مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدائےمبارک کیساتھ خوش رہیں

خدائےمبارک کیساتھ خوش رہیں

خدائےمبارک کیساتھ خوش رہیں

‏”‏غرض اَے بھائیو!‏ خوش رہو۔‏ .‏ .‏ .‏ تو خدا محبت اور میل‌ملاپ کا چشمہ تمہارے ساتھ ہوگا۔‏“‏ —‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ بہتیرے لوگ زندگی سے خوش کیوں نہیں ہوتے؟‏ (‏ب)‏ خوشی کیا ہے اور ہم اسے کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

ان تاریک ایّام میں،‏ بہتیرے لوگ زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔‏ جب ان پر یا اُن کے کسی عزیز پر کوئی مصیبت برپا ہوتی ہے تو وہ زمانۂ‌قدیم کے ایوب کی مانند محسوس کر سکتے ہیں جس نے کہا:‏ ”‏انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔‏ تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱‏)‏ مسیحی بھی ان ”‏بُرے دنوں“‏ کے دباؤ اور تکالیف سے محفوظ نہیں ہیں۔‏ لہٰذا،‏ بعض‌اوقات یہوواہ کے وفادار خادموں کا حوصلہ‌شکن ہو جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏۔‏

۲ تاہم،‏ مسیحی آزمائش کے باوجود،‏ خوش رہ سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۵:‏۴۰،‏ ۴۱‏)‏ اس بات کو سمجھنے کیلئے کہ یہ کیسے ممکن ہے سب سے پہلے ذرا خوشی کے مطلب پر غور کریں۔‏ خوشی کی تشریح ”‏کسی اچھی چیز کے حصول یا اسکی توقع سے پیدا ہونے والا جذبہ ہے۔‏“‏ * پس،‏ اگر ہم موجودہ برکات کے علاوہ ان خوشیوں پر غوروخوض کرتے ہیں جو ہمیں خدا کی نئی دُنیا میں حاصل ہونگی تو ہم شادمان ہو سکتے ہیں۔‏

۳.‏ کس مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر ایک کے پاس خوش ہونے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے؟‏

۳ ہر شخص کو کوئی نہ کوئی برکت تو ضرور ملی ہے جس کے لئے اُسے شکرگزار ہونا چاہئے۔‏ شاید کسی خاندان کا سربراہ اپنی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔‏ لہٰذا،‏ اُس کا فکرمند ہونا فطرتی امر ہے۔‏ وہ اپنے گھرانے کی خبرگیری کرنا چاہتا ہے۔‏ تاہم،‏ اگر وہ تندرست‌وتوانا ہے تو وہ اس کے لئے شکرگزار ہو سکتا ہے۔‏ اگر اُسے ملازمت مل جاتی ہے تو وہ محنت کے ساتھ کام کرنے کے لائق ہوگا۔‏ اس کے برعکس،‏ شاید ایک مسیحی خاتون ایسے مرض میں مبتلا ہے جس نے اُسے نہایت کمزور کر دیا ہے۔‏ تاہم،‏ وہ پُرمحبت دوستوں اور خاندانی افراد کی حمایت کیلئے شکرگزار ہو سکتی ہے جو عظمت اور جرأتمندی کیساتھ اس بیماری کا مقابلہ کرنے میں اُسکی مدد کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ تمام سچے مسیحی،‏ اپنے حالات سے قطع‌نظر ”‏خدایِ‌مبارک،‏“‏ یہوواہ اور ”‏مبارک اور واحد حاکم،‏“‏ یسوع مسیح کو جاننے کے اپنے شرف سے شادمان ہو سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۱؛‏ ۶:‏۱۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح سب سے زیادہ خوش رہنے والے ہیں۔‏ انہوں نے اس حقیقت کے باوجود اپنی خوشی برقرار رکھی ہے کہ زمین کی حالتیں یہوواہ کے ابتدائی مقصد اور ارادے کے بالکل برعکس ہیں۔‏ انکا نمونہ ہمیں اپنی خوشی برقرار رکھنے کے سلسلے میں بہت کچھ سکھا سکتا ہے۔‏

اُنہوں نے اپنی خوشی کو کبھی کم نہیں ہونے دیا

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے پہلے انسانوں کی بغاوت پر کیسا ردِعمل دکھایا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے کس طرح نوعِ‌انسان کے لئے مثبت رُجحان برقرار رکھا؟‏

۴ باغِ‌عدن میں،‏ آدم اور حوا بڑے صحتمند تھے اور انکے ذہن بھی کامل تھے۔‏ انہیں پھلدار کام کرنا تھا اور اسے انجام دینے کے لئے ماحول بھی سازگار تھا۔‏ سب سے بڑھکر،‏ انہیں یہوواہ کے ساتھ باقاعدہ گفتگو کرنے کا شرف حاصل تھا۔‏ اُن کے لئے خدا کا مقصد تھا کہ وہ خوش‌آئند مستقبل سے لطف‌اندوز ہوں۔‏ لیکن ہمارے پہلے والدین ان تمام بخششوں سے مطمئن نہیں تھے؛‏ انہوں نے ”‏نیک‌وبد کی پہچان کے درخت“‏ سے ممنوعہ پھل چرا لیا۔‏ یہ نافرمانی کا کام ہمارے یعنی اُنکی اولاد کے تجربے میں آنے والے رنج‌والم کی بنیاد ہے۔‏—‏پیدایش ۲:‏۱۵-‏۱۷؛‏ ۳:‏۶؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

۵ تاہم،‏ یہوواہ نے آدم اور حوا کے احسان‌فراموش رویے کو اپنی خوشی چھیننے کی اجازت نہ دی۔‏ اُسے یقین تھا کہ انکی اولاد میں سے بعض کے دل اُسکی خدمت کرنے کی ضرور تحریک پائینگے۔‏ درحقیقت،‏ وہ اس قدر پُراعتماد تھا کہ اُس نے آدم اور حوا کے پہلے بچے کی پیدائش سے بھی قبل اُن کی فرمانبردار اولاد کو نجات دینے کے مقصد کا اعلان کر دیا تھا!‏ (‏پیدایش ۱:‏۳۱؛‏ ۳:‏۱۵‏)‏ آئندہ صدیوں کے دوران نوعِ‌انسان کی اکثریت آدم اور حوا کے نقشِ‌قدم پر چلی لیکن یہوواہ نے وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی نافرمانی کی وجہ سے انسانی خاندان سے مُنہ نہیں موڑا۔‏ اس کے برعکس،‏ اس نے ایسے مردوں اور عورتوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جنہوں نے اُس سے محبت کی بِنا پر ’‏اُسکا دل شاد‘‏ کرنے کی حقیقی کوشش کی تھی۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱؛‏ عبرانیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ کن عوامل نے یسوع کی خوش رہنے میں مدد کی؟‏

۶ یسوع کی بابت کیا ہے؟‏ اُس نے اپنی خوشی کیسے برقرار رکھی؟‏ آسمان میں زورآور روحانی مخلوق کے طور پر،‏ یسوع کے پاس زمین پر مردوزن کے کاموں کا مشاہدہ کرنے کا پورا موقع تھا۔‏ یسوع نے اُنکی ناکاملیتوں کے باوجود ان سے محبت رکھی۔‏ (‏امثال ۸:‏۳۱‏)‏ بعدازاں،‏ جب وہ زمین پر آکر انسانوں کے ”‏درمیان رہا“‏ تو اس وقت بھی نوعِ‌انسان کی بابت اُس کا نقطۂ‌نظر تبدیل نہیں ہوا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱:‏۱۴‏)‏ کس بات نے خدا کے کامل بیٹے کو گنہگار انسانی خاندان کی بابت ایسا مثبت نظریہ رکھنے کے قابل بنایا؟‏

۷ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یسوع خود سے اور دوسروں سے معقول توقعات رکھتا تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ وہ دُنیا کا مذہب بدلنے کے لئے نہیں آیا۔‏ (‏متی ۱۰:‏۳۲-‏۳۹‏)‏ پس جب کوئی ایک شخص بھی بادشاہتی پیغام قبول کرتا تھا تو اُسے بہت خوشی ہوتی تھی۔‏ اگرچہ اس کے شاگردوں کا طرزِعمل اور رُجحان بعض‌اوقات اطمینان‌بخش نہیں ہوتا تھا توبھی یسوع جانتا تھا کہ وہ دل سے خدا کی مرضی پوری کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے اس نے ان سے محبت رکھی۔‏ (‏لوقا ۹:‏۴۶؛‏ ۲۲:‏۲۴،‏ ۲۸-‏۳۲،‏ ۶۰-‏۶۲‏)‏ واضح طور پر،‏ یسوع نے اپنے آسمانی باپ سے دُعا میں اس وقت تک اپنے شاگردوں کی مثبت روش کی بابت یوں کہا:‏ ”‏انہوں نے تیرے کلام پر عمل کِیا ہے۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۶‏۔‏

۸.‏ خوشی برقرار رکھنے کے سلسلے میں یہوواہ اور یسوع کی نقل کرنے کے چند طریقوں کی نشاندہی کریں۔‏

۸ بِلاشُبہ،‏ ہم سب اس لحاظ سے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے قائم‌کردہ نمونے پر غور کرنے سے فائدہ اُٹھائینگے۔‏ جب حالات‌وواقعات ہماری توقع کے مطابق رُونما نہیں ہوتے تو کیا ہم اُس وقت شاید حد سے زیادہ پریشان نہ ہونے سے یہوواہ کی نقل کر سکتے ہیں؟‏ کیا ہم اپنے موجودہ حالات کی بابت مثبت نظریہ رکھنے کے علاوہ خود سے اور دوسروں سے معقول توقعات وابستہ کرنے کے سلسلے میں پوری طرح یسوع کے نقشِ‌قدم پر چل سکتے ہیں؟‏ آئیں دیکھیں کہ ان میں سے بعض اصول تمام سرگرم مسیحیوں کے دل‌پسند حلقے—‏میدانی خدمتگزاری—‏میں عملی طور پر کیسے عائد ہوتے ہیں۔‏

خدمتگزاری کی بابت مثبت نظریہ رکھیں

۹.‏ یرمیاہ کی خوشی کس طرح بحال ہوئی اور اس کا نمونہ ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

۹ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُسکی خدمت سے خوشی حاصل کریں۔‏ ہماری خوشی کا انحصار حاصل ہونے والے نتائج پر نہیں ہونا چاہئے۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۱۷،‏ ۲۰‏)‏ یرمیاہ نبی نے بےحسی کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں میں سالہاسال تک کام کِیا۔‏ جب اُس نے لوگوں کے منفی ردِعمل پر دھیان دیا تو اُس نے اپنی خوشی کھو دی۔‏ (‏یرمیاہ ۲۰:‏۸‏)‏ لیکن جب اُس نے پیغام کی افادیت پر غور کِیا تو اس کی خوشی بحال ہو گئی۔‏ یرمیاہ نے یہوواہ سے کہا:‏ ”‏تیرا کلام ملا اور مَیں نے اُسے نوش کِیا اور تیری باتیں میرے دل کی خوشی اور خرمی تھیں کیونکہ اَے [‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ مَیں تیرے نام سے کہلاتا ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۵:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ یرمیاہ خدا کے کلام کی منادی کرنے کے شرف سے خوش تھا۔‏ ہم بھی خوش ہو سکتے ہیں۔‏

۱۰.‏ اگر ہمارا علاقہ فی‌الحال پھلدار نہیں ہے توبھی ہم خدمتگزاری میں اپنی خوشی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ اگر اکثریت بھی خوشخبری کیلئے جوابی‌عمل دکھانے سے انکار کر دیتی ہے تو پھربھی ہمارے پاس میدانی خدمتگزاری میں خوش ہونے کی ہر وجہ موجود ہے۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ کو پورا یقین تھا کہ بعض انسان اس کی خدمت کرنے کی تحریک پائینگے۔‏ یہوواہ کی مانند ہمیں کبھی بھی اس اُمید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے کہ بعض لوگ انجام‌کار عالمگیر حاکمیت کا مسئلہ ضرور سمجھیں گے اور بادشاہتی پیغام قبول کر لیں گے۔‏ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ لوگوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔‏ غیرمتوقع نقصان اور بحران کا سامنا کرتے وقت انتہائی آسودہ‌خاطر شخص بھی زندگی کے مقصد کی بابت سنجیدگی سے سوچنا شروع کر سکتا ہے۔‏ جب ایسا کوئی شخص ’‏اپنی روحانی ضرورت سے باخبر‘‏ ہو جاتا ہے تو کیا آپ اُس کی مدد کرنے کے لئے موجود ہونگے؟‏ (‏متی ۵:‏۳‏)‏ بیشک،‏ اگلی مرتبہ جب آپ اپنے علاقے میں منادی کرنے جائیں تو کوئی خوشخبری سننے کے لئے تیار ہو سکتا ہے!‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ ایک قصبے میں کیا واقع ہوا اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہمارے علاقے کی ساخت بھی بدل سکتی ہے۔‏ ایک مثال پر غور کریں۔‏ ایک چھوٹے سے قصبے میں،‏ نوجوان شادی‌شُدہ جوڑے رہتے تھے جنکے بچے بھی تھے اور وہ قریبی رشتےدار تھے۔‏ جب یہوواہ کے گواہ ان سے ملے تو انہیں ہر دروازے پر ایک ہی جواب ملا کہ ”‏ہم کوئی دلچسپی نہیں رکھتے!‏“‏ جب کوئی خاندان بھی بادشاہتی پیغام میں دلچسپی دکھاتا تو پڑوسی گواہوں کیساتھ مزید رابطہ رکھنے سے فوراً منع کرنے لگتے۔‏ صاف ظاہر ہے کہ یہاں منادی کرنا ایک چیلنج تھا۔‏ تاہم،‏ گواہوں نے ہمت نہ ہاری اور منادی کرنا جاری رکھا۔‏ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟‏

۱۲ کچھ عرصے بعد،‏ اس علاقے کے بہتیرے بچے بڑے ہو گئے اور اُنہوں نے شادیاں کرکے یہاں اپنا اپنا گھر بسا لیا۔‏ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ انکا طرزِزندگی انہیں حقیقی خوشی نہیں دے سکا،‏ ان میں سے بعض نوجوانوں نے سچائی کی تلاش شروع کر دی۔‏ جب انہوں نے یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے پیش‌کردہ خوشخبری کو قبول کِیا تو انہیں سچائی مل گئی۔‏ پس کافی سال بعد،‏ یہاں چھوٹی سی کلیسیا ترقی کرنے لگی۔‏ اُن بادشاہتی پبلشروں کی خوشی کا تصور کریں جنہوں نے ہمت نہیں ہاری تھی!‏ دُعا ہے کہ پُرجلال بادشاہتی پیغام سنانے میں مستقل‌مزاجی ہمارے لئے بھی خوشی لائے!‏

ہم‌ایمانوں کی حمایت

۱۳.‏ حوصلہ‌شکنی کی حالت میں ہم کس طرف رجوع کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ جب دباؤ بڑھ جائیں یا زندگی میں کوئی مصیبت آ پڑے تو آپ تسلی کیلئے کس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں؟‏ یہوواہ کے لاکھوں مخصوص‌شُدہ خادم سب سے پہلے یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں اور پھر اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے پاس جاتے ہیں۔‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اس نے بھی اپنے شاگردوں کی حمایت کی بڑی قدر کی تھی۔‏ اپنی موت سے پہلے کی رات اس نے انکی بابت کہا کہ ”‏تم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔‏“‏ (‏لوقا ۲۲:‏۲۸‏)‏ بیشک،‏ یہ شاگرد ناکامل تھے لیکن انکی وفاداری خدا کے بیٹے کیلئے تسلی کا باعث تھی۔‏ ہم بھی ساتھی پرستاروں سے تقویت حاصل کر سکتے ہیں۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ ایک جوڑے نے کس چیز کی مدد سے اپنے بیٹے کی موت کے صدمے کو برداشت کِیا اور آپ انکے تجربے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۴ ایک مسیحی جوڑے مشل اور ڈیان کو یہ سیکھنے کا موقع ملا کہ بہن‌بھائیوں کی حمایت کتنی قابلِ‌قدر ہو سکتی ہے۔‏ ان کے چاک‌وچوبند اور صحتمند ۲۰ سالہ بیٹے،‏ جوناتھن کے دماغ میں رسولی کی تشخیص کی گئی تھی۔‏ ڈاکٹروں نے اُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر جوناتھن کی حالت بگڑتی چلی گئی اور ایک دن دوپہر کے وقت وہ وفات پا گیا۔‏ مشل اور ڈیان غم سے نڈھال ہو گئے۔‏ انہوں نے محسوس کِیا کہ اس شام کا خدمتی اجلاس تو اب ختم ہونے والا ہوگا۔‏ لیکن انہیں تسلی کی اشد ضرورت تھی۔‏ لہٰذا،‏ جو بزرگ اُن کے ساتھ تھا انہوں نے اُس سے اپنے ساتھ کنگڈم ہال چلنے کی درخواست کی۔‏ وہ وہاں عین اُس وقت پہنچے جب کلیسیا کو جوناتھن کی موت سے مطلع کِیا جا رہا تھا۔‏ اجلاس کے بعد،‏ بہن‌بھائی اشکبار والدین کے گرد جمع ہو گئے اور اُنہیں گلے لگاتے ہوئے دلاسا دیا۔‏ ڈیان یاد کرتی ہے:‏ ”‏جب ہم ہال میں آئے تو ہم بہت غمگین تھے لیکن ہمیں بھائیوں سے بڑی تسلی حاصل ہوئی۔‏ انہوں نے ہماری بہت حوصلہ‌افزائی کی!‏ اگرچہ وہ ہمارا دُکھ تو دُور نہیں کر سکتے تھے توبھی انہوں نے اس مصیبت کو برداشت کرنے میں ہماری بہت مدد کی!‏“‏—‏رومیوں ۱:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۲۱-‏۲۶‏۔‏

۱۵ مشل اور ڈیان مشکل وقت میں اپنے بھائیوں کے اَور قریب آ گئے۔‏ اس سے وہ ایک دوسرے کے بھی اَور زیادہ قریب آ گئے۔‏ مشل کہتا ہے:‏ ”‏مَیں نے اپنی پیاری بیوی سے اَور زیادہ محبت کرنا سیکھ لیا تھا۔‏ حوصلہ‌شکنی کے لمحات میں،‏ ہم ایک دوسرے کیساتھ بائبل سچائی پر گفتگو کرنے کے علاوہ اس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں کیسے سنبھالتا ہے۔‏“‏ ڈیان مزید کہتی ہے:‏ ”‏بادشاہتی اُمید اب ہمارے لئے اَور زیادہ معنی‌خیز ہو گئی ہے۔‏“‏

۱۶.‏ اپنے بھائیوں کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرنے میں پہل کرنا کیوں اہم ہے؟‏

۱۶ جی‌ہاں،‏ ہمارے مسیحی بہن‌بھائی زندگی کے کٹھن لمحات میں ہماری ”‏تسلی کا باعث“‏ بنتے ہوئے خوشی برقرار رکھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‏ (‏کلسیوں ۴:‏۱۱‏)‏ وہ ہمارے دلوں کو تو نہیں پڑھ سکتے۔‏ لہٰذا،‏ جب ہمیں مدد کی ضرورت ہو تو انہیں بتانا اچھا ہوگا۔‏ پھر ہم اپنے بھائیوں سے حاصل ہونے والی تسلی کیلئے یہ سمجھتے ہوئے حقیقی قدردانی کا اظہار کر سکتے ہیں کہ یہ یہوواہ کی طرف سے آئی ہے۔‏—‏امثال ۱۲:‏۲۵؛‏ ۱۷:‏۱۷‏۔‏

اپنی کلیسیا میں دیکھیں

۱۷.‏ ایک تنہا ماں کن چیلنجوں کا سامنا کرتی ہے اور ہم ایسے لوگوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

۱۷ جتنا زیادہ آپ اپنے ہم‌ایمانوں کو قریب سے دیکھتے ہیں اتنا ہی زیادہ آپ ان کی قدر کرنا سیکھتے اور انکی رفاقت سے خوش ہوتے ہیں۔‏ اپنی کلیسیا میں دیکھیں۔‏ آپ کیا دیکھتے ہیں؟‏ کیا آپ کسی تنہا ماں کو اپنے بچوں کی سچائی کی راہ پر پرورش کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟‏ کیا آپ نے اُسکے قائم‌کردہ عمدہ نمونے پر غور کِیا ہے؟‏ اُسے درپیش مسائل کا ذرا تصور کرنے کی کوشش کریں۔‏ جینائن نامی ایک ماں بعض مسائل کا ذکر کرتی ہے:‏ تنہائی،‏ جائےملازمت پر مردوں کی طرف سے ناخواستہ پیشکشیں،‏ انتہائی کم آمدنی۔‏ لیکن اس کے مطابق سب سے بڑی مشکل اپنے بچوں کی جذباتی ضروریات پوری کرنا ہے کیونکہ ہر بچے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔‏ جینائن ایک اَور مسئلے کا ذکر کرتی ہے:‏ ”‏شوہر کے خلا کو پُر کرنے کیلئے اپنے بیٹے کو گھرانے کا سربراہ بنانے کے رُجحان سے گریز کرنا ایک حقیقی چیلنج ہو سکتا ہے۔‏ میری ایک بیٹی ہے اور یہ بات یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے کہ اسے اپنی محرمِ‌راز بنا کر اس پر حد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔‏“‏ ہزاروں خداترس تنہا والدین کی طرح جینائن بھی اپنے گھرانے کی خبرگیری کرنے کیلئے کُل‌وقتی ملازمت کرتی ہے۔‏ وہ اپنے بچوں کیساتھ بائبل مطالعہ بھی کرتی ہے،‏ خدمتگزاری کیلئے انکی تربیت کرتی ہے اور انہیں کلیسیائی اجلاسوں پر لیکر آتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ یہوواہ راستی برقرار رکھنے کے سلسلے میں اس خاندان کی کوششوں کو ہر روز دیکھکر کتنا خوش ہوتا ہوگا!‏ کیا ہم اپنے درمیان ایسے اشخاص کی موجودگی سے خوش نہیں ہیں؟‏ جی‌ہاں،‏ ہم واقعی خوش ہیں۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ واضح کریں کہ ہم کلیسیا کے افراد کیلئے قدردانی کیسے بڑھا سکتے ہیں۔‏

۱۸ اپنی کلیسیا پر پھر نگاہ دوڑائیں۔‏ آپ وفادار بیواؤں اور رنڈوے اشخاص

کو دیکھتے ہیں جو اجلاسوں سے ’‏کبھی غیرحاضر نہیں ہوتے۔‏‘‏ (‏لوقا ۲:‏۳۷‏)‏ کیا وہ بعض‌اوقات تنہا محسوس کرتے ہیں؟‏ یقیناً۔‏ انہیں اپنے ساتھیوں کی یاد بہت ستاتی ہے!‏ لیکن وہ یہوواہ کی خدمت میں مصروف رہتے ہوئے دوسروں کے احوال پر نگاہ رکھتے ہیں۔‏ انکا مستحکم،‏ مثبت رُجحان کلیسیا کی خوشی کو دوبالا کرتا ہے!‏ ۳۰ سال سے کُل‌وقتی خدمت انجام دینے والی ایک مسیحی خاتون نے کہا:‏ ”‏مجھے ایسے عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کو دیکھکر بڑی خوشی ہوتی ہے جو وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے بہت سی آزمائشوں پر غالب آئے ہیں!‏“‏ جی‌ہاں،‏ ہمارے درمیان عمررسیدہ مسیحی اشخاص نوجوانوں کیلئے بڑی حوصلہ‌افزائی کا باعث ہیں۔‏

۱۹ کلیسیا کیساتھ حال ہی میں رفاقت رکھنے والے نئے اشخاص کی بابت کیا ہے؟‏ کلیسیا میں جب وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو کیا ہم جوش سے نہیں بھر جاتے؟‏ بائبل مطالعہ شروع کرنے کے بعد سے جو ترقی انہوں نے کی ہے ذرا اُس پر غور کریں۔‏ یہوواہ یقیناً ان سے بہت خوش ہوگا۔‏ کیا ہم بھی خوش ہیں؟‏ کیا ہم انکی کوششوں کیلئے انہیں شاباش دیتے ہوئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں؟‏

۲۰.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ کلیسیا کا ہر فرد کلیسیا میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے؟‏

۲۰ کیا آپ شادی‌شُدہ،‏ کنوارے یا تنہا ماں یا باپ ہیں؟‏ کیا آپ (‏بِن‌ماں یا بِن‌باپ)‏ یتیم بچے ہیں،‏ بیوہ یا رنڈوے ہیں؟‏ کیا آپ کلیسیا کیساتھ کافی سالوں سے رفاقت رکھنے والے شخص ہیں یا آپ نے حال ہی میں رفاقت رکھنا شروع کی ہے؟‏ یقین رکھیں کہ آپ کا وفادارانہ نمونہ ہم سب کیلئے حوصلہ‌افزا ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ جب آپ بادشاہتی گیت گانے میں آواز ملاتے،‏ تبصرہ کرتے یا تھیوکریٹک منسٹری سکول میں طالبعلم کی تقریر پیش کرتے ہیں تو اس سے ہماری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔‏ سب سے بڑھکر،‏ اس سے یہوواہ کا دل شاد ہوتا ہے۔‏

۲۱.‏ ہمارے پاس کیا کرنے کی بہتیری وجوہات ہیں لیکن کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں؟‏

۲۱ جی‌ہاں،‏ ان مشکل اوقات میں بھی،‏ ہم اپنے مبارک خدا کی پرستش کرنے سے خوش ہو سکتے ہیں۔‏ ہمارے پاس پولس کی اس حوصلہ‌افزا نصیحت پر عمل کرنے کی کئی وجوہات ہیں:‏ ”‏خوش رہو۔‏ .‏ .‏ .‏ تو خدا محبت اور میل‌ملاپ کا چشمہ تمہارے ساتھ ہوگا۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱۱‏)‏ تاہم،‏ کسی قدرتی آفت،‏ اذیت یا انتہائی تنگ‌دستی کی صورت میں کیا ہوگا؟‏ کیا ایسی حالتوں میں اپنی خوشی برقرار رکھنا ممکن ہے؟‏ اگلے مضمون کا مطالعہ کرکے خود فیصلہ کیجئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز جِلد ۲،‏ صفحہ ۱۱۹ کا مطالعہ کریں۔‏

کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟‏

‏• خوشی کی تشریح کیسے کی گئی ہے؟‏

‏• مثبت رُجحان برقرار رکھنا خوش رہنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

‏• اپنے کلیسیائی علاقے کی بابت مثبت نظریہ اپنانے میں کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

‏• آپ کن طریقوں سے اپنی کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کی قدر کرتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

ہمارے علاقے کے لوگ بدل سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

آپکی کلیسیا کے افراد کو کونسے مسائل درپیش ہیں؟‏