مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

حیرت‌انگیز کام کرنے والے پر غور کرو!‏

حیرت‌انگیز کام کرنے والے پر غور کرو!‏

حیرت‌انگیز کام کرنے والے پر غور کرو!‏

‏”‏چپ‌چاپ کھڑا رہ اور خدا کے حیرت‌انگیز کاموں پر غور کر۔‏“‏—‏ایوب ۳۷:‏۱۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ سن ۱۹۲۲ میں کونسی حیران‌کُن چیز دریافت ہوئی اور اس کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا گیا؟‏

ایک ماہرِاثریات اور ایک برطانوی نواب کئی سال سے دونوں ملکر کسی خزانے کی تلاش کر رہے تھے۔‏ بالآخر،‏ نومبر ۲۶،‏ ۱۹۲۲ کو مشہور وادیٔ‌سلاطین میں مصری فرعونوں کے قبرستان میں ماہرِاثریات ہاروڈ کارٹر اور نواب کارنارون کو اپنی محنت کا صلہ—‏فرعون توت‌عنخ‌آمون کا مقبرہ—‏مل گیا۔‏ بند دروازے کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے اس میں ایک سُوراخ کِیا۔‏ کارٹر نے ایک موم‌بتی جلا کر اندر جھانکا۔‏

۲ کارٹر نے بعدازاں بیان کِیا:‏ ”‏جب نواب کارنارون اپنے تجسّس پر زیادہ دیر تک قابو نہ رکھ سکا تو اُس نے بڑی بیتابی سے پوچھا،‏ ’‏کیا تمہیں کچھ دکھائی دے رہا ہے؟‏‘‏ میرے مُنہ سے صرف یہی الفاظ نکل سکے،‏ ’‏ہاں،‏ عجیب‌وغریب چیزیں۔‏‘‏ “‏ مقبرے کے اس خزانے کی ہزاروں چیزوں میں سونے کا ایک تابوت بھی تھا۔‏ آپ نے شاید تصاویر میں یا کسی عجائب‌گھر میں ان ”‏عجیب‌وغریب چیزوں“‏ میں سے کچھ دیکھی ہوں۔‏ تاہم،‏ عجائب‌گھر کی یہ چیزیں حیرت‌انگیز تو ہو سکتی ہیں مگر شاید انکا آپ کی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو۔‏ لہٰذا ہمیں ایسی حیرت‌انگیز چیزوں پر غور کرنا چاہئے جو یقیناً آپ سے تعلق رکھنے کے علاوہ آپ کیلئے قدروقیمت کی حامل بھی ہیں۔‏

۳.‏ ہم ایسی عجیب‌وغریب چیزوں کی بابت معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں جو ہمارے لئے حقیقی قدروقیمت کی حامل ہو سکتی ہیں؟‏

۳ مثال کے طور پر،‏ صدیوں پہلے رہنے والے ایک ایسے انسان پر غور کریں جو کسی فلمی ستارے،‏ کھیلوں کے ہیرو یا شاہی خاندان کے کسی فرد سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‏ اہلِ‌مشرق میں اُسے بڑا آدمی سمجھا جاتا تھا۔‏ آپ سمجھ گئے ہونگے،‏ وہ ایوب تھا۔‏ بائبل کی ایک پوری کتاب اس سے منسوب ہے۔‏ تاہم،‏ ایوب کے ہمعصروں میں سے الیہو نامی ایک جوان شخص نے اس کی اصلاح کرنا مناسب جانا۔‏ درحقیقت،‏ الیہو نے ایوب کو باور کرایا کہ وہ خود کو باقی لوگوں سے زیادہ اہم خیال کر رہا تھا۔‏ ایوب ۳۷ باب میں ہم واضح اور دانشمندانہ مشورت پاتے ہیں جو ہم سب کیلئے حقیقی قدروقیمت کی حامل ہو سکتی ہے۔‏—‏ایوب ۱:‏۱-‏۳؛‏ ۳۲:‏۱–‏۳۳:‏۱۲‏۔‏

۴.‏ ایوب ۳۷:‏۱۴ میں درج الیہو کی نصیحت کا مؤجب کیا تھا؟‏

۴ ایوب کے تین مبیّنہ دوستوں نے اپنی لمبی تقاریر میں واضح کِیا کہ ایوب کسی غلط قول‌وفعل کا مرتکب ہوا ہے۔‏ (‏ایوب ۱۵:‏۱-‏۶،‏ ۱۶؛‏ ۲۲:‏۵-‏۱۰‏)‏ الیہو نے صبر کے ساتھ اس گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کِیا۔‏ بعدازاں اس نے عقل‌ودانش سے کلام کِیا۔‏ بہت سی گرانقدر باتیں کیں لیکن اس اہم بات پر غور کریں:‏ ”‏اَے اؔیوب اِسکو سُن لے۔‏ چپ‌چاپ کھڑا رہ اور خدا کے حیرت‌انگیز کاموں پر غور کر۔‏“‏—‏ایوب ۳۷:‏۱۴‏۔‏

کام کرنے والا کون ہے

۵.‏ الیہو نے خدا کے جن ”‏حیرت‌انگیز کاموں“‏ کا ذکر کِیا اُن میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۵ غور کریں کہ الیہو نے ایوب کو اپنی ذات پر،‏ الیہو پر یا دیگر انسانوں پر توجہ دینے کا مشورہ نہیں دیا۔‏ الیہو نے دانشمندی سے ایوب سمیت ہمیں بھی یہوواہ خدا کے حیرت‌انگیز کاموں پر غور کرنے کی تلقین کی۔‏ آپ کے خیال میں ”‏خدا کے حیرت‌انگیز کاموں“‏ کے اظہار میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ مزیدبرآں،‏ آپ کو اپنی صحت،‏ مالی حالت،‏ مستقبل،‏ خاندان،‏ ساتھی کارکنوں اور پڑوسیوں سے متعلق تفکرات کے باوجود خدا کے کاموں پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ خدا کے حیرت‌انگیز کام اس کی حکمت اور ہمارے چوگرد طبیعی کائنات پر اس کے اختیار کو ظاہر کرتے ہیں۔‏ (‏نحمیاہ ۹:‏۶؛‏ زبور ۲۴:‏۱؛‏ ۱۰۴:‏۲۴؛‏ ۱۳۶:‏۵،‏ ۶‏)‏ اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے،‏ ہمیں یشوع کی کتاب میں درج ایک واقعے پر غور کرنا چاہئے۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے موسیٰ اور یشوع کے زمانے میں کونسے عجیب‌وغریب کام کئے؟‏ (‏ب)‏ اگر آپ نے موسیٰ اور یشوع کے وقت میں ان میں سے کسی بھی کام کو دیکھا ہوتا تو آپ کا ردِعمل کیسا ہوتا؟‏

۶ یہوواہ نے قدیم مصر پر آفتیں نازل کرنے کے بعد بحرِقلزم کو دو ٹکڑے کر دیا تاکہ موسیٰ اسرائیلیوں کو آزاد کرا سکے۔‏ (‏خروج ۷:‏۱–‏۱۴:‏۳۱؛‏ زبور ۱۰۶:‏۷،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏)‏ تاہم،‏ ایک ایسا ہی واقعہ یشوع ۳ باب میں بھی درج ہے۔‏ موسیٰ کے جانشین،‏ یشوع نے خدا کے لوگوں کو پانی کے ایک اَور مقام سے پار لیجا کر ملکِ‌موعود میں پہنچانا تھا۔‏ یشوع نے کہا:‏ ”‏اپنے آپ کو مُقدس کرو کیونکہ کل کے دن [‏یہوواہ]‏ تمہارے درمیان عجیب‌وغریب کام کریگا۔‏“‏ (‏یشوع ۳:‏۵‏)‏ کونسے عجیب‌وغریب کام؟‏

۷ اس واقعے کی سرگزشت ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ نے راستہ روکنے والے دریائےیردن کے اندر سے راستہ بنا دیا تاکہ لاکھوں مردوزن اور بچے خشک زمین سے گزر کر پار جا سکیں۔‏ (‏یشوع ۳:‏۷-‏۱۷‏)‏ بیشک،‏ اگر ہم دریا کے اندر سے راستہ بنتے اور لوگوں کو خیروعافیت کیساتھ پار جاتے دیکھتے تو ہم اس نہایت ہی حیران‌کُن کامرانی سے ضرور متاثر ہوتے!‏ اس سے تخلیق پر خدا کی قدرت ظاہر ہوئی تھی۔‏ تاہم،‏ آجکل ہمارے زمانے میں بھی اسی طرح کے عجیب‌وغریب کام وقوع‌پذیر ہوتے ہیں۔‏ پس،‏ یہ دیکھنے کیلئے کہ ان میں سے بعض کام کونسے ہیں اور ہمیں ان پر کیوں توجہ دینی چاہئے،‏ ایوب ۳۷:‏۵-‏۷ پر غور کریں۔‏

۸،‏ ۹.‏ ایوب ۳۷:‏۵-‏۷ کونسے حیرت‌انگیز کاموں کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ہمیں ان پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏

۸ الیہو نے بیان کِیا:‏ ”‏خدا عجیب طور پر اپنی آواز سے گرجتا ہے۔‏ وہ بڑے بڑے کام کرتا ہے جن کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔‏“‏ الیہو کے ذہن میں خدا کے ”‏عجیب طور پر“‏ کام کرنے کی بابت کیا تھا؟‏ وہ برف اور موسلادھار بارش کا ذکر کرتا ہے۔‏ یہ چیزیں کسان کی کھیتی‌باڑی کے کام میں رکاوٹ بن سکتی ہیں جس سے اُسے خدا کے کاموں پر غور کرنے کے لئے وقت اور وجہ ملتی ہے۔‏ ہم شاید کسان تو نہ ہوں توبھی بارش اور برف ہمیں متاثر کر سکتی ہے۔‏ ہماری بودوباش کے پیشِ‌نظر،‏ برف اور بارش ہماری کارگزاریوں میں بھی مداخلت کر سکتی ہے۔‏ کیا ہم ان عجائب پر غور کرنے کے لئے وقت نکالتے ہیں کہ اِن کے پیچھے کون ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟‏ کیا آپ نے کبھی ایسا کِیا ہے؟‏

۹ دراصل،‏ ایوب ۳۸ باب کے مطابق یہوواہ خدا بھی اسی خیال کو استعمال کرتے ہوئے ایوب سے معنی‌خیز سوال پوچھتا ہے۔‏ یہ سوال خدا نے اگرچہ ایوب سے پوچھے تھے توبھی یہ ہمارے رُجحان،‏ ہمارے وجود اور ہمارے مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‏ پس آئیے خدا کی باتوں اور اُنکے مفہوم پر غور کرنے سے ایوب ۳۷:‏۱۴ کی تاکید پر عمل کریں۔‏

۱۰.‏ ایوب ۳۸ باب کو ہم پر کیسا اثر ڈالنا چاہئے اور اس سے کون سے سوال پیدا ہوتے ہیں؟‏

۱۰ باب ۳۸ کا آغاز اِن الفاظ کیساتھ ہوتا ہے:‏ ”‏تب [‏یہوواہ]‏ نے اؔیوب کو بگولے میں سے یوں جواب دیا:‏ یہ کون ہے جو نادانی کی باتوں سے مصلحت پر پردہ ڈالتا ہے؟‏ مرد کی مانند اب اپنی کمر کس لے کیونکہ مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تُو مجھے بتا۔‏“‏ (‏ایوب ۳۸:‏۱-‏۳‏)‏ ایک لحاظ سے یہ ایوب کو اگلی باتوں کیلئے تیار کرتا ہے۔‏ اس سے ایوب کو اس حقیقت کے سلسلے میں اپنی سوچ بدلنے میں مدد ملی ہوگی کہ وہ کائنات کے خالق کے حضور کھڑا ہے اور اُسے جوابدہ ہے۔‏ یہ بات ہمارے لئے اور ہمارے ہمعصروں کیلئے بھی اچھی ہے۔‏ اس کے بعد خدا اُنہی چیزوں کی بابت بات کرتا ہے جن کا ذکر الیہو پہلے کر چکا تھا۔‏ ”‏تُو کہاں تھا جب مَیں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟‏ تُو دانشمند ہے تو بتا۔‏ کیا تجھے معلوم ہے کس نے اُس کی ناپ ٹھہرائی؟‏ یا کس نے اُس پر سُوت کھینچا؟‏ کس چیز پر اُسکی بنیاد ڈالی گئی؟‏ یا کس نے اُس کے کونے کا پتھر بٹھایا؟‏“‏—‏ایوب ۳۸:‏۴-‏۶‏۔‏

۱۱.‏ ایوب ۳۸:‏۴-‏۶ سے ہمیں کونسے حقائق کا پتہ چلتا ہے؟‏

۱۱ جب زمین کی بنیاد ڈالی گئی تو اُس وقت ایوب اور ہم کہاں تھے؟‏ کیا ہم نے ماہرِتعمیرات کے طور پر زمین کا نقشہ کھینچا تھا اور پھر اس کے مطابق گویا مسطر سے اس کی وسعتوں کی پیمائش کی تھی؟‏ ہرگز نہیں!‏ انسان کا تو وجود بھی نہیں تھا۔‏ ہماری زمین کو ایک عمارت سے تشبِیہ دیتے ہوئے خدا نے پوچھا:‏ ”‏کس نے اُسکے کونے کا پتھر بٹھایا؟‏“‏ ہم جانتے ہیں کہ زمین اور سورج کے درمیان بالکل موزوں فاصلہ رکھا گیا ہے تاکہ ہم یہاں زندہ رہ کر پھل‌پھول سکیں۔‏ اسکے علاوہ اس کا حجم بھی بالکل درست ہے۔‏ اگر زمین بہت بڑی ہوتی تو ہائیڈروجن گیس ہماری فضا سے باہر نہ نکل پاتی جس کی وجہ سے ہمارا سیارۂزمین زندگی کیلئے غیرموزوں ہوتا۔‏ بیشک،‏ کسی نے بالکل ٹھیک جگہ پر ”‏اُسکے کونے کا پتھر بٹھایا“‏ ہے۔‏ کیا ایوب اس کیلئے عزت کا مستحق تھا؟‏ کیا ہم ہیں؟‏ یا کیا یہوواہ خدا اس کیلئے عزت کا مستحق ہے؟‏—‏امثال ۳:‏۱۹؛‏ یرمیاہ ۱۰:‏۱۲‏۔‏

کونسا انسان جواب دے سکتا ہے؟‏

۱۲.‏ ایوب ۳۸:‏۶ میں درج سوال کس چیز کی بابت سوچنے کی تحریک دیتا ہے؟‏

۱۲ خدا نے یہ بھی پوچھا:‏ ”‏کس چیز پر اُسکی بنیاد ڈالی گئی؟‏“‏ کیا یہ موزوں سوال نہیں ہے؟‏ غالباً ہم کششِ‌ثقل کی اصطلاح سے واقف ہیں جس سے ایوب ناواقف تھا۔‏ ہم میں سے بیشتر جانتے ہیں کہ سورج کی کششِ‌ثقل ہماری زمین کو اس کی بنیاد،‏ اس کے صحیح مقام پر قائم رکھتے ہوئے اسے سورج سے دُور رکھتی ہے۔‏ پھربھی،‏ کون کششِ‌ثقل کو پوری طرح سمجھتا ہے؟‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏کششِ‌ثقل کی بابت کیا تسلیم کِیا جانا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ایوب ۳۸:‏۶ میں بیان‌کردہ مسئلے کی بابت ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہئے؟‏

۱۳ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب دی یونیورس ایکس‌پلینڈ تسلیم کرتی ہے کہ ’‏فطری قوتوں میں کششِ‌ثقل کی بابت بیشتر لوگ جانتے ہیں مگر اس کی بابت سمجھ بہت کم ہے۔‏‘‏ کتاب مزید بیان کرتی ہے:‏ ”‏کششِ‌ثقل کسی ذریعے کے بغیر خلا میں بڑی تیزی سے سفر کرتی ہے۔‏ تاہم،‏ حالیہ برسوں میں،‏ ماہرینِ‌طبیعیات قیاس‌آرائی کرنے لگے ہیں کہ کششِ‌ثقل گریویٹون نامی عناصر پر مشتمل لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے .‏ .‏ .‏ لیکن کوئی بھی ان کے وجود کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔‏“‏ ذرا اس بیان کے مفہوم پر غور کریں۔‏

۱۴ ایوب سے پوچھے گئے یہوواہ کے اِن سوالوں کو ۰۰۰،‏۳ سال ہو چکے ہیں جن کے دوران سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے۔‏ اِسکے باوجود،‏ ماہرینِ‌طبیعیات یا ہم میں سے کوئی بھی شخص کششِ‌ثقل کی وضاحت نہیں کر سکتا جو زمین کو اُس کے صحیح مدار،‏ اُسکی صحیح حالت میں رکھتی ہے جسکی بدولت ہمارے لئے زندگی سے لطف اُٹھانا ممکن ہوتا ہے۔‏ (‏ایوب ۲۶:‏۷؛‏ یسعیاہ ۴۵:‏۱۸‏)‏ اس کا یہ مقصد نہیں کہ ہم سب کو کششِ‌ثقل کے سربستہ رازوں کو جاننے کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کے اس ایک پہلو پر غور کرنے سے اُسکی بابت ہمارے نقطۂ‌نظر پر گہرا اثر پڑنا چاہئے۔‏ کیا اس سے ذاتِ‌الہٰی کی حکمت اور علم کیلئے آپ کے مؤدبانہ احترام میں اضافہ ہوتا ہے اور کیا آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ہمیں اس کی مرضی کی بابت اَور زیادہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۱۵-‏۱۷.‏ (‏ا)‏ ایوب ۳۸:‏۸-‏۱۱ کس بات پر توجہ مرکوز کراتی ہیں اور اس سے کون سے سوال پیدا ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ سمندر اور کُرۂارض پر اس کی تقسیم کے علم کی بابت کیا تسلیم کِیا جانا چاہئے؟‏

۱۵ خالق کے سوالوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے:‏ ”‏کس نے سمندر کو دروازوں سے بند کِیا جب وہ ایسا پھوٹ نکلا گویا رحم سے۔‏ جب مَیں نے بادل کو اُسکا لباس بنایا اور گہری تاریکی کو اُسکا لپیٹنے کا کپڑا اور اُس کیلئے حد ٹھہرائی اور بینڈے اور کواڑ لگائے اور کہا یہانتک تُو آنا پر آگے نہیں اور یہاں تیری بپھرتی ہوئی موجیں رُک جائینگی؟‏“‏—‏ایوب ۳۸:‏۸-‏۱۱‏۔‏

۱۶ سمندروں کی حدود ٹھہرانے میں،‏ بحروبَر اور مدوجزر شامل ہیں۔‏ انسان کو اس کی تحقیق‌وتفتیش کرتے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟‏ ہزاروں سال اِس کام کی نذر ہو چکے ہیں اور پچھلی صدی میں تو اس کی بابت بہت زیادہ تحقیق‌وتفتیش کی گئی ہے۔‏ آپ شاید سوچیں کہ انکی بابت دریافت‌شُدہ معلومات کو تو اب تک بالکل مستند قرار دے دیا گیا ہوگا۔‏ تاہم،‏ اِس ۲۰۰۱ میں بھی اگر آپ عظیم لائبریریوں میں جا کر اس موضوع پر تحقیق‌وتفتیش کرتے ہیں یا انٹرنیٹ کے وسیع تحقیقی پروگرام سے اس کی بابت جدید حقائق حاصل کرتے ہیں تو آپ کیا پائینگے؟‏

۱۷ ایک مشہور کتاب میں یہ اعتراف کِیا گیا:‏ ”‏دُنیا کے برّاعظموں،‏ سمندروں اور خشکی کی تقسیم عرصۂ‌دراز سے سائنسی تحقیق اور نظریات کی بنیاد کا تعیّن کرنے میں مسئلہ بنی ہوئی ہے۔‏“‏ اس بیان کے بعد،‏ انسائیکلوپیڈیا چار ممکنہ تشریحات پیش کرتے ہوئے تسلیم کرتا ہے کہ یہ بھی ”‏محض مفروضے“‏ ہیں۔‏ شاید آپ جانتے ہیں کہ ایک مفروضہ ”‏ثبوت کی کمی کے باعث محض غیریقینی وضاحت کی دلالت کرتا ہے۔‏“‏

۱۸.‏ آپ ایوب ۳۸:‏۸-‏۱۱ سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟‏

۱۸ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ ایوب ۳۸:‏۸-‏۱۱ میں درج سوال برمحل ہیں؟‏ یقیناً ہمارے کُرۂارض کی ان تمام خصوصیات کو ترتیب دینے کا سہرا ہمیں حاصل نہیں ہوتا ہے۔‏ ہم نے چاند کو ایسے مقام پر نہیں رکھا کہ اسکی کشش مدوجزر کا سبب بنے جسکے باعث ہمارے ساحلوں پر پانی نہیں چڑھتا یا رہائشی علاقے تباہ نہیں ہوتے۔‏ آپ جانتے ہیں کہ حیرت‌انگیز کام کرنے والے خدا نے ایسا کِیا ہے۔‏—‏زبور ۳۳:‏۷؛‏ ۸۹:‏۹؛‏ امثال ۸:‏۲۹؛‏ اعمال ۴:‏۲۴؛‏ مکاشفہ ۱۴:‏۷‏۔‏

یہوواہ کو واجب عزت دیں

۱۹.‏ ایوب ۳۸:‏۱۲-‏۱۴ کے شاعرانہ اظہارات کن طبیعی حقائق پر ہماری توجہ دلاتے ہیں؟‏

۱۹ انسان زمینی گردش کے ذمہ‌دار بھی نہیں ہیں جس کا اشارہ ایوب ۳۸:‏۱۲-‏۱۴ سے ملتا ہے۔‏ اس گردش کی وجہ سے خوبصورت سحر ہوتی ہے۔‏ جیسے چکنی مٹی کے ایک لوندے پر کوئی نشان لگانے سے اُسکی صورت بدل جاتی ہے ویسے ہی طلوعِ‌آفتاب کیساتھ زمین پر کی ہر چیز صاف‌وشفاف دکھائی دینے لگتی ہے۔‏ زمین کی حرکت پر تھوڑی سی توجہ دینے سے بھی ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ زمین زیادہ تیزی سے نہیں گھومتی جو تباہ‌کُن ہو سکتی ہے اور ہم یہ بات سمجھتے بھی ہیں۔‏ اسکی گردش اتنی آہستہ بھی نہیں ہوتی کہ دنوں اور راتوں کے طویل ہو جانے سے گرمی اور سردی میں اتنی شدت آ جائے کہ انسانی زندگی ناممکن ہو جائے۔‏ دیانتدارانہ طور پر،‏ ہمیں اِس بات سے خوش ہونا چاہئے کہ زمینی گردش کی رفتار کا تعیّن انسانوں کی بجائے خدا نے کِیا ہے۔‏—‏زبور ۱۴۸:‏۱-‏۵‏۔‏

۲۰.‏ ایوب ۳۸:‏۱۶،‏ ۱۸ میں اُٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کیا جواب دینگے؟‏

۲۰ اب ذرا تصور کریں کہ خدا آپ سے مزید سوال پوچھتا ہے:‏ ”‏کیا تُو سمندر کے سوتوں میں داخل ہؤا ہے؟‏ یا گہراؤ کی تھاہ میں چلا ہے؟‏“‏ کوئی بحری جغرافیہ‌دان بھی جامع جواب نہیں دے سکتا!‏ ”‏کیا تُو نے زمین کی چوڑائی کو سمجھ لیا ہے؟‏ اگر تُو یہ سب جانتا ہے تو بتا۔‏“‏ (‏ایوب ۳۸:‏۱۶،‏ ۱۸‏)‏ کیا آپ نے ساری زمین یا اسکے بیشتر خطوں کی سیروسیاحت کر لی ہے؟‏ اپنی زمین کے خوبصورت مقامات اور عجائب پر غور کرنے کے لئے ہمیں کتنی طویل زندگی کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‏ نیز یہ زندگی کتنی شاندار ہونگی!‏

۲۱.‏ (‏ا)‏ ایوب ۳۸:‏۱۹ میں پائے جانے والے سوال کون سے سائنسی نظریات پر دھیان دینے کا باعث بن سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ روشنی کی حقیقت کو ہمیں کیا کرنے کی تحریک دینی چاہئے؟‏

۲۱ ایوب ۳۸:‏۱۹ میں درج اہم سوالوں پر بھی غور کریں:‏ ”‏نور کے مسکن کا راستہ کہاں ہے۔‏ رہی تاریکی۔‏ سو اُسکا مکان کہاں ہے؟‏“‏ شاید آپ جانتے ہوں کہ عرصۂ‌دراز سے یہ نظریہ پایا جاتا تھا کہ روشنی موجوں یعنی تالاب میں دکھائی دینے والی چمکدار لہروں کی طرح سفر کرتی ہے۔‏ اس کے بعد ۱۹۰۵ میں البرٹ آئن‌سٹائن نے نظریہ پیش کِیا کہ روشنی توانائی کے ذرّوں یا ضیائیوں کی صورت میں کام کرتی ہے۔‏ کیا اس سے معاملات کی وضاحت ہو گئی؟‏ ایک حالیہ انسائیکلوپیڈیا سوال اُٹھاتا ہے:‏ ”‏کیا روشنی ایک موج ہے یا ایک ذرّہ؟‏“‏ یہ خود ہی جواب دیتا ہے:‏ ”‏بظاہر [‏روشنی]‏ دونوں نہیں ہو سکتی کیونکہ دونوں [‏امواج اور ذرّات]‏ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ روشنی ذرّہ یا موج نہیں ہے۔‏“‏ اگرچہ اس سلسلے میں کوئی انسان خدا کے کاموں کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا توبھی سورج کی روشنی سے ہمیں (‏بِلاواسطہ یا بالواسطہ)‏ حرارت پہنچتی رہتی ہے۔‏ پودوں کے روشنی کو جذب کرنے کی بدولت ہم آکسیجن اور خوراک سے استفادہ کرتے ہیں۔‏ ہم پڑھنے لکھنے،‏ اپنے عزیزوں کے چہروں کو دیکھنے،‏ غروبِ‌آفتاب کا نظارہ کرنے کے علاوہ بہت سے کام کر سکتے ہیں۔‏ ایسا کرتے ہوئے کیا ہمیں خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے؟‏—‏زبور ۱۰۴:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱۴۵:‏۵؛‏ یسعیاہ ۴۵:‏۷؛‏ یرمیاہ ۳۱:‏۳۵‏۔‏

۲۲.‏ زمانۂ‌قدیم کے داؤد نے خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کیلئے کیسا جوابی‌عمل دکھایا تھا؟‏

۲۲ کیا یہوواہ کے حیرت‌انگیز کاموں پر ہمارے غوروخوض کرنے کا مقصد محض متحیر ہو کر خوف سے مغلوب یا اس کی اثرآفرینی سے حواس‌باختہ ہو جانا ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ زمانۂ‌قدیم کے زبورنویس نے تسلیم کِیا کہ خدا کے تمام کاموں کو سمجھنا اور ان پر تبصرہ کرنا ناممکن ہے۔‏ داؤد نے لکھا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ میرے خدا!‏ جو عجیب کام تُو نے کئے .‏ .‏ .‏ اگر مَیں اُنکا ذکر اور بیان کرنا چاہوں۔‏ تو وہ شمار سے باہر ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۴۰:‏۵‏)‏ تاہم،‏ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ان شاندار کاموں کی بابت خاموش رہیگا۔‏ داؤد نے زبور ۹:‏۱ میں بیان‌کردہ اپنے عزم سے اسے ثابت کِیا:‏ ”‏مَیں اپنے پورے دل سے [‏یہوواہ]‏ کی شکرگذاری کرونگا۔‏ مَیں تیرے سب عجیب کاموں کا بیان کرونگا۔‏“‏

۲۳.‏ خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کی بابت آپ کا کیا ردِعمل ہے اور آپ دوسروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۲۳ کیا ہمیں بھی اسی طرح سے تحریک نہیں ملنی چاہئے؟‏ کیا خدا کے شاندار کاموں پر ہماری حیرت کو ہمیں اسکی ذات،‏ اسکے ماضی کے کاموں اور مستقبل کے کاموں کا پرچار کرنے کی تحریک نہیں دینی چاہئے؟‏ اِسکا جواب بالکل واضح ہے کہ ہمیں ”‏قوموں میں اُسکے جلال کا۔‏ سب لوگوں میں اُسکے عجائب کا بیان“‏ کرنا چاہئے۔‏ (‏زبور ۹۶:‏۳-‏۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہم نے اس کی بابت جوکچھ سیکھا ہے اُسے دوسروں کو بتانے سے ہم خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کیلئے اپنی انکسارانہ قدردانی کا اظہار کر سکتے ہیں۔‏ اگر انہوں نے خالق کو رد کر دینے والے معاشرے میں بھی پرورش پائی ہو توبھی ہمارے مثبت،‏ معلوماتی اظہارات خدا کو پہچاننے کیلئے انہیں بیدار کر سکتے ہیں۔‏ اس سے بھی بڑھکر،‏ یہ انہیں حیرت‌انگیز کام کرنے اور ”‏سب چیزیں پیدا“‏ کرنے والے یہوواہ کی بابت سیکھنے اور اس کی خدمت کرنے کی تحریک دے سکتا ہے۔‏—‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• ایوب ۳۷:‏۱۴ میں درج نصیحت آپ کو خدا کے کن کاموں کی بابت سوچنے کی تحریک دیتی ہے؟‏

‏• ایوب ۳۷ اور ۳۸ ابواب میں کونسی ایسی باتیں اُجاگر کی گئی ہیں جن کی سائنس پوری وضاحت نہیں کر سکتی؟‏

‏• آپ خدا کے حیرت‌انگیز کاموں کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں اور یہ آپ کو کیا کرنے کی تحریک دیتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

کس نے سمندر کی حدیں ٹھہرائیں تاکہ وہ اپنی جگہ پر قائم رہے؟‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

کس نے خدا کی خلق‌کردہ زمین کے تمام خوبصورت مقامات کی سیر کی ہے؟‏