مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

روحانی نیت کیساتھ زندہ رہیں!‏

روحانی نیت کیساتھ زندہ رہیں!‏

روحانی نیت کیساتھ زندہ رہیں!‏

‏”‏روحانی نیت زندگی .‏ .‏ .‏ ہے۔‏“‏—‏رومیوں ۸:‏۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ بائبل ”‏جسم“‏ اور ”‏رُوح“‏ میں کس فرق کو واضح کرتی ہے؟‏

جسمانی خواہشات کی تسکین کے خواہاں کجرو معاشرے میں خدا کے حضور اخلاقی پاکیزگی برقرار رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔‏ تاہم صحائف گنہگارانہ جسم سے مغلوب ہونے کے سنگین نتائج اور خدا کی پاک رُوح کے زیرِاثر رہنے کے مبارک نتائج کو عیاں کرتے ہوئے ”‏جسم“‏ اور ”‏رُوح“‏ میں فرق کو واضح کرتے ہیں۔‏

۲ مثال کے طور پر،‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏زندہ کرنے والی تو رُوح ہے۔‏ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔‏ جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ رُوح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۶۳‏)‏ پولس رسول نے گلتیہ کے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور رُوح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں تاکہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ کرو۔‏“‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۷‏)‏ پولس نے یہ بھی کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹیگا اور جو رُوح کے لئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹیگا۔‏“‏—‏گلتیوں ۶:‏۸‏۔‏

۳.‏ غلط خواہشات اور رُجحانات سے آزادی حاصل کرنے کیلئے کیا ضروری ہے؟‏

۳ یہوواہ کی پاک رُوح—‏اس کی سرگرم قوت—‏ناپاک ”‏جسمانی خواہشوں“‏ اور ہمارے گنہگار جسم کے تباہ‌کُن تسلط کو مؤثر طور پر ختم کر سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۱‏)‏ غلط رُجحانات کی غلامی سے آزاد ہونے کیلئے خدا کی رُوح کی مدد حاصل کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ پولس نے لکھا:‏ ”‏جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۶‏)‏ روحانی نیت رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏”‏روحانی نیت“‏

۴.‏ ”‏روحانی نیت“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

۴ جب پولس نے ”‏روحانی نیت“‏ کی بابت لکھا تو اُس نے ”‏اندازِفکر،‏ ذہنی میلان،‏ .‏ .‏ .‏ نصب‌اُلعین،‏ آرزو،‏ کوشش“‏ کا مفہوم پیش کرنے والا یونانی لفظ استعمال کِیا۔‏ اس سے متعلقہ فعل کا مطلب ”‏سوچنا،‏ ایک مخصوص انداز سے ارادہ کرنا“‏ ہے۔‏ لہٰذا،‏ روحانی نیت کا مطلب یہوواہ کی سرگرم قوت کے زیرِاثر،‏ زیرِتسلط رہنا اور اسی سے تحریک پانا ہے۔‏ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشی سے اپنی سوچ،‏ رُجحانات اور آرزوؤں کو کُلی طور پر خدا کی رُوح‌اُلقدس کے زیرِاثر رہنے دیتے ہیں۔‏

۵.‏ ہمیں کس حد تک رُوح‌اُلقدس کے زیرِاثر رہنا چاہئے؟‏

۵ پولس نے جب ’‏رُوح کے طور پر خدمت کرنے‘‏ کا ذکر کِیا تو اس سے واضح ہو گیا کہ ہمیں کس حد تک رُوح‌اُلقدس کے زیرِاثر رہنا چاہئے۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۶‏)‏ یسوع کے فدیے کی قربانی پر اپنے ایمان کی بدولت مسیحی گُناہ کے تسلط سے آزاد ہو گئے ہیں اور یوں اس کے غلاموں کے طور پر اپنی سابقہ حالت کے اعتبار سے ”‏مر“‏ گئے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۲،‏ ۱۱‏)‏ علامتی معنوں میں اس طرح سے مرنے والے جسمانی طور پر ابھی تک زندہ ہیں اور اب ”‏راستبازی کے غلام“‏ کے طور پر مسیح کی پیروی کرنے کے لئے آزاد ہیں۔‏—‏رومیوں ۶:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

ایک ڈرامائی تبدیلی

۶.‏ ”‏راستبازی کے غلام“‏ بننے والے کس تبدیلی کا تجربہ کرتے ہیں؟‏

۶ ‏”‏گُناہ کے غلام“‏ سے خدا کی خدمت کرنے کے لئے ”‏راستبازی کے غلام“‏ بننا واقعی ایک ڈرامائی تبدیلی ہے۔‏ ایسی تبدیلی کا تجربہ کرنے والے بعض اشخاص کے متعلق پولس نے لکھا:‏ ”‏تم خداوند یسوؔع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کے رُوح سے دُھل گئے اور پاک ہوئے اور راستباز بھی ٹھہرے۔‏“‏—‏رومیوں ۶:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۱‏۔‏

۷.‏ معاملات کی بابت یہوواہ کے نقطۂ‌نظر سے واقف ہونا کیوں اہم ہے؟‏

۷ ایسی شاندار تبدیلی کا تجربہ کرنے کیلئے،‏ ہمیں سب سے پہلے معاملات کی بابت یہوواہ کا نقطۂ‌نظر جاننے کی ضرورت ہے۔‏ صدیوں پہلے زبورنویس داؤد نے خدا سے یہ پُرخلوص منت کی:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اپنی راہیں مجھے دکھا۔‏ .‏ .‏ .‏ مجھے اپنی سچائی پر چلا اور تعلیم دے۔‏“‏ (‏زبور ۲۵:‏۴،‏ ۵‏)‏ یہوواہ نے داؤد کی دُعا سنی اور وہ زمانۂ‌جدید کے اپنے خادموں کی بھی ایسی دُعا کا جواب دے سکتا ہے۔‏ چونکہ خدا کی راہیں اور اس کی سچائی پاک اور مُقدس ہیں اسلئے ناپاک جسمانی خواہشوں کو پورا کرنے کی آزمائش کے وقت ان پر غوروخوض کرنا مفید ہوگا۔‏

خدا کے کلام کا اہم کردار

۸.‏ ہمارے لئے بائبل کا مطالعہ کرنا اتنا ضروری کیوں ہے؟‏

۸ خدا کا کلام،‏ بائبل اس کی رُوح کے الہام سے تحریر کِیا گیا ہے۔‏ لہٰذا،‏ اگر ممکن ہو تو روزانہ بائبل کی پڑھائی اور مطالعہ کریں کیونکہ یہ ایک نہایت اہم طریقہ ہے جس سے یہ رُوح ہم پر اثر کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ افسیوں ۵:‏۱۸‏)‏ اپنے دل‌ودماغ کو بائبل سچائیوں اور اُصولوں سے معمور کرنے سے ہماری مدد ہوگی تاکہ ہم روحانیت پر ہونے والے حملوں کا مقابلہ کر سکیں۔‏ جی‌ہاں،‏ جب بداخلاقی کی آزمائشیں آتی ہیں تو خدا کی رُوح صحیفائی یاددہانیوں اور راہنما اُصولوں کو ہمارے ذہن میں تازہ کر سکتی ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنے کیلئے ہمارے عزم کو مضبوط کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱،‏ ۲،‏ ۹۹؛‏ یوحنا ۱۴:‏۲۶‏)‏ یوں،‏ ہم گمراہی میں پڑنے سے بچ جاتے ہیں۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏۔‏

۹.‏ یہوواہ کیساتھ ہمارے رشتے کو محفوظ رکھنے کیلئے بائبل مطالعہ ہمارے عزم کو کیسے مضبوط کرتا ہے؟‏

۹ جب ہم بائبل پر مبنی مطبوعات کی مدد سے صحائف کا مخلصانہ اور مستعد مطالعہ جاری رکھتے ہیں تو خدا کی رُوح یہوواہ کے معیاروں کیلئے ہمارے احترام کو بڑھاتے ہوئے ہمارے دل‌ودماغ پر اثرانداز ہوتی ہے۔‏ اس طرح خدا کیساتھ ہمارا رشتہ ہماری زندگی میں نہایت اہم بن جاتا ہے۔‏ آزمائش کا سامنا کرتے وقت،‏ غلط‌کاری کا خیال خواہ کتنا ہی خوش‌کُن کیوں نہ ہو اُسے ذہن سے نکال دیا جاتا ہے۔‏ اس کی بجائے،‏ ہماری فوری فکر یہوواہ کے حضور اپنی راستی برقرار رکھنا ہوتی ہے۔‏ اس کیساتھ اپنے رشتے کی گہری قدردانی ہمیں کسی بھی ایسے رُجحان سے لڑنے کی تحریک دیتی ہے جو اِسے نقصان پہنچا سکتا یا تباہ کر سکتا ہے۔‏

‏”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں“‏

۱۰.‏ روحانی نیت رکھنے کیلئے یہوواہ کی شریعت کی تعمیل کیوں ضروری ہے؟‏

۱۰ اگر ہم روحانی نیت رکھنا چاہتے ہیں تو صرف خدا کے کلام کا علم کافی نہیں ہے۔‏ بادشاہ سلیمان یہوواہ کے معیاروں کی کافی زیادہ سمجھ رکھتا تھا لیکن وہ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ان کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ناکام ہو گیا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۴:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۱۱:‏۱-‏۶‏)‏ اگر ہم روحانی نیت رکھتے ہیں تو ہم بائبل کی باتوں کو جاننے کے علاوہ پورے دل سے خدا کی شریعت کی تعمیل کرنے کی ضرورت کو بھی محسوس کریں گے۔‏ اس کا مطلب یہوواہ کے معیاروں کا دیانتدارانہ جائزہ لینا اور مستعدی سے ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرنا ہے۔‏ زبورنویس ایسا ہی رُجحان رکھتا تھا۔‏ اس نے گیت گایا:‏ ”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔‏ مجھے دن‌بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹۷‏)‏ جب ہم خدا کی شریعت پر چلنے کی حقیقی فکر رکھتے ہیں تو ہم خدائی خوبیاں ظاہر کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ بےیارومددگار ہو کر غلط‌کاری کی جانب مائل ہونے کی بجائے ہم رُوح کے پھل ظاہر کرتے ہیں اور یہوواہ کو خوش کرنے کی خواہش ہمیں ”‏جسم کے کاموں“‏ سے دُور رکھتی ہے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۱۶،‏ ۱۹-‏۲۳؛‏ زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۱.‏ آپ کیسے وضاحت کرینگے کہ حرامکاری سے منع کرنے والا یہوواہ کا قانون ہمارے لئے باعثِ‌تحفظ ہے؟‏

۱۱ ہم یہوواہ کی شریعت کے لئے گہرا احترام اور محبت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏ ایک طریقہ اس کی قدروقیمت کا بغور جائزہ لینا ہے۔‏ جنسی تعلقات کو شادی تک محدود رکھنے اور حرامکاری اور زناکاری کو ممنوع قرار دینے والے خدا کے قانون پر غور کریں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۴‏)‏ کیا اس حکم کی تعمیل ہمیں کسی اچھی چیز سے محروم رکھتی ہے؟‏ کیا شفیق آسمانی باپ ہمیں کسی مفید چیز سے محروم رکھنے کے لئے کوئی قانون بنائے گا؟‏ ہرگز نہیں!‏ ذرا غور کریں کہ یہوواہ کے اخلاقی معیاروں کے مطابق زندگی بسر نہ کرنے والے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کیا واقع ہو رہا ہے۔‏ ناخواستہ حمل اکثراوقات اسقاطِ‌حمل یا شاید قبل‌ازوقت اور خوشی سے عاری شادیوں کا باعث بنتے ہیں۔‏ بیشتر کو شوہر یا بیوی کے بغیر ہی بچے کی پرورش کرنا پڑتی ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ حرامکاری کرنے والے خود کو جنسی بیماریوں کے خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸‏)‏ اس کے علاوہ حرامکاری کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی یہوواہ کے خادم کے لئے جذباتی اثرات نہایت ہی سنگین اور تباہ‌کُن ہو سکتے ہیں۔‏ ایک آلودہ ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کرنا بےخوابی اور ذہنی کوفت کا سبب بن سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۲:‏۳،‏ ۴؛‏ ۵۱:‏۳‏)‏ پس کیا یہ بات واضح نہیں ہے کہ حرامکاری سے منع کرنے والا یہوواہ کا قانون ہمارے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ اخلاقی پاکیزگی برقرار رکھنے میں واقعی بڑا فائدہ ہے!‏

یہوواہ کی مدد کیلئے دُعا

۱۲،‏ ۱۳.‏ جب ہم گنہگارانہ خواہشات کے گھیرے میں ہوں تو دُعا کرنا کیوں موزوں ہے؟‏

۱۲ روحانی نیت یقیناً دلی دُعا کا تقاضا کرتی ہے۔‏ خدا کی رُوح کی مدد کے لئے دُعا کرنا موزوں ہے کیونکہ یسوع نے کہا:‏ ”‏پس جب تم .‏ .‏ .‏ اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوح‌اُلقدس کیوں نہ دے گا؟‏“‏ (‏لوقا ۱۱:‏۱۳‏)‏ دُعا میں،‏ ہم اپنی کمزوریوں کے متعلق مدد کے لئے رُوح پر اپنے انحصار کا اظہار کر سکتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ گنہگارانہ خواہشات یا رُجحانات ہم پر اثرانداز ہو رہے ہیں یا اگر ہمارا کوئی ایماندار مشفق ساتھی اسے ہماری توجہ میں لاتا ہے تو اپنی دُعاؤں میں اِس مسئلے کی بابت واضح بات کرنا اور ان رُجحانات پر غالب آنے کے لئے خدا کی مدد کے لئے درخواست کرنا دانشمندی کی بات ہوگی۔‏

۱۳ یہوواہ راست،‏ پاک،‏ نیک اور تعریف کی باتوں پر توجہ مرکوز رکھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ پس سنجیدگی کے ساتھ اس سے التجا کرنا نہایت موزوں ہوگا تاکہ ”‏خدا کا اطمینان“‏ ہمارے دلوں اور خیالوں کو محفوظ رکھے!‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶-‏۸‏)‏ پس ہمیں ”‏راستبازی۔‏ دینداری۔‏ ایمان۔‏ محبت۔‏ صبر اور حلم کا طالب“‏ ہونے کے لئے یہوواہ کی مدد کے واسطے دُعا کرنی چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ اپنے آسمانی باپ کی مدد کے ساتھ،‏ تفکرات اور آزمائشیں اس حد تک نہیں بڑھ جائیں گی کہ ہم ان پر قابو نہ پا سکیں۔‏ اس کی بجائے ہماری زندگیوں میں خداداد سکون ہوگا۔‏

رُوح کو رنجیدہ نہ کریں

۱۴.‏ خدا کی رُوح پاکیزگی کی قوت کیوں ہے؟‏

۱۴ یہوواہ کے پُختہ خادم پولس کی اس نصیحت کا ذاتی طور پر اطلاق کرتے ہیں:‏ ”‏رُوح کو نہ بجھاؤ۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۹‏)‏ خدا کی رُوح ”‏پاکیزگی کی رُوح“‏ ہونے کی وجہ سے پاک اور مُقدس ہے۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۴‏)‏ جب یہ رُوح ہم پر کارفرما ہوتی ہے تو اس سے ہمیں پاکیزگی کی قوت ملتی ہے۔‏ یہ اپنے طرزِزندگی کو پاک رکھنے میں ہماری مدد کرتی ہے جس کی پہچان خدا کی فرمانبرداری کرنے سے ہوتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۲‏)‏ کوئی بھی ناپاک کام اس رُوح کو حقیر جاننے کے مترادف ہے اور یہ تباہ‌کُن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔‏ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے واقع ہو سکتا ہے؟‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ ہم خدا کی رُوح کو کیسے رنجیدہ کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم یہوواہ کی رُوح کو رنجیدہ کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۵ پس پولس نے لکھا:‏ ”‏خدا کے پاک رُوح کو رنجیدہ نہ کرو جس سے تم پر مخلصی کے دن کے لئے مہر ہوئی۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۳۰‏)‏ صحائف وفادار ممسوح مسیحیوں کیلئے یہوواہ کی رُوح کی شناخت،‏ ایک مہر یا ’‏آنے والی چیز کے بیعانہ‘‏ کے طور پر کراتے ہیں جو کہ غیرفانی آسمانی زندگی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۰-‏۵۷؛‏ مکاشفہ ۲:‏۱۰‏)‏ خدا کی رُوح گنہگارانہ کاموں سے بچنے کیلئے ممسوح اشخاص اور زمینی اُمید رکھنے والے انکے وفادار ساتھیوں کی راہنمائی اور مدد کر سکتی ہے۔‏

۱۶ رسول نے جھوٹ،‏ چوری اور شرمناک چال‌چلن وغیرہ کی بابت خبردار کِیا تھا۔‏ اگر ہم خود کو ایسی چیزوں کی طرف مائل ہونے دیتے ہیں تو ہم خدا کے کلام کی الہامی نصیحت کی خلاف‌ورزی کر رہے ہونگے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۷-‏۲۹؛‏ ۵:‏۱-‏۵‏)‏ کسی حد تک ہم خدا کی رُوح کو رنجیدہ کر رہے ہونگے اور یقیناً ہمیں اس سے گریز کرنا چاہئے۔‏ اس سلسلے میں،‏ اگر ہم میں سے کوئی یہوواہ کے کلام کی نصیحت کو نظرانداز کرنے لگتا ہے تو ہم شاید ایسے رُجحانات اور خصائل پیدا کرنا شروع کر دیں جو دانستہ گُناہ اور الہٰی کرمفرمائی سے مکمل محرومیت پر منتج ہو سکتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۴-‏۶‏)‏ اگرچہ ہم اس وقت تو شاید گُناہ نہ کر رہے ہوں توبھی ہم اس طرف مائل ضرور ہو سکتے ہیں۔‏ مسلسل رُوح کی ہدایت کے برعکس عمل کرنے سے ہم اسے رنجیدہ کر سکتے ہیں۔‏ ہم رُوح‌اُلقدس کے ماخذ،‏ یہوواہ کی بھی مزاحمت کرتے ہوئے اسے رنجیدہ کر رہے ہونگے۔‏ خدا سے محبت رکھنے والوں کے طور پر ہم کبھی بھی ایسا نہیں کرنا چاہینگے۔‏ اس کی بجائے،‏ ہم یہوواہ کی مدد کیلئے دُعا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اس کی رُوح کو رنجیدہ نہ کریں بلکہ روحانی نیت رکھنے سے اس کے پاک نام کیلئے ہمیشہ عزت کا باعث بننے کے لائق ہوں۔‏

روحانی نیت برقرار رکھیں

۱۷.‏ ہم کونسے روحانی نشانے قائم کر سکتے ہیں اور ایسا کرنا دانشمندی کی بات کیوں ہوگی؟‏

۱۷ ہمارے لئے روحانی نیت برقرار رکھنے کا ایک قابلِ‌قدر طریقہ روحانی نصب‌اُلعین قائم کرنا اور انہیں حاصل کرنے کیلئے متواتر کوشش کرنا ہے۔‏ اپنی ضروریات اور حالات کے مطابق،‏ ہمارے نشانوں میں مطالعہ کی عادات کو بہتر بنانا،‏ منادی کے کام میں اپنی شرکت کو بڑھانا یا کُل‌وقتی پائنیر خدمت،‏ بیت‌ایل خدمت یا مشنری کام جیسے خاص خدمتی استحقاقات کیلئے ترقی کرنا شامل ہے۔‏ یہ ہمارے ذہنوں کو روحانی کاموں میں مصروف رکھے گا اور اپنی انسانی کمزوری یا اس نظام‌اُلعمل کیلئے عام مادہ‌پرستانہ نشانوں یا غیرصحیفائی خواہشات کا شکار ہونے کی مزاحمت کرنے میں ہماری مدد کریگا۔‏ یہ یقیناً دانشمندانہ روش ہے کیونکہ یسوع نے تاکید کی:‏ ”‏اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔‏ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔‏ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہیگا۔‏“‏—‏متی ۶:‏۱۹-‏۲۱‏۔‏

۱۸.‏ ان آخری ایّام میں روحانی نیت برقرار رکھنا اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۱۸ اس ”‏اخیر زمانہ“‏ میں روحانی نیت رکھنا اور دُنیاوی خواہشات کو کچلنا یقیناً دانشمندانہ روش ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ بہرحال،‏ ”‏دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ مثال کے طور پر اگر کوئی نوجوان مسیحی کُل‌وقتی خدمت کے نشانے کی جستجو کرتا ہے تو یہ نوجوانی یا بلوغت کے چیلنج‌خیز سالوں کے دوران ایک مشعل‌راہ ثابت ہو سکتی ہے۔‏ جب مصالحت کرنے کا دباؤ ہو تو ایسے شخص کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہوگی کہ وہ یہوواہ کی خدمت میں کیا کرنا چاہتا ہے۔‏ ایسا روحانی شخص مادی حاصلات یا گنہگارانہ زندگی سے حاصل ہونے والی خوشی کی خاطر روحانی نشانوں سے پیچھے ہٹنے کو غیردانشمندی بلکہ حماقت خیال کریگا۔‏ یاد رکھیں کہ روحانی ذہنیت کے مالک موسیٰ نے ”‏گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے کی نسبت خدا کی اُمت کے ساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ خواہ ہم جوان ہیں یا بوڑھے،‏ جب ہم جسمانی نیت کی بجائے روحانی نیت رکھتے ہیں تو ہم بھی ایسا ہی انتخاب کرتے ہیں۔‏

۱۹.‏ اگر ہم روحانی نیت کو برقرار رکھتے ہیں تو ہمیں کیا فوائد حاصل ہونگے؟‏

۱۹ ‏”‏جسمانی نیت خدا کی دُشمنی ہے“‏ جبکہ ”‏روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۶،‏ ۷‏)‏ اگر ہم روحانی نیت رکھتے ہیں تو ہم بیش‌بہا اطمینان کا تجربہ کرینگے۔‏ ہمارے دل اور ذہنی صلاحیتیں ہماری گنہگارانہ حالت کے اثر سے پوری طرح محفوظ ہونگی۔‏ ہم غلط‌کاری میں پڑنے کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہتر حالت میں ہونگے۔‏ نیز ہمیں جسم اور رُوح کے مابین جاری رہنے والی کشمکش کا مقابلہ کرنے کیلئے الہٰی مدد حاصل ہوگی۔‏

۲۰.‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ جسم اور رُوح کے مابین جنگ میں فتح حاصل کرنا ممکن ہے؟‏

۲۰ روحانی نیت برقرار رکھنے سے،‏ ہم زندگی اور رُوح‌اُلقدس کے سرچشمہ،‏ یہوواہ کیساتھ ایک اہم رشتہ قائم رکھتے ہیں۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ ۵۱:‏۱۱‏)‏ شیطان ابلیس اور اس کے ایجنٹ یہوواہ خدا کیساتھ ہمارے رشتے کو ختم کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔‏ وہ یہ جانتے ہوئے ہمارے ذہنوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم ہمت ہار جاتے ہیں تو یہ بالآخر خدا کیساتھ ہماری دُشمنی اور موت کا باعث بنے گا۔‏ لیکن ہم جسم اور رُوح کی اس جنگ میں فتح حاصل کر سکتے ہیں۔‏ یہ پولس کا تجربہ تھا کیونکہ اپنی جنگ کی بابت لکھتے ہوئے اس نے سب سے پہلے پوچھا:‏ ”‏موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائیگا؟‏“‏ اس کے بعد یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ بچاؤ ممکن ہے اس نے زور دیکر کہا:‏ ”‏اپنے خداوند یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۷:‏۲۱-‏۲۵‏)‏ ہم بھی انسانی کمزوری کا مقابلہ کرنے اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کیساتھ روحانی نیت برقرار رکھنے کے طریقے فراہم کرنے کیلئے مسیح کے وسیلے خدا کا شکر کر سکتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۶:‏۲۳‏۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• روحانی نیت رکھنے سے کیا مُراد ہے؟‏

‏• ہم یہوواہ کی رُوح کو اپنے اُوپر کیسے کارفرما ہونے دیتے ہیں؟‏

‏• وضاحت کریں کہ گُناہ کے خلاف ہماری جنگ میں بائبل کا مطالعہ کرنا،‏ یہوواہ کی شریعت کی تعمیل کرنا اور اس سے دُعا کرنا اتنا اہم کیوں ہے۔‏

‏• روحانی نشانے قائم کرنے سے ہم زندگی کی راہ پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

بائبل مطالعہ ہماری روحانیت پر ہونے والے حملوں کا مقابلہ کرنے میں ہمیں مدد دیتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

گنہگارانہ خواہشات پر غالب آنے کیلئے یہوواہ کی مدد کیلئے دُعا کرنا موزوں ہے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

روحانی نشانے روحانی نیت برقرار رکھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں