مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کے غضب کے دن سے پہلے اُسکے طالب ہوں

یہوواہ کے غضب کے دن سے پہلے اُسکے طالب ہوں

یہوواہ کے غضب کے دن سے پہلے اُسکے طالب ہوں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ کے طالب ہو!‏ راستبازی کو ڈھونڈو۔‏ فروتنی کی تلاش کرو۔‏ شاید [‏یہوواہ]‏ کے غضب کے دن تم کو پناہ ملے۔‏“‏—‏صفنیاہ ۲:‏۳‏۔‏

۱.‏ جب صفنیاہ نے اپنے نبوّتی کام کا آغاز کِیا تو یہوداہ کی روحانی حالت کیسی تھی؟‏

صفنیاہ نے یہوداہ کی تاریخ کے نہایت ہی تشویشناک دَور میں اپنے نبوّتی کام کا آغاز کِیا۔‏ قوم کی روحانی حالت بہت خراب تھی۔‏ لوگ یہوواہ پر بھروسا رکھنے کی بجائے،‏ مُلحد پجاریوں اور نجومیوں سے راہنمائی حاصل کر رہے تھے۔‏ مُلک میں بعل کی پرستش کیساتھ باروری کی رسومات کا راج تھا۔‏ شہر کے حاکم—‏شہزادے،‏ رئیس اور قاضی—‏لوگوں کی حفاظت کرنے کی بجائے اُن پر ظلم ڈھا رہے تھے۔‏ (‏صفنیاہ ۱:‏۹؛‏ ۳:‏۳‏)‏ کچھ عجب نہیں کہ یہوواہ نے یہوداہ اور یروشلیم کو تباہ کرنے کیلئے اُس کے خلاف ’‏اپنا ہاتھ چلانے‘‏ کا فیصلہ کِیا!‏—‏صفنیاہ ۱:‏۴‏۔‏

۲.‏ یہوداہ میں خدا کے وفادار خادموں کیلئے کیا اُمید تھی؟‏

۲ صورتحال کے خراب ہونے کے باوجود اُمید کی ایک کرن ابھی باقی تھی۔‏ اب یوسیاہ بن امون تخت‌نشین تھا۔‏ وہ کمسن ہونے کے باوجود،‏ یہوواہ کیلئے حقیقی محبت رکھتا تھا۔‏ اگر یہ نیا بادشاہ یہوداہ میں سچی پرستش بحال کر دیتا ہے تو یہ وفاداری کیساتھ خدائےبرحق کی خدمت کرنے والے چند لوگوں کیلئے کتنی حوصلہ‌افزا بات ہوگی!‏ شاید دیگر لوگ بھی اُن کیساتھ مل جانے کی تحریک پائیں اور اِس طرح سے وہ بھی یہوواہ کے غضب کے دن سے بچ جائیں۔‏

بچاؤ کے تقاضے

۳،‏ ۴.‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے غضب کے دن“‏ پناہ حاصل کرنے کے لئے کسی شخص کو کن تین تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے؟‏

۳ کیا کچھ لوگ یہوواہ کے غضب کے دن سے واقعی بچ سکتے تھے؟‏ جی‌ہاں،‏ لیکن اِس کیلئے صفنیاہ ۲:‏۲،‏ ۳ میں بیان‌کردہ تین شرائط پر پورا اُترنا لازمی تھا۔‏ جب ہم اِن آیات کو پڑھتے ہیں تو ہمیں اِن تقاضوں پر خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔‏ صفنیاہ نے تحریر کِیا:‏ ”‏اِس سے پہلے کہ تقدیرِالہٰی ظاہر ہو اور وہ دن بُھس کی مانند جاتا رہے اور [‏یہوواہ]‏ کا قہرِشدید تم پر نازل ہو اور اُسکے غضب کا دن تم پر آ پہنچے۔‏ اَے مُلک کے سب حلیم لوگو جو [‏یہوواہ]‏ کے احکام پر چلتے ہو اُسکے طالب ہو!‏ راستبازی کو ڈھونڈو۔‏ فروتنی کی تلاش کرو۔‏ شاید [‏یہوواہ]‏ کے غضب کے دن تم کو پناہ ملے۔‏“‏

۴ لہٰذا،‏ بچاؤ کے لئے کسی بھی شخص کو (‏۱)‏ یہوواہ کے طالب ہونے،‏ (‏۲)‏ راستبازی کو ڈھونڈنے اور (‏۳)‏ فروتنی کی تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔‏ اِن تقاضوں کو آجکل ہمارے لئے گہری دلچسپی کا حامل ہونا چاہئے۔‏ کیوں؟‏ اِسلئے کہ جیسے یہوداہ اور یروشلیم نے ساتویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں یومِ‌حساب کا سامنا کِیا تھا،‏ اُسی طرح دُنیائےمسیحیت کی قومیں—‏درحقیقت،‏ تمام شریر لوگ—‏آنے والی ”‏بڑی مصیبت“‏ پر یہوواہ خدا کیساتھ لڑائی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ اُس وقت پناہ حاصل کرنے کے خواہاں ہر شخص کو اب فیصلہ‌کُن قدم اُٹھانا چاہئے۔‏ کیسے؟‏ اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے یہوواہ کے طالب ہونے،‏ راستبازی کو ڈھونڈنے اور فروتنی کی تلاش کرنے سے ایسا کِیا جا سکتا ہے!‏

۵.‏ آجکل ’‏یہوواہ کے طالب ہونے‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۵ آپ شاید کہیں:‏ ’‏مَیں تو خدا کا مخصوص‌شُدہ اور بپتسمہ‌یافتہ خادم یعنی یہوواہ کا ایک گواہ ہوں۔‏ کیا مَیں نے پہلے ہی سے اِن تقاضوں کو پورا نہیں کِیا ہے؟‏‘‏ دراصل،‏ خود کو یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ درکار ہے۔‏ اسرائیل ایک مخصوص‌شُدہ قوم تھی لیکن صفنیاہ کے دنوں میں،‏ یہوداہ کے لوگ اُس مخصوصیت کی مطابقت میں زندگی بسر نہیں کر رہے تھے۔‏ نتیجتاً،‏ اس قوم کو رد کر دیا گیا تھا۔‏ آجکل،‏ ’‏یہوواہ کے طالب ہونے‘‏ کا مطلب اُس کی زمینی تنظیم کی رفاقت میں اُسکے ساتھ ایک پُرتپاک ذاتی رشتہ پیدا کرنا اور اُسے قائم رکھنا ہے۔‏ اِس کا مطلب معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنا اور اُس کے احساسات کا لحاظ رکھنا ہے۔‏ ہم یہوواہ کے کلام کا بغور مطالعہ کرنے،‏ اُس پر غوروخوض کرنے اور زندگی میں اس کی مشورت کا اطلاق کرنے سے اُس کے طالب ہوتے ہیں۔‏ جب ہم پُرجوش دُعا میں یہوواہ کی راہنمائی کے طالب ہوتے اور اُسکی پاک رُوح کی راہنمائی میں چلتے ہیں تو اُسکے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور ہم ’‏اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے‘‏ اُس کی خدمت کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔‏—‏استثنا ۶:‏۵؛‏ گلتیوں ۵:‏۲۲-‏۲۵؛‏ فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

۶.‏ ہم کیسے ’‏راستبازی کو ڈھونڈھتے‘‏ ہیں اور اِس دُنیا میں بھی ایسا کرنا کیوں ممکن ہے؟‏

۶ صفنیاہ ۲:‏۳ میں متذکرہ دوسرا تقاضا،‏ ’‏راستبازی کو ڈھونڈنا‘‏ ہے۔‏ ہم میں سے بیشتر نے مسیحی بپتسمے کے لائق ٹھہرنے کیلئے اپنی زندگیوں میں اہم تبدیلیاں کی تھیں۔‏ تاہم،‏ ہمیں اپنی پوری زندگی کے دوران یہوواہ کے راست اخلاقی معیاروں پر قائم رہنا چاہئے۔‏ اس سلسلے میں اچھا آغاز کرنے والے بعض اشخاص نے خود کو دُنیا سے آلودہ ہونے کی اجازت دے دی ہے۔‏ راستبازی کے طالب ہونا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ہم ان لوگوں سے گھرے ہوئے ہیں جو جنسی بداخلاقی،‏ جھوٹ اور بددیانتی کو معمول کی بات سمجھتے ہیں۔‏ لہٰذا دُنیا کے رنگ میں رنگ جانے کی کوشش کرنے کے ذریعے اُس کی پسندیدگی کی جستجو کرنے کا رُجحان یہوواہ کو خوش کرنے کی شدید خواہش پر حاوی ہو سکتا ہے۔‏ یہوداہ اپنے بُت‌پرست پڑوسیوں کی نقل کرنے کی وجہ سے خدا کی خوشنودی کھو بیٹھا تھا۔‏ دُنیا کی نقل کرنے کی بجائے،‏ آئیے ”‏خدا کی مانند“‏ بنیں اور ”‏نئی انسانیت کو [‏پہنیں]‏ جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔‏“‏—‏افسیوں ۴:‏۲۴؛‏ ۵:‏۱‏۔‏

۷.‏ ہم کیسے ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کرتے ہیں؟‏

۷ صفنیاہ ۲:‏۳ میں تیسرا نکتہ یہ بیان کِیا گیا ہے کہ اگر ہم یہوواہ کے غضب کے دن پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کرنی چاہئے۔‏ ہر روز ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو فروتن نہیں ہیں۔‏ انکے نزدیک حلم‌مزاجی ایک نقص ہے۔‏ اطاعت‌شعاری کو ایک سنگین کمزوری خیال کِیا جاتا ہے۔‏ وہ ہٹ‌دھرم،‏ خودغرض اور خودرائے ہوتے ہیں،‏ اُنکے خیال میں اُنکے ”‏حقوق“‏ اور ترجیحات ہر قیمت پر پوری ہونی چاہئیں۔‏ اگر اِن میں سے بعض رُجحانات ہمارے اندر بھی پیدا ہو جاتے ہیں تو یہ کتنے دُکھ کی بات ہوگی!‏ یہی ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کرنے کا وقت ہے۔‏ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‏ خدا کی تابعداری کرنے،‏ فروتنی کیساتھ اُسکی تربیت کو قبول کرنے اور اُسکی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے سے ایسا ممکن ہے۔‏

‏”‏شاید“‏ پناہ ملے؟‏

۸.‏ صفنیاہ ۲:‏۳ میں لفظ ”‏شاید“‏ کے استعمال سے کیا ظاہر کِیا گیا ہے؟‏

۸ صفنیاہ ۲:‏۳ پر غور کریں جو بیان کرتی ہے:‏ ”‏شاید [‏یہوواہ]‏ کے غضب کے دن تم کو پناہ ملے۔‏“‏ ”‏مُلک کے .‏ .‏ .‏ حلیم لوگوں“‏ سے مخاطب ہوتے ہوئے لفظ ”‏شاید“‏ کیوں استعمال کِیا گیا ہے؟‏ اُن حلیم لوگوں نے مثبت اقدام اُٹھائے تھے لیکن خوداعتمادی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔‏ اپنی زندگی کی روش میں انکی وفاداری اپنے اختتام کو نہیں پہنچی تھی۔‏ یہ بات قابلِ‌تصور تھی کہ اُن میں سے بعض گناہ میں پڑ سکتے تھے۔‏ ہماری بابت بھی یہ بات سچ ہے۔‏ یسوع نے اِس نکتے کو یوں بیان کِیا:‏ ”‏جو آخر تک برداشت کریگا وہ نجات پائیگا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کے غضب کے دن سے بچنے کا انحصار اُسکی نظروں میں ہمارے درست کام کرتے رہنے پر ہے۔‏ کیا آپکا عزمِ‌مُصمم یہی ہے؟‏

۹.‏ نوجوان یوسیاہ بادشاہ نے کونسے راست اقدام اُٹھائے تھے؟‏

۹ صفنیاہ کی باتوں کے جواب میں ایسے لگتا ہے کہ یوسیاہ بادشاہ نے ”‏[‏یہوواہ کا]‏ .‏ .‏ .‏ طالب“‏ ہونے کی تحریک پائی تھی۔‏ صحائف بیان کرتے ہیں:‏ ”‏اپنی سلطنت کے آٹھویں برس جب [‏یوسیاہ تقریباً ۱۶ برس کی عمر کا]‏ لڑکا ہی تھا وہ اپنے باپ داؔؤد کے خدا کا طالب ہؤا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۴:‏۳‏)‏ یوسیاہ ’‏راستبازی کو ڈھونڈتا‘‏ رہا،‏ جیسے کہ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏بارھویں برس میں [‏جب یوسیاہ کی عمر تقریباً ۲۰ برس تھی]‏ یہوؔداہ اور یرؔوشلیم کو اُونچے مقاموں اور یسیرتوں اور کھودے ہوئے بُتوں اور ڈھالی ہوئی مورتوں سے پاک کرنے لگا۔‏ اور لوگوں نے اُسکے سامنے بعلیم کے مذبحوں کو ڈھا دیا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ یوسیاہ نے یہوواہ کو خوش کرنے کیلئے انکساری سے کارروائی کرتے ہوئے مُلک کو بُت‌پرستی اور دیگر جھوٹے مذہبی کاموں سے پاک کرنے سے ’‏فروتنی کی تلاش‘‏ بھی کی۔‏ اِن تبدیلیوں پر دیگر حلیم لوگ کتنے خوش ہوئے ہونگے!‏

۱۰.‏ یہوداہ میں ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں کیا واقع ہوا اور کون بچ گئے تھے؟‏

۱۰ یوسیاہ کے دورِحکومت میں بہتیرے یہودیوں نے یہوواہ کی طرف رُجوع کِیا۔‏ تاہم،‏ بادشاہ کی موت کے بعد،‏ بہتیروں نے پھر اپنے پُرانے طورطریقے اختیار کر لئے جو یہوواہ کیلئے مکمل طور پر ناقابلِ‌قبول تھے۔‏ یہوواہ کے فرمان کے مطابق،‏ بابلیوں نے ۶۰۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں یہوداہ کو شکست دیکر اُس کے دارالحکومت،‏ یروشلیم کو تباہ کر دیا۔‏ تاہم،‏ سب کچھ برباد نہیں ہوا تھا۔‏ یرمیاہ نبی،‏ عبدملک کوشی،‏ یوناداب کی نسل کے لوگ اور خدا کے دیگر وفادار لوگ یہوواہ کے غضب کے دن سے بچ گئے تھے۔‏—‏یرمیاہ ۳۵:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ۳۹:‏۱۱،‏ ۱۲،‏ ۱۵-‏۱۸‏۔‏

خدا کے دُشمن—‏متوجہ ہوں!‏

۱۱.‏ آجکل خدا کے وفادار رہنا ایک چیلنج کیوں ہے،‏ تاہم یہوواہ کے لوگوں کے دُشمن کس بات پر توجہ دیکر اچھا کرتے ہیں؟‏

۱۱ اِس شریر نظام پر یہوواہ کے غضب کے دن کا انتظار کرتے وقت ہم ”‏طرح طرح کی آزمایشوں میں“‏ پڑتے ہیں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲‏)‏ آزادیٔ‌پرستش کا دعویٰ کرنے والے بیشتر ممالک میں،‏ سازشی پادریوں نے خدا کے لوگوں کو کینہ‌پرور اذیت کا نشانہ بنانے کے لئے دُنیاوی حکومتوں کیساتھ ملکر اپنا اثرورُسوخ استعمال کِیا ہے۔‏ بددیانت لوگ یہوواہ کے خادموں پر الزام لگاتے ہوئے اُنہیں ”‏خطرناک فرقہ“‏ قرار دیتے ہیں۔‏ خدا اُنکی حرکتوں سے بخوبی واقف ہے چنانچہ وہ بےسزا نہیں چھوٹیں گے۔‏ خدا کے اِن دُشمنوں کیلئے اِس بات پر غور کرنا اچھا ہوگا کہ خدا کے لوگوں کے قدیم دُشمنوں،‏ فلستیوں کا کیا حال ہوا تھا۔‏ پیشینگوئی بیان کرتی ہے:‏ ”‏غزؔہ متروک ہوگا اور اِسقلوؔن ویران کِیا جائیگا اور اشدؔود دوپہر کو خارج کر دیا جائیگا اور عقرؔون کی بیخ‌کنی کی جائیگی۔‏“‏ فلستین کے بڑے بڑے شہر غزہ،‏ اِسقلون،‏ اشدود اور عقرون مکمل طور پر تباہ ہو جائینگے۔‏—‏صفنیاہ ۲:‏۴-‏۷‏۔‏

۱۲.‏ فلستین،‏ موآب اور عمون کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏

۱۲ پیشینگوئی آگے بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے موآؔب کی ملامت اور بنی‌عموؔن کی لعن‌طعن سنی ہے۔‏ اُنہوں نے میری قوم کو ملامت کی اور اُنکی حدود کو دبا لیا ہے۔‏“‏ (‏صفنیاہ ۲:‏۸‏)‏ درحقیقت،‏ مصر اور کوش نے بھی بابلی حملہ‌آوروں کے ہاتھوں تکلیف اُٹھائی تھی۔‏ تاہم ابرہام کے بھتیجے لوط کے صلب سے پیدا ہونے والی قوموں،‏ موآب اور عمون کے خلاف یہوواہ کا فیصلہ کیا تھا؟‏ یہوواہ نے پیشینگوئی کی تھی:‏ ”‏موآؔب سدؔوم کی مانند ہوگا اور بنی‌عموؔن عموؔرہ کی مانند۔‏“‏ اپنی اُمہات‌الاسلاف—‏سدوم اور عمورہ کی تباہی سے بچنے والی لوط کی دو بیٹیوں—‏کے برعکس موآب اور عمون خدا کی آتشی عدالت سے نہیں بچیں گے۔‏ (‏صفنیاہ ۲:‏۹-‏۱۲؛‏ پیدایش ۱۹:‏۱۶،‏ ۲۳-‏۲۶،‏ ۳۶-‏۳۸‏)‏ آجکل،‏ فلستین اور اُسکے شہر کہاں ہیں؟‏ اپنے زمانے کے متکبر موآب اور عمون کی بابت کیا ہے؟‏ اگر آپ اُنہیں تلاش کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر پائینگے۔‏

۱۳.‏ نینوہ میں کونسی اثریاتی دریافت ہوئی ہے؟‏

۱۳ صفنیاہ کے زمانے میں،‏ اسور کی سلطنت اپنے دورِاقتدار میں عروج پر تھی۔‏ اسوری دارالحکومت نینوہ کی کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے شاہی محل کے ایک حصے کی بابت بیان کرتے ہوئے ماہرِاثریات آسٹن لیارڈ نے لکھا:‏ ”‏اندرونی چھت کو چوکور حجروں میں تقسیم کر کے پھولوں یا جانوروں کی تصاویر سے مزین کِیا گیا تھا۔‏ تمام حجروں میں خوبصورت کناریاں اور نقش‌ونگار تھے،‏ کچھ کو ہاتھی دانت سے سجایا گیا تھا۔‏ خوابگاہوں کے شہتیر اور اطراف پر سونے اور چاندی کی پترکاری کی گئی تھی اور کہیں کہیں چوب‌کاری کے لئے بالخصوص دیودار کی لکڑی استعمال کی گئی تھی۔‏“‏ تاہم،‏ صفنیاہ کی پیشینگوئی کے مطابق،‏ اسور نے نیست اور اُس کے دارالحکومت،‏ نینوہ نے ”‏ویران اور بیابان کی مانند خشک“‏ ہو جانا تھا۔‏—‏صفنیاہ ۲:‏۱۳‏۔‏

۱۴.‏ صفنیاہ کی پیشینگوئی نینوہ پر کیسے پوری ہوئی تھی؟‏

۱۴ صفنیاہ کی اِس پیشینگوئی کے کوئی ۱۵ سال بعد،‏ زورآور نینوہ تباہ اور اِس کا شاہی محل ملبے کا ڈھیر ہو گیا تھا۔‏ جی‌ہاں،‏ وہ عالیشان شہر خاک میں مِل گیا تھا۔‏ اِس تباہی کی وسعت کو واضح طور پر اِن الفاظ میں بیان کِیا گیا تھا:‏ ”‏ہر قسم کے حیوان حواصل اور خارپُشت اُسکے ستونوں کے سروں پر مقام کرینگے۔‏ اُن کی آواز اُس کے جھروکوں میں ہوگی۔‏ اُس کی دہلیزوں میں ویرانی ہوگی۔‏“‏ (‏صفنیاہ ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ نینوہ کی عالیشان عمارتیں حواصل اور خارپُشت کے رہنے کیلئے موزوں جگہیں بن جائینگی۔‏ شہر کے گلی‌کوچوں سے کاروبار کرنے والوں کی آوازیں،‏ جنگی سورماؤں کا شور اور پجاریوں کے گیت سنائی نہیں دیں گے۔‏ جن راستوں پر کبھی بڑی رونق ہوا کرتی تھی اب وہاں کسی جھروکے سے کوئی پُراسرار آواز،‏ شاید کسی پرندے کا دردناک گیت یا آندھی کا سناٹا سنائی دیگا۔‏ دُعا ہے کہ خدا کے تمام دُشمن اِسی طرح سے اپنے انجام کو پہنچیں!‏

۱۵.‏ فلستین،‏ موآب،‏ عمون اور اسور کیساتھ جو کچھ ہوا اُس سے کیا سبق حاصل کِیا جا سکتا ہے؟‏

۱۵ موآب،‏ عمون،‏ فلستین اور اسور کا جو حشر ہوا اُس پر غور کرنے سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہم اس سے یہ سبق سیکھتے ہیں کہ یہوواہ کے خادموں کے طور پر،‏ ہمیں اپنے دُشمنوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‏ خدا اپنے لوگوں کے مخالفین کے کاموں پر نظر رکھتا ہے۔‏ یہوواہ نے ماضی میں اپنے دُشمنوں کے خلاف کارروائی کی تھی اور آجکل بھی یہوواہ ساری آبادشُدہ زمین کی عدالت کریگا۔‏ لیکن ’‏تمام قوموں میں سے ایک بڑی بِھیڑ‘‏ ضرور بچ نکلے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹‏)‏ یہوواہ کے طالب ہونے،‏ راستبازی کو ڈھونڈنے اور فروتنی کی تلاش کرنے کی صورت میں آپ بھی اُس بِھیڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔‏

لاف‌زن خطاکاروں پر افسوس!‏

۱۶.‏ صفنیاہ کی پیشینگوئی نے یہوداہ کے شہزادوں اور مذہبی پیشواؤں کی بابت کیا کہا اور وہ الفاظ دُنیائےمسیحیت پر کیوں عائد ہوتے ہیں؟‏

۱۶ صفنیاہ کی پیشینگوئی ایک مرتبہ پھر یہوداہ اور یروشلیم پر توجہ مرکوز کراتی ہے۔‏ صفنیاہ ۳:‏۱،‏ ۲ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُس سرکش‌وناپاک‌وظالم شہر پر افسوس!‏ اُس نے کلام کو نہ سنا۔‏ وہ تربیت‌پذیر نہ ہؤا۔‏ اُس نے [‏یہوواہ]‏ پر توکل نہ کِیا اور اپنے خدا کی قربت کی آرزو نہ کی۔‏“‏ اپنے لوگوں کی تربیت کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کی کوششوں کو نظرانداز کرنا کتنا المناک تھا!‏ شہزادوں،‏ رئیسوں اور قاضیوں کی بےرحمی واقعی افسوسناک تھی۔‏ صفنیاہ اِن الفاظ کے ساتھ مذہبی پیشواؤں،‏ نبیوں اور کاہنوں کے شرمناک کاموں پر علانیہ ملامت کرتا ہے:‏ ”‏اُس کے نبی لاف‌زن اور دغاباز ہیں۔‏ اُس کے کاہنوں نے پاک کو ناپاک ٹھہرایا اور اُنہوں نے شریعت کو مروڑا ہے۔‏“‏ ‏(‏صفنیاہ ۳:‏۳،‏ ۴‏)‏ یہ الفاظ آجکل دُنیائےمسیحیت کے نبیوں اور کاہنوں کی صورتحال کی شاندار عکاسی کرتے ہیں!‏ اُنہوں نے اپنے بائبل ترجموں میں سے لاف‌زنی سے کام لیتے ہوئے الہٰی نام کو نکال دیا ہے اور جسکی پرستش کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اُسی کی غلط نمائندگی کرنے والے عقائد کی تعلیم دیتے ہیں۔‏

۱۷.‏ خواہ لوگ سنتے ہیں یا نہیں،‏ ہمیں خوشخبری کا اعلان کیوں کرتے رہنا چاہئے؟‏

۱۷ یہوواہ نے پاس‌ولحاظ دکھاتے ہوئے اپنے لوگوں کو اس کارروائی سے آگاہ کِیا جو وہ اُن کے خلاف کرنے والا تھا۔‏ اس نے اپنے خادموں—‏صفنیاہ،‏ یرمیاہ اور دیگر انبیا—‏کو بھیجا کہ لوگوں کو توبہ کی تاکید کریں۔‏ جی‌ہاں،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ بےانصافی نہ کرے گا۔‏ وہ ہر صبح بِلاناغہ اپنی عدالت ظاہر کرتا ہے۔‏“‏ جوابی‌عمل کیسا تھا؟‏ ”‏مگر بےانصاف آدمی شرم کو نہیں جانتا،‏“‏ صفنیاہ نے بیان کِیا۔‏ (‏صفنیاہ ۳:‏۵‏)‏ آجکل بھی ایسی ہی آگاہی دی جا رہی ہے۔‏ اگر آپ خوشخبری کے مُناد ہیں تو آپ اِس آگاہی کے کام میں حصہ لے رہے ہیں۔‏ پس بِلاتوقف خوشخبری کا اعلان کرتے رہیں!‏ خواہ لوگ سنیں یا نہ سنیں،‏ جبتک آپ وفاداری سے اپنی خدمتگزاری کو پورا کرتے رہتے ہیں تو یہ خدا کی نظر میں کامیاب ہے؛‏ جب آپ جوش کے ساتھ خدا کا کام کرتے ہیں تو آپ کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‏

۱۸.‏ صفنیاہ ۳:‏۶ کی تکمیل کیسے ہوگی؟‏

۱۸ یہوواہ کی عدالت کی تعمیل دُنیائےمسیحیت کی تباہی تک ہی محدود نہیں ہوگی۔‏ یہوواہ زمین کی تمام قوموں کو علانیہ ملامت کرتا ہے:‏ ”‏مَیں نے قوموں کو کاٹ ڈالا۔‏ اُن کے بُرج برباد کئے گئے۔‏ مَیں نے اُن کے کوچوں کو ویران کِیا یہاں تک کہ اُن میں کوئی نہیں چلتا۔‏ اُن کے شہر اُجاڑ ہوئے۔‏“‏ (‏صفنیاہ ۳:‏۶‏)‏ یہ باتیں اتنی قابلِ‌اعتماد ہیں کہ یہوواہ تباہی کا ذکر اس انداز سے کرتا ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ یہ پہلے ہی سے واقع ہو چکی ہیں۔‏ موآب،‏ عمون،‏ فلستین کے شہروں کے ساتھ کیا ہوا؟‏ اس کے علاوہ اسور کے دارالحکومت نینوہ کے ساتھ کیا واقع ہوا؟‏ اُن کی تباہی کو آجکل کی قوموں کے لئے عبرتناک ہونا چاہئے۔‏ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا۔‏

ہمیشہ یہوواہ کے طالب رہیں

۱۹.‏ ہم خود سے کونسے خیال‌آفرین سوال پوچھ سکتے ہیں؟‏

۱۹ صفنیاہ کے زمانے میں،‏ خدا کا غضب اُن لوگوں پر بھڑکا تھا جنہوں نے مکاری سے ”‏عمداً اپنی روش کو بگاڑا“‏ تھا۔‏ (‏صفنیاہ ۳:‏۷‏)‏ ہمارے زمانے میں بھی ایسا ہی واقع ہوگا۔‏ کیا آپ اِس بات کا ثبوت دیکھتے ہیں کہ یہوواہ کا دن قریب ہے؟‏ کیا آپ یہوواہ کے کلام کی باقاعدہ—‏روزانہ—‏پڑھائی کرنے سے ”‏یہوواہ کے طالب“‏ ہوتے ہیں؟‏ کیا آپ اخلاقی طور پر پاک‌صاف زندگی بسر کرنے سے ”‏راستبازی کو ڈھونڈتے“‏ ہیں؟‏ نیز کیا آپ خدا اور نجات کیلئے اُس کے انتظام کی انکساری کیساتھ اطاعت کرنے سے ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کرتے ہیں؟‏

۲۰.‏ ہم صفنیاہ کی پیشینگوئی پر مبنی سلسلہ‌وار مضامین کے آخری حصے میں کن سوالات پر غوروخوض کرینگے؟‏

۲۰ اگر ہم وفاداری کے ساتھ یہوواہ کے طالب ہوتے،‏ راستبازی کو ڈھونڈتے اور فروتنی کی تلاش کرتے ہیں تو ہم اب بھی—‏جی‌ہاں،‏ ایمان کی آزمائش کرنے والے اِس ”‏اخیر زمانہ“‏ میں—‏بہت ساری برکات حاصل کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵؛‏ امثال ۱۰:‏۲۲‏)‏ لیکن ہم واجب طور پر پوچھ سکتے ہیں،‏ ’‏ہم یہوواہ کے موجودہ زمانے کے خادموں کے طور پر کن طریقوں سے برکات حاصل کر رہے ہیں اور مستقبل کے سلسلے میں جلد آنے والے یہوواہ کے غضب کے دن پناہ حاصل کرنے والوں کے لئے صفنیاہ کی پیشینگوئی کن برکات کا ذکر کرتی ہے؟‏‘‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• لوگ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے طالب“‏ کیسے ہوتے ہیں؟‏

‏• ”‏راستبازی کو [‏ڈھونڈھنے]‏“‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• ہم کیسے ”‏فروتنی کی تلاش“‏ کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں یہوواہ،‏ راستبازی اور فروتنی کے طالب کیوں رہنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

کیا آپ بائبل مطالعے اور پُرجوش دُعا کے ذریعے یہوواہ کے طالب رہتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

ہمیشہ یہوواہ کے طالب رہنے کی وجہ سے ایک بڑی بِھیڑ اُسکے غضب کے دن سے بچ نکلے گی