مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آبائےکلیسیا—‏بائبل سچائی کے علمبردار؟‏

آبائےکلیسیا—‏بائبل سچائی کے علمبردار؟‏

آبائےکلیسیا‏—‏بائبل سچائی کے علمبردار؟‏

آپ خواہ مسیحی ہیں یا نہیں،‏ بائبل کے خدا،‏ یسوع اور مسیحیت کی بابت آپ کا نظریہ اُن سے متاثر ضرور ہوا ہوگا۔‏ اِن میں سے ایک زریں سخن اور دوسرا اعظم کہلاتا تھا۔‏ مجموعی طور پر انہیں ”‏حیات‌المسیح کی فائق زندہ مثالیں“‏ کہا گیا ہے۔‏ یہ کون ہیں؟‏ یہ موجودہ ”‏نام‌نہاد مسیحی“‏ نظریات کو تشکیل دینے والے قدیم مذہبی مفکر،‏ مصنف،‏ علما اور فیلسوف—‏آبائےکلیسیا—‏ہیں۔‏

‏”‏بائبل خدا کا مکمل کلام نہیں ہے۔‏“‏ ایک گریک آرتھوڈکس پروفیسر برائے مذہبی علوم،‏ دیمیتریس جے.‏ کانس‌طنطیلس بڑے وثوق سے یہ بات کہتا ہے۔‏ وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ”‏خدا کے کلام کو آشکارا کرنے والی روح‌القدس کسی کتاب کے صفحات میں مقید نہیں ہو سکتی۔‏“‏ پس،‏ کیا الہٰی انکشاف کا کوئی اَور معتبر ذریعہ ہو سکتا ہے؟‏ کانس‌طنطیلس اپنی کتاب انڈرسٹینڈنگ دی گریک آرتھوڈکس چرچ میں بڑے اعتماد کیساتھ بیان کرتا ہے:‏ ”‏پاک روایات اور پاک صحائف کو ایک ہی سکے کے دو رُخ خیال کِیا جاتا ہے۔‏“‏

آبائےکلیسیا کی تعلیمات اور تصانیف ”‏پاک روایات“‏ پر مبنی ہیں۔‏ یہ دوسری اور پانچویں صدی س.‏ع.‏ کے درمیان رہنے والے معروف مذہبی علما اور ”‏مسیحی“‏ فیلسوف تھے۔‏ انہوں نے جدید ”‏مسیحی“‏ اندازِفکر پر کس حد تک اثر ڈالا ہے؟‏ کیا اُن کی تعلیم بائبل پر مبنی تھی؟‏ یسوع مسیح کے کسی پیروکار کے لئے مسیحی سچائی کی ٹھوس بنیاد کیا ہونی چاہئے؟‏

تاریخی پس‌منظر

دوسری صدی س.‏ع.‏ کے وسط میں نام‌نہاد مسیحی رومی ایذارسانوں اور بدعتیوں کے خلاف اپنے ایمان کا دفاع کر رہے تھے۔‏ تاہم،‏ اس دَور میں مختلف مذہبی نظریات پائے جاتے تھے۔‏ یسوع کی ”‏الوہیت“‏ اور روح‌القدس کی ماہیئت اور کارگزاری کی بابت مذہبی بحث‌وتکرار محض نظریاتی اختلافات پر مبنی نہیں تھی۔‏ ”‏مسیحی“‏ عقیدے پر تلخ اور ناقابلِ‌مفاہمت اختلافات اور نااتفاقیاں سیاسی اور ثقافتی حلقوں میں بھی تیزی سے سرایت کرکے فسادات،‏ بغاوت اور جنگ کا سبب بنیں۔‏ مؤرخ پال جان‌سن تحریر کرتا ہے:‏ ”‏[‏برگشتہ]‏ مسیحیت کا آغاز ابتری،‏ اختلافات اور فرقہ‌واریت میں ہوا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔‏ .‏ .‏ .‏ پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں وسطی اور مشرقی بحیرۂروم میں بیشمار مذہبی نظریات کی تشہیر کی جا رہی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ لہٰذا،‏ ابتدا ہی سے مسیحیت کی مختلف اقسام تھیں جن میں بہت ہی کم باتیں مشترک تھیں۔‏“‏

اُس دَور میں،‏ ایسے مصنف اور مفکر شہرت حاصل کرنے لگے جن کے خیال میں ”‏مسیحی“‏ تعلیمات کی فلسفیانہ اصطلاحات میں تفسیر کرنا لازمی تھا۔‏ ایسے مذہبی مصنّفین نے ”‏مسیحیت“‏ قبول کرنے والے تعلیم‌یافتہ بُت‌پرست لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے بڑی حد تک ابتدائی یونانی اور یہودی ادب کا سہارا لیا۔‏ یونانی مصنف جسٹن مارٹر (‏تقریباً ۱۰۰-‏۱۶۵ س.‏ع.‏)‏ کے زمانے میں نام‌نہاد مسیحی یونانی ثقافت کے فلسفیانہ ورثے کو اپنانے میں حد سے زیادہ تجاوز کر گئے تھے۔‏

اس رُجحان نے بالخصوص سکندریہ کے ایک یونانی مصنف،‏ آریگن (‏تقریباً ۱۸۵-‏۲۵۴ س.‏ع.‏)‏ کی تصانیف کو متاثر کِیا۔‏ آریگن کا مقالہ آن فرسٹ پرنسیپلز ‏”‏مسیحی“‏ مذہب کے بنیادی عقائد کو یونانی فلسفے کی روشنی میں بیان کرنے کی پہلی باضابطہ کوشش تھی۔‏ مسیح کی ”‏الوہیت“‏ کی وضاحت اور تصدیق کی کوشش میں مجلسِ‌نقایہ (‏۳۲۵ س.‏ع.‏)‏ کے انعقاد نے ”‏مسیحی“‏ عقیدے کی تفسیر کرنے کی تحریک دینے میں نہایت اہم کردار ادا کِیا۔‏ اس مجلس نے ایک نئے دَور کا آغاز کِیا جس کے دوران کلیسیائی مجالس نے اس عقیدے کی بِلاکم‌وکاست تشریح کرنے کی کوشش کی۔‏

مصنف اور خطیب

پہلی مجلسِ‌نقایہ کے وقت کا مصنف،‏ قیصریہ کے یوسیبیس نے خود کو بادشاہ قسطنطین سے منسلک کِیا۔‏ نقایہ کے ۱۰۰ سال سے زائد عرصہ بعد،‏ بہتیرے یونانی زبان میں لکھنے والے مذہبی علما نے ایک طویل اور گرماگرم بحث‌مباحثے کے بعد دُنیائےمسیحیت کے امتیازی عقیدۂتثلیث کی بنیاد ڈالی۔‏ ان میں سکندریہ کے تحکمانہ بشپ اتھاناسیس اور کپدُکیہ،‏ ایشیائےکوچک کے تین چرچ راہبوں—‏بیزل اعظم،‏ اُس کے بھائی گریگری نایس اور اُنکے دوست گریگری نازی‌اَینزس—‏نے نمایاں کردار ادا کِیا۔‏

اس زمانے کے مصنّفین اور مبلغین نہایت فصیح‌البیان تھے۔‏ یونانی زبان میں گریگری نازی‌اَینزس اور جان کریسوسٹم (‏بمعنی ”‏زریں سخن“‏)‏ کے علاوہ لاطینی زبان میں میلان کا ایمبروز اور ہپو کا آگسٹین بھی باکمال خطیب تھے۔‏ دراصل،‏ اُن کے زمانے میں خطابت نہایت باعزت اور مقبول فن تھا۔‏ اُس دَور کا سب سے بااثر مصنف آگسٹین تھا۔‏ اُس کے مذہبی مقالوں نے ہی زیادہ‌تر دورِحاضر کے ”‏مسیحی“‏ نظریات کو تشکیل دیا ہے۔‏ اسی دَور کے ممتاز عالم،‏ جیروم نے اصلی زبان سے بائبل کا لاطینی ولگاتا ترجمہ کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کِیا تھا۔‏

تاہم،‏ کچھ سوالات پر غور کرنا اہم ہے۔‏ مثال کے طور پر:‏ کیا ان آبائےکلیسیا نے مکمل طور پر بائبل کی پابندی کی تھی؟‏ کیا اُنہوں نے الہامی صحائف کے مطابق تعلیم دی تھی؟‏ کیا اُن کی تصانیف خدا کے صحیح علم کی جانب قابلِ‌اعتماد راہنمائی کرتی ہیں؟‏

خدائی تعلیمات یا انسانی تعلیمات؟‏

حال ہی میں پِسدیہ کے گریک آرتھوڈکس میٹروپولیٹن میتھوڈئیس نے اپنی کتاب دی ہیلینک پیڈسٹل آف کرسچینٹی میں ظاہر کِیا کہ یونانی ثقافت اور فلسفہ ہی دراصل جدید ”‏مسیحی“‏ نظریات کی بنیاد ہے۔‏ اُس کتاب میں وہ بِلاجھجھک تسلیم کرتا ہے:‏ ”‏تقریباً تمام آبائےکلیسیا یونانی عناصر کو بہت کارآمد خیال کرتے تھے،‏ لہٰذا اُنہوں نے مسیحی سچائیوں کی سمجھ اور درست وضاحت کیلئے یونانی ادب کا ہی سہارا لیا تھا۔‏“‏

مثال کے طور پر،‏ تثلیث کے نظریے پر غور کریں جو باپ،‏ بیٹے اور روح‌القدس پر مشتمل ہے۔‏ مجلسِ‌نقایہ کے بعد،‏ بہتیرے آبائےکلیسیا پکے تثلیث‌پرست بن گئے۔‏ اُنکی تصانیف اور تفاسیر تثلیث کو دُنیائےمسیحیت کا امتیازی عقیدہ بنانے میں نہایت اہم ثابت ہوئیں۔‏ تاہم،‏ کیا بائبل تثلیث کی تعلیم دیتی ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ پس،‏ آبائےکلیسیا نے اِسے کہاں سے لیا تھا؟‏ اے ڈکشنری آف ریلیجئس نالج بیان کرتی ہے کہ تثلیث ”‏بُت‌پرستانہ مذاہب کا گمراہ‌کُن عقیدہ ہے جسے مسیحی ایمان میں شامل کر لیا گیا ہے۔‏“‏ اس کے علاوہ،‏ دی پیگنزم ان آور کرسچینٹی تصدیق کرتی ہے:‏ ”‏[‏تثلیث]‏ بُت‌پرستانہ اصل سے ہے۔‏“‏ *‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱۴:‏۲۸‏۔‏

اس کے علاوہ،‏ جان کی غیرفانیت کی تعلیم پر غور کریں جس کے مطابق جسم کی موت کے بعد بھی انسان کا کوئی حصہ زندہ رہتا ہے۔‏ ایک بار پھر،‏ آبائےکلیسیا نے اس عقیدے کو ایک ایسے مذہب میں شامل کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کِیا جس میں موت کے بعد جان کے زندہ رہنے کی کوئی تعلیم نہیں تھی۔‏ بائبل واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ جان مر سکتی ہے:‏ ”‏جو جان گُناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔‏“‏ (‏حزقی‌ایل ۱۸:‏۴‏)‏ جان کی غیرفانیت کی بابت آبائےکلیسیا کے ایمان کی بنیاد کیا تھی؟‏ نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ مسیحی عقیدہ کہ خدا کی خلق‌کردہ کوئی روحانی چیز استقرارِحمل کے وقت انسان میں داخل ہوتی ہے جس سے اُس میں زندگی آتی ہے دراصل مسیحی فلسفے میں طویل ارتقا کا نتیجہ ہے۔‏ مشرق میں آریگن اور مغرب میں سینٹ آگسٹین کے توسط سے جان کو ایک روحانی چیز کے طور پر قبول کِیا گیا اور اس کے خواص کی بابت ایک فلسفیانہ نظریہ قائم کِیا گیا۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏آگسٹین کا عقیدہ]‏ .‏ .‏ .‏ بڑی حد تک (‏کچھ خامیوں سمیت)‏ نوافلاطونیت کا مرہونِ‌منت تھا۔‏“‏ اس کے علاوہ،‏ پریسبٹیرین لائف رسالہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏جان کی غیرفانیت ایک یونانی عقیدہ ہے جو قدیم پُراسرار مسالک سے نکلا ہے جسے فلاسفر افلاطون نے مزید فروغ دیا۔‏“‏ *

مسیحی سچائی کی ٹھوس بنیاد

آبائےکلیسیا اور اُنکی تعلیمات کی بنیاد کے تاریخی پس‌منظر کے اس مختصر سے جائزے کے بعد،‏ یہ سوال پوچھنا مناسب ہوگا کہ کیا کسی خلوصدل مسیحی کے اعتقادات آبائےکلیسیا کی تعلیمات پر مبنی ہونے چاہئیں؟‏ بائبل سے اسکا جواب حاصل کریں۔‏

ایک بات تو یہ ہے کہ یسوع مسیح نے خود ”‏فادر“‏ یعنی باپ جیسے مذہبی القاب کے استعمال کو منع کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۹‏)‏ لہٰذا،‏ کسی مذہبی شخصیت کیلئے ”‏فادر“‏ یعنی باپ کی اصطلاح استعمال کرنا غیرمسیحی اور غیرصحیفائی ہے۔‏ یوحنا رسول کی تصانیف کیساتھ ہی خدا کا تحریری کلام تقریباً ۹۸ س.‏ع.‏ میں مکمل ہو گیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ سچے مسیحیوں کو الہٰی انکشاف کیلئے کسی انسان پر آس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ وہ انسانی روایت کو ’‏خدا کے کلام کو باطل کرنے‘‏ کی اجازت نہیں دیتے۔‏ انسانی روایت کو خدا کے کلام کی جگہ دینا خطرناک ہے۔‏ یسوع نے خبردار کِیا:‏ ”‏اگر اندھے کو اندھا راہ بتائیگا تو دونوں گڑھے میں گرینگے۔‏“‏—‏متی ۱۵:‏۶،‏ ۱۴‏۔‏

کیا ایک مسیحی کو بائبل میں موجود خدا کے کلام کے علاوہ کسی اَور انکشاف کی ضرورت ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ مکاشفہ کی کتاب الہامی ریکارڈ میں کوئی بھی اضافہ کرنے کی بابت خبردار کرتے ہوئے بیان کرتی ہے:‏ ”‏اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے تو خدا اس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کریگا۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲۲:‏۱۸‏۔‏

مسیحی سچائی خدا کے تحریری کلام بائبل میں قلمبند ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۷؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶؛‏ ۲-‏یوحنا ۱-‏۴‏)‏ اس کی صحیح سمجھ کے لئے دُنیاوی فلسفے سے مدد حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔‏ الہٰی انکشاف کی وضاحت کے لئے انسانی حکمت کا استعمال کرنے والے اشخاص کے لئے پولس رسول کے اِن سوالوں کو دُہرانا موزوں ہے:‏ ”‏کہاں کا حکیم؟‏ کہاں کا فقیہ؟‏ کہاں کا اِس جہان کا بحث کرنے والا؟‏ کیا خدا نے دُنیا کی حکمت کو بیوقوفی نہیں ٹھہرایا؟‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۰‏۔‏

علاوہ‌ازیں،‏ سچی مسیحی کلیسیا ”‏حق کا ستون اور بنیاد ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵‏)‏ اِس کے نگہبان عقائد سے متعلق ہر طرح کی آلودگی کی مذمت کرنے سے کلیسیا میں اپنی تعلیم کی پاکیزگی کی حفاظت کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵-‏۱۸،‏ ۲۵‏)‏ وہ ’‏جھوٹے نبیوں،‏ جھوٹے اُستادوں اور بدعتیوں‘‏ کو کلیسیا میں شامل نہیں ہونے دیتے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۱‏)‏ رسولوں کی وفات کے بعد،‏ آبائےکلیسیا نے ”‏گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم“‏ کو مسیحی کلیسیا میں داخل ہونے کی اجازت دیدی تھی۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱‏۔‏

اِس برگشتگی کے نتائج آج دُنیائےمسیحیت میں عیاں ہیں۔‏ اس کے اعتقادات اور رسومات بائبل سچائی کے برعکس ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 یہوواہ کے گواہوں کے شائع‌کردہ بروشر شُڈ یو بیلیو اِن دی ٹرینٹی؟‏ سے عقیدۂتثلیث پر مفصل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔‏

^ پیراگراف 16 جان کی بابت بائبل کی تعلیم کے سلسلے میں مفصل معلومات حاصل کرنے کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب ریزننگ فرام دی سکرپچرز کے صفحہ ۹۸-‏۱۰۴ اور ۳۷۵-‏۳۸۰ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر بکس/‏تصویر]‏

آبائےکپدُکیہ

مصنف اور راہب،‏ کالس‌توس بیان کرتا ہے:‏ ”‏آرتھوڈکس چرچ چوتھی‌صدی کے ئنن،‏ بالخصوص ’‏تین عظیم پیشواؤں‘‏—‏گریگری نازی‌اَینزس،‏ بیزل اعظم اور جان کریسوسٹم—‏کی بڑی تعظیم کرتا ہے۔‏“‏ کیا ان آبائےکلیسیا کی تعلیمات الہامی صحائف پر مبنی تھیں؟‏ کتاب دی فادرز آف دی گریک چرچ بیزل اعظم کی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُس کی تصانیف ظاہر کرتی ہیں کہ وہ تاحیات افلاطون،‏ ہومر اور دیگر مؤرخین اور واعظین سے بڑا متاثر رہا جس کا لامحالہ اُس کے طرزِتحریر پر بڑا اثر پڑا ہوگا۔‏ لیکن بیزل کا اندازِفکر ہمیشہ ’‏یونانی‘‏ ہی رہا۔‏“‏ گریگری نازی‌اَینزس کے سلسلے میں بھی یہ بات سچ تھی۔‏ ”‏اُس کے خیال میں یونانی ثقافت کی روایات اپنانا ہی کلیسیا کی کامیابی اور برتری کا باعث ہو سکتا تھا۔‏“‏

اِن تینوں کی بابت،‏ پروفیسر پانایودس کے.‏ کرستو لکھتا ہے:‏ ”‏نئے عہدنامے کے حکم کے مطابق وہ کبھی‌کبھار ’‏فیلسوفی اور لاحاصل فریب‘‏ کی بابت خبردار کرتے ہیں [‏کلسیوں ۲:‏۸‏]‏ مگر پھر بھی فلسفے اور دیگر متعلقہ نظریات کا بھی شوق سے مطالعہ کرتے اور دوسروں کو بھی انکا مطالعہ کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔‏“‏ صاف ظاہر ہے کہ ان کلیسیائی اساتذہ کے خیال میں بائبل اُن کے نظریات کی حمایت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی۔‏ کیا دیگر ذرائع سے مدد لینے کا مطلب یہ تھا کہ اُن کی تعلیمات کا بائبل سے کوئی تعلق نہیں؟‏ پولس رسول نے عبرانی مسیحیوں کو خبردار کِیا:‏ ”‏مختلف اور بیگانہ تعلیم کے سبب سے بھٹکتے نہ پھرو۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۹‏۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Archivo Iconografico, S.A./​CORBIS ©

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس/‏تصویر]‏

سکندریہ کا سرل کلیسیا کا متنازع راہب

آبائےکلیسیا میں سب سے زیادہ متنازع شخصیت سکندریہ کا سرل (‏تقریباً ۳۷۵-‏۴۴۴ س.‏ع.‏)‏ ہے۔‏ کلیسیائی تاریخ‌دان ہینز وان کیم‌پنہاؤسن اُسے ”‏اِدعاپسند،‏ پُرتشدد،‏ مکار،‏ اپنے مرتبے اور عظمت پر ناز کرنے والے شخص“‏ کے طور پر بیان کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ ”‏وہ کبھی بھی کسی بات کو اُس وقت تک درست تسلیم نہیں کرتا تھا جب تک اُسے یقین نہ ہو جائے کہ یہ اُس کی طاقت اور اختیار کے لئے مفید ثابت ہوگی .‏ .‏ .‏ وہ اپنی سفاکی اور بددیانتی پر کبھی پشیمان نہیں ہوتا تھا۔‏“‏ جب سرل سکندریہ کا بشپ تھا تو اُس نے قسطنطنیہ کے بشپ کو ہٹانے کے لئے رشوت،‏ تہمت اور توہین کا سہارا لیا۔‏ وہ ۴۱۵ س.‏ع.‏ میں ہیپاشیہ نامی ایک مشہور فلسفی کے وحشیانہ قتل کے لئے بھی ذمہ‌دار ٹھہرایا جاتا ہے۔‏ سرل کی مذہبی تصانیف کی بابت کیم‌پنہاؤسن بیان کرتا ہے:‏ ”‏اُس نے اعتقادات سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لئے بائبل کے علاوہ دیگر ممتاز علما کے اقوال اور کُتب سے بھی مدد لینے کا سلسلہ شروع کِیا۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

جیروم

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Garo Nalbandian