انسانی کمزوری پر غالب آنا
انسانی کمزوری پر غالب آنا
”جسمانی نیت موت ہے۔“—رومیوں ۸:۶۔
۱. بعض لوگ انسانی بدن کو کیسا خیال کرتے ہیں اور کونسے سوال غورطلب ہیں؟
”مَیں تیرا شکر کرونگا کیونکہ مَیں عجیبوغریب طور سے بنا ہوں۔“ (زبور ۱۳۹:۱۴) زبورنویس داؤد نے یہوواہ کی تخلیق کے ایک شاہکار—انسانی بدن—پر غور کرتے وقت یہ گیت گایا تھا۔ بعض مذہبی اُستاد ایسی منطقی ستائش کے برعکس، جسم کو گُناہ کا مسکن اور آلۂکار سمجھتے ہیں۔ اسے ”جہالت کا لبادہ، بُرائی کی جڑ، گُناہ کی زنجیر، کال کوٹھڑی، زندہ موت، زندہ لاش، چلتی پھرتی لاش“ کہا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ پولس رسول نے کہا: ”میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں۔“ (رومیوں ۷:۱۸) لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم گنہگار بدن کے جال میں بُری طرح پھنس چکے ہیں؟
۲. (ا) ”جسمانی نیت“ کا کیا مطلب ہے؟ (ب) خدا کو خوش کرنے کے خواہاں انسانوں کے اندر ”جسم“ اور ”رُوح“ کے مابین کیا کشمکش پائی جاتی ہے؟
۲ بعضاوقات صحائف انسانی بدن کو ”تن“ کہتے ہیں۔ (۱-سلاطین ۲۱:۲۷) صحائف باغی آدم کی گنہگار اولاد کے طور پر انسان کی ناکامل حالت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی ”تن“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ (افسیوں ۲:۳؛ زبور ۵۱:۵؛ رومیوں ۵:۱۲) آدم سے حاصل ہونے والی ہماری میراث ”انسانی کمزوری“ کا باعث بنی ہے۔ (رومیوں ۶:۱۹) لہٰذا پولس نے خبردار کِیا: ”جسمانی نیت موت ہے۔“ (رومیوں ۸:۶) ”جسمانی نیت“ کا مطلب گنہگار جسم کی خواہشات کے زیرِاثر رہ کر ان سے ترغیب پانا ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۶) پس اگر ہم خدا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہماری روحانیت اور گنہگارانہ فطرت کے مابین ایک کشمکش جاری رہتی ہے جو ”جسم کے کام“ کرنے کے لئے ہم پر لگاتار دباؤ ڈالتی ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۷-۲۳؛ ۱-پطرس ۲:۱۱) ہم پولس رسول کی بابت پڑھتے ہیں جس نے اپنے اندر اس تکلیفدہ کشمکش کو بیان کرنے کے بعد ان الفاظ میں واویلا کِیا تھا: ”ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں! اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا؟“ (رومیوں ۷:۲۴) کیا پولس آزمائش کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں غیرمحفوظ تھا؟ بائبل واضح کرتی ہے کہ ایسا ہرگز نہیں تھا!
آزمائش اور گُناہ کی حقیقت
۳. بہت سے لوگ گُناہ اور آزمائش کو کیسا خیال کرتے ہیں لیکن بائبل ایسے رُجحان کے خلاف کیسے خبردار کرتی ہے؟
۳ آجکل بہتیروں کے نزدیک گُناہ کا نظریہ ناقابلِقبول ہے۔ بعض ”گُناہ“ کو مضحکہخیز انداز میں محض انسانی کمزوریوں کو بیان کرنے کیلئے ایک فرسُودہ اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ”ضرور ہے کہ مسیح کے تختِعدالت کے سامنے جا کر ہم سب کا حال ظاہر کِیا جائے تاکہ ہر شخص اپنے اُن کاموں کا بدلہ پائے جو اُس نے بدن کے وسیلہ سے کئے ہوں۔ خواہ بھلے ہوں خواہ بُرے۔“ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۰) بعض شاید طنزیہ انداز میں کہیں: ”مَیں آزمائش کے سوا باقی ہر چیز کی مزاحمت کر سکتا ہوں!“ بعض لوگوں کا تعلق ایسی ثقافت سے ہے جس میں کھانے، جنس، تفریح یا کامیابی کے سلسلے میں فوری تسکین پر زور دیا جاتا ہے۔ وہ ہر بات میں ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں! (لوقا ۱۵:۱۲) وہ فوری خوشی کے علاوہ مستقبل میں ”حقیقی زندگی“ کی خوشی کی بابت کچھ نہیں سوچتے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۹) تاہم، بائبل ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ ہم فہم اور دُوراندیشی سے کام لیں اور کسی بھی ایسی چیز سے کنارہ کریں جو ہمیں روحانی یا دیگر طریقوں سے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایک الہامی مثل کہتی ہے: ”ہوشیار بلا کو دیکھ کر چھپ جاتا ہے لیکن نادان بڑھے چلے جاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔“—امثال ۲۷:۱۲۔
۴. پولس نے ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲، ۱۳ میں درج کیا نصیحت پیش کی؟
۴ جب پولس نے اخلاقی کجروی کیلئے مشہور شہر، کرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا تو اس نے آزمائش اور گُناہ کی طاقت کے خلاف حقیقتپسندانہ آگاہی پیش کی۔ اس نے کہا: ”پس جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔ تم کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دیگا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲، ۱۳) ہم سب—پیروجوان اور مردوزن—کو سکول، جائےملازمت اور تقریباً ہر جگہ بہت سی آزمائشوں کا سامنا رہتا ہے۔ پس، ہمیں پولس کے الفاظ کا جائزہ لینا اور اپنے لئے اُنکے مطلب کو سمجھنا چاہئے۔
حد سے زیادہ خوداعتماد نہ بنیں
۵. حد سے زیادہ خوداعتمادی کیوں خطرناک ہے؟
۵ پولس بیان کرتا ہے: ”جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲) اپنی اخلاقی قوت کی بابت حد سے زیادہ خوداعتمادی خطرناک ہے۔ یہ گُناہ کی نوعیت اور طاقت کی بابت کم علمی کو ظاہر کرتی ہے۔ جب موسیٰ، داؤد، سلیمان اور پطرس رسول جیسے لوگ گُناہ میں پڑ گئے تو کیا ہمیں خود کو اس کے حملے سے محفوظ خیال کرنا چاہئے؟ (گنتی ۲۰:۲-۱۳؛ ۲-سموئیل ۱۱:۱-۲۷؛ ۱-سلاطین ۱۱:۱-۶؛ متی ۲۶:۶۹-۷۵) امثال ۱۴:۱۶ بیان کرتی ہے: ”دانا ڈرتا ہے اور بدی سے الگ رہتا ہے پر احمق جھنجھلاتا ہے اور بےباک رہتا ہے۔“ اِس کے علاوہ، یسوع نے کہا: ”رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔“ (متی ۲۶:۴۱) چنانچہ، کوئی بھی ناکامل انسان بُری رغبتوں سے محفوظ نہیں ہے اس لئے ہمیں پولس کی آگاہی پر سنجیدہ توجہ دینے اور آزمائش کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم گِرنے کا خطرہ مول لے رہے ہونگے۔—یرمیاہ ۱۷:۹۔
۶. ہمیں آزمائشوں کیلئے کب اور کیسے تیار رہنا چاہئے؟
۶ غیرمتوقع مشکلات کے لئے تیار رہنا دانشمندی ہے۔ آسا بادشاہ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ امن کا دَور اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کا موزوں وقت ہے۔ (۲-تواریخ ۱۴:۲، ۶، ۷) وہ جانتا تھا کہ حملے کے وقت تیاری کرنا بیکار ہوگا۔ اسی طرح، پُرسکون ماحول میں ٹھنڈے دماغ سے یہ فیصلے کرنا مفید ثابت ہوگا کہ آزمائشوں کے وقت کونسا لائحۂعمل اختیار کِیا جانا چاہئے۔ (زبور ۶۳:۶) دانیایل اور اس کے خداترس دوستوں نے بادشاہ کی طرف سے شاہی خوراک کھانے کی آزمائش میں پڑنے سے پہلے ہی وفاداری کیساتھ یہوواہ کی شریعت کی پابندی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لہٰذا، انہوں نے اپنے اعتقادات کی پابندی اور ناپاک خوراک کھانے سے انکار کے سلسلے میں تذبذب سے کام نہیں لیا تھا۔ (دانیایل ۱:۸) چنانچہ مذکورہبالا خدا کے خاموں کی طرح ہمیں بھی آزمائشی حالتوں کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اخلاقی طور پر پاک رہنے کے عزم کو مضبوط کر لینا چاہئے۔ یوں ہم گُناہ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونگے۔
۷. یہ جاننا کیوں تسلیبخش ہے کہ دوسروں نے بھی کامیابی سے آزمائشوں کا مقابلہ کِیا ہے؟
۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) پطرس رسول نے تحریر کِیا: ”تم ایمان میں مضبوط ہو کر اور یہ جان کر [شیطان] کا مقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دُنیا میں ہیں ایسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔“ (۱-پطرس ۵:۹) جیہاں، دوسروں نے بھی خدا کی مدد کیساتھ اسی طرح کی آزمائشوں کا کامیابی سے سامنا کرتے ہوئے ان کی مزاحمت کی ہے اور ہم بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم، کجرو دُنیا میں رہنے والے سچے مسیحیوں کے طور پر ہم سب جلد یا بدیر آزمائش میں پڑنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ چنانچہ، ہم انسانی کمزوری اور گُناہ کرنے کی آزمائش پر غالب آنے کا یقین کیسے کر سکتے ہیں؟
۷ ہم پولس کے ان الفاظ سے بھی بڑی تسلی پاتے ہیں: ”تم کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو“! (ہم آزمائش کا مقابلہ کر سکتے ہیں!
۸. آزمائش سے بچنے کا بنیادی طریقہ کیا ہے؟
۸ ”گُناہ کی غلامی“ سے بچنے کا ایک بنیادی طریقہ جہانتک ممکن ہو آزمائش سے کنارہکشی کرنا ہے۔ (رومیوں ۶:۶) امثال ۴:۱۴، ۱۵ ہمیں تاکید کرتی ہے: ”شریروں کے راستہ میں نہ جانا اور بُرے آدمیوں کی راہ میں نہ چلنا۔ اُس سے بچنا۔ اُسکے پاس سے نہ گذرنا۔ اُس سے مڑ کر آگے بڑھ جانا۔“ ہم اکثراوقات پہلے ہی سے واقف ہوتے ہیں کہ کونسے مخصوص حالات گُناہ کا باعث بنیں گے۔ لہٰذا، مسیحیوں کے طور پر ہمیں ہر ایسے شخص اور ایسی چیز اور ایسی جگہ سے ”آگے بڑھ جانا“ یعنی دُور رہنا چاہئے جو ہمارے اندر غلط خواہشات اور ناپاک جذبات اُبھار سکتی ہیں۔
۹. آزمائش میں مبتلا کرنے والی حالتوں سے بھاگنے کی ضرورت پر صحائف میں کیسے زور دیا گیا ہے؟
۹ آزمائش میں مبتلا کرنے والی حالت سے بھاگ جانا بھی آزمائش پر غالب آنے میں ایک بنیادی قدم ہے۔ پولس نے نصیحت کی: ”حرامکاری سے بھاگو۔“ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۸) اس نے لکھا: ”بُتپرستی سے بھاگو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۴) رسول نے تیمتھیس کو دولت کی ہوس اور ”جوانی کی خواہشوں“ سے بھاگنے کیلئے بھی خبردار کِیا۔—۲-تیمتھیس ۲:۲۲؛ ۱-تیمتھیس ۶:۹-۱۱۔
۱۰. کونسی دو مختلف مثالیں آزمائش سے بھاگ جانے کی قدروقیمت کو ظاہر کرتی ہیں؟
۱۰ ذرا اسرائیل کے بادشاہ داؤد کے معاملے پر غور کریں۔ جب اُس نے اپنے محل کی چھت سے ایک خوبصورت عورت کو نہاتے دیکھا تو اُس کے دل میں غلط خواہشات پیدا ہوئیں۔ اسے چھت سے اُتر کر آزمائش سے بھاگ جانا چاہئے تھا۔ اس کی بجائے، اُس نے اس عورت—بتسبع—کی بابت دریافت کِیا اور اس کے نہایت تباہکُن نتائج نکلے۔ (۲-سموئیل ۱۱:۱–۱۲:۲۳) اس کے برعکس، جب یوسف کے آقا کی بدکار بیوی نے اسے اپنے ساتھ ہمبستر ہونے پر اصرار کِیا تو اُس نے کیسا ردِعمل دکھایا؟ ہم یوں بیان کو پڑھتے ہیں: ”وہ ہرچند روز یوؔسف کے سر ہوتی رہی پر اُس نے اُسکی بات نہ مانی کہ اُس سے ہمبستر ہونے کے لئے اُسکے ساتھ لیٹے۔“ موسوی شریعت کے حاصل ہونے سے بھی پہلے یوسف نے اُسے یہ جواب دیا: ”بھلا مَیں کیوں اَیسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ ایک روز تو اس نے اُسے پکڑ کر کہا: ”میرے ساتھ ہمبستر ہو۔“ کیا یوسف نے وہاں کھڑے ہو کر اس کیساتھ استدلال کرنے کی کوشش کی؟ ہرگز نہیں۔ ”وہ . . . بھاگا اور باہر نکل گیا۔“ یوسف نے جنسی آزمائش کو اپنے اُوپر حاوی ہونے کا موقع نہ دیا۔ وہ بھاگ گیا!—پیدایش ۳۹:۷-۱۶۔
۱۱. اگر کوئی آزمائش باربار ہمارے سامنے آ رہی ہے تو کیا کِیا جا سکتا ہے؟
۱۱ بعضاوقات بھاگ جانے کو بزدلی خیال کِیا جاتا ہے لیکن جسمانی طور پر خود کو ایسی صورتحال سے ہٹا لینا اکثراوقات دانشمندانہ روش ثابت ہوتی ہے۔ شاید ہماری جائےملازمت پر کوئی آزمائش باربار ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ شاید ہم ملازمت تو نہ بدل سکیں مگر ہم دیگر طریقوں سے خود کو ایسی حالتوں سے دُور رکھ سکتے ہیں جو ہمیں آزمائش میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ ہمیں ہر بُری بات سے بچنے اور صرف درست کام کرنے کیلئے پُرعزم ہونے کی ضرورت ہے۔ (عاموس ۵:۱۵) بعض جگہوں پر آزمائش سے بھاگنا، فحاشی پھیلانے والے انٹرنیٹ سائٹس اور تفریح کے قابلِاعتراض مقامات سے گریز کرنے کا تقاضا کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب کسی رسالے کو پھینک دینا یا خدا سے محبت کرنے والے اور ہماری مدد کرنے کے لائق نئے دوستوں کی تلاش کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ (امثال ۱۳:۲۰) گُناہ کی ترغیب دینے والی ہر چیز سے دُور رہنے اور اُسے رد کرنے کا عزمِمُصمم دانشمندانہ بات ہوگی۔—رومیوں ۱۲:۹۔
دُعا کیسے مددگار ثابت ہو سکتی ہے
۱۲. جب ہم خدا سے یہ دُعا کرتے ہیں کہ ”ہمیں آزمایش میں نہ لا“ تو درحقیقت ہم اُس سے کیا درخواست کر رہے ہوتے ہیں؟
۱۲ پولس یہ حوصلہافزا یقیندہانی کراتا ہے: ”خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دیگا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ ہماری دُعاؤں کا جواب ہے جس سے یہوواہ ہماری مدد کرتا ہے۔ یسوع مسیح نے ہمیں دُعا کرنا سکھایا: ”ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا۔“ (متی ۶:۱۳) ایسی پُرخلوص دُعا کے جواب میں یہوواہ آزمائش میں ہم سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا؛ وہ ہمیں شیطان اور اس کے مکارانہ ہتھکنڈوں سے چھڑائے گا۔ (افسیوں ۶:۱۱) ہمیں خدا سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں آزمائشوں کو پہچاننے اور ان کا مقابلہ کرنے کیلئے مدد اور طاقت عطا فرمائے۔ اگر ہم اُس سے درخواست کریں کہ وہ ہمیں آزمائش میں ناکام نہ ہونے دے تو وہ ہماری مدد کریگا تاکہ ہم ”بُرائی“ یعنی شیطان سے مغلوب نہ ہوں۔
۱۳. ہمیں مسلسل آزمائش کا سامنا کرتے وقت کیا کرنا چاہئے؟
۱۳ جب ہمارا سامنا مستقل آزمائش سے ہوتا ہے تو اُس وقت خاص طور پر ہمیں گرمجوشی سے دُعا کرنی چاہئے۔ بعض آزمائشیں خیالات اور رُجحانات کے ساتھ زبردست اندرونی کشمکش کا باعث بن سکتی ہیں جو ڈرامائی طور پر ہمیں باور کراتی ہے کہ ہم حقیقت میں کتنے کمزور ہیں۔ (زبور ۵۱:۵) مثلاً، اگر ہمیں بعض سابقہ کجرو کاموں کی یاد ستاتی ہے تو ہم ایسی صورت میں کیا کر سکتے ہیں؟ اس وقت کیا ہو اگر ہم اُس کی جانب واپس راغب ہونے کی آزمائش کا سامنا کرتے ہیں؟ ایسے جذبات کو دبانے کی بجائے، دُعا میں یہوواہ کے ساتھ ان کی بابت بات کریں اور اگر ضروری ہو تو باربار دُعا کریں۔ (زبور ۵۵:۲۲) اپنے کلام اور رُوحاُلقدس کی طاقت سے، وہ ہمارے ذہن سے ناپاک رُجحانات نکالنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔—زبور ۱۹:۸، ۹۔
۱۴. آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے دُعا کیوں ضروری ہے؟
۱۴ یسوع نے گتسمنی باغ میں اپنے رسولوں پر طاری غنودگی پر غور کرتے ہوئے اُنہیں تاکید کی: ”جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔ رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔“ (متی ۲۶:۴۱) آزمائش پر غالب آنے کا ایک طریقہ آزمائش کی مختلف صورتوں کے سلسلے میں ہوشیار رہنا اور اس کی خفیہ حالتوں سے باخبر رہنا ہے۔ یہ بھی نہایت اہم ہے کہ ہم بِلاتاخیر آزمائش کی بابت دُعا کریں تاکہ ہم روحانی طور پر اس سے لڑنے کیلئے لیس ہو جائیں۔ دراصل ہماری ذات کے کمزور حلقے ہی آزمائش کی زد میں آتے ہیں اسلئے ہم اپنے تیئں اس کی مزاحمت نہیں کر سکتے۔ دُعا اسلئے بھی ضروری ہے کیونکہ خدا کی طاقت شیطان کے خلاف ہمارے دفاع کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ (فلپیوں ۴:۶، ۷) ہمیں ”کلیسیا کے بزرگوں“ کی روحانی مدد اور دُعاؤں کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔—یعقوب ۵:۱۳-۱۸۔
سرگرمی سے آزمائش کا مقابلہ کریں
۱۵. آزمائش کی مزاحمت کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۵ جہانتک ممکن ہو آزمائش سے بچنے کے علاوہ، ہمیں اس کے گزر جانے یا صورتحال کے تبدیل ہو جانے تک سرگرمی سے اس کا مقابلہ کرتے رہنا چاہئے۔ جب شیطان نے یسوع کو آزمایا تو وہ ابلیس کے چلے جانے تک اس کی مزاحمت کرتا رہا تھا۔ (متی ۴:۱-۱۱) شاگرد یعقوب نے لکھا: ”ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائیگا۔“ (یعقوب ۴:۷) ایسی مزاحمت کی شروعات خدا کے کلام کیساتھ اپنے ذہنوں کو مستحکم کرنے اور ثابتقدمی کیساتھ یہ فیصلہ کرنے سے ہوتی ہے کہ ہم اس کے معیاروں کے پابند رہینگے۔ ہم اپنی خاص کمزوریوں سے متعلق کلیدی صحائف کو یاد رکھنے اور ان پر غوروخوض کرنے سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ کسی ایسے پُختہ مسیحی—شاید ایک بزرگ—سے بات کرنا اچھا ہوگا جس سے ہم اپنے تفکرات پر گفتگو کر سکتے یا آزمائش کے وقت مدد مانگ سکتے ہیں۔—امثال ۲۲:۱۷۔
۱۶. ہم اخلاقی طور پر کیسے پاک رہ سکتے ہیں؟
۱۶ صحائف ہمیں نئی انسانیت پہننے کی تاکید کرتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۲۴) اس کا مطلب یہوواہ کو اِس بات کی اجازت دینا ہے کہ وہ ہمیں ڈھالے اور تبدیل کر دے۔ پولس نے اپنے ہمخدمت تیمتھیس کو خط لکھتے وقت کہا: ”راستبازی۔ دینداری۔ ایمان۔ محبت۔ صبر اور حلم کا طالب ہو۔ ایمان کی اچھی کشتی لڑ۔ اُس ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ کر لے جسکے لئے تُو بلایا گیا تھا۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۱۱، ۱۲) ہم خدا کی شخصیت کو قریب سے جاننے کے لئے اس کے کلام کا مستعدی سے مطالعہ کرنے اور پھر اس کے تقاضوں کی پابندی کرنے سے ”راستبازی . . . [کے] طالب“ ہو سکتے ہیں۔ مسیحی کارگزاریوں کا بھرپور شیڈول بھی نہایت اہم ہے جس میں خوشخبری کی منادی کرنا اور اجلاسوں پر حاضر ہونا شامل ہے۔ خدا کے نزدیک جانا اور اسکی روحانی فراہمیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا روحانی طور پر ترقی کرنے اور اخلاقی طور پر پاک رہنے میں ہماری مدد کریگا۔—یعقوب ۴:۸۔
۱۷. ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا آزمائش میں ہم سے دستبردار نہیں ہوگا؟
۱۷ پولس ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ ہمارے تجربے میں آنے والی کوئی بھی آزمائش اس سے نپٹنے کی ہماری خداداد لیاقت سے بعید نہیں ہے۔ یہوواہ اس سے ’نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دیگا تاکہ ہم برداشت کر سکیں۔‘ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) واقعی، اگر ہم ہمیشہ اس پر توکل رکھیں تو خدا کسی آزمائش کو ہم پر اس حد تک غالب آنے کی اجازت نہیں دیگا کہ ہم راستی برقرار رکھنے کیلئے روحانی طاقت کی کمی محسوس کرنے لگیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی نظر میں غلط کام کرنے کی آزمائش کا سرگرمی سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوں۔ اِسکے علاوہ، ہم اس کے وعدہ پر ایمان رکھ سکتے ہیں: ”مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“—عبرانیوں ۱۳:۵۔
۱۸. ہم انسانی کمزوری پر فتح کی بابت کیوں پُراعتماد ہو سکتے ہیں؟
۱۸ پولس انسانی کمزوری کے خلاف اپنی ذاتی لڑائی کے نتائج کی بابت متذبذب نہیں تھا۔ اس نے خود کو اپنی جسمانی خواہشوں کا حقیر اور بیکس غلام خیال نہیں کِیا تھا۔ اس کے برعکس اس نے کہا: ”پس مَیں بھی اِسی طرح دوڑتا ہوں یعنی بےٹھکانا نہیں۔ مَیں اِسی طرح مکوں سے لڑتا ہوں یعنی اُسکی مانند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے۔ بلکہ مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اَوروں میں منادی کر کے آپ نامقبول ٹھہروں۔“ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۶، ۲۷) ہم بھی ناکامل بدن کے خلاف لڑائی جیت سکتے ہیں۔ ہمارا شفیق آسمانی باپ صحائف، بائبل پر مبنی مطبوعات، مسیحی اجلاس اور پُختہ ساتھی مسیحیوں کے ذریعے ہمیں مسلسل یاددہانیاں کراتا ہے جو درست روش پر چلنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ اُس کی مدد سے ہم انسانی کمزوری پر غالب آ سکتے ہیں!
کیا آپکو یاد ہے؟
• ’جسمانی نیت‘ سے کیا مُراد ہے؟
• ہم آزمائش کیلئے کیسے تیار ہو سکتے ہیں؟
• ہم آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟
• آزمائش کا مقابلہ کرنے میں دُعا کیا کردار ادا کرتی ہے؟
• ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ انسانی کمزوری پر غالب آنا ممکن ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
بائبل یہ تعلیم نہیں دیتی کہ ہم اپنی جسمانی خواہشوں کے سامنے بیکس ہیں
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
آزمائش سے بھاگنا گُناہ سے بچنے کا ایک بنیادی طریقہ ہے