مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

حقیقی خوشی کیسے حاصل کریں

حقیقی خوشی کیسے حاصل کریں

حقیقی خوشی کیسے حاصل کریں

ایک بدھسٹ مذہبی راہنما،‏ دلائی لاما نے بیان کِیا:‏ ”‏میرے خیال میں ہماری زندگی کا بنیادی مقصد خوشی حاصل کرنا ہی ہے۔‏“‏ اسکے بعد اُس نے وضاحت کی کہ اُس کے خیال میں دل‌ودماغ کی تربیت یا اصلاح کرنے سے خوشی حاصل کی جا سکتی ہے۔‏ اُس نے بیان کِیا کہ ”‏دماغ ہی وہ بنیادی آلہ ہے جس کی مدد سے ہم مکمل خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‏“‏ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا پر ایمان غیرضروری ہے۔‏ *

اس کے برعکس،‏ یسوع پر غور کریں جو خدا پر مضبوط ایمان رکھتا تھا جس کی تعلیمات نے صدیوں کے دوران کروڑوں لوگوں کو متاثر کِیا ہے۔‏ یسوع انسانی خوشی میں دلچسپی رکھتا تھا۔‏ اس نے اپنے مشہور پہاڑی وعظ کا آغاز نو مبارکبادیوں کے ساتھ کِیا—‏نو اظہارات جو ”‏مبارک ہیں .‏ .‏ .‏“‏ کے الفاظ کیساتھ شروع ہوتے ہیں۔‏ (‏متی ۵:‏۱-‏۱۲‏)‏ اسی وعظ میں،‏ اس نے اپنے سامعین کو اپنے دل‌ودماغ کا جائزہ لینے،‏ اُنہیں پاک‌صاف رکھنے اور اُنکی تربیت کرنے کے علاوہ،‏ اُنہیں پُرتشدد،‏ بداخلاق اور خودغرضانہ خیالات کی بجائے امن‌پسند،‏ پاک اور مشفقانہ خیالات سے معمور کرنے کی تعلیم دی۔‏ (‏متی ۵:‏۲۱،‏ ۲۲،‏ ۲۷،‏ ۲۸؛‏ ۶:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ اُس کے شاگردوں میں سے ایک نے بعد میں نصیحت کی،‏ ہمیں ’‏سچ،‏ شرافت،‏ واجب،‏ دلکش،‏ نیکی اور تعریف کی باتوں‘‏ پر ”‏غور“‏ کرنا چاہئے۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۸‏۔‏

یسوع جانتا تھا کہ حقیقی خوشی دوسروں کیساتھ پُرمحبت تعلقات قائم رکھنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔‏ انسان فطرتاً معاشرت‌پسند ہے لیکن جب ہم خود کو دوسروں سے الگ‌تھلگ کر لیتے یا اپنے اردگرد کے لوگوں کیساتھ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں تو ہم خوش نہیں رہ سکتے۔‏ ہم دوسروں سے محبت رکھنے اور اپنے لئے ان کی محبت کو محسوس کرنے ہی سے خوش رہ سکتے ہیں۔‏ یسوع کی تعلیم کے مطابق،‏ خدا کیساتھ ہمارا رشتہ ایسی محبت کی بنیاد ہے۔‏ یسوع کی تعلیم خاص طور پر اس معاملے میں دلائی لاما سے مختلف ہے کیونکہ یسوع نے سکھایا کہ خدا سے خودمختاری حاصل کرنے کی صورت میں انسان ہرگز خوش نہیں رہ سکتا۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏—‏متی ۴:‏۴؛‏ ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏۔‏

اپنی روحانی ضروریات پر غور کریں

ایک مبارکبادی یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۳‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ یسوع نے ایسا کیوں کہا؟‏ اسلئے کہ جانوروں کے برعکس،‏ ہم روحانی ضروریات رکھتے ہیں۔‏ خدا کی شبِیہ پر خلق کئے جانے کے باعث انسان محبت،‏ انصاف،‏ رحم اور حکمت جیسی الہٰی صفات کو کسی حد تک اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷؛‏ میکاہ ۶:‏۸؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ ہماری روحانی ضروریات میں ہماری زندگی کے بامقصد ہونے کی ضرورت بھی شامل ہے۔‏

ہم ایسی روحانی ضروریات کیسے پوری کر سکتے ہیں؟‏ مافوق‌الفطرتی مُراقبے یا محض مشاہدہِ‌نفس سے ایسا نہیں کِیا جا سکتا۔‏ اسکی بجائے،‏ یسوع نے بیان کِیا:‏ ‏”‏آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو [‏یہوواہ]‏ کے مُنہ سے نکلتی ہے۔‏“‏ (‏متی ۴:‏۴‏)‏ غور کریں کہ یسوع نے کہا کہ خدا ”‏ہر بات“‏ کا ماخذ ہے جو ہماری زندگی کیلئے ضروری ہے۔‏ بعض سوالات کے جواب تلاش کرنے میں صرف خدا ہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ آجکل ایسی بصیرت خاص طور پر بروقت ہے جس نے زندگی کے مقصد اور خوشی حاصل کرنے کے طریقے کی بابت مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔‏ کتابوں کی دُکانوں میں ایسی کتابوں کیلئے مکمل سیکشن وقف کئے ہوئے ہیں جو قارئین کو صحت،‏ دولت اور خوشی بخشنے کا وعدہ کرتی ہیں۔‏ خاص طور پر خوشی سے تعلق رکھنے والے انٹرنیٹ سائٹس قائم کئے گئے ہیں۔‏

تاہم،‏ ان حلقوں کے ذریعے انسانی سوچ کو اکثر غلط راستے پر ڈالا جاتا ہے۔‏ یہ خودغرضانہ یا خودپرستانہ خواہشات کو تسکین پہنچانے کی طرف مائل ہوتی ہے۔‏ یہ محدود علم اور ناقص تجربے پر مشتمل ہوتی ہے اور اکثراوقات اسکی بنیاد جھوٹے شواہد پر رکھی جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اپنی مدد آپ کی کتابوں کے ئنن میں ایک بڑھتا ہوا رُجحان ”‏ارتقائی فلسفے“‏ کے نظریے کو اپنے خیالات کی بنیاد بنانا ہے جسکے مطابق،‏ انسانی جذبات کی اصل ہمارے مبیّنہ حیوانی آباؤاجداد میں پائی جاتی ہے۔‏ سچ تو یہ ہے کہ خوشی حاصل کرنے کے سلسلے میں ہمارے خالق کے کردار کو نظرانداز کرنے والی کوئی بھی ایسی کوشش مستند نہیں ہو سکتی اور بالآخر اسکا انجام مایوسی ہوگا۔‏ ایک قدیم نبی نے بیان کِیا:‏ ”‏دانشمند شرمندہ ہوئے۔‏ .‏ .‏ .‏ دیکھ اُنہوں نے [‏یہوواہ]‏ کے کلام کو رد کِیا۔‏ اُن میں کیسی دانائی ہے؟‏“‏—‏یرمیاہ ۸:‏۹‏۔‏

یہوواہ خدا ہماری ساخت سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کونسی چیز ہمیں خوشی بخشے گی۔‏ اُسے معلوم ہے کہ اُس نے انسان کو زمین پر کیوں رکھا ہے اور ان کیلئے مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے اور وہ بائبل کے ذریعے ہمیں بھی ان معلومات میں شریک کرتا ہے۔‏ اس الہامی کتاب میں اسکی آشکاراکردہ باتیں خلوصدل لوگوں کو متاثر کرنے کیساتھ ساتھ خوشی بھی بخشتی ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۲۱؛‏ یوحنا ۸:‏۳۲‏)‏ یسوع کے دو شاگردوں کے معاملے میں یہی ہوا تھا۔‏ اُسکی موت نے انہیں افسردہ کر دیا تھا۔‏ لیکن نسلِ‌انسانی کی نجات کیلئے خدا کے مقصد میں اُسکے کردار کی بابت قیامت‌یافتہ یسوع کے الفاظ سنکر انہوں نے کہا:‏ ”‏جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوشتوں کا بھید کھولتا تھا تو کیا ہمارے دل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟‏“‏—‏لوقا ۲۴:‏۳۲‏۔‏

جب ہم بائبل سچائی کو اپنی زندگی کی راہنمائی کرنے دیتے ہیں تو ایسی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔‏ اس سلسلے میں،‏ خوشی کو قوسِ‌قزح سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے۔‏ یہ سازگار موسم میں دکھائی دیتی ہے مگر بہترین حالات میں یہ اَور زیادہ روشن—‏بلکہ دُہری قوسِ‌قزح کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔‏ آئیے چند مثالوں پر غور کریں کہ کیسے بائبل تعلیمات کا اطلاق خوشی کو دوبالا کر سکتا ہے۔‏

اپنی زندگی کو سادہ رکھیں

سب سے پہلے،‏ مال‌ودولت کے معاملے میں یسوع کی مشورت پر غور کریں۔‏ اس نے دولت کو اپنی زندگی کا محور بنا لینے کے خلاف مشورہ دینے کے بعد،‏ ایک حیرت‌انگیز بات کہی۔‏ اس نے بیان کِیا:‏ ”‏پس اگر تیری آنکھ درست ہو تو تیرا سارا بدن روشن ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۹-‏۲۲‏)‏ بنیادی طور پر،‏ اس کے مطابق،‏ اگر ہم دیگر لوگوں کی طرح لالچ سے مال‌ودولت،‏ اقتدار یا دوسرے نشانوں کی جستجو میں لگے رہتے ہیں تو ہم ضروری باتوں کی اہمیت کھو دینگے۔‏ بہرحال،‏ یسوع نے ایک اَور موقع پر کہا:‏ ”‏کسی کی زندگی اُسکے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏)‏ اگر ہم خدا کیساتھ اپنے رشتے،‏ خاندانی معاملات اور ایسی ہی دیگر باتوں کو مقدم رکھتے ہیں جو واقعی ضروری ہیں تو ہماری ”‏آنکھ درست“‏ اور سادہ ہوگی۔‏

غور کریں کہ یسوع گوشہ‌نشینی یا نفس‌کُشی کی تائید نہیں کر رہا تھا۔‏ چنانچہ،‏ یسوع خود ایسا گوشہ‌نشین شخص نہیں تھا۔‏ (‏متی ۱۱:‏۱۹؛‏ یوحنا ۲:‏۱-‏۱۱‏)‏ اسکی بجائے،‏ اس نے تعلیم دی کہ جو لوگ زندگی کو محض دولت جمع کرنے کا موقع خیال کرتے ہیں،‏ وہ بنیادی طور پر اس سے لطف‌اندوز ہونے میں ناکام رہتے ہیں۔‏

چھوٹی عمر ہی میں دولتمند بن جانے والے لوگوں کی بابت تبصرہ کرتے ہوئے سان فرانسسکو،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ کے ایک نفسیاتی معالج نے کہا کہ ان کیلئے پیسہ ”‏تکلیف اور پریشانی کی بنیادی وجہ ہے۔‏“‏ اسکے علاوہ اس نے کہا کہ یہ لوگ ”‏دو یا تین گھر،‏ ایک کار خریدتے ہیں اور دیگر چیزوں پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔‏ نیز جب ایسا کرنے سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا [‏یعنی،‏ انہیں کوئی خوشی نہیں ملتی]‏ تو وہ افسردہ اور اپنی زندگیوں کے مقصد کی بابت مایوس اور بےثبات ہو جاتے ہیں۔‏“‏ اسکے برعکس،‏ مادی طور پر سادہ زندگی بسر کرنے کی بابت یسوع کی مشورت پر عمل کرنے اور روحانی باتوں کیلئے گنجائش پیدا کرنے والے لوگوں کے پاس حقیقی خوشی حاصل کرنے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔‏

ٹام نامی ہوائی کے ایک معمار نے بحرالکاہل کے جزائر میں پرستش کی جگہوں کی تعمیر میں جہاں لوگوں کے پاس مادی چیزیں بہت کم تھیں،‏ اپنی رضاکارانہ خدمت پیش کی۔‏ ٹام نے ان فروتن لوگوں کی بابت غور کِیا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏ان جزائر میں رہنے والے میرے مسیحی بہن‌بھائی واقعی خوش ہیں۔‏ انہوں نے یہ سمجھنے میں میری مدد کی کہ مال‌ودولت خوشی کی کُنجی نہیں ہے۔‏“‏ اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں کا بھی مشاہدہ کِیا اور غور کِیا کہ وہ کتنے شادمان تھے۔‏ ٹام نے بیان کِیا:‏ ”‏وہ بہت پیسہ کما سکتے تھے۔‏ لیکن انہوں نے روحانی چیزوں کو اوّل درجہ دینے اور سادہ طرزِزندگی اپنانے کا انتخاب کِیا ہے۔‏“‏ ٹام نے ان مثالوں سے تحریک پا کر اپنی زندگی کو سادہ بنایا تاکہ وہ اپنے خاندان اور روحانی مفادات کیلئے زیادہ وقت نکال سکے،‏ وہ اپنے اس فیصلے پر کبھی نہیں پچھتایا۔‏

خوشی اور عزتِ‌نفس

خوشی کیلئے ذاتی توقیر یا عزتِ‌نفس کا احساس اہم ہے۔‏ انسانی ناکاملیت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمزوریوں کی وجہ سے بعض لوگ اپنی ذات کی بابت منفی نظریہ رکھتے ہیں اور بہتیروں کو بچپن ہی سے ایسے احساسات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ ایسے گہرے احساسات کا مقابلہ کرنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔‏ خدا کے کلام کا اطلاق کرنا اسکا واحد حل ہے۔‏

بائبل وضاحت کرتی ہے کہ خالق ہماری بابت کیسا محسوس کرتا ہے۔‏ کیا اُسکا نقطۂ‌نظر کسی بھی انسان سے یا ہمارے اپنے نقطۂ‌نظر سے زیادہ اہم نہیں؟‏ خدا جو تجسمِ‌محبت ہے تعصّب یا بغض کے بغیر ہم پر نظر کرتا ہے۔‏ وہ دیکھ سکتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا بن سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ درحقیقت،‏ وہ اُسکی خوشنودی کے طالب لوگوں کی ناکاملیتوں کے باوجود،‏ انہیں بیش‌قیمت اور مرغوب خیال کرتا ہے۔‏—‏دانی‌ایل ۹:‏۲۳؛‏ حجی ۲:‏۷‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ خدا ہماری کمزوریوں اور ہمارے گُناہوں کو نظرانداز نہیں کرتا ہے۔‏ وہ ہم سے درست کام کرنے کے سلسلے میں جانفشانی کرنے کی توقع رکھتا ہے اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو وہ ہماری مدد بھی کرتا ہے۔‏ (‏لوقا ۱۳:‏۲۴‏)‏ تاہم،‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی [‏یہوواہ]‏ اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔‏“‏ اس کے علاوہ یہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ کون قائم رہ سکے گا؟‏ پر مغفرت تیرے ہاتھ میں ہے تاکہ لوگ تجھ سے ڈریں۔‏“‏—‏زبور ۱۰۳:‏۱۳؛‏ ۱۳۰:‏۳،‏ ۴‏۔‏

لہٰذا خود کو خدا کی نظروں سے دیکھنا سیکھیں۔‏ خدا سے محبت رکھنے والے شاید خود کو نااہل محسوس کریں لیکن یہ علم کہ وہ انہیں مرغوب خیال کرتا ہے اور ان پر اعتماد کرتا ہے ایک شخص کی خوشی میں اضافہ کر سکتا ہے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

اُمید—‏خوشی کا جُزولازم

حال ہی میں فروغ پانے والے تصور،‏ مثبت نفسیات کے مطابق،‏ مثبت سوچ اور ذاتی خوبیوں پر توجہ دینے سے پیدا ہونے والی رجائیت‌پسندی خوشی کا باعث بن سکتی ہے۔‏ بہت کم لوگ اس حقیقت سے انکار کرینگے کہ زندگی اور مستقبل کی بابت رجائیت‌پسندانہ نقطۂ‌نظر ہماری خوشی کو بڑھاتا ہے۔‏ تاہم،‏ ایسی رجائیت‌پسندی کو قیاس‌آرائی کی بجائے حقیقت پر مبنی ہونا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ،‏ رجائیت‌پسندی یا مثبت سوچ کسی بھی طرح جنگ،‏ فاقہ‌زدگی،‏ بیماری،‏ آلودگی،‏ بڑھاپے،‏ تکلیف یا موت کا خاتمہ نہیں کر سکتی جو بہتیروں کی خوشی چھین لینے کا باعث ہیں۔‏ تاہم،‏ رجائیت‌پسندی کا اپنا ایک مقام ہے۔‏

دلچسپی کی بات ہے کہ بائبل رجائیت‌پسندی کی بجائے ایک زیادہ پُراثر لفظ اُمید کو استعمال کرتی ہے۔‏ وائنز کمپلیٹ ایکسپوزٹری ڈکشنری بائبل میں استعمال ہونے والے لفظ ”‏اُمید“‏ کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتی ہے کہ یہ ”‏موافق یا پُراعتماد توقع .‏ .‏ .‏ بھلائی کی خوش‌کُن پیش‌بینی“‏ ہے۔‏ بائبل کے مطابق،‏ اُمید کسی معاملے کی بابت رجائیت‌پسندانہ نظریہ رکھنے سے زیادہ کچھ ہے۔‏ یہ اس چیز کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس پر کسی شخص کی اُمید لگی ہوتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۴؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۳‏)‏ مثال کے طور پر،‏ مسیحی اُمید کے مطابق پچھلے پیراگراف میں متذکرہ تمام ناخوشگوار حالات بہت جلد ختم کر دئے جائینگے۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۹-‏۱۱،‏ ۲۹‏)‏ تاہم،‏ اس میں اَور بہت کچھ شامل ہے۔‏

مسیحی اُس وقت کے منتظر ہیں جب وفادار انسان زمینی فردوس میں کامل زندگی حاصل کرینگے۔‏ (‏لوقا ۲۳:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ اس اُمید کی توسیع میں مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴ بیان کرتی ہے:‏ ”‏دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُنکے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُسکے لوگ ہونگے .‏ .‏ .‏ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏

مشکلات کے باوجود،‏ ایسے مستقبل کی توقع کرنے والے کسی بھی شخص کے پاس خوش ہونے کی ہر وجہ موجود ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۲‏)‏ لہٰذا،‏ کیوں نہ بائبل کی تحقیق‌وتفتیش کے ذریعے معلوم کریں کہ آپ کیوں اس پر ایمان رکھ سکتے ہیں۔‏ روزانہ بائبل پڑھائی کیلئے وقت صرف کرنے سے اپنی اُمید کو مضبوط کریں۔‏ ایسا کرنے سے آپ روحانی تقویت حاصل کرینگے،‏ لوگوں کی خوشیاں چھیننے والی باتوں سے بچنے میں آپ کو مدد ملے گی اور آپکے اندر احساسِ‌تکمیل پیدا ہوگا۔‏ جی‌ہاں،‏ حقیقی خوشی کا بنیادی راز خدا کی مرضی بجا لانے میں ہے۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱۳‏)‏ بائبل اُصولوں کی فرمانبرداری خوشحال زندگی کی بنیاد ہے کیونکہ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔‏“‏—‏لوقا ۱۱:‏۲۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 ایک بدھسٹ کیلئے خدا پر ایمان رکھنا ضروری نہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویریں]‏

مال‌ودولت جمع کرنے،‏ خود کو دوسروں سے الگ‌تھلگ کر لینے یا انسان کے محدود علم پر بھروسا کرنے سے خوشی نہیں مل سکتی

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

خدا کے کلام کی فرمانبرداری خوشحال زندگی کی بنیاد ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

مسیحی اُمید ایک شخص کو خوشی بخشتی ہے