یہوواہ کی راہ پر رواںدواں رہنا ہمیں طاقت اور خوشی بخشتا ہے
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ کی راہ پر رواںدواں رہنا ہمیں طاقت اور خوشی بخشتا ہے
از لوئجی ڈی۔ والنٹینو
یہوواہ تاکید کرتا ہے: ”راہ یہی ہے اِس پر چل۔“ (یسعیاہ ۳۰:۲۱) آج سے ۶۰ سال پہلے اپنے بپتسمے کے وقت سے اس مشورت پر عمل کرنا میرا نصبالعین رہا ہے۔ مَیں نے اپنے والدین کے نمونے سے تحریک پاکر یہ نصبالعین قائم کِیا تھا جو ۱۹۲۱ میں اٹلی سے نقلمکانی کرکے کلیولینڈ، اوہائیو، یو.ایس.اے. میں آباد ہو گئے تھے۔ یہاں اُنہوں نے اپنے تین بچوں—میرے بڑے بھائی مائیک، میری چھوٹی بہن لڈیہ اور میری—پرورش کی۔
میرے والدین نے مختلف مذاہب کا مشاہدہ کِیا مگر انجامکار مایوس ہو گئے۔ پھر ایک روز ۱۹۳۲ میں میرے والد اطالوی زبان میں کوئی ریڈیو پروگرام سن رہے تھے۔ یہ پروگرام یہوواہ کے گواہ نشر کر رہے تھے جو میرے والد کو بہت پسند آیا۔ اُنہوں نے مزید معلومات کے لئے خط لکھا جس کے جواب میں بروکلن نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹرز سے ایک اطالوی گواہ ہمیں ملنے کے لئے آیا۔ دنچڑھے تک پُرجوش گفتگو کے بعد میرے والدین قائل ہو گئے کہ انہیں سچا مذہب مل گیا ہے۔
میرے والدین نے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا اور وہ سفری نگہبانوں کو بھی اپنے گھر میں ٹھہراتے تھے۔ اگرچہ مَیں اس وقت چھوٹا تھا توبھی وہ لوگ مجھے منادی میں ساتھ لیجاتے اور مجھے یہوواہ کی کُلوقتی خدمت کرنے کی بابت سوچنے کی تحریک دیتے تھے۔ ایک ایسا ہی مہمان کیری ڈبلیو. باربر تھا
جو اب یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کا ایک رُکن ہے۔ جلد ہی، مَیں نے فروری ۱۹۴۱ میں ۱۴ سال کی عمر میں بپتسمہ لے لیا اور ۱۹۴۴ میں کلیولینڈ میں پائنیر خدمت شروع کر دی۔ مائیک اور لڈیہ نے بھی بائبل سچائی قبول کر لی۔ مائیک موت تک یہوواہ کا وفادار رہا اور لڈیہ نے اپنے شوہر ہیرلڈ وڈنر کیساتھ ۲۸ سال تک سفری خدمت انجام دی۔ آجکل، وہ کُلوقتی خدمت کر رہے ہیں۔قیدوبند نے رواںدواں رہنے کیلئے میرے عزم کو مضبوط کِیا
بائبل سے تربیتیافتہ اپنے ضمیر سے تحریک پاکر یسعیاہ ۲:۴ میں درج تلواروں کو توڑ کر پھالیں بنا ڈالنے کے حکم کی تعمیل کی وجہ سے مجھے ۱۹۴۵ کے اوائل میں، اوہائیو کے چلیکوتھ فیڈرل قیدخانے میں ڈال دیا گیا۔ ایک وقت ایسا تھا جب قیدخانے کے حکام کی اجازت سے گواہ قیدی یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ مطبوعات محدود تعداد میں اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ تاہم، قریبی کلیسیا کے گواہوں نے اس سلسلے میں مدد کی۔ وقتاًفوقتاً وہ قیدخانے کے قریب کھیتوں میں چند مطبوعات رکھ جاتے تھے۔ اگلی صبح جب قیدیوں کو کام کرنے کے لئے لیجایا جاتا تھا تو وہ ان مطبوعات کو تلاش کرکے کسی نہ کسی طرح قیدخانے میں لے جاتے تھے۔ جب مَیں قیدخانہ میں آیا تو اُس وقت ہمیں اپنے پاس زیادہ مطبوعات رکھنے کی اجازت تھی۔ لہٰذا، یہوواہ کی طرف سے مہیاکردہ روحانی غذا کے لئے میری قدردانی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا—ایک ایسا سبق جو مجھے اب بھی مینارِنگہبانی یا جاگو! کا ہر نیا شمارہ حاصل کرتے وقت یاد رہتا ہے۔
ہمیں قیدخانے میں کلیسیائی اجلاس منعقد کرنے کی اجازت تو تھی مگر جو گواہ نہیں تھے انہیں حاضر ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے باوجود، قیدخانے کے چند اہلکار اور مجرم خفیہ طور پر حاضر ہوتے تھے اور بعض نے تو سچائی بھی قبول کر لی۔ (اعمال ۱۶:۳۰-۳۴) بھائی اے. ایچ. میکملن کے دورے بڑے تسلیبخش ہوتے تھے۔ وہ ہمیں ہمیشہ یقیندہانی کراتے تھے کہ قید میں گزرنے والا وقت بےسود نہیں بلکہ یہ مستقبل کی تفویضات کیلئے ہماری تربیت کر رہا ہے۔ اس عمررسیدہ بھائی نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا اور یہوواہ کی راہ پر چلتے رہنے کے میرے عزم کو مضبوط کِیا۔
مجھے ایک ساتھی مِل جاتا ہے
دوسری جنگِعظیم ختم ہوتے ہی قید سے رِہائی کے بعد، مَیں نے دوبارہ کُلوقتی خدمت شروع کر دی۔ لیکن ۱۹۴۷ میں میرے والد وفات پا گئے۔ مَیں نے خاندان کی کفالت کیلئے ملازمت شروع کر دی اور طبّی مساج کی خصوصی تربیت حاصل کی، جس کی بدولت ۳۰ سال بعد بھی مشکل وقت کے دوران ہم دونوں میاںبیوی کو مدد ملی۔ شاید مَیں اپنی کہانی میں بہت آگے نکل گیا ہوں۔ پہلے مَیں آپکو اپنی بیوی کے بارے میں بتاتا ہوں۔
سن ۱۹۴۹ کی ایک سہپہر جب مَیں کنگڈم ہال میں تھا تو ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ مَیں نے ٹیلیفون اُٹھایا تو انتہائی شیریں آواز میں کسی نے کہا: ”میرا نام کرسٹین جینچر ہے۔ مَیں یہوواہ کی گواہ ہوں۔ مَیں ملازمت کی تلاش میں کلیولینڈ آئی ہوں اور مَیں کلیسیا سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں۔“ ہمارا کنگڈم ہال اُسکی رہائشگاہ سے کافی دُور تھا مگر مجھے اُسکی آواز اچھی لگی تھی لہٰذا، مَیں نے اُسے اپنے کنگڈم ہال کا راستہ سمجھایا اور اتوار کو آنے کیلئے اُس کی حوصلہافزائی کی کیونکہ اُس دن مَیں نے عوامی تقریر پیش کرنی تھی۔ اتوار کو مَیں سب سے پہلے کنگڈم ہال پہنچ گیا مگر کوئی نئی بہن نظر نہ آئی۔ پوری تقریر کے دوران، مَیں دروازے کی طرف دیکھتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ اگلے دن مَیں نے اُسے فون کِیا تو اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ابھی تک بسوں سے واقف نہیں ہے۔ پس، مَیں نے اُس سے ملکر مزید سمجھانے کا بندوبست بنایا۔
مجھے پتہ چلا کہ اُسکے والدین چیکوسلواکیہ سے نقلمکانی کر کے یہاں آئے ہیں اور وئیر آر دی ڈیڈ؟ کتابچہ پڑھنے کے بعد اُنہوں نے بائبل سٹوڈنٹس کیساتھ رفاقت رکھنا شروع کر دی تھی۔ اُسکے والدین نے ۱۹۳۵ میں بپتسمہ لیا تھا۔ سن ۱۹۳۸ میں کرسٹین کے والد کلےمر، پینسلوانیہ، یو. ایس. اے. میں یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا کے کمپنی سرونٹ (اب صدارتی نگہبان) بن گئے اور ۱۹۴۷ میں کرسٹین نے ۱۶ سال کی عمر میں بپتسمہ لیا۔ مَیں جلد ہی اس خوبصورت اور روحانی خاتون کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ جون ۲۴، ۱۹۵۰ میں ہماری شادی ہو گئی اور اس وقت سے کرسٹین میری وفادار ساتھی ہے اور خدا کے بادشاہتی کاموں کو پہلا درجہ دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ مَیں یہوواہ کا نہایت شکرگزار ہوں کہ یہ نیکوکار ساتھی میرے ساتھ زندگی گزارنے کیلئے رضامند ہو گئی۔—امثال ۳۱:۱۰۔
ایک غیرمتوقع واقعہ
نومبر ۱، ۱۹۵۱ میں ہم دونوں نے پائنیر خدمت کا آغاز کِیا۔ دو سال بعد ٹولیڈو، اوہائیو میں ایک اسمبلی پر بھائی ہوگو ریمر اور البرٹ شروڈر نے مشنری خدمت میں دلچسپی رکھنے والے پائنیروں کے ایک گروہ سے گفتگو کی۔ اُن میں ہم بھی شامل تھے۔ ہمیں کلیولینڈ میں پائنیر خدمت جاری رکھنے کی حوصلہافزائی کی گئی مگر اگلے ہی مہینے یعنی فروری ۱۹۵۴ میں ہمیں واچٹاور سکول آف گلئیڈ کی ۲۳ ویں کلاس میں حاضر ہونے کی غیرمتوقع دعوت دی گئی!
جب ہم ساؤتھ لانسنگ، نیو یارک میں گلئیڈ سکول کیلئے جا رہے تھے تو کرسٹین اسقدر گھبرائی ہوئی تھی کہ وہ مجھے بار بار کہہ رہی تھی کہ ”گاڑی آہستہ چلاؤ!“ مَیں نے کہا ”کرسٹین ہم پہلے ہی گاڑی بہت آہستہ جا رہے ہیں اور اگر مَیں اس سے بھی آہستہ چلاؤنگا تو ایسا لگے گا جیسے یہ بالکل کھڑی ہے۔“ تاہم، گلئیڈ سکول پہنچ کر ہمیں اطمینان محسوس ہوا۔ بھائی ناتھن نار نے طالبعلموں کے گروہ کو خوشآمدید کہا اور گلئیڈ سکول کا دورہ کروایا۔ اُس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ بجلی اور پانی کو کیسے بچایا جا سکتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ بادشاہتی مفادات کی دیکھبھال کے سلسلے میں کفایتشعاری ایک اہم خوبی ہے۔ یہ مشورت ہمارے ذہننشین ہو گئی۔ ہم آج بھی اُس مشورت پر عمل کر رہے ہیں۔
رائیو کی طرف پرواز
جلد ہی ہماری گریجویشن مکمل ہوگئی اور دسمبر ۱۰،۱۹۵۴ میں ہم نیو یارک شہر کے سرد علاقے سے ایک جہاز میں سوار ہوکر رائیو ڈی جنیرو، برازیل کے گرم علاقے میں اپنی نئی تفویض کے خوشکُن امکانات کی بابت سوچ رہے تھے۔ ہمارے مشنری ساتھی پیٹر اور بیلی کاربیلو بھی ہمارے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ جہاز کا سفر ۲۴ گھنٹے کا تھا جس کے دوران اس نے پورٹوریکو، وینزویلا اور شمالی برازیل میں بیلیم کے مقام پر رُکنا تھا۔ مگر انجن میں خرابی کی وجہ سے ہمیں رائیو ڈی جنیرو پہنچنے میں ۳۶ گھنٹے لگے۔ کیا ہی خوبصورت منظر تھا! پورا شہر ایسے جگمگا رہا تھا جیسے سیاہ مخملی قالین پر چمکدار ہیرے بکھرے ہوں اور گوآنابارہ بندرگاہ کے پانی پر چاند کی نقرئی روشنی بکھری ہوئی تھی۔
بیتایل خاندان کے کئی ارکان ائیرپورٹ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ پُرتپاک خیرمقدم کے بعد وہ ہمیں برانچ آفس لے گئے اور صبح تقریباً تین بجے ہم سونے کے لئے اپنے بستر پر گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد، گھنٹی کی آواز نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ مشنریوں کے طور پر ہمارا پہلا دن شروع ہو چکا ہے!
ایک ابتدائی سبق
ہم نے جلد ہی ایک اہم سبق سیکھا۔ ہم نے ایک گواہ خاندان کے گھر شام گزاری۔ جب ہم برانچ آفس واپس آنے لگے تو میزبان بھائی نے کہا کہ ”بارش ہو رہی ہے اس لئے آپ نہیں جا سکتے،“ لہٰذا اُس نے رات وہیں رُکنے پر اصرار کِیا۔ مَیں نے اُسکی بات مذاق میں ٹالتے ہوئے کہا، ”جہاں سے ہم آئے ہیں وہاں بھی بارش ہوتی ہے۔“ یہ کہہ کر ہم وہاں سے چلے آئے۔
رائیو کے اِردگِرد پہاڑوں کی وجہ سے بارش کا پانی جمع ہو کر شہر میں آ جاتا ہے اور اکثراوقات سیلاب کا باعث بھی بنتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد پانی ہمارے گھٹنوں تک پہنچ گیا۔ برانچ کے قریب پہنچنے تک پانی ہمارے سینے تک پہنچ چکا تھا اور گلیوں میں پانی تیز بہتے ہوئے دریا کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ بیتایل پہنچنے تک ہم بالکل بھیگ چکے تھے۔ اگلے ہی دن کرسٹین کو ٹائیفائڈ بخار ہو گیا جسکی وجہ سے وہ کافی عرصے تک کمزوری محسوس کرتی رہی۔ سچ ہے کہ نئے مشنریوں کے طور پر ہمیں تجربہکار مقامی گواہوں کی مشورت پر دھیان دینا چاہئے تھا۔
مشنری اور سفری کام میں ہمارا پہلا قدم
اس ناخوشگوار آغاز کے بعد ہم نے خوشی سے اپنی میدانی خدمتگزاری شروع کر دی۔ ہم ہر ملنے والے کے سامنے پُرتگالی زبان میں ایک پیشکش پڑھ دیتے تھے اور ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اچھی ترقی کر رہے ہیں۔ میری طرف اشارہ کر کے ایک صاحبِخانہ نے کرسٹین سے کہا، ”مجھے آپکی بات تو سمجھ میں آ رہی ہے مگر اسکی سمجھ نہیں آ رہی۔“ ایک دوسرے صاحبِخانہ نے مجھ سے مینارِنگہبانی کے ۱۰۰ سے زیادہ چندے حاصل کر کے بہت خوش تھے۔ درحقیقت، برازیل میں ہمارے پہلے سال کے دوران ہمارے کئی بائبل طالبعلموں نے بپتسمہ لیا جس سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ہماری یہ مشنری تفویض پھلدار ثابت ہوگی۔
کہا کہ ”مَیں آپکی بات تو سمجھ رہا ہوں مگر اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔“ اس تمام صورتحال کے باوجود، ہم پہلے چند ہفتوں کے دورانسن ۱۹۵۰ کے نصف تک، برازیل کی بہتیری کلیسیاؤں میں، لائق بھائیوں کی کمی کی وجہ سے سرکٹ اوورسیئر کا دورہ باقاعدگی سے نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ مَیں پُرتگالی زبان سیکھ رہا تھا لیکن مَیں نے ابھی تک عوامی تقریر نہیں دی تھی توبھی ۱۹۵۶ میں مجھے ساؤ پولو کی ریاست میں سرکٹ کے کام کی تفویض سونپی گئی۔
جس پہلی کلیسیا کا دورہ ہم نے کِیا وہاں دو سال سے سرکٹ اوورسیئر کا دورہ نہیں ہوا تھا اسلئے ہر شخص عوامی تقریر سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے تھا۔ مَیں نے تقریر تیار کرنے کیلئے پُرتگالی زبان کے مینارِنگہبانی کے مضامین میں سے پیراگراف کاٹ کر اُنہیں باترتیب کاغذ پر چسپاں کر دیا۔ اُس اتوار کنگڈم ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ سٹیج پر بھی بیٹھے ہوئے تھے اور خاص موقع کے انتظار میں تھے۔ تقریر، یوں کہہ لیں کہ پڑھائی شروع ہو گئی۔ مَیں کبھیکبھار نظر اُٹھا کر دیکھ لیتا اور حیران تھا کہ کوئی بھی حتیٰکہ بچے بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے تھے۔ سب کی نظریں مجھ پر جمی تھیں۔ ’مَیں نے خود سے کہا والنٹینو تمہاری پُرتگالی کتنی بہتر ہوگئی ہے! لوگ کتنے دھیان سے سن رہے ہیں۔‘ کئی سال بعد جب مَیں دوبارہ اس کلیسیا میں گیا تو ایک بھائی جو پہلے دورے پر بھی وہاں حاضر تھا کہنے لگا: ”کیا آپ کو وہ عوامی تقریر یاد ہے جو آپ نے دی تھی؟ ہم اس کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھ پائے تھے۔“ مَیں نے اعتراف کِیا کہ خود مجھے بھی اس تقریر کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
سرکٹ کے کام کے اس پہلے سال میں، مَیں اکثر زکریاہ ۴:۶ پڑھا کرتا تھا۔ جسکے الفاظ ’نہ توانائی سے بلکہ میری روح سے‘ مجھے یہ یاد دلاتے تھے کہ صرف یہوواہ کی روح کی بدولت ہی بادشاہتی کام میں ترقی ہوئی تھی۔ ہماری کمزوریوں کے باوجود یہ کام ترقی پا رہا تھا۔
راہ میں حائل مشکلات اور برکات
سرکٹ کے کام کا مطلب بریفکیس، سوٹکیس، لٹریچر کے ڈبوں اور ٹائپرائٹر کو اُٹھائے اُٹھائے پورے ملک کا سفر کرنا تھا۔ کرسٹین بڑی دانشمندی سے اپنا سارا سامان گن لیا کرتی تھی تاکہ عجلت میں ایک سے دوسری بس تبدیل کرتے وقت کوئی چیز بھول نہ جائے۔ بس میں کچی سڑکوں پر ۱۵ گھنٹے تک ایک سے دوسری جگہ سفر کرنا معمول کی بات تھی۔ بعضاوقات، جب دونوں طرف سے آنے والی بسیں ایک ہی شکستہ پُل سے بیکوقت گزرتیں تو دل دہل جاتا تھا کیونکہ وہ اتنے قریب سے گزرتیں کہ ان کے درمیان ذرا سا فاصلہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے ریلگاڑی، بحری جہاز اور گھوڑے پر بھی سفر کِیا۔
سن ۱۹۶۱ میں ہم نے ڈسٹرکٹ کے کام کا آغاز کِیا جس میں ہمیں ایک کلیسیا سے دوسری کلیسیا میں جانے کی بجائے ایک سرکٹ سے دوسرے سرکٹ میں جانا پڑتا تھا۔ ہم ہفتے میں اکثر شام کے وقت مختلف مقامات پر یہوواہ کی تنظیم کی تیارکردہ فلمیں دکھایا کرتے تھے۔ تاہم، ہمیں فلمی نمائش کو روکنے کے سلسلے میں مقامی پادریوں کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے اکثر بڑی تیزی سے کام کرنا پڑتا تھا۔ ایک شہر میں تو ایک پادری نے ہال کے مالک کو ہم سے معاہدہ ختم کرنے کے لئے ڈرایادھمکایا۔ چند دنوں کی تلاش کے بعد ہمیں ایک دوسری جگہ مل گئی مگر ہم نے کسی کو نہ بتایا اور سب کو پرانی جگہ پر آنے کی دعوت دیتے رہے۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے کرسٹین اُس ہال میں گئی اور خاموشی سے فلم دیکھنے کے خواہشمند اشخاص کو نئے مقام پر لے آئی۔ اس شام دی نیو ورلڈ سوسائٹی اِن ایکشن کے عنوان سے ۱۵۰ اشخاص نے فلم دیکھی۔
دُوراُفتادہ علاقوں میں سفری کام تھکا دینے والا تھا مگر وہاں رہنے والے فروتن بھائی ہمارے دَوروں کی بہت قدر کرتے تھے اور وہ اتنے مہماننواز تھے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں میں ہمیں ٹھہراتے تھے جس کے لئے ہم ہمیشہ یہوواہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ ان سے دوستانہ برتاؤ ہمارے لئے بھی خوشکُن برکات پر منتج ہوا۔ (امثال ۱۹:۱۷؛ حجی ۲:۷) ہم کتنے اُداس تھے جب برازیل میں تقریباً ۲۱ سال خدمت انجام دینے کے بعد ہماری مشنری خدمت اپنے اختتام کو پہنچی!
یہوواہ نے مشکل میں راہ دکھائی
سن ۱۹۷۵ میں کرسٹین کو جراحی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ہم نے پھر سے سفری کام شروع کِیا مگر کرسٹین کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ اُسکے
علاجمعالجے کیلئے ہمارا واپس ریاستہائےمتحدہ جانا زیادہ بہتر تھا۔ اپریل ۱۹۷۶ میں ہم لانگ بیچ، کیلیفورنیا پہنچے اور میری والدہ کیساتھ ہمارا قیام ہوا۔ دو عشروں تک ملک سے باہر رہنے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس مسئلے کو کیسے حل کریں۔ مَیں نے مساج کا کام دوبارہ شروع کر دیا اور اس آمدنی سے ہماری گزربسر ہونے لگی۔ کیلیفورنیا کی حکومت نے کرسٹین کو ایک ہسپتال میں داخل کر لیا مگر وہ روزبروز کمزور ہوتی جا رہی تھی کیونکہ ڈاکٹروں نے خون کے بغیر اُسکا علاج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں ہم نے راہنمائی کیلئے یہوواہ سے التجا کی۔ایک سہپہر جب میں میدانی خدمت میں تھا تو مَیں نے ایک ڈاکٹر کی دکان دیکھی اور اُسی لمحے اچانک مَیں نے اندر جانے کا فیصلہ کِیا۔ اگرچہ ڈاکٹر گھر جانے کیلئے تیار تھا لیکن اُس نے مجھے اندر بلایا اور ہم دو گھنٹے تک باتچیت کرتے رہے۔ پھر اُس نے کہا: ”مَیں آپ کے مشنری کام کی قدر کرتا ہوں اور مَیں آپکی بیوی کا علاج پیسوں اور انتقالِخون کے بغیر کرونگا۔“ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
اُس رحمدل ڈاکٹر نے جو اس کام کا ماہر تھا کرسٹین کو اُسی ہسپتال میں منتقل کروا لیا جہاں وہ کام کرتا تھا اور اُسکے زیرِعلاج اُس کی حالت بڑی تیزی سے بہتر ہونے لگی۔ ہم یہوواہ کے کتنے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ایسے آڑے وقت میں ہمیں سنبھالا تھا!
نئی تفویضات
جیسے ہی کرسٹین کی صحت کچھ اچھی ہوئی، ہم نے پھر سے پائنیر خدمت شروع کر دی اور لانگ بیچ میں بہتیرے لوگوں کو یہوواہ کے پرستار بننے میں مدد دینے سے بڑی خوشی حاصل کی۔ سن ۱۹۸۲ میں ہمیں ریاستہائےمتحدہ میں سرکٹ کی تفویض سونپی گئی۔ ہم ہر روز یہوواہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اُس نے ہمیں پھر سے ہماری پسندیدہ خدمت یعنی سفری کام کیلئے استعمال کرنا شروع کِیا ہے۔ ہم نے کیلیفورنیا اور پھر نیو انگلینڈ میں خدمت کی جہاں سرکٹ میں کچھ پُرتگالی زبان بولنے والی کلیسیائیں بھی شامل تھیں۔ بعدازاں اس میں برمودا بھی شامل ہوگیا۔
چار سال کی تازگیبخش خدمت کے بعد، ہمیں دوسری تفویض ملی۔ ہمیں اُسی جگہ خاص پائنیر خدمت کی دعوت دی گئی جہاں ہم چاہتے تھے۔ اگرچہ ہم سفری کام کو خیرباد کہنے سے افسردہ تھے مگر ہم اپنی نئی تفویض میں ترقی کرنے کیلئے پُرعزم تھے۔ مگر کہاں؟ اپنے سفری کام کے دوران مَیں نے دیکھا کہ نیو بیڈفورڈ میساچوسیٹس میں پُرتگالی کلیسیا کو مدد کی ضرورت تھی، لہٰذا ہم نیو بیڈفورڈ روانہ ہو گئے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو ہمارے استقبال کیلئے کلیسیا نے بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کِیا ہوا تھا۔ اس سے ہمیں احساس ہوا کہ یہاں واقعی ہماری ضرورت ہے! یہ دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ جب تک ہمیں اپنا اپارٹمنٹ نہ ملا ایک جوان جوڑے نے جنکے دو چھوٹے بچے تھے ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ یہوواہ نے ہماری سپیشل پائنیر خدمت کی تفویض کو ہماری توقعات سے بھی زیادہ برکات سے نوازا۔ سن ۱۹۸۶ سے لیکر ہم نے اس علاقے میں تقریباً ۴۰ مختلف اشخاص کی گواہ بننے میں مدد کی ہے۔ یہ ہمارا روحانی خاندان ہے۔ مزیدبرآں، مجھے پانچ مقامی بھائیوں کو گلّے کی گلّہبانی کرتے ہوئے دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ یہ پھلدار مشنری تفویض کے مترادف ہے۔
ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے ہم خوش ہیں کہ ہم نے اپنی جوانی سے لیکر بڑھاپے تک یہوواہ کی خدمت کی ہے اور سچائی کی راہ پر زندگی بسر کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اب ہم عمر اور جسمانی کمزوریوں سے متاثر ہوتے ہیں مگر یہوواہ کی راہ میں آگے بڑھنا اب بھی ہمیں خوشی اور طاقت بخشتا ہے۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
رائیو ڈی جنیرو میں ہماری آمد
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
نیو بیڈفورڈ، میساچوسیٹس میں ہمارا روحانی خاندان