوئی امپالا (افریقی ہرن) ہوگا لیکن بعد میں جب اس نے قدموں کے نشانات دیکھے تو پتہ چلا کہ یہ تو شیر تھا! ایسے خطرات کے باوجود، بھائیوں نے ہال کو مکمل کِیا اور یہ یہوواہ کی حمد کا ایک ”چمکدار“ مظہر ہے۔
یکم فروری ۱۹۶۳ کینیا کی تھیوکریٹک تاریخ کا ایک اہم دن تھا۔ اُس دن ۴.۷ مربع میٹر کے ایک کمرے پر مشتمل پہلے برانچ آفس کا آغاز ہوا۔ اکتوبر ۲۵، ۱۹۹۷ کینیا کی تھیوکریٹک تاریخ کا ایک اور اہم دن تھا—یہ ۸۰۰،۷ مربع میٹر کے ایک نئے بیتایل کمپلیکس کی مخصوصیت کا دن تھا! یہ مکمل پروجیکٹ تین سال کی انتھک محنت کا مُنہ بولتا ثبوت تھا۔ پچّیس مختلف ممالک سے آنے والے رضاکاروں نے اس ۸.۷ ایکڑ کچی اور خودرو پودوں سے بھری زمین کو باغنما گردوپیش والی خوبصورت نئی برانچ عمارت میں بدل دیا جو بیتایل خاندان کے ۸۰ ارکان کی سکونتگاہ ہے۔
یہوواہ نے اپنے لوگوں کیلئے جو کچھ کِیا ہے ہم اُس سے بہت خوش ہیں۔ ہم اُسکے شکرگزار ہیں کہ اُس نے اپنے خادموں کو کشادہ دل ہونے اور کینیا میں لائق اشخاص کو تلاش کرنے سے اسے روحانی حسن سے معمور سرزمین بنانے کیلئے جانفشانی کرنے کی تحریک دی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 9 واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
^ پیراگراف 13 واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔