مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مجھے یہوواہ نے تمام عمر سنبھالے رکھا

مجھے یہوواہ نے تمام عمر سنبھالے رکھا

میری کہانی میری زبانی

مجھے یہوواہ نے تمام عمر سنبھالے رکھا

از فارسٹ لی

پولیس نے تھوڑی دیر پہلے ہی ہمارے گراموفون اور بائبل مطبوعات اپنے قبضہ میں کر لیں تھیں۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم میں مخالفین نے کینیڈا کے نئے گورنر جنرل کو یہوواہ کے گواہوں کی سرگرمیوں کو غیرقانونی قرار دینے کیلئے قائل کر لیا۔‏ یہ جولائی ۴،‏ ۱۹۴۰ کا واقعہ ہے۔‏

ہم نے جوکچھ واقع ہوا تھا اُس سے نڈر ہو کر لٹریچر ڈپو سے مزید لٹریچر لے کر منادی کا اپنا کام جاری رکھا۔‏ اِس موقع پر مجھے اپنے والد کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی:‏ ”‏ہم اتنی آسانی سے کام بند نہیں کریں گے۔‏ یہوواہ نے ہمیں منادی کرنے کا حکم دیا ہے۔‏“‏ اس وقت،‏ مَیں دس سال کا ایک کھلنڈرا لڑکا تھا۔‏ لیکن آج بھی،‏ خدمتگزاری کے لئے والد صاحب کا عزم اور جوش‌وجذبہ مجھے اس بات کی مسلسل یاددہانی کراتا ہے کہ کیسے ہمارا خدا یہوواہ اپنے وفاداروں کو سنبھالتا ہے۔‏

اگلی مرتبہ جب پولیس نے ہمیں روکا تو انہوں نے نہ صرف ہمارا لٹریچر چھین لیا بلکہ والد صاحب کو جیل بھی لے گئے اور پیچھے امی چار بچوں کے ساتھ تنہا رہ گئیں۔‏ یہ واقعہ ستمبر ۱۹۴۰ کو سسکاچیوان میں پیش آیا۔‏ اسکے فوراً ہی بعد مجھے اپنے بائبل سے تربیت‌یافتہ ضمیر کی پیروی میں جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کرنے اور قومی ترانہ نہ گانے پر سکول سے نکال دیا گیا۔‏ خط‌وکتابت کے ذریعے تعلیم فراہم کرنے والے سکول سے اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے میرے پاس ایک لچکدار شیڈول تھا اور اسطرح مَیں منادی کے کام میں زیادہ حصہ لیتا تھا۔‏

سن ۱۹۴۸ میں یہوواہ کے گواہوں کے کُل‌وقتی خادموں یعنی پائینروں کو کینیڈا کے مشرقی ساحل کی طرف نقل‌مکانی کرنے کیلئے کہا گیا۔‏ لہٰذا مَیں ہالی‌فیکس،‏ نووا سکوٹیا اور کیپ ولف،‏ پرنس ایڈورڈ آئی‌لینڈ میں پائنیر کے طور پر کام کرنے کیلئے چلا گیا۔‏ اگلے سال،‏ مَیں نے ٹرانٹو میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس میں دو ہفتے کیلئے کام کرنے کی دعوت قبول کر لی۔‏ یہ دو ہفتے چھ سال کی بااجر خدمت پر منتج ہوئے۔‏ آخرکار،‏ میری ملاقات مائرنا سے ہوئی جو میری طرح یہوواہ سے محبت کرتی تھی اور دسمبر ۱۹۵۵ میں ہماری شادی ہو گئی۔‏ ہم نے ملٹن،‏ اونٹاریو میں رہائش اختیار کر لی اور جلد ہی وہاں ایک نئی کلیسیا بن گئی اور ہمارے گھر کا نچلا حصہ کنگڈم ہال بن گیا۔‏

خدمتگزاری کو وسیع کرنے کی ہماری خواہش

آنے والے سالوں کے دوران یکےبعددیگرے ہمارے چھ بچے ہو گئے۔‏ ہماری سب سے بڑی بیٹی مریم تھی۔‏ پھر شرمین،‏ مارک،‏ اےنٹ،‏ گرانٹ اور سب سے آخر میں گلن۔‏ اکثر جب مَیں کام سے گھر لوٹتا تو بچوں کو آگ کے گرد بیٹھے اور مائرنا کو اُنکے سامنے بائبل پڑھتے،‏ بائبل واقعات کی وضاحت کرتے اور اُنکے دلوں میں یہوواہ کیلئے حقیقی محبت کو جاگزین کرتے ہوئے دیکھتا۔‏ اُسکے اس پُرمحبت تعاون کی بدولت ہمارے تمام بچوں نے اوائل عمری ہی میں بائبل کا اچھا خاصا علم حاصل کر لیا۔‏

خدمتگزاری کیلئے میرے والد کے جوش‌وجذبے نے میرے دل‌ودماغ پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۶‏)‏ لہٰذا ۱۹۶۸ میں جب یہوواہ کے گواہوں کے خاندانوں کو منادی کے کام کے سلسلے میں مدد کیلئے وسطی اور جنوبی امریکہ میں نقل‌مکانی کرنے کی دعوت دی گئی تو ہمارا خاندان بھی اس دعوت کو قبول کرنے کیلئے تیار تھا۔‏ اس وقت ہمارے بچوں کی عمریں ۵ سے ۱۳ سال کی تھیں اور ہم میں سے کسی کو بھی ہسپانوی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا۔‏ مَیں نے ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے،‏ معیارِزندگی کا جائزہ لینے کیلئے مختلف ممالک کے دورے کئے۔‏ اپنی واپسی کے بعد،‏ ہم نے خاندان کے طور پر اپنے انتخاب کے سلسلے میں دُعائیہ غوروفکر کر کے نکاراگوا منتقل‌ہونے کا فیصلہ کِیا۔‏

نکاراگوا میں خدمت

اکتوبر ۱۹۷۰ میں ہم اپنے نئے گھر میں تھے اور تین ہفتوں کے اندر ہی مجھے کلیسیائی اجلاس کے پروگرام میں ایک چھوٹا حصہ تفویض کِیا گیا۔‏ جو بھی تھوڑی بہت ہسپانوی مجھے آتی تھی مَیں نے اپنا حصہ پیش کرنے کیلئے سخت کوشش کی اور اختتام پر پوری کلیسیا کو ہفتہ صبح ۳۰:‏۹ اپنے گھر سرویسا کیلئے دعوت دی۔‏ مَیں میدانی خدمتگزاری کیلئے لفظ سروی‌سیو کہنا چاہتا تھا لیکن مَیں درحقیقت اُن سب کو بیئر کیلئے دعوت دے رہا تھا۔‏ اس زبان کو سیکھنا واقعی ایک چیلنج تھا!‏

پہلے پہل تو مَیں نے پیشکش کو اپنے ہاتھ پر لکھ لیا اور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اسے دہرانے لگتا تھا۔‏ مَیں کہتا:‏ ”‏کتاب کیساتھ مُفت گھریلو بائبل مطالعہ بھی کروایا جاتا ہے۔‏“‏ ایک شخص جس نے میری پیشکش کو قبول کِیا اُس نے بعدازاں بیان کِیا کہ جوکچھ مَیں اُسے بتانے کی کوشش کر رہا تھا اُسے اُس بات کو سمجھنے کیلئے ہمارے اجلاسوں پر آنا پڑا تھا۔‏ یہ شخص یہوواہ کا گواہ بن گیا۔‏ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف خدا ہی سچائی کے بیج کو فروتن دلوں میں بڑھاتا ہے جیسے کہ پولس رسول نے بھی تسلیم کِیا!‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۷‏۔‏

درالحکومت مناگوا میں دو سال گزارنے کے بعد،‏ ہم سے جنوبی حصہ میں واقع نکاراگوا میں جانے کیلئے کہا گیا۔‏ یہاں ہم نے ریوس کی کلیسیا اور گردونواح میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے الگ‌تھلگ گروپوں کیساتھ کام کِیا۔‏ جب مَیں اِن گروپوں سے ملاقات کرنے کے لئے جاتا تو پاتھرو پانیا نامی ایک عمررسیدہ وفادار گواہ میرے ساتھ جایا کرتا تھا۔‏ ایک گروپ لیک نکاراگوا کے آتش‌فشانی جزیرے میں واقع تھا جہاں یہوواہ کے گواہوں کا صرف ایک خاندان ہی رہائش‌پذیر تھا۔‏

اس خاندان نے محدود مادی وسائل کے باوجود ہمارے دورے کیلئے بہت زیادہ قدردانی کا مظاہرہ کِیا۔‏ جب ہم شام کو وہاں پہنچے تو کھانا ہمارے لئے تیار تھا۔‏ ہم ایک ہفتہ وہاں ٹھہرے اور بائبل سے محبت رکھنے والے بہت سے نیک لوگوں نے ہمیں اپنے ساتھ کھانے میں شریک کِیا۔‏ اتوار کو عوامی تقریر پر ۱۰۱ کی حاضری نے ہم سب میں ایک جوش سا پیدا کر دیا۔‏

مجھے لگتا ہے کہ ایک دوسرے موقع پر یہوواہ کی سہارا دینے والی طاقت ظاہر ہوئی جب ہم نے کوسٹاریکا کی سرحد کے قریب پہاڑوں میں آباد دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے ایک گروہ سے ملاقات کرنی تھی۔‏ جس دن ہم نے جانا تھا،‏ پاتھرو مجھے لینے کیلئے آیا لیکن میں ملیریا کی وجہ سے بستر پر پڑا ہوا تھا۔‏ مَیں نے کہا ”‏پاتھرو مَیں نہیں جا سکتا۔‏“‏ میرے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُس نے جواب دیا:‏ ”‏تمہیں شدید بخار ہے لیکن تمہیں جانا ہوگا!‏ بھائی انتظار کر رہے ہیں۔‏“‏ پھر اُس نے زوردار طریقے سے دُعا کی جو مَیں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔‏

اس کے بعد مَیں نے کہا:‏ ”‏جاؤ اپنے لئے ایک فریسکو ‏(‏جوس)‏ لے آؤ۔‏ مَیں تقریباً دس منٹ مَیں تیار ہو جاؤنگا۔‏“‏ جس علاقے میں ہم گئے وہاں دو گواہ خاندان رہتے تھے اور اُنہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔‏ مَیں بخار کی وجہ سے کمزوری محسوس کرنے کے باوجود اگلے دن اُن کیساتھ منادی میں گیا۔‏ اتوار کے اجلاس پر ایک سو سے زائد کی حاضری بڑی ایمان‌افزا تھی!‏

دوبارہ نقل‌مکانی

سن ۱۹۷۵ میں ہمارا ساتواں بچہ وان پیدا ہوا۔‏ اگلے سال ہمیں مالی وجوہات کی بِنا پر کینیڈا واپس جانا پڑا۔‏ نکاراگوا کو چھوڑنا آسان نہیں تھا کیونکہ وہاں قیام کے دوران ہم نے حقیقی معنوں میں یہوواہ کی سہارا دینے والی طاقت کو محسوس کِیا تھا۔‏ جب ہم نے نکاراگوا کو چھوڑا تو اُس وقت ہماری کلیسیا کے علاقے میں ۵۰۰ سے زائد لوگ اجلاسوں پر حاضر ہو رہے تھے۔‏

ابتدا ہی میں،‏ جب مَیں اور میری بیٹی مریم نکاراگوا میں سپیشل پائنیر مقرر ہوئے تو مریم نے مجھ سے پوچھا:‏ ”‏ابو اگر کبھی آپکو کینیڈا واپس جانا پڑا تو کیا آپ مجھے یہاں رہنے کی اجازت دینگے؟‏“‏ نکاراگوا کو چھوڑنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا لہٰذا مَیں نے کہا:‏ ”‏ہاں بالکل!‏“‏ لہٰذا جب ہم واپس گئے تو مریم نے نکاراگوا ہی میں اپنی کُل‌وقتی خدمت کو جاری رکھا۔‏ اس نے بعدازاں اینڈریو ریڈ سے شادی کرلی۔‏ سن ۱۹۸۴ میں اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کے مشنری سکول،‏ گلئیڈ کی ۷۷ ویں کلاس میں شرکت کی جو کہ اُس وقت بروکلن نیو یارک میں منعقد ہوتا تھا۔‏ نکاراگوا میں قابلِ‌قدر مشنریوں کے ذریعے ذہن میں نقش‌کردہ خواہش کی تکمیل میں اب مریم اپنے شوہر کیساتھ ڈومینیکن ریپبلک میں خدمت کر رہی ہے۔‏

اسی عرصہ میں،‏ ابو کے الفاظ،‏ ”‏ہم اتنی آسانی سے کام بند نہیں کرینگے“‏ ابھی تک میرے دل میں بالکل دہک رہے تھے۔‏ لہٰذا ۱۹۸۱ میں جب وسطی امریکہ واپس جانے کیلئے ہمارے پاس کافی پیسے جمع ہو گئے تو ہم نے دوبارہ نقل‌مکانی کی،‏ اس مرتبہ ہم کوسٹاریکا چلے گئے۔‏ وہاں خدمت کے دوران ہمیں اُنکی نئی برانچ عمارت کے تعمیراتی کام میں مدد کرنے کی دعوت دی گئی۔‏ تاہم،‏ ۱۹۸۵ میں اپنے بیٹے گرانٹ کے علاج کی غرض سے ہمیں واپس کینیڈا آنا پڑا۔‏ گلن برانچ کے تعمیراتی کام کے سلسلے میں کوسٹاریکا ہی میں ٹھہر گیا جبکہ اےنٹ اور شرمین سپیشل پائنیر کے طور پر خدمت انجام دیتے رہے۔‏ ہم میں سے جن لوگوں نے کوسٹاریکا کو چھوڑا اُنہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم واپس نہیں جائیں گئے۔‏

ناموافق حالت کا مقابلہ کرنا

ستمبر ۱۷،‏ ۱۹۹۳ کو ایک روشن صبح تھی۔‏ مَیں اور ہمارا بڑا بیٹا مارک چھت پر بجری ڈال رہے تھے۔‏ ہم کام کرتے ہوئے اپنے معمول کے مطابق روحانی معاملات پر بات‌چیت کر رہے تھے۔‏ کسی طرح سے مَیں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور چھت سے گر گیا۔‏ جب مجھے ہوش آیا تو مَیں تیز روشنیاں اور سفید کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔‏ یہ ہسپتال کا ایمرجنسی کمرہ تھا۔‏

بائبل جو کچھ کہتی ہے اُسکے پیشِ‌نظر میرا ابتدائی ردِعمل یہ تھا:‏ ”‏خون نہیں لگانا،‏ خون نہیں لگانا!‏“‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۸ ،‏۲۹‏)‏ شرمین کو یہ حوصلہ‌افزا الفاظ کہتے سننا کسقدر اطمینان‌بخش تھا:‏ ”‏ابو سب ٹھیک ہے۔‏ ہم سب یہاں ہیں۔‏“‏ تاہم بعد میں مجھے پتا چلا کہ ڈاکٹروں نے میری طبّی دستاویزات کو دیکھا تھا اور خون لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‏ میری گردن ٹوٹ گئی تھی اور مَیں مکمل طور پر مفلوج تھا اور خود سے سانس لینے کے قابل بھی نہیں تھا۔‏

مفلوج ہونے کے بعد،‏ مجھے یہوواہ کے سہارے کی اَور زیادہ ضرورت تھی۔‏ آلۂ‌تنفّس کی نالی ڈالنے کے لئے حلق میں ہوا کی نالی کی جراحی نے میرے نرخرے میں ہوا کے راستے کو بند کر دیا تھا۔‏ مَیں بات نہیں کر سکتا تھا۔‏ لوگوں کو میرے ہونٹوں کو دیکھ کر سمجھنا پڑتا تھا کہ مَیں کیا کہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‏

اخراجات تیزی سے بڑھ رہے تھے۔‏ میری بیوی اور بیشتر بچوں کے کُل‌وقتی خدمت میں ہونے کی وجہ سے،‏ مَیں نے سوچا کہ اِن مالی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کہیں اُنہیں اس خدمت کو چھوڑنا نہ پڑے۔‏ تاہم،‏ مارک کو ایک جگہ کام مل گیا جس کی مدد سے اُس نے صرف تین مہینوں کے اندر اندر زیادہ‌تر اخراجات پر قابو پا لیا۔‏ نتیجتاً میری بیوی اور میرے سوا سب کُل‌وقتی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوئے تھے۔‏

چھ ممالک سے آنے والے سینکڑوں کارڈز اور خطوط نے میرے ہسپتال کے کمرے کی دیواروں کو بھر دیا تھا۔‏ یہوواہ واقعی مجھے سنبھالے ہوئے تھا۔‏ جب مَیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تھا تو کلیسیا نے بھی ساڑھے پانچ مہینے تک میرے خاندان کیلئے کھانا فراہم کرنے سے اُنکی مدد کی تھی۔‏ ہر روز ایک مسیحی بزرگ سہ‌پہر کا وقت میرے ساتھ گزارتا اور بائبل اور بائبل پر مبنی دیگر مطبوعات کی پڑھائی کرتا اور حوصلہ‌افزا تجربات بیان کرتا تھا۔‏ میرے خاندان کے دو افراد ہر کلیسیائی اجلاس کی تیاری میرے ساتھ کرتے تھے اور یوں مَیں کبھی بھی ضروری روحانی خوراک سے محروم نہیں رہتا تھا۔‏

جب مَیں ہسپتال ہی میں تھا تو میرے لئے سپیشل اسمبلی ڈے پروگرام پر حاضر ہونے کا انتظام کِیا گیا۔‏ ہسپتال کے عملے نے تمام دن میرے ساتھ رہنے کے لئے ایک رجسٹرڈ نرس اور ایک رسپریٹری ٹیکنیشین کا بندوبست کِیا۔‏ ایک بار پھر اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیساتھ ملنا بڑی خوشی کی بات تھی!‏ مَیں قطار میں کھڑے ہوئے اُن ہزاروں بہن‌بھائیوں کو کبھی نہیں بھولوں گا جو میری خیروعافیت پوچھنے کیلئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔‏

روحانیت برقرار رکھنا

اس حادثہ کے تقریباً ایک سال بعد،‏ مَیں واپس اپنے خاندان میں آنے کے قابل ہوا تاہم ابھی تک مجھے ۲۴ گھنٹے دیکھ‌بھال کی ضرورت تھی۔‏ ایک خاص تیارکردہ گاڑی مجھے اجلاسوں پر حاضر ہونے کے قابل بناتی تھی جن سے مَیں شاذونادر ہی غیرحاضر ہوتا ہوں۔‏ تاہم،‏ مَیں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ اجلاسوں پر جانے کیلئے پُختہ ارادہ درکار تھا۔‏ گھر آنے کے بعد مَیں تمام ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر حاضر ہونے کے قابل ہوا ہوں۔‏

آخرکار،‏ فروری ۱۹۹۷ میں،‏ مَیں کسی حد تک دوبارہ بولنے کے قابل ہو گیا۔‏ لہٰذا جب مَیں بائبل پر مبنی اپنی اُمید میں اُنہیں شریک کرتا تو میری بعض نرسیں بہت شوق سے سنتی ہیں۔‏ ایک نرس نے مجھے جیہوواز وِٹنسز—‏پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈم کی مکمل کتاب اور اس کیساتھ ساتھ واچ ٹاورکی دیگر مطبوعات بھی پڑھ کر سنائیں۔‏ ایک چھڑی کی مدد سے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے مَیں لوگوں کے ساتھ خط‌وکتابت کرتا تھا۔‏ اگرچہ اسطرح سے ٹائپ کرنا بہت تھکا دینے والا ہے مگر اسکا صلہ مجھے یہ ملا کہ مَیں خدمتگزاری میں حصہ لینے کے قابل ہوا تھا۔‏

مَیں شدید اعصابی تکلیف میں مبتلا تھا۔‏ مگر ایسا لگتا ہے کہ جب مَیں کسی کیساتھ بائبل سچائیوں کے متعلق بات‌چیت کرتا ہوں یا جب اُنہیں اپنے لئے پڑھائی کرتے ہوئے سنتا ہوں تو مجھے کسی حد تک سکون محسوس ہوتا ہے۔‏ اکثر مَیں اپنی مددگار بیوی کے ساتھ گھرباگھر منادی کرتا ہوں جو کہ بوقتِ‌ضرورت میری بات دوسروں کو سمجھانے میں مدد کرتی ہے۔‏ مَیں کئی مرتبہ امدادی پائنیر خدمت کرنے کے قابل ہوا ہوں۔‏ ایک مسیحی بزرگ کے طور پر خدمت انجام دینے سے مجھے خوشی ہوتی ہے،‏ بالخصوص جب بھائی اجلاسوں پر یا میرے گھر پر مجھے ملنے کیلئے آتے ہیں اور مَیں اُنکی مدد اور حوصلہ‌افزائی کرنے کے قابل ہوتا ہوں۔‏

مجھے یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ افسردہ ہو جانا بہت آسان ہے۔‏ لہٰذا جب کبھی مَیں افسردہ محسوس کرتا ہوں تو مَیں فوراً دُعا کرتا ہوں تاکہ مَیں خوش ہو سکوں۔‏ مَیں رات دن دُعا کرتا ہوں کہ یہوواہ مجھے سنبھالے رکھنا۔‏ جب کوئی خط یا ملاقاتی آتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔‏ مینارِنگہبانی یا جاگو!‏ رسالے کی پڑھائی میرے ذہن کو حوصلہ‌افزا خیالات سے معمور رکھتی ہے۔‏ کبھی‌کبھار مختلف نرسیں میرے لئے یہ رسالے پڑتی تھیں۔‏ جب سے میرا ایکسیڈینٹ ہوا ہے،‏ مَیں نے سات مرتبہ کیسٹ ٹیپ پر مکمل بائبل کی پڑھائی کو سنا ہے۔‏ یہ اُن مختلف طریقوں میں سے چند ہیں جن سے یہوواہ مجھے سنبھالے ہوئے ہے۔‏—‏زبور ۴۱:‏۳‏۔‏

حالات کی تبدیلی نے مجھے اس بات پر غوروخوض کرنے کے بہت سارے مواقع فراہم کئے ہیں کہ کس طرح ہمارا عظیم مُعلم،‏ یہوواہ،‏ ہمیں زندگی گزارنے کیلئے تعلیم دیتا ہے۔‏ وہ ہمیں اپنے مقصد اور مرضی کی بابت صحیح علم،‏ ایک بامقصد خدمتگزاری،‏ خوشحال خاندانی زندگی کے راز کی بابت مشورت عطا کرتا اور ناموافق حالات کے تحت زندگی بسر کرنے کیلئے فہم عطا کرتا ہے۔‏ یہوواہ نے مجھے ایک وفادار اور باکمال بیوی عطا کی ہے۔‏ میرے بچوں نے بھی وفاداری کیساتھ مجھے سہارا دیا اور میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ سب کُل‌وقتی خدمت میں ہیں۔‏ سب سے بڑی بات یہ کہ مارچ ۱۱،‏ ۲۰۰۰ میں ہمارا بیٹا مارک اور اسکی بیوی ایلی‌سن گلئیڈ سکول کی ۱۰۸ ویں کلاس سے فارغ‌التحصیل ہوئے اور اُنہیں نکاراگوا میں تفویض ملی ہے۔‏ مَیں اپنی بیوی کیساتھ اُنکی گریجویشن پر حاضر ہونے کے قابل ہوا تھا۔‏ مَیں صاف‌گوئی سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ناموافق حالات نے میری زندگی تو بدل دی ہے لیکن میرا دل نہیں بدلا۔‏—‏زبور ۱۲۷:‏۳،‏ ۴‏۔‏

مَیں یہوواہ کا شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے ایسی حکمت عطا کی جس نے مجھے اپنے خاندان کو وہ روحانی میراث دینے کے قابل بنایا ہے جو مجھے ملی تھی۔‏ جب مَیں اپنے بچوں کو اُسی جذبے کیساتھ اپنے خالق کی خدمت کرتے دیکھتا ہوں جو میرے والد کا تھا تو مجھے بڑی تقویت اور حوصلہ‌افزائی حاصل ہوتی ہے جس نے کہا تھا،‏ ”‏ہم اتنی آسانی سے کام بند کرنے والے نہیں۔‏ یہوواہ نے ہمیں مُنادی کرنے کا حکم دیا ہے۔‏“‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ نے مجھے اور میرے خاندان کو تمام عمر سنبھالے رکھا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

والد صاحب،‏ اپنے بھائیوں اور اپنی بہن کیساتھ،‏ پائینر خدمت کے دوران استعمال میں آنے والے سفری گھر کے سامنے۔‏ مَیں دائیں طرف ہوں

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اپنی اہلیہ مائرنا کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ہمارے خاندان کی ایک حالیہ تصویر

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

مَیں ابھی تک خطوط کے ذریعے گواہی دیتا ہوں