ارواحپرستی اور حقیقی روحانیت کی تلاش
ارواحپرستی اور حقیقی روحانیت کی تلاش
ہم سب کی روحانی اور جسمانی ضروریات ہیں۔ اسی لئے بہتیرے لوگ اس قسم کے سوال پوچھتے ہیں، زندگی کا مقصد کیا ہے نیز لوگ دُکھ میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟ بہتیرے مخلص اشخاص ان سوالات کے علاوہ دیگر کئی معاملات کی بابت معلومات حاصل کرنے کی غرض سے عاملوں کے پاس جاکر مُردوں کی روحوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس عمل کو ارواحپرستی کہا جاتا ہے۔
ارواحپرست تقریباً ہر مُلک میں نہ صرف گرجاگھروں میں بلکہ تمام فرقوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، برازیل میں تخمیناً ۰۰۰،۰۰،۴۰ ارواحپرست ۱۹ ویں صدی کے ایک فرانسیسی فلسفی اور مُعلم ہپولیٹ لیون ڈینیزرڈ ریوئل کی وضعکردہ تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں جس نے ایلن کارڈک کے نام سے تصانیف تحریر کیں۔ کارڈک نے پہلےپہل ۱۸۵۴ میں ارواحی فلسفے میں دلچسپی لینا شروع کی۔ بعدازاں اس نے مختلف جگہوں پر عاملوں سے سوالات کئے اور انکے جوابات کو دی بُک آف سپرٹس میں قلمبند کِیا جو ۱۸۵۷ میں شائع ہوئی۔ اُسکی دو اَور مقبول کتابیں دی میڈیمز بُک اور دی گوسپل اکارڈنگ ٹو سپرٹزم ہیں۔
ارواحپرستی کو ووڈو، جادو، افسونگری یا شیطانپرستی جیسے مذہبی کاموں سے منسلک کِیا جاتا ہے۔ تاہم، ایلن کارڈک کی تعلیمات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اُنکے اعتقادات فرق ہیں۔ انکی کتابوں میں اکثر بائبل اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں اور وہ یسوع کو ”تمام انسانیت کا رہبر اور نمونہ“ بھی کہتے ہیں۔ اُنکے نزدیک یسوع کی تعلیمات ”الہٰی شریعت کا جوہر ہیں۔“ ایلن کارڈک کے مطابق ارواحی تصانیف انسان کیلئے خدائی شریعت کے انکشاف کا تیسرا ذریعہ ہیں جبکہ موسیٰ اور یسوع کی تعلیمات پہلے دو ذریعے ہیں۔
ارواحپرستی بیشتر لوگوں کو متاثر کرتی ہے کیونکہ یہ پڑوسی سے محبت اور سخاوت کے کاموں پر بہت زیادہ زور دیتی ہے۔ ایک ارواحپرست کا اعتقاد ہے: ”سخاوت کے بغیر نجات ناممکن ہے۔“ بہتیرے ارواحپرست فلاحی کاموں میں بڑھچڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور سکول، ہسپتال اور دیگر اِدارے قائم کرتے ہیں۔ ایسے کام قابلِتعریف ہیں۔ تاہم، ارواحپرستوں کے اعتقادات کا بائبل میں درج یسوع کی تعلیمات کیساتھ کیا تعلق ہے؟ دو مثالوں پر غور کریں: مُردوں کیلئے اُمید اور دُکھتکلیف کی وجہ۔
مُردوں کیلئے کیا اُمید ہے؟
بہتیرے ارواحپرست تناسخ پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ ایک ارواحی کتاب یوں بیان کرتی ہے: ”صرف عقیدۂتناسخ ہی الہٰی انصاف کی بابت ہمارے نظریے پر پورا اُترتا ہے کیونکہ صرف یہی عقیدہ مستقبل کی وضاحت کرنے کے علاوہ ہماری اُمید کو مضبوط کر سکتا ہے۔“ ارواحپرست توجیہ کرتے ہیں کہ جیسے تِتلی اپنے کویا سے نکلتی ہے اسی طرح موت کے وقت جان یا ”تناسخشُدہ روح“ بدن سے نکل جاتی ہے۔ اُن کے خیال میں یہ روحیں بعدازاں اپنی پہلی زندگی کے گناہوں کی بخشش کیلئے بطور انسان دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ لیکن پہلی زندگی کے ان گناہوں کو یاد نہیں رکھا جاتا۔ دی گوسپل اکارڈنگ ٹو سپرٹزم بیان کرتی ہے، ”خدا نے یہ مناسب جانا کہ ماضی پر پردہ ڈال دیا جائے۔“
ایلن کارڈک نے لکھا کہ ”تناسخ سے انکار یسوع کی تعلیم سے انکار کے مترادف ہوگا۔“ تاہم، یسوع نے لفظ ”تناسخ“ نہ تو کبھی استعمال کِیا اور نہ ہی ایسے نظریے کا کبھی ذکر کِیا تھا۔ (صفحہ ۲۲ پر ”کیا بائبل تناسخ کی تعلیم دیتی ہے؟“ پڑھیں۔) اسکے برعکس، یسوع نے مُردوں کی قیامت کی تعلیم دی۔ مرقس ۵:۲۲-۲۴،۳۵-۴۳؛ لوقا ۷:۱۱-۱۵؛ یوحنا ۱۱:۱-۴۴) آئیں ان غیرمعمولی واقعات میں سے ایک پر غورکریں اور دیکھیں کہ ”قیامت“ سے یسوع کی کیا مُراد تھی۔
اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے تین اشخاص—نائین کی بیوہ کے بیٹے، عبادتخانہ کے سردار کی بیٹی اور اپنے عزیز دوست لعزر—کو زندہ کِیا تھا۔ (لعزر کی قیامت
یسوع کو خبر ملی کہ اسکا دوست لعزر بیمار ہے۔ دو دن بعد، اس نے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے لیکن میں اُسے جگانے جاتا ہوں۔“ شاگرد یسوع کا مطلب نہ سمجھ سکے، لہٰذا اس نے انہیں واضح الفاظ میں بتایا کہ ”لعزر مر گیا ہے۔“ آخرکار جب یسوع لعزر کی قبر پر آیا تو اُسے مرے ہوئے چار دن ہو چکے تھے۔ تاہم یسوع نے حکم دیا کہ پتھر کو قبر سے ہٹایا جائے۔ پھر اس نے بلند آواز سے کہا: ”اَے لعزؔر نکل آ“ اس پر ایک حیرتانگیز واقعہ رونما ہوا۔ ”جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُسکا چہرہ رومال سے لپٹا ہؤا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔“—یوحنا ۱۱:۵، ۶، ۱۱-۱۴، ۴۳، ۴۴۔
واضح طور پر یہ تناسخ نہیں تھا۔ یسوع نے کہا کہ مُردہ لعزر سو رہا تھا یعنی بالکل بےخبر تھا۔ بائبل کے مطابق ’اُسکے منصوبے فنا ہو چکے تھے۔‘ اسکی ”یاد جاتی رہی“ تھی۔ (زبور ۱۴۶:۴؛ واعظ ۹:۵) قیامتیافتہ لعزر تناسخشُدہ روح والا کوئی فرق شخص نہیں تھا۔ اُسکی شخصیت، عمر اور یادداشت بالکل پہلے جیسی ہی تھی۔ اُس نے اپنی زندگی کا آغاز وہیں سے کِیا جہاں اُس نے ناگہانی طور پر اُسے منقطع کِیا تھا اور وہ اپنے اُنہی عزیزوں سے پھر ملا جو اسکی موت کا ماتم کر رہے تھے۔—یوحنا ۱۲:۱، ۲۔
بعدازاں، لعزر دوبارہ مر گیا تھا۔ لہٰذا اُسکی قیامت نے کونسا مقصد سرانجام دیا؟ یسوع کا لعزر سمیت دیگر مُردوں کو قیامت بخشنا خدا کے اس وعدے پر ہمارے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے کہ اُسکے مُتوَفّی وفادار خادم مقررہ وقت پر زندہ کر دئے جائینگے۔ یسوع کے یہ معجزات اُسکے اس بیان کو مزید مؤثر بنا دیتے ہیں: ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہیگا۔“—یوحنا ۱۱:۲۵۔
مستقبل کی اس قیامت کی بابت یسوع نے فرمایا: ”وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں [میری] آواز سنکر نکلینگے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔“ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹) مُردوں کی قیامت بالکل لعزر کی طرح ہوگی۔ یہ زندہ روحوں کا قیامتیافتہ ابدان سے ملاپ نہیں ہوگا جو فنا ہو چکے یا شاید دیگر جانداروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ مُردوں کو زندہ کرنا زمینوآسمان کے خالق کے اختیار میں ہے کیونکہ وہ لامحدود حکمت اور طاقت کا مالک ہے۔
یسوع کی تعلیم کے مطابق کیا قیامت کا عقیدہ انسانوں کیلئے خدا کی گہری محبت کا ثبوت نہیں؟ تاہم متذکرہبالا دوسرے سوال کی بابت کیا ہے؟
دُکھتکلیف کا سبب کیا ہے؟
احمق، ناتجربہکار اور بدکردار لوگوں کے کام زیادہتر دُکھتکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم، ایسے المناک واقعات کی بابت کیا ہے جن کیلئے لوگوں کو براہِراست قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا؟ مثلاً، قدرتی آفات اور حادثات کیوں رُونما ہوتے ہیں؟ بعض بچوں میں پیدائشی نقص کیوں ہوتے ہیں؟ ایلن کارڈک ایسی چیزوں کو سزا سمجھتا تھا۔ اُس نے لکھا: ”اگر ہمیں سزا ملتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ضرور کوئی غلطی کی ہے۔ اگر وہ غلطی موجودہ زندگی میں سرزد نہیں ہوئی تو پھر اسکا تعلق یقیناً ماضی سے ہوگا۔“ ارواحپرستوں کو اس طرح دُعا کرنا سکھایا جاتا ہے: ”اَے خداوند تُو دی گوسپل اکارڈنگ ٹو سپرٹزم۔
منصف ہے۔ جو تکلیف تُو نے مجھ پر نازل کی مَیں ضرور اُسکا مستحق ہوں گا . . . مَیں اسے اپنے ماضی کے کفارے اور اپنے ایمان کی آزمائش اور تیری پاک مرضی کی اطاعت کیلئے قبول کرتا ہوں۔“—کِیا یسوع نے ایسی تعلیم دی تھی؟ ہرگز نہیں۔ یسوع بائبل کے اس بیان سے بخوبی واقف تھا: ”اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔“ (واعظ ۹:۱۱) وہ جانتا تھا کہ بعضاوقات حادثات واقع ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ گناہوں کی سزا ہی ہوں۔
یسوع کی زندگی کے اس واقعہ پر غور کریں: ”[یسوع] نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔ اور اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اَے ربی! کس نے گُناہ کِیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہؤا۔ اس شخص نے یا اس کے ماں باپ نے؟“ یسوع کا جواب نہایت فہمبخش تھا: ”نہ اس نے گُناہ کِیا تھا نہ اس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اس لئے ہؤا کہ خدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں۔ . . . یہ کہہ کر اُس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر۔ اُس سے کہا جا شیلوؔخ . . . کے حوض میں دھو لے۔ پس اُس نے جا کر دھویا اور بینا ہو کر واپس آیا۔“—یوحنا ۹:۱-۳، ۶، ۷۔
یسوع کے مطابق وہ شخص اور اس کے والدین اس کے پیدائشی اندھےپن کے ذمہدار نہیں تھے۔ لہٰذا یسوع نے اس خیال کی حمایت نہیں کی تھی کہ اس شخص کو اُسکی سابقہ زندگی کے گناہوں کی سزا ملی تھی۔ تاہم، یسوع ضرور جانتا تھا کہ تمام انسانوں کو گناہ ورثے میں ملا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی پیدائش سے پہلے کے گناہوں کا ورثہ پانے کی بجائے آدم سے گناہ کا ورثہ پاتے ہیں۔ آدم کے گناہ کی وجہ سے تمام انسان جسمانی طور پر ناکامل اور بیماری اور موت کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ (ایوب ۱۴:۴؛ زبور ۵۱:۵؛ رومیوں ۵:۱۲؛ ۹:۱۱) دراصل، یسوع کو اسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کہا کہ یسوع ”خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔“—یوحنا ۱:۲۹۔ *
غور کریں کہ یسوع نے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ خدا نے جانبوجھ کر اس شخص کو اندھا پیدا کِیا تھا تاکہ کسی دن یسوع آ کر اُسے شفا دے۔ یہ کتنی سنگدلی اور بیرحمی والی بات ہوتی! کیا اس سے خدا کی تعریف ہوتی؟ ہرگز نہیں، بلکہ اندھے شخص کی معجزانہ شفا ’خدا کے کاموں کو ظاہر کرنے‘ کا باعث بنی تھی۔ یسوع کے دیگر شفائیہ کاموں کی طرح، اس نے بھی دُکھی انسانیت کیلئے یہوواہ کی حقیقی محبت کو ظاہر کرنے کے علاوہ اُسکے مقررہ وقت پر تمام انسانی بیماریوں اور تکالیف کو ختم کرنے کے اسکے وعدہ کی تصدیق کی تھی۔—کیا یہ جاننا تسلی کا باعث نہیں کہ دُکھتکلیف کا سبب بننے کی بجائے ہمارا آسمانی باپ ”اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں“ دیتا ہے؟ (متی ۷:۱۱) جب اندھوں کی آنکھیں وا کی جائینگی، بہروں کے کان کھولے جائینگے، لنگڑے چلینگے اور چوکڑیاں بھرینگے تو خدائے بزرگوبرتر کا کیا ہی جلال ظاہر ہوگا!—یسعیاہ ۳۵:۵، ۶۔
ہماری روحانی ضروریات کی تکمیل
یسوع نے فرمایا: ”آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔“ (متی ۴:۴) جیہاں، جب ہم خدا کا کلام، بائبل پڑھتے اور اسکے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں تو ہماری روحانی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ روحوں سے رابطہ کرانے والے لوگوں کے پاس جانا درحقیقت ہماری روحانی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایلن کارڈک کے مطابق خدائی شریعت کے انکشاف کے پہلے ذریعے میں اِن کاموں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔—استثنا ۱۸:۱۰-۱۳۔
ارواحپرستوں سمیت بہتیرے لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا اعلیٰوبالا، ابدیوتمام، شفیقومہربان اور انصافپسند ہستی ہے۔ لیکن بائبل اس سے بھی زیادہ بیان کرتی ہے۔ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ اس کا ذاتی نام یہوواہ ہے جس کی ہمیں اُسی طرح تعظیم کرنی چاہئے جیسے یسوع نے کی تھی۔ (متی ۶:۹؛ یوحنا ۱۷:۶) یہ خدا کی تصویرکشی ایک حقیقی ہستی کے طور پر کرتی ہے جس کیساتھ انسان ایک قریبی رشتے سے لطف اُٹھا سکتے ہیں۔ (رومیوں ۸:۳۸، ۳۹) بائبل پڑھنے سے ہم سیکھتے ہیں کہ خدا رحیم ہے اور اُس نے ”ہمارے گُناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا۔“ (زبور ۱۰۳:۱۰) اپنے تحریری کلام کے ذریعے، حاکمِاعلیٰ یہوواہ اپنی محبت، حاکمیت اور معقولیت کو آشکارا کرتا ہے۔ صرف وہی فرمانبردار انسانوں کی راہنمائی اور حفاظت کرتا ہے۔ یہوواہ اور اسکے بیٹے، یسوع مسیح کو جاننے کا مطلب ”ہمیشہ کی زندگی ہے۔“—یوحنا ۱۷:۳۔
بائبل ہمیں خدا کے مقاصد کو جاننے اور اسے خوش کرنے کے سلسلے میں ضروری اور جامع معلومات فراہم کرتی ہے۔ بائبل کا تفصیلی جائزہ ہمارے سوالوں کے اطمینانبخش اور حقیقی جواب فراہم کرتا ہے۔ بائبل صحیح اور غلط میں امتیاز کے سلسلے میں راہنمائی کے علاوہ ایک پُختہ اُمید بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ مستقبل قریب میں، خدا ”اُن [نسلِانسانی] کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“ (مکاشفہ ۲۱:۳، ۴) یسوع مسیح کے وسیلے سے یہوواہ انسان کو موروثی گناہ اور ناکاملیت سے آزاد کرائے گا اور فرمانبردار انسان فردوسی زمین پر ابدی زندگی حاصل کریں گے۔ اُس وقت، ان کی جسمانی اور روحانی ضروریات مکمل طور پر پوری کی جائیں گی۔—زبور ۳۷:۱۰، ۱۱، ۲۹؛ امثال ۲:۲۱، ۲۲؛ متی ۵:۵۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 19 گناہ اور موت کی ابتدا کے موضوع پر یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے باب ۶ کا مطالعہ کریں۔
[صفحہ ۲۲ پر بکس]
کیا بائبل تناسخ کی تعلیم دیتی ہے؟
کیا بائبل حوالہجات عقیدۂتناسخ کی حمایت کرتے ہیں؟ ان چند صحائف پر غور کریں جنہیں اس عقیدے پر ایمان رکھنے والے استعمال کرتے ہیں:
”سب نبیوں اور توریت نے یوؔحنا تک نبوّت کی . . . اؔیلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔“—متی ۱۱:۱۳، ۱۴۔
کیا یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ایلیاہ کے روپ میں دوسرا جنم لیا تھا؟ جب اس سے پوچھا گیا کہ ”کیا تُو ایلیاؔہ ہے؟“ تو یوحنا نے صاف جواب دیا: ”مَیں نہیں ہوں۔“ (یوحنا ۱:۲۱) تاہم یہ پہلے سے بیان کر دیا گیا تھا کہ یوحنا ”ایلیاؔہ کی روح اور قوت میں“ مسیحا کے آگے آگے چلے گا۔ (لوقا ۱:۱۷؛ ملاکی ۴:۵، ۶) باالفاظِدیگر، یوحنا بپتسمہ دینے والے کو ایلیاہ جیسا کام کرنے کے مفہوم میں ایلیاہ کہا گیا تھا۔
”جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔“—یوحنا ۳:۳، ۷۔
بعدازاں، ایک رسول نے لکھا: ”ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے خدا اور باپ کی حمد ہو جس نے یسوؔع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ اُمید کے لئے نئے سرے سے پیدا کِیا۔“ (۱-پطرس ۱:۳، ۴؛ یوحنا ۱:۱۲، ۱۳) پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ یسوع کی نئے سرے سے پیدا ہونے سے مُراد یہ تھی کہ مستقبل میں تناسخ کی بجائے اُسکے پیروکاروں کی زندگی میں ہی ایک روحانی تجربہ پیش آئے گا۔
”آدمی مر کر امر ہو جاتا ہے: اپنی زمینی زندگی کے ختم ہونے کے بعد مَیں اپنی واپسی کا منتظر رہونگا۔“—دی گوسپل آکارڈنگ ٹو سپرٹزم میں درج ایوب ۱۴:۱۴ کا ”یونانی ترجمہ۔“
ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن اس آیت کو یوں پیش کرتی ہے: ”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟ مَیں اپنی جنگ کے کُل ایّام میں منتظر رہتا جب تک میرا چھٹکارا نہ ہوتا۔“ اس آیت کے سیاقوسباق کو پڑھیں۔ آپ دیکھینگے کہ مُردے قبر میں اپنے ”چھٹکارے“ کے منتظر ہیں۔ (۱۳ آیت) تاہم، اس انتظار کے دوران انکا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ”لیکن انسان مر کر پڑا رہتا ہے بلکہ انسان دم چھوڑ دیتا ہے اور پھر وہ کہاں رہا؟“—ایوب ۱۴:۱۰۔
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
قیامت کی اُمید انفرادی طور پر ہم سب میں خدا کی گہری دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
خدا تمام انسانی تکلیف کو ختم کر دیگا