مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پولس مُقدسوں کے لئے امداد کا انتظام کرتا ہے

پولس مُقدسوں کے لئے امداد کا انتظام کرتا ہے

پولس مُقدسوں کے لئے امداد کا انتظام کرتا ہے

سچے مسیحیوں کے نزدیک روحانی مفادات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ وہ دوسروں کی جسمانی فلاح‌وبہبود کو اہم خیال کرتے ہیں۔‏ وہ اکثر مصیبت اُٹھانے والوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔‏ لہٰذا برادرانہ محبت مسیحیوں کو ضرورتمند ہم‌ایمانوں کی مدد کرنے کی تحریک دیتی ہے—‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

رسول پولس نے اپنے روحانی بہن‌بھائیوں کی محبت سے تحریک پا کر اخیہ،‏ گلتیہ،‏ مکدنیہ اور آسیہ کی کلیسیاؤں میں عطیات کی تقسیم کو منظم کِیا۔‏ اس کی ضرورت کیوں تھی؟‏ اِس امدادی پروگرام کو کیسے منظم کِیا گیا تھا؟‏ اس کیلئے کیسا ردِعمل دکھایا گیا؟‏ نیز ہمیں اس میں کیوں دلچسپی لینی چاہئے؟‏

یروشلیم کی کلیسیائی حالت

پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے بعد،‏ یہودی اور گردونواح سے آنے والے نومرید جو پنتِکُست کے موقع پر شاگرد بن گئے تھے سچے ایمان کے بارے میں مزید سیکھنے کی غرض سے کچھ عرصہ اَور یروشلیم میں ٹھہر گئے۔‏ لہٰذا ضرورت کے تحت،‏ ساتھی پرستاروں نے ان کے طویل قیام کے دوران خوشی سے ان کی کفالت کی۔‏ (‏اعمال ۲:‏۷-‏۱۱،‏۴۱-‏۴۴،‏ ۴:‏۳۲-‏۳۷‏)‏ جب یہودی قوم‌پرستوں نے بغاوت اور فساد کو ہوا دی تو شہر میں ہلچل برپا ہونے کی وجہ سے یہ ضرورت مزید بڑھ گئی۔‏ اِس غرض سے کہ یسوع کا کوئی پیروکار بھوکا نہ رہے ضرورتمند بیواؤں کی روزانہ خبرگیری کا انتظام کِیا گیا۔‏ (‏اعمال ۶:‏۱-‏۶‏)‏ ہیرودیس کلیسیا پر ظلم‌وستم ڈھانے لگا اور ۴۰ س.‏ع.‏ کے وسط میں یہودیہ قحط کی لپیٹ میں آ گیا۔‏ جہاں تک یسوع کے پیروکاروں کا تعلق ہے تو پولس کے مطابق غالباً اُنہیں ”‏دُکھوں،‏“‏ ”‏بدسلوکی“‏ اور ”‏مال کے لٹ جانے“‏ کا تجربہ ہوا تھا۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۲-‏۳۴،‏ اعمال ۱۱:‏۲۷–‏۱۲:‏۱‏۔‏

تقریباً ۴۹ س.‏ع.‏ تک صورتحال خراب ہی تھی۔‏ یہ بات طے کرنے کے بعد کہ پولس غیرقوموں میں منادی پر دھیان دیگا،‏ پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا نے اُسے تاکید کی کہ ”‏غریبوں کو یاد رکھنا۔‏“‏ لہٰذا،‏ پولس نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی۔‏—‏گلتیوں ۲:‏۷-‏۱۰‏۔‏

عطیات کا انتظام

پولس نے یہودیہ کے غریب مسیحیوں کے لئے امداد کا بندوبست کِیا۔‏ تقریباً ۵۵ س.‏ع.‏ میں،‏ اُس نے کرنتھس کے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏اب اُس چندے کی بابت جو مُقدسوں کے لئے کِیا جاتا ہے جیسا مَیں نے گلتیہؔ کی کلیسیاؤں کو حکم دیا ویسا ہی تم بھی کرو۔‏ ہفتہ کے پہلے دن تم میں سے ہر شخص اپنی آمدنی کے موافق کچھ رکھ چھوڑا کرے .‏ .‏ .‏ اور .‏ .‏ .‏ جنہیں تم منظور کرو گے اُن کو مَیں خط دیکر بھیج دونگا کہ تمہاری خیرات یرؔوشلیم کو پہنچا دے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۶:‏۱-‏۳‏)‏ پولس نے ایک سال کے بعد بیان کِیا کہ مکدنیہ اور اخیہ عطیات کے اس بندوبست میں شریک ہیں۔‏ جب امداد یروشلیم بھیجی گئی تو آسیہ کے علاقے سے آنے والے نمائندوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ اس علاقے کی کلیسیاؤں نے بھی عطیات پیش کئے تھے۔‏—‏اعمال ۲۰:‏۴،‏ ۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱-‏۴،‏ ۹:‏۱،‏۲‏۔‏

کسی کو بھی اپنی بساط سے زیادہ دینے پر مجبور نہیں کِیا گیا تھا۔‏ اِس کی بجائے،‏ اس سارے بندوبست کا مقصد یہ تھا کہ جنکے پاس مالی چیزوں کی بہتات ہے وہ یروشلیم اور یہودیہ کے مُقدسوں کی احتیاج رفع کریں تاکہ سب میں برابری ہو جائے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ پولس نے بیان کِیا کہ ”‏جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۷‏۔‏

پولس نے کرنتھیوں کو فیاضی دکھانے کی اچھی وجہ مہیا کی۔‏ یسوع ’‏اُنکی خاطر غریب بن گیا تاکہ وہ روحانی طور پر دولتمند ہو جائیں۔‏‘‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۹‏)‏ یقیناً،‏ وہ دینے کے سلسلے میں اُس کے جذبے کی نقل کرنا چاہینگے۔‏ مزیدبرآں،‏ جب خدا ”‏سب طرح کی سخاوت“‏ کرنے کے لئے اُنہیں باافراط چیزیں مہیا کر رہا تھا تو اُنکا مُقدسوں کی احتیاج رفع کرنے کیلئے مدد کرنا موزوں تھا۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

عطیات دینے والوں کا رُجحان

پہلی صدی میں مُقدسوں کے لئے امدادی پروگرام میں حصہ لینے والوں سے ہم رضاکارانہ عطیات دینے کے رُجحان کی بابت بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ یہ عطیات یہوواہ کے نادار پرستاروں کیلئے نہ صرف فکرمندی کا اظہار تھے بلکہ ان سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہودی اور غیرقوم مسیحیوں کے درمیان اخوت کا مضبوط بندھن تھا۔‏ عطیات دینا اور قبول کرنا یہودیوں اور غیرقوم لوگوں کے درمیان اتحاد اور دوستی کی علامت بھی تھا۔‏ وہ مادی اور روحانی طور پر شراکت رکھتے تھے۔‏—‏رومیوں ۱۵:‏۲۶،‏۲۷‏۔‏

غالباً پولس نے شروع میں مکدنیہ کے مسیحیوں کو عطیات دینے کیلئے نہیں کہا تھا کیونکہ وہ بہت غریب تھے۔‏ تاہم اُنہوں نے ’‏عطیات دینے کا استحقاق حاصل کرنے کے لئے منت کی تھی۔‏‘‏ اگرچہ وہ ”‏مصیبت کی بڑی آزمایش“‏ کا تجربہ کر رہے تھے توبھی انہوں نے خوشی کیساتھ ”‏مقدور سے بھی زیادہ“‏ دیا!‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱-‏۴‏)‏ اُنکی بڑی آزمائش میں غالباً یہ الزامات بھی شامل تھے کہ وہ رومیوں کے نزدیک ایک غیرقانونی مذہب پر چل رہے تھے۔‏ لہٰذا،‏ یہ قابلِ‌فہم بات ہے کہ اُنہوں نے اپنے یہودیہ کے بھائیوں کیلئے ہمدردی محسوس کی جو ایسی ہی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔‏—‏اعمال ۱۶:‏۲۰،‏۲۱،‏ ۱۷:‏۵-‏۹،‏۱  تھسلنیکیوں ۲:‏۱۴۔‏

اگرچہ پولس نے مکدنیہ کے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کے لئے عطیات دینے کے سلسلے میں کرنتھس کے مسیحیوں کے ابتدائی جذبے کو استعمال کِیا تھا مگر اب اُن کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔‏ اب رسول نے مکدنیہ کے مسیحیوں کی فیاضی کو کرنتھس کے مسیحیوں کو اُبھارنے کے لئے استعمال کِیا۔‏ اس نے اُنہیں یہ یاددہانی کرانا ضروری سمجھا کہ گزشتہ سال جو کام اُنہوں نے شروع کِیا تھا اب وہ ختم ہونے والا ہے۔‏ کیا واقع ہوا تھا؟‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۰،‏۱۱،‏ ۹:‏۱-‏۵

ططس نے کرنتھس میں عطیات جمع کرنا شروع کِیا لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے وہ بندوبست ناکام ہو گیا۔‏ لہٰذا،‏ مکدنیہ میں پولس کیساتھ مشورہ کرنے کے بعد،‏ ططس دیگر دو ساتھیوں کیساتھ کرنتھس کی کلیسیا کی ہمت بڑھانے واپس آیا اور عطیات کے کام کو ختم کر دیا۔‏ ممکن ہے کہ بعض نے درپردہ یہ شوشہ چھوڑا ہو کہ پولس نے کرنتھس کے مسیحیوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔‏ غالباً اسی وجہ سے اس نے عطیات جمع کرنے کے کام کو مکمل کرنے کیلئے تین آدمیوں کو مقرر کر کے بھیجا۔‏ پولس نے اس سلسلے میں کہا کہ ”‏ہم بچتے رہتے ہیں کہ جس بڑی خیرات کے بارے میں خدمت کرتے ہیں اُسکی بابت کوئی ہم پر حرف نہ لائے۔‏ کیونکہ ہم ایسی چیزوں کی تدبیر کرتے ہیں جو نہ صرف خداوند کے نزدیک بھلی ہیں بلکہ آدمیوں کے نزدیک بھی۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۶،‏۱۸-‏۲۳؛‏۱۲:‏۱۸‏۔‏

عطیات پہنچانا

عطیات کی رقم ۵۶ س.‏ع.‏ کے موسمِ‌بہار میں یروشلیم لیجانے کے لئے تیار تھی۔‏ پولس عطیات دینے والوں کی طرف سے منتخب نمائندوں کے ساتھ گیا۔‏ اعمال ۲۰:‏ ۴ بیان کرتی ہے:‏ ”‏پُرسؔ کا بیٹا سوؔپترس جو بیرؔیہ کا تھا اور تھسلنیکیوؔں میں سے اؔرسترخس اور سکندؔس اور گیسؔ جو دؔربے کا تھا اور تیمتھیسؔ اور آؔسیہ کا تخکسؔ اور ترفمسؔ آؔسیہ تک اُس کے ساتھ گئے۔‏“‏ بدیہی طور پر،‏ اُن کے درمیان لوقا بھی تھا جس نے غالباً فلپی کے مسیحیوں کی نمائندگی کی ہوگی۔‏ چنانچہ کم‌ازکم نو اشخاص اس کام کے لئے روانہ ہوئے۔‏

سکالر ڈیٹر جارجی بیان کرتا ہے کہ ”‏عطیات کی رقم کافی زیادہ ہوگی کیونکہ بصورتِ‌دیگر پولس اور دیگر لوگوں کا اتنا تردد کرنا بےسُود ہوتا۔‏“‏ ان نمائندوں نے نہ صرف تحفظ کا خیال رکھا بلکہ پولس کو بددیانتی کے ہر طرح کے الزامات سے بھی بچایا۔‏ ان اشخاص نے یروشلیم میں مُقدسوں کے سامنے غیرقوم کلیسیاؤں کی بھی نمائندگی کی۔‏

یہ نمائندے کرنتھس سے سوریہ تک بحری جہاز میں سفر کرتے ہوئے عیدِفسح کے موقع پر یروشلیم پہنچ گئے ہوتے۔‏ تاہم،‏ پولس کے قتل کی سازش کی خبر تمام پروگرام میں تبدیلی پر منتج ہوئی۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳‏)‏ شاید پولس کے دُشمن سمندر میں ہی اُسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔‏

پولس کو دیگر پریشانیاں بھی تھیں۔‏ روانگی سے پہلے،‏ پولس نے روم کے مسیحیوں کو لکھا کہ وہ اُس کے حق میں دُعا کریں تاکہ وہ ’‏یہوؔدیہ کے نافرمانوں سے بچا رہے اور اُسکی وہ خدمت جو یروشلیم کے لئے ہے مُقدسوں کو پسند آئے۔‏‘‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ اگرچہ مُقدسین بِلاشُبہ شکرگزاری کے ساتھ عطیات قبول کرینگے توبھی پولس اُس مشکل کی بابت فکرمند تھا جو اس کے وہاں پہنچنے پر یہودیوں میں برپا ہو سکتی تھی۔‏

رسول نے واقعی ناداروں کو ذہن میں رکھا تھا۔‏ صحائف یہ تو نہیں بتاتے کہ عطیات کب دئے گئے تھے توبھی انکی دستیابی سے اتحاد کو ضرور فروغ ملا تھا اور پھر غیرقوم مسیحی یہودیہ کے ساتھی پرستاروں کی طرف سے حاصل ہونے والی روحانی دولت کیلئے بھی شکرگزاری کا اظہار کرنے کے قابل ہوئے تھے۔‏ یروشلیم پہنچنے کے بعد،‏ پولس کے ہیکل میں جانے سے فساد شروع ہو گیا جو اُسکی گرفتاری کا سبب بنا۔‏ تاہم،‏ اس سے اُسے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے گواہی دینے کے مواقع ملے۔‏—‏اعمال ۹:‏۱۵؛‏ ۲۱:‏۱۷-‏۳۶؛‏ ۲۳:‏۱۱؛‏ ۲۴:‏۱–‏۲۶:‏۳۲‏۔‏

آجکل ہمارے عطیات

پہلی صدی سے لیکر بہت کچھ بدل گیا ہے مگر بنیادی اُصول وہی ہیں۔‏ مسیحیوں کو مالی ضروریات سے بجا طور پر باخبر رکھا جاتا ہے۔‏ تاہم،‏ اُنہیں رضامندی اور خدا اور ساتھی انسانوں کے لئے محبت سے تحریک پا کر ضرورتمندوں کے لئے عطیات دینے چاہئیں۔‏—‏مرقس ۱۲:‏۲۸-‏۳۱‏۔‏

پہلی صدی کے مُقدسوں کی امداد کیلئے اُٹھائے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عطیات اور انکی تقسیم کا بڑی شائستگی اور دیانتداری سے انتظام کِیا جانا چاہئے۔‏ واقعی،‏ یہوواہ اپنے خادموں کی ضروریات سے واقف ہے اور انہیں پورا بھی کرتا ہے تاکہ وہ مشکلات کے باوجود دوسروں کو بادشاہتی خوشخبری میں شریک کرنا جاری رکھیں۔‏ (‏متی ۶:‏۲۵-‏۳۴‏)‏ تاہم،‏ ہماری معاشی حالت خواہ کیسی بھی ہو،‏ ہم سب اس سلسلے میں اپنا حصہ ادا کر سکتے ہیں۔‏ اس طرح،‏ ’‏جس نے بہت جمع کِیا اُس کا کچھ زیادہ نہ نکلے گا اور جس نے تھوڑا جمع کِیا اُس کا کچھ کم نہ نکلے گا۔‏‘‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۵‏۔‏