مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دلیری کیساتھ راستی برقرار رکھنے والے نازی اذیت پر فتح پاتے ہیں

دلیری کیساتھ راستی برقرار رکھنے والے نازی اذیت پر فتح پاتے ہیں

کامل ہو کر پورے اعتقاد کیساتھ قائم رہیں

دلیری کیساتھ راستی برقرار رکھنے والے نازی اذیت پر فتح پاتے ہیں

‏”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔‏“‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ اس پُرتپاک درخواست سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی ذی‌شعور مخلوق اپنی ایمانداری اور وفاداری سے یہوواہ کے دل کو شاد کر سکتی ہے۔‏ (‏صفنیاہ ۳:‏۱۷‏)‏ تاہم،‏ تہمتی شیطان،‏ یہوواہ کے خادموں کی راستی کو توڑنے پر اٹل ہے۔‏—‏ایوب ۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

خاص طور پر ۲۰ ویں صدی کے اوائل میں جب سے شیطان کو آسمان سے زمین پر پھینک دیا گیا ہے وہ یہوواہ کے لوگوں کے خلاف بڑے قہر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۰،‏ ۱۲‏)‏ اِسکے باوجود،‏ سچے مسیحیوں نے ”‏کامل ہو کر پورے اعتقاد کے ساتھ“‏ خدا کیلئے اپنی راستی برقرار رکھی ہے۔‏ (‏کلسیوں ۴:‏۱۲‏)‏ آئیے راستی برقرار رکھنے کے سلسلے میں دوسری عالمی جنگ سے قبل اور اسکے بعد جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک غیرمعمولی مثال پر مختصراً غور کریں۔‏

پُرجوش کارگزاری راستی کی آزمائشوں پر منتج ہوتی ہے

جرمنی میں ۱۹۲۰ کے دہے اور ۱۹۳۰ کے دہے کے شروع میں یہوواہ کے گواہوں نے جو بائبل‌فورسشر کہلاتے تھے بڑی تعداد میں بائبل مطبوعات تقسیم کیں۔‏ اُنہوں نے ۱۹۱۹ اور ۱۹۳۳ کے دوران،‏ جرمنی میں ہر خاندان کے پاس اوسطاً آٹھ کتابیں،‏ کتابچے یا رسالے چھوڑے۔‏

اُس وقت مسیح کے ممسوح پیروکاروں کے بڑے گروہوں میں سے ایک جرمنی میں تھا۔‏ درحقیقت،‏ ۱۹۳۳ میں پوری دُنیا میں خداوند کے عشائیے میں حصہ لینے والے ۹۴۱،‏۸۳ اشخاص میں سے تقریباً ۳۰ فیصد جرمنی میں رہتے تھے۔‏ اِسکے تھوڑی ہی دیر بعد،‏ جرمنی کے ان گواہوں کو راستی کی صبرآزما آزمائشوں کا تجربہ ہوا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷؛‏ ۱۴:‏۱۲‏)‏ ملازمتوں سے برطرفی،‏ گھروں کی لوٹ‌مار اور سکولوں سے اخراج نے بہت جلد مارپیٹ،‏ گرفتاری اور قید کی صورت اختیار کر لی۔‏ (‏تصویر ۱)‏ نتیجتاً،‏ دوسری جنگِ‌عظیم شروع ہونے تک،‏ مراکزِاسیران میں ۵ سے ۱۰ فیصد قیدی یہوواہ کے گواہ تھے۔‏

نازیوں نے گواہوں کو کیوں اذیت کا نشانہ بنایا

یہوواہ کے گواہ نازی حکومت کے غضب کا نشانہ کیوں بنے؟‏ تاریخ کے پروفیسر،‏ ائن کرشاؤ اپنی کتاب ہٹلر—‏۱۸۸۹-‏۱۹۳۶:‏ ہبریز،‏ میں بیان کرتا ہے کہ گواہ ”‏کُلی اطاعت کی بابت نازی حکومت کے مطالبے“‏ کو ماننے سے انکار کرنے کی وجہ سے اذیت کا نشانہ بنے تھے۔‏

تاریخ کے پروفیسر،‏ رابرٹ پی.‏ ایرکسن اور جیوایش سٹڈیز کے پروفیسر سوزانا ہیشل کی شائع‌کردہ کتاب بٹرئیل—‏جرمن چرچز اینڈ دی ہالوکاسٹ میں وضاحت کی گئی کہ گواہوں نے ”‏تشدد یا فوجی طاقت کے استعمال میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔‏ .‏ .‏ .‏ گواہ سیاسی غیرجانبداری کے معتقد ہونے کے باعث ہٹلر کو ووٹ یا سلامی نہیں دیتے تھے۔‏“‏ یہی کتاب مزید بیان کرتی ہے کہ اس عمل سے نازیوں کا غصہ بھڑک اُٹھا اور گواہ زیرِعتاب آ گئے کیونکہ ”‏قومی اشتراکیت کیلئے ایسا انکار ناقابلِ‌برداشت تھا۔‏“‏

عالمی احتجاج اور زوردار حملہ

فروری ۹،‏ ۱۹۳۴ کو جوزف ایف.‏ رتھرفورڈ نے جو اُس وقت کام کی پیشوائی کر رہے تھے،‏ ایک خاص ایلچی کے ہاتھ ہٹلر کو نازی تعصب کے خلاف ایک احتجاجی خط ارسال کِیا۔‏ (‏تصویر ۲)‏ رتھرفورڈ کے اس خط کے بعد،‏ اکتوبر ۷،‏ ۱۹۳۴ کو جرمنی سمیت ۵۰ ممالک سے یہوواہ کے گواہوں نے ہٹلر کو کوئی ۰۰۰،‏۲۰ احتجاجی خطوط اور ٹیلی‌گرام ارسال کئے۔‏

اسکے جواب میں نازیوں نے اَور زیادہ تشدد کرنا شروع کر دیا۔‏ اپریل ۱،‏ ۱۹۳۵ کو پورے مُلک میں گواہوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔‏ اس کے علاوہ،‏ اگست ۲۸،‏ ۱۹۳۶ کو گسٹاپو (‏نازی خفیہ پولیس)‏ نے اُن پر زوردار حملہ کِیا۔‏ تاہم،‏ بٹرئیل—‏جرمن چرچز اینڈ دی ہالوکاسٹ بیان کرتی ہے کہ گواہوں نے ”‏پمفلٹ تقسیم کرنے کے علاوہ دیگر طریقوں سے اپنے ایمان کو قائم رکھا۔‏“‏

مثال کے طور پر،‏ دسمبر ۱۲،‏ ۱۹۳۶ کو کوئی ۵۰۰،‏۳ گواہوں نے گسٹاپو کے بالکل قریب اپنے اُوپر کئے جانے والے ظلم کی بابت مطبوعہ قرارداد کی ہزاروں کاپیاں تقسیم کیں مگر انہیں خبر تک نہ ہوئی۔‏ اس مہم کی بابت مینارِنگہبانی نے رپورٹ دی:‏ ”‏یہ ایک عظیم کامیابی اور دُشمن پر کاری ضرب تھی جو کہ وفادار خادموں کیلئے ناقابلِ‌بیان خوشی کا باعث تھی۔‏“‏—‏رومیوں ۹:‏۱۷‏۔‏

اذیت ناکام ہو جاتی ہے!‏

نازیوں نے یہوواہ کے گواہوں کی تلاش جاری رکھی۔‏ سن ۱۹۳۹ تک چھ ہزار کو قید کر لیا گیا تھا اور ہزاروں کو مراکزِاسیران میں بھیج دیا گیا تھا۔‏ (‏تصویر ۳)‏ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر صورتحال کیا تھی؟‏ تقریباً ۰۰۰،‏۲ قیدی گواہ ہلاک ہو چکے تھے جن میں سے ۲۵۰ سے زائد کو سزائے موت دی گئی تھی۔‏ اس کے باوجود،‏ پروفیسر ایرکسن اور ہیشل لکھتے ہیں،‏ ”‏بیشتر یہوواہ کے گواہوں نے مصیبت کے وقت میں اپنا ایمان قائم رکھا۔‏“‏ نتیجتاً،‏ ہٹلر کی حکومت کے ختم ہو جانے پر ایک ہزار سے زیادہ گواہ مراکزِاسیران سے فتحمندی کے ساتھ آزاد ہوئے۔‏—‏تصویر ۴؛‏ اعمال ۵:‏۳۸،‏ ۳۹؛‏ رومیوں ۸:‏۳۵-‏۳۷‏۔‏

کس چیز نے یہوواہ کے لوگوں کو اذیت برداشت کرنے کیلئے ہمت بخشی؟‏ مراکزِاسیران سے بچنے والے اڈولف آرنلڈ نے وضاحت کی:‏ ”‏اگر آپ کمزور محسوس کرنے لگیں تو یہوواہ جو آپکو دیکھ رہا ہے،‏ جانتا ہے کہ آپ پر کیا بیت رہی ہے اسلئے وہ آپکو اس صورتحال کا مقابلہ کرنے اور وفادار رہنے کیلئے ضروری طاقت عطا کرتا ہے۔‏ اُسکا ہاتھ کوتاہ نہیں ہے۔‏“‏

ان وفادار مسیحیوں پر صفنیاہ کے الفاظ کیسے صادق آتے ہیں!‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تیرا خدا جو تجھ میں ہے قادر ہے۔‏ وہی بچا لیگا۔‏ وہ تیرے سبب سے شادمان ہو کر خوشی کریگا۔‏“‏ (‏صفنیاہ ۳:‏۱۷‏)‏ دُعا ہے کہ آجکل سچے خدا کے تمام پرستار نازی اذیت کے تحت اپنی راستی برقرار رکھنے والے ان وفادار گواہوں کے ایمان کی نقل کریں اور ان کی طرح یہوواہ کے دل کو شاد کریں۔‏—‏فلپیوں ۱:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر کا حوالہ]‏

Państwowe Muzeum Oświȩcim-Brzezinka, courtesy of the USHMM Photo

sevihcrA